الف نظامی
لائبریرین
پاکستانی جمہوریت اور سیاسی جماعتیں
رحیق احمد عباسی
یوسف رضا گیلانی 1952 میں پیدا ہوئے۔ اگرچہ ان کا اپنا تعلق ملتان کے ایک نامور مذہبی اور سیاسی خاندان سے ہے لیکن انہوں نے اپنا سیاسی سفر 1983 میں بلدیاتی سطح سے شروع کیا۔ وہ 1988 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں وفاقی وزیر رہے ۔ 1993 میں ایک بار پھر پیلپز پارٹی نے قومی انتخابات میں کامیابی حاصل کی محترمہ وزیر اعظم منتخب ہوئی اور یوسف رضا گیلانی کو قومی اسمبلی کا سپیکر منتخب کیا گیا ۔
انتخابات سے قبل اسی سال محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہاں آصفہ زرداری کی پیدائش ہوئی جن کے نام کے ساتھ محترمہ کی شہادت کے بعد اپنے بھائی کی طرح بھٹو کا اضافہ کردیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی کا سیاسی سفر جاری رہا مشرف دور میں جب محترمہ جلا وطنی کی ذندگی گزارنے پر مجبور تھیں گیلانی صاحب کو پیپلز پارٹی سے وفاداری نہ توڑنے کی سزا کے طور پر 2001 میں اڈیالہ جیل میں بند کردیا گیا اور وہ اگلے 5 سال قید ہی رہے۔
محترمہ کی شہادت کے بعد بھی ان کی پیپلز پارٹی سے وفاداری میں کمی نہیں آئی اور اسی وفاداری کی بنا پر ان کو زرداری صاحب نے وزیر اعظم بنوایا۔ گیلانی صاحب کی وفاداری کا یہ عالم رہا کہ انہوں نے افتخار چوھدری کے ہاتھوں نااہل ہونا اور وزارت عظمی سے معزول ہونا قبول کر لیا لیکن زرداری صاحب کے خلاف سوئس حکومت کو خط نہ لکھا۔ عمران خان حکومت کے خلاف پی ڈی ایم نے ملتان جلسے کا فیصلہ کیا تو اس کو کامیاب کرنے کے لئے گیلانی صاحب صف اول میں نظر آئے ان کے بیٹے کو دو دفعہ گرفتار بھی کیا گیا لیکن گیلانی صاحب نے سارا زور جلسے کی کامیابی پر لگادی ۔
محترم بلاول بھٹو اس وقت پیپلز پارٹی کے چیئر مین ہیں۔ پی ڈی ایم کے ملک گیر جلسوں کے ذریعے عوام کو کرونا وائرس پھیلاتے پھیلاتے وہ خود بھی کرونا کا شکار ہو چکے ہیں اس لئے 30 نومبر کے ملتان جلسے میں ان کی شرکت ممکن نہیں تھی لہذا جب جلسہ کا دن آیا اور اس کی ریلی نکالی گئی تو بلاول بھٹو کی نمائندگی کرنے کی اجازت یوسف رضا گیلانی یا کسی اور سینئر رہنما کو نہیں تھی بلکہ اس کے لئے خصوصی چارٹر طیارے کے ذریعے اس 27 سالہ آصفہ زرداری کو بھجوایا گیا جس کی عمر سے دوگنا یوسف رضا گیلانی کا سیاسی کیرئر ہے۔
وہ جس سال پیدا ہوئی اس سال یوسف رضا گیلانی پارلیمنٹ کے سب سے موقر عہدے یعنی سپیکر قومی اسمبلی پر فائز تھے۔ آصفہ زرداری کے پاس تو آج بھی پیلپز پارٹی کی تنظیم میں کسی یونٹ سطح کا بھی عہدہ ہے نہ سیاسی سطح کا کوئی کردار۔ لیکن اس کو کراچی سے صرف اس لئے بھجوایا گیا کہ وہ پیپلز پارٹی کی مالک خاندان کی فرد ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اسی سیاسی رائل فیملی میں رہے گی اور باقی تمام سیاستدان صرف ایک سیاسی کارکن ہیں ۔
سیاسی و مذہبی جماعتوں میں لفظ کارکن کا اصل معنی کمی کا ہے ۔ یہ لفظ مزارع کا مترادف ہے اور قرون اولی کی غلامی کی جديدشکل ہے۔ پیپلز پارٹی اس موروثی سیاست اور رائل سسٹم میں منفرد نہیں یہ ہی حال مسلم لیگ سمیت پاکستان کی ہر قابل ذکر سیاسی و مذہبی جماعت کا ہے ۔ لیکن اس مضمون میں پیپلز پارٹی کا ذکر اس لئے خصوصیت سے کیا گیا کہ یہ جماعت جمہوریت کے نام پر معرض وجود میں آئی اس کے بانی کو پاکستان میں عوامی سیاست کا بانی سمجھا جاتا ہے اور بجا طور پر سمجھا جاتا ہے۔
جمہوریت اور موروثیت دو بالکل متضاد نظریات ہیں ۔ موروثیت میں قیادت کی شرط رائل فیملی کا فرد ہونا ہوتا ہے جبکہ جمہوریت میں رائل فیملی کا تصور تک ممکن نہیں ۔ جمہوریت میں قیادت و سیادت ایک مسلسل عمل کے ذریعے صلاحیت قابلیت لیاقت اور عوام یا ممبران کی آذادانہ رائے کے تحت ایک طے شدہ نظام کے تحت نیچے سے اوپر آتی ہے۔ ان تمام جمہوری جماعتوں کو ہمیشہ فوج سے شکایت رہتی ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت کو چلنے نہیں لیکن کیا یہ عجب بات نہیں کہ پاک فوج کا نظام ان تمام جماعتوں سے زیادہ جمہوری ہے جہاں قیام پاکستان سے لیکر آج تک کوئی ایک آرمی چیف کسی سابقہ چیف کی اولاد سے نہیں بنا اور ہر بننے والے چیف نے فوج میں اپنا سفر سیکنڈ لیفٹننٹ سے ہی شروع کیا جبکہ ان سیاسی جماعتوں پر قابض موجودہ لیڈروں میں سے کسی ایک نے بھی اپنی جماعت میں کوئی تنظیمی سفر سرے سے کیا ہی نہیں اور براہ راست مرتبہ قیادت پر فائر ہوئے۔
جب تک پاکستان میں ان جماعتوں کا سیاسی کردار رہے گا جن پر موروثی لیڈر مسلط ہیں اور عوام ان جماعتوں کے موروثی لیڈروں کی بلٹ پروف گاڑیوں کے سامنے دھمال ڈالتے رہیں گے ملک میں حقیقی عوامی جمہوری نظام کا قیام ایک خواب ہی رہے گا۔
ان تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے پاس قیادت لیڈر کے بچوں میں ہی منتقل کرنے کی ایک بہت بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ بچوں کے علاوہ کوئی اور جماعت کو متحد نہیں رکھ سکتا ۔
اسی نظریہ کی بنیاد پر حال ہی میں تحریک لبیک کے سربراہ خادم رضوی صاحب کے انتقال کے بعد بہت سے سینئر علماء کی جماعت میں موجودگی کے باوجود امیر رضوی صاحب کے جواں سالہ بیٹے کو ہی بنایا گیا ۔ لیکن اگر آپ سیاسی و مذہبی جماعتوں کو غور سے دیکھیں تو آپ کو پتہ چلیں گا کہ قائدین پوری عمر جماعتوں کو ایک خاندانی کمپنی کے طور پر چلاتے ہیں وہ دانستا قیادت سازی کا کوئی نظام اپنی ذندگی میں پنپنے ہی نہیں دیتے جو ان کے بعد جماعت کی اجتماعیت کی حفاظت کر سکے تاکہ ان کے بعد جماعت ایک ورثے کے طور پر ان کے خاندان کو منتقل ہو۔
پاکستان کی جماعتی تاریخ میں اگر ایک جماعت اسلامی کی مثال موجود نہ ہوتی تو شاید اس بات کو اصول کو درجہ مل جاتا کہ بانی قائد کے بعد جماعت کی اجتماعیت اولاد کی قیادت سے ہی مشروط ہے۔ آپ کے مولانا مودودی سے ہزار اختلاف ہو سکتے ہیں میں بھی ان کی سیاسی و مذہبی فکر کے بہت سے پہلووں سے متفق نہیں لیکن وہ بلاشبہ پاکستان میں اجتماعی جدو جہد کے باب کے ایک ایسے مرد فريدہیں کہ جنہوں نے اپنی جماعت میں قیادت کی منتقلی کا ایسا مضبوط نظام دیا کہ ان کے بعد سراج الحق جماعت اسلامی کے چوتھے امیر ہیں اور جماعت کا نظام ہر طرح کی موروثیت سے پاک بھی ہے اور جماعت کی اجتماعیت بھی مکمل قائم و دائم ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے بلاشبہ پاکستان کی سیاست میں اس موروثیت کے تسلسل کو توڑا ہے ۔ عمران خان اپنی طویل سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں وزیر اعظم بنے وہ کسی سیاسی یا مذہبی شخصیت کے مجاور نہیں ۔ یہ ان کی بڑی کامیابی ہے کہ ان کی جماعت اقتدار تک پہنچی ۔ عمران خان کے اوپر یقینا کام کو بہت پریشر ہے اور ان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ:
ان کی جماعت کا مستقبل کیا ہوگا۔ ان کا گو کوئی بیٹا یا بیٹی پاکستان میں مقیم ہیں نہ پاکستان کی سیاست میں ان کی کوئی دلچسپی ممکن ہے کہ وہ ان کے بعد تحریک انصاف کو یک جا رکھ سکیں لیکن ان کو آئندہ انتخابات سے بہت قبل یہ سوچنا ہو گا کیا ان کی جماعت میں قیادت کی ترقی اور انتخاب کا کوئی ایسا نظام موجود ہے جو ان کے بعد ان کی جماعت کی اجتماعیت کی حفاظت کر سکے گا کیونکہ پاکستان میں سیاسی مافیا اور جمہوری اشرافیہ کے خلاف انہوں نے جو تحریک شروع کی ہے اس کی کامیابی ان کے نظریہ اور جماعت کے تسلسل سے مشروط ہے ۔
اگر ان کے بعد ان کی جماعت ان کے نظریہ پر اپنے سفر کو اجتماعیت کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکی تو ان کی جماعت کا پاکستان میں کوئی مستقبل نہیں ۔ ایسی صورت میں پاکستان کا سیاسی نظام ایک بار پھر موروثی اشرافیہ کے ہاتھوں میں آجائے گا اور اگر ایسا ہوا تو نہ صرف خان صاحب کی ساری محنت رائیگاں چلی جائے گی بلکہ تبدیلی کا نعرہ اتنا بدنام ہو جائے گا کہ کوئی اس کو اپنے منشور میں شامل کرنے کی بھی ہمت نہیں کرے گا۔ نتیجتا ہماری آئندہ نسلیں مریم نواز ، حمزہ شہباز، بلاول بھٹو ، اصفہ زرداری، مونس الہی اور ان جیسے دیگر شہزادوں کی گاڑیوں کے سامنے دھمالیں ڈالتی رہیں گی۔ لہذا خان صاحب حکومتی کارکردگی کے ساتھ ساتھ اپنی جماعت کے نظام پر بھی کچھ توجہ ضرور دیں۔
رحیق احمد عباسی
یوسف رضا گیلانی 1952 میں پیدا ہوئے۔ اگرچہ ان کا اپنا تعلق ملتان کے ایک نامور مذہبی اور سیاسی خاندان سے ہے لیکن انہوں نے اپنا سیاسی سفر 1983 میں بلدیاتی سطح سے شروع کیا۔ وہ 1988 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں وفاقی وزیر رہے ۔ 1993 میں ایک بار پھر پیلپز پارٹی نے قومی انتخابات میں کامیابی حاصل کی محترمہ وزیر اعظم منتخب ہوئی اور یوسف رضا گیلانی کو قومی اسمبلی کا سپیکر منتخب کیا گیا ۔
انتخابات سے قبل اسی سال محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہاں آصفہ زرداری کی پیدائش ہوئی جن کے نام کے ساتھ محترمہ کی شہادت کے بعد اپنے بھائی کی طرح بھٹو کا اضافہ کردیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی کا سیاسی سفر جاری رہا مشرف دور میں جب محترمہ جلا وطنی کی ذندگی گزارنے پر مجبور تھیں گیلانی صاحب کو پیپلز پارٹی سے وفاداری نہ توڑنے کی سزا کے طور پر 2001 میں اڈیالہ جیل میں بند کردیا گیا اور وہ اگلے 5 سال قید ہی رہے۔
محترمہ کی شہادت کے بعد بھی ان کی پیپلز پارٹی سے وفاداری میں کمی نہیں آئی اور اسی وفاداری کی بنا پر ان کو زرداری صاحب نے وزیر اعظم بنوایا۔ گیلانی صاحب کی وفاداری کا یہ عالم رہا کہ انہوں نے افتخار چوھدری کے ہاتھوں نااہل ہونا اور وزارت عظمی سے معزول ہونا قبول کر لیا لیکن زرداری صاحب کے خلاف سوئس حکومت کو خط نہ لکھا۔ عمران خان حکومت کے خلاف پی ڈی ایم نے ملتان جلسے کا فیصلہ کیا تو اس کو کامیاب کرنے کے لئے گیلانی صاحب صف اول میں نظر آئے ان کے بیٹے کو دو دفعہ گرفتار بھی کیا گیا لیکن گیلانی صاحب نے سارا زور جلسے کی کامیابی پر لگادی ۔
محترم بلاول بھٹو اس وقت پیپلز پارٹی کے چیئر مین ہیں۔ پی ڈی ایم کے ملک گیر جلسوں کے ذریعے عوام کو کرونا وائرس پھیلاتے پھیلاتے وہ خود بھی کرونا کا شکار ہو چکے ہیں اس لئے 30 نومبر کے ملتان جلسے میں ان کی شرکت ممکن نہیں تھی لہذا جب جلسہ کا دن آیا اور اس کی ریلی نکالی گئی تو بلاول بھٹو کی نمائندگی کرنے کی اجازت یوسف رضا گیلانی یا کسی اور سینئر رہنما کو نہیں تھی بلکہ اس کے لئے خصوصی چارٹر طیارے کے ذریعے اس 27 سالہ آصفہ زرداری کو بھجوایا گیا جس کی عمر سے دوگنا یوسف رضا گیلانی کا سیاسی کیرئر ہے۔
وہ جس سال پیدا ہوئی اس سال یوسف رضا گیلانی پارلیمنٹ کے سب سے موقر عہدے یعنی سپیکر قومی اسمبلی پر فائز تھے۔ آصفہ زرداری کے پاس تو آج بھی پیلپز پارٹی کی تنظیم میں کسی یونٹ سطح کا بھی عہدہ ہے نہ سیاسی سطح کا کوئی کردار۔ لیکن اس کو کراچی سے صرف اس لئے بھجوایا گیا کہ وہ پیپلز پارٹی کی مالک خاندان کی فرد ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اسی سیاسی رائل فیملی میں رہے گی اور باقی تمام سیاستدان صرف ایک سیاسی کارکن ہیں ۔
سیاسی و مذہبی جماعتوں میں لفظ کارکن کا اصل معنی کمی کا ہے ۔ یہ لفظ مزارع کا مترادف ہے اور قرون اولی کی غلامی کی جديدشکل ہے۔ پیپلز پارٹی اس موروثی سیاست اور رائل سسٹم میں منفرد نہیں یہ ہی حال مسلم لیگ سمیت پاکستان کی ہر قابل ذکر سیاسی و مذہبی جماعت کا ہے ۔ لیکن اس مضمون میں پیپلز پارٹی کا ذکر اس لئے خصوصیت سے کیا گیا کہ یہ جماعت جمہوریت کے نام پر معرض وجود میں آئی اس کے بانی کو پاکستان میں عوامی سیاست کا بانی سمجھا جاتا ہے اور بجا طور پر سمجھا جاتا ہے۔
جمہوریت اور موروثیت دو بالکل متضاد نظریات ہیں ۔ موروثیت میں قیادت کی شرط رائل فیملی کا فرد ہونا ہوتا ہے جبکہ جمہوریت میں رائل فیملی کا تصور تک ممکن نہیں ۔ جمہوریت میں قیادت و سیادت ایک مسلسل عمل کے ذریعے صلاحیت قابلیت لیاقت اور عوام یا ممبران کی آذادانہ رائے کے تحت ایک طے شدہ نظام کے تحت نیچے سے اوپر آتی ہے۔ ان تمام جمہوری جماعتوں کو ہمیشہ فوج سے شکایت رہتی ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت کو چلنے نہیں لیکن کیا یہ عجب بات نہیں کہ پاک فوج کا نظام ان تمام جماعتوں سے زیادہ جمہوری ہے جہاں قیام پاکستان سے لیکر آج تک کوئی ایک آرمی چیف کسی سابقہ چیف کی اولاد سے نہیں بنا اور ہر بننے والے چیف نے فوج میں اپنا سفر سیکنڈ لیفٹننٹ سے ہی شروع کیا جبکہ ان سیاسی جماعتوں پر قابض موجودہ لیڈروں میں سے کسی ایک نے بھی اپنی جماعت میں کوئی تنظیمی سفر سرے سے کیا ہی نہیں اور براہ راست مرتبہ قیادت پر فائر ہوئے۔
جب تک پاکستان میں ان جماعتوں کا سیاسی کردار رہے گا جن پر موروثی لیڈر مسلط ہیں اور عوام ان جماعتوں کے موروثی لیڈروں کی بلٹ پروف گاڑیوں کے سامنے دھمال ڈالتے رہیں گے ملک میں حقیقی عوامی جمہوری نظام کا قیام ایک خواب ہی رہے گا۔
ان تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے پاس قیادت لیڈر کے بچوں میں ہی منتقل کرنے کی ایک بہت بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ بچوں کے علاوہ کوئی اور جماعت کو متحد نہیں رکھ سکتا ۔
اسی نظریہ کی بنیاد پر حال ہی میں تحریک لبیک کے سربراہ خادم رضوی صاحب کے انتقال کے بعد بہت سے سینئر علماء کی جماعت میں موجودگی کے باوجود امیر رضوی صاحب کے جواں سالہ بیٹے کو ہی بنایا گیا ۔ لیکن اگر آپ سیاسی و مذہبی جماعتوں کو غور سے دیکھیں تو آپ کو پتہ چلیں گا کہ قائدین پوری عمر جماعتوں کو ایک خاندانی کمپنی کے طور پر چلاتے ہیں وہ دانستا قیادت سازی کا کوئی نظام اپنی ذندگی میں پنپنے ہی نہیں دیتے جو ان کے بعد جماعت کی اجتماعیت کی حفاظت کر سکے تاکہ ان کے بعد جماعت ایک ورثے کے طور پر ان کے خاندان کو منتقل ہو۔
پاکستان کی جماعتی تاریخ میں اگر ایک جماعت اسلامی کی مثال موجود نہ ہوتی تو شاید اس بات کو اصول کو درجہ مل جاتا کہ بانی قائد کے بعد جماعت کی اجتماعیت اولاد کی قیادت سے ہی مشروط ہے۔ آپ کے مولانا مودودی سے ہزار اختلاف ہو سکتے ہیں میں بھی ان کی سیاسی و مذہبی فکر کے بہت سے پہلووں سے متفق نہیں لیکن وہ بلاشبہ پاکستان میں اجتماعی جدو جہد کے باب کے ایک ایسے مرد فريدہیں کہ جنہوں نے اپنی جماعت میں قیادت کی منتقلی کا ایسا مضبوط نظام دیا کہ ان کے بعد سراج الحق جماعت اسلامی کے چوتھے امیر ہیں اور جماعت کا نظام ہر طرح کی موروثیت سے پاک بھی ہے اور جماعت کی اجتماعیت بھی مکمل قائم و دائم ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے بلاشبہ پاکستان کی سیاست میں اس موروثیت کے تسلسل کو توڑا ہے ۔ عمران خان اپنی طویل سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں وزیر اعظم بنے وہ کسی سیاسی یا مذہبی شخصیت کے مجاور نہیں ۔ یہ ان کی بڑی کامیابی ہے کہ ان کی جماعت اقتدار تک پہنچی ۔ عمران خان کے اوپر یقینا کام کو بہت پریشر ہے اور ان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ:
ان کی جماعت کا مستقبل کیا ہوگا۔ ان کا گو کوئی بیٹا یا بیٹی پاکستان میں مقیم ہیں نہ پاکستان کی سیاست میں ان کی کوئی دلچسپی ممکن ہے کہ وہ ان کے بعد تحریک انصاف کو یک جا رکھ سکیں لیکن ان کو آئندہ انتخابات سے بہت قبل یہ سوچنا ہو گا کیا ان کی جماعت میں قیادت کی ترقی اور انتخاب کا کوئی ایسا نظام موجود ہے جو ان کے بعد ان کی جماعت کی اجتماعیت کی حفاظت کر سکے گا کیونکہ پاکستان میں سیاسی مافیا اور جمہوری اشرافیہ کے خلاف انہوں نے جو تحریک شروع کی ہے اس کی کامیابی ان کے نظریہ اور جماعت کے تسلسل سے مشروط ہے ۔
اگر ان کے بعد ان کی جماعت ان کے نظریہ پر اپنے سفر کو اجتماعیت کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکی تو ان کی جماعت کا پاکستان میں کوئی مستقبل نہیں ۔ ایسی صورت میں پاکستان کا سیاسی نظام ایک بار پھر موروثی اشرافیہ کے ہاتھوں میں آجائے گا اور اگر ایسا ہوا تو نہ صرف خان صاحب کی ساری محنت رائیگاں چلی جائے گی بلکہ تبدیلی کا نعرہ اتنا بدنام ہو جائے گا کہ کوئی اس کو اپنے منشور میں شامل کرنے کی بھی ہمت نہیں کرے گا۔ نتیجتا ہماری آئندہ نسلیں مریم نواز ، حمزہ شہباز، بلاول بھٹو ، اصفہ زرداری، مونس الہی اور ان جیسے دیگر شہزادوں کی گاڑیوں کے سامنے دھمالیں ڈالتی رہیں گی۔ لہذا خان صاحب حکومتی کارکردگی کے ساتھ ساتھ اپنی جماعت کے نظام پر بھی کچھ توجہ ضرور دیں۔