پاکستانی خفیہ ایجنسی کو بلیک واٹر ایجنٹوں کو گرفتار کرنیکی ہدایت،رپورٹ

کراچی… محمدر فیق مانگٹ…ایرانی نشریاتی ادارے ”پریس ٹی وی “ نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت پاکستان نے ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر امریکی سیکورٹی فرم بلیک واٹر کے ارکان کی نشاندہی کرکے انہیں گرفتار کرے۔رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان کی طرف سے امریکی سیکورٹی فرم جسے اب ژی Xe سروس ایل ایل سی کے نام سے جانا جاتا ہے ان کے ارکان کی نشاندہی اور گرفتاری کے لئے ایک ہفتے کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ڈیڈ لائن ان خفیہ رپورٹس کے بعد جاری کی گئی جن میں کہا گیا کہ پاکستانی سر زمین پر امریکی بلیک واٹر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی) کے مطابق بلیک واٹر کے ایجنٹ ملک میں بدستور کام کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق XE سروسز کے کارکن مبینہ طور پر 10 نومبر کو اسلام آباد کے مضافات میں حقانی نیٹ ورک کے سینئر رہنما نصرالدین حقانی کے قتل میں ملوث ہیں۔نصیر الدین، جلال الدین حقانی کے بیٹے تھے۔امریکی تحقیقاتی صحافی ویبسٹر گرفن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جاری حملوں کے پیچھے XE کا ہاتھ ہے جس کا مقصدپاکستان میں خانہ جنگی کو ہوا دینا ہے۔ ایران اور چین کے درمیان توانائی کوریڈور بننے سے پاکستان کو روکنا ہے ۔2009میں بلیک واٹر نے پاکستان میں وسیع پیمانے پر پرسرارسرگرمیاں اور دہشت گردی کی کارروائیاں کیں ، تاہم سابق پاکستانی حکومت امریکی سیکورٹی کنٹریکٹر کے ملک میں موجود ہونے کی تردید کرتی رہی۔بلیک واٹر دنیا بھر میں بحران زدہ علاقوں میں جاسوسی اور فوجی آپریشن کی کارروائیوں کو منظم کرنے کے مقصد کے لئے 1998 میں قائم کی گئی ۔ بلیک واٹر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے زبان زد عام ہے۔ انہوں نے پاکستان کے اندر اور باہر ہدف بنا کر قتل کیے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کراچی… محمدر فیق مانگٹ…ایرانی نشریاتی ادارے ”پریس ٹی وی “ نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت پاکستان نے ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر امریکی سیکورٹی فرم بلیک واٹر کے ارکان کی نشاندہی کرکے انہیں گرفتار کرے۔رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان کی طرف سے امریکی سیکورٹی فرم جسے اب ژی Xe سروس ایل ایل سی کے نام سے جانا جاتا ہے ان کے ارکان کی نشاندہی اور گرفتاری کے لئے ایک ہفتے کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ڈیڈ لائن ان خفیہ رپورٹس کے بعد جاری کی گئی جن میں کہا گیا کہ پاکستانی سر زمین پر امریکی بلیک واٹر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی) کے مطابق بلیک واٹر کے ایجنٹ ملک میں بدستور کام کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق XE سروسز کے کارکن مبینہ طور پر 10 نومبر کو اسلام آباد کے مضافات میں حقانی نیٹ ورک کے سینئر رہنما نصرالدین حقانی کے قتل میں ملوث ہیں۔نصیر الدین، جلال الدین حقانی کے بیٹے تھے۔امریکی تحقیقاتی صحافی ویبسٹر گرفن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جاری حملوں کے پیچھے XE کا ہاتھ ہے جس کا مقصدپاکستان میں خانہ جنگی کو ہوا دینا ہے۔ ایران اور چین کے درمیان توانائی کوریڈور بننے سے پاکستان کو روکنا ہے ۔2009میں بلیک واٹر نے پاکستان میں وسیع پیمانے پر پرسرارسرگرمیاں اور دہشت گردی کی کارروائیاں کیں ، تاہم سابق پاکستانی حکومت امریکی سیکورٹی کنٹریکٹر کے ملک میں موجود ہونے کی تردید کرتی رہی۔بلیک واٹر دنیا بھر میں بحران زدہ علاقوں میں جاسوسی اور فوجی آپریشن کی کارروائیوں کو منظم کرنے کے مقصد کے لئے 1998 میں قائم کی گئی ۔ بلیک واٹر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے زبان زد عام ہے۔ انہوں نے پاکستان کے اندر اور باہر ہدف بنا کر قتل کیے ہیں۔
اس کا ریفرنس بھی ساتھ شامل کر دیجئے تاکہ فالو اپ میں آسانی رہے :)
 

نایاب

لائبریرین
ذمہ داران حکومت اگر درست ہو جائیں ۔۔ تو ایسی ہدایات یوں جاری کرنے کی نوبت ہی نہ آئے ۔۔
سب دھندے کی بات ہے بابا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چور کو کہا بےفکر چوری کو ۔۔ میرا حصہ مجھے پہنچا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاضی کو کہا تو پکڑتا کیوں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

x boy

محفلین
ایک چائنز لطیفہ پیش خدمت ہے آپ بھی سنیے

چائنہ کے ایک بینک میں ڈاکو گھس آئے ۔ چلا کر کہنے لگے "سارے نیچے لیٹ جاو ، پیسے تو حکومت کے ہیں جان تمہاری اپنی ہے" اور سب نیچے لیٹ گئے
ایک خاتون کے لیٹنے کا انداز ذرا میعوب تھا ۔ ایک ڈاکو نے چلا کر کہا "تمیز سے لیٹو ڈکٹتی ہورہی ہے عصمت دری نہیں "
ڈکیتی کے بعد جب ڈاکو واپس لوٹے تو چھوٹئے والے ڈاکو نے جو کہ انتہائی پڑھا لکھا ہوا تھا بڑے ڈاکو سے جو کہ صرف چھ جماعتیں پاس تھا پوچھا" کتنا مال ہاتھ آٰیا"۔
بڑے ڈاکو نے کہا "تم بڑے ہی بیوقوف ہو اتنی زیادہ رقم ہے ہم کیسے گن سکتےہیں ،ٹی وی کی خبروں سے خود ہی پتہ چل جائے گا کہ کتنی رقم ہے "
ڈاکووں کے جانے کے بعد بینک مینجر ، بینک سپروائزر کو کہا کہ پولیس کو جلدی سے فون کرو !! سپروائزر بولا "انتظار کریں ،پہلے اپنے لیے 10 ملین ڈالر نکال لیں اور پھر جو پچھلا ہم نے 70 ملین ڈالر کا غبن مارا ہے اس کو بھی کل ڈکیتی شدہ رقم میں ڈال لیں"
یہ اچھی بات ہے اگر بینک میں ہروز ڈکیتی ہو
اگلے دن میڈیا پر خبر چلی کہ بینک میں 100 ملین ڈالر کی ڈکیتی ہوئی ہے ۔ اصل ڈاکووں نے رقم گننی شروع کی ،بار بار گنی لیکن وہ صرف 20 ملین ڈالر نکلی ۔ ڈاکو اپنا سر پیٹنے لگے کہ ہم نے اپنی جان موت کے خطرے میں ڈالی اور ہمارے ہاتھ صرف بیس ملین اور بینک مینجر صرف انگلی کے اشارے سے 80 ملین لے گیا !! ڈاکو ہونے سے تو بہتر تھا کہ ہم پڑھ لکھ جاتے !!

چائنہ کے لیے تو ایک لطیفہ ہے پاکستان کے لیے ایک حقیقت ۔ یہ ایک بڑا سا بینک ہے جس میں ہر پانچ سال بعد کچھ ڈاکو گھس آتے ہیں ، لوگوں کو نیچے لیٹنے پر مجبور کردیتے ہیں ، اور لوٹنے کے ساتھ ساتھ جھوٹی اخلاقیات و شرم و حیا کا درس دیتے رہتے ہیں ! جب تک یہ لوٹتے رہتے ہیں دوسرے تماشہ دیکھتے رہتے ہیں ، ان کا دور ختم ہوتا ہے پڑھے لکھے ڈاکووں کا بیورو کریسی ،ٹیکنو کریسی ، حقہ کریسی ، خوشامد کریسی اور نہ جانے کون کون سی کریسی کے ناموں تلے کا دور شروع ہوتا ہے اگلے پانچ سال والوں کو یہ حساب دینا ہوتا ہے کہ خزانے میں لوٹنے کے لیے کتنا مال پڑا ہے یہ مناسب موقع جان کر اپنی لوٹ مار بھی اسی میں شامل کردیتے ہیں !! جانے والے پریشان ہوتے ہیں کہ ہم تو اتنا نہیں لوٹا یہ مال کہاں چلا گیا !! اور آنے والا اس انتظار میں لگ جاتا ہے کہ چلو تھوڑا سا وقت گزر جانے دو پھر ہم لوٹتے ہیں ، نئے آنے والے اپنے پڑھے لکھے بٹھاتے ہیں تاکہ ان کی لوٹ مار کا علم نہ ہوسکے ۔ ان کی لوٹ مار کا تو علم ہوجاتا ہے لیکن یہ پڑھے لکھے ان کے پردے میں جو لوٹ مار کرتے ہیں اس کا علم ان ڈاکووں کو بھی نہیں ہوتا !!!
ڈاکو ہونے سے بہتر ہے بندہ بیوروکریٹ ہوجائے !!
ویسے یہ لطیفہ "پاکستانی میڈیا" اپنے علم پھیلانے کی مہم میں بھی شامل کرسکتا ہے ۔ علم کے فائدے کے عنوان سے ۔ کیونکہ جو علم وہ پھیلانا چاہتا ہے اس سے بیورو کریٹ ، ٹیکنو کریٹ ، پیپسی کریٹ ،حقہ کریٹ اور ڈاکو ہی جنم لیتے ہیں !!
 
ایک چائنز لطیفہ پیش خدمت ہے آپ بھی سنیے

چائنہ کے ایک بینک میں ڈاکو گھس آئے ۔ چلا کر کہنے لگے "سارے نیچے لیٹ جاو ، پیسے تو حکومت کے ہیں جان تمہاری اپنی ہے" اور سب نیچے لیٹ گئے
ایک خاتون کے لیٹنے کا انداز ذرا میعوب تھا ۔ ایک ڈاکو نے چلا کر کہا "تمیز سے لیٹو ڈکٹتی ہورہی ہے عصمت دری نہیں "
ڈکیتی کے بعد جب ڈاکو واپس لوٹے تو چھوٹئے والے ڈاکو نے جو کہ انتہائی پڑھا لکھا ہوا تھا بڑے ڈاکو سے جو کہ صرف چھ جماعتیں پاس تھا پوچھا" کتنا مال ہاتھ آٰیا"۔
بڑے ڈاکو نے کہا "تم بڑے ہی بیوقوف ہو اتنی زیادہ رقم ہے ہم کیسے گن سکتےہیں ،ٹی وی کی خبروں سے خود ہی پتہ چل جائے گا کہ کتنی رقم ہے "
ڈاکووں کے جانے کے بعد بینک مینجر ، بینک سپروائزر کو کہا کہ پولیس کو جلدی سے فون کرو !! سپروائزر بولا "انتظار کریں ،پہلے اپنے لیے 10 ملین ڈالر نکال لیں اور پھر جو پچھلا ہم نے 70 ملین ڈالر کا غبن مارا ہے اس کو بھی کل ڈکیتی شدہ رقم میں ڈال لیں"
یہ اچھی بات ہے اگر بینک میں ہروز ڈکیتی ہو
اگلے دن میڈیا پر خبر چلی کہ بینک میں 100 ملین ڈالر کی ڈکیتی ہوئی ہے ۔ اصل ڈاکووں نے رقم گننی شروع کی ،بار بار گنی لیکن وہ صرف 20 ملین ڈالر نکلی ۔ ڈاکو اپنا سر پیٹنے لگے کہ ہم نے اپنی جان موت کے خطرے میں ڈالی اور ہمارے ہاتھ صرف بیس ملین اور بینک مینجر صرف انگلی کے اشارے سے 80 ملین لے گیا !! ڈاکو ہونے سے تو بہتر تھا کہ ہم پڑھ لکھ جاتے !!

چائنہ کے لیے تو ایک لطیفہ ہے پاکستان کے لیے ایک حقیقت ۔ یہ ایک بڑا سا بینک ہے جس میں ہر پانچ سال بعد کچھ ڈاکو گھس آتے ہیں ، لوگوں کو نیچے لیٹنے پر مجبور کردیتے ہیں ، اور لوٹنے کے ساتھ ساتھ جھوٹی اخلاقیات و شرم و حیا کا درس دیتے رہتے ہیں ! جب تک یہ لوٹتے رہتے ہیں دوسرے تماشہ دیکھتے رہتے ہیں ، ان کا دور ختم ہوتا ہے پڑھے لکھے ڈاکووں کا بیورو کریسی ،ٹیکنو کریسی ، حقہ کریسی ، خوشامد کریسی اور نہ جانے کون کون سی کریسی کے ناموں تلے کا دور شروع ہوتا ہے اگلے پانچ سال والوں کو یہ حساب دینا ہوتا ہے کہ خزانے میں لوٹنے کے لیے کتنا مال پڑا ہے یہ مناسب موقع جان کر اپنی لوٹ مار بھی اسی میں شامل کردیتے ہیں !! جانے والے پریشان ہوتے ہیں کہ ہم تو اتنا نہیں لوٹا یہ مال کہاں چلا گیا !! اور آنے والا اس انتظار میں لگ جاتا ہے کہ چلو تھوڑا سا وقت گزر جانے دو پھر ہم لوٹتے ہیں ، نئے آنے والے اپنے پڑھے لکھے بٹھاتے ہیں تاکہ ان کی لوٹ مار کا علم نہ ہوسکے ۔ ان کی لوٹ مار کا تو علم ہوجاتا ہے لیکن یہ پڑھے لکھے ان کے پردے میں جو لوٹ مار کرتے ہیں اس کا علم ان ڈاکووں کو بھی نہیں ہوتا !!!
ڈاکو ہونے سے بہتر ہے بندہ بیوروکریٹ ہوجائے !!
ویسے یہ لطیفہ "پاکستانی میڈیا" اپنے علم پھیلانے کی مہم میں بھی شامل کرسکتا ہے ۔ علم کے فائدے کے عنوان سے ۔ کیونکہ جو علم وہ پھیلانا چاہتا ہے اس سے بیورو کریٹ ، ٹیکنو کریٹ ، پیپسی کریٹ ،حقہ کریٹ اور ڈاکو ہی جنم لیتے ہیں !!
سب دھندے کی بات ہے۔۔۔۔۔۔بس
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں يہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ بليک واٹر ايک نجی سيکورٹی ايجنسی ہے۔ کوئ بھی کارپوريٹ يا نجی ادارہ اس ايجنسی کی خدمات حاصل کر سکتا ہے۔ اس تناظر ميں يہ ذمہ داری امريکی حکومت کی نہيں ہے کہ وہ اس ايجنسی کے ملازمين کی پاکستان ميں موجودگی کی وضاحت يا توجيہہ پيش کرے۔

پاکستان ميں رہنے اور کام کرنے والے ہر غير ملکی کو ويزے کے اجراء کی ذمہ دار حکومت پاکستان اور متعلقہ پاکستانی محکمے اور ايجينسياں ہیں۔

جہاں تک امريکی حکومت کا تعلق ہے تو میں يہ بات پورے وثوق اور يقين کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان ميں امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کا يو ايس ٹريننگ سنٹر (جو کہ بليک واٹر کے نام سے جانی جاتی تھی) سے کوئ معاہدہ نہيں ہے۔

بليک واٹر/ايکس ای/ يو ايس ٹريننگ سنٹر کی جانب سے بے شمار کرائے کے مکانات يا اپنے مشنز کی تکميل کے لیے ديگر سہوليات کے استعمال کے حوالے سے يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے پاس کوئ معلومات نہيں ہيں۔

يہ درست ہے کہ اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں توسيع کے سبب کچھ ملازمين کو وقتی طور پر کرائے کے مکانات ميں منتقل کيا گيا تھا۔ اسلام آباد ميں امريکی سفير نے اس بات کی وضاحت باقاعدہ ايک پريس بريفنگ ميں کی تھی۔ کچھ ٹی وی اينکرز کی جانب سے بے بنياد کہانيوں اور تشہير کے برعکس يہ کوئ خفيہ سازش نہيں بلکہ سرکاری ريکارڈ کا حصہ ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

قیصرانی

لائبریرین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں يہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ بليک واٹر ايک نجی سيکورٹی ايجنسی ہے۔ کوئ بھی کارپوريٹ يا نجی ادارہ اس ايجنسی کی خدمات حاصل کر سکتا ہے۔ اس تناظر ميں يہ ذمہ داری امريکی حکومت کی نہيں ہے کہ وہ اس ايجنسی کے ملازمين کی پاکستان ميں موجودگی کی وضاحت يا توجيہہ پيش کرے۔

پاکستان ميں رہنے اور کام کرنے والے ہر غير ملکی کو ويزے کے اجراء کی ذمہ دار حکومت پاکستان اور متعلقہ پاکستانی محکمے اور ايجينسياں ہیں۔

جہاں تک امريکی حکومت کا تعلق ہے تو میں يہ بات پورے وثوق اور يقين کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان ميں امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کا يو ايس ٹريننگ سنٹر (جو کہ بليک واٹر کے نام سے جانی جاتی تھی) سے کوئ معاہدہ نہيں ہے۔

بليک واٹر/ايکس ای/ يو ايس ٹريننگ سنٹر کی جانب سے بے شمار کرائے کے مکانات يا اپنے مشنز کی تکميل کے لیے ديگر سہوليات کے استعمال کے حوالے سے يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے پاس کوئ معلومات نہيں ہيں۔

يہ درست ہے کہ اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں توسيع کے سبب کچھ ملازمين کو وقتی طور پر کرائے کے مکانات ميں منتقل کيا گيا تھا۔ اسلام آباد ميں امريکی سفير نے اس بات کی وضاحت باقاعدہ ايک پريس بريفنگ ميں کی تھی۔ کچھ ٹی وی اينکرز کی جانب سے بے بنياد کہانيوں اور تشہير کے برعکس يہ کوئ خفيہ سازش نہيں بلکہ سرکاری ريکارڈ کا حصہ ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
مجھے بھی حیرت ہوئی ہے جب ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثناء دیئے جانے کی بات ہو رہی تھی
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں يہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ بليک واٹر ايک نجی سيکورٹی ايجنسی ہے۔ کوئ بھی کارپوريٹ يا نجی ادارہ اس ايجنسی کی خدمات حاصل کر سکتا ہے۔ اس تناظر ميں يہ ذمہ داری امريکی حکومت کی نہيں ہے کہ وہ اس ايجنسی کے ملازمين کی پاکستان ميں موجودگی کی وضاحت يا توجيہہ پيش کرے۔

پاکستان ميں رہنے اور کام کرنے والے ہر غير ملکی کو ويزے کے اجراء کی ذمہ دار حکومت پاکستان اور متعلقہ پاکستانی محکمے اور ايجينسياں ہیں۔

جہاں تک امريکی حکومت کا تعلق ہے تو میں يہ بات پورے وثوق اور يقين کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان ميں امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کا يو ايس ٹريننگ سنٹر (جو کہ بليک واٹر کے نام سے جانی جاتی تھی) سے کوئ معاہدہ نہيں ہے۔

بليک واٹر/ايکس ای/ يو ايس ٹريننگ سنٹر کی جانب سے بے شمار کرائے کے مکانات يا اپنے مشنز کی تکميل کے لیے ديگر سہوليات کے استعمال کے حوالے سے يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے پاس کوئ معلومات نہيں ہيں۔

يہ درست ہے کہ اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں توسيع کے سبب کچھ ملازمين کو وقتی طور پر کرائے کے مکانات ميں منتقل کيا گيا تھا۔ اسلام آباد ميں امريکی سفير نے اس بات کی وضاحت باقاعدہ ايک پريس بريفنگ ميں کی تھی۔ کچھ ٹی وی اينکرز کی جانب سے بے بنياد کہانيوں اور تشہير کے برعکس يہ کوئ خفيہ سازش نہيں بلکہ سرکاری ريکارڈ کا حصہ ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
کیا آپ اس بات کی گارنٹی دے سکتے ہیں کہ جب پاکستان نے آپکی بلیک وآٹر کے بندے پکڑ لئے تو ساری امریکی انتظامیہ بشمول صدر اوباما کے یہ شور مچانا نہیں شروع کر دینگے کہ ان کو سفارتی استثنا حاصل ہے؟ جیسا کہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں ہوا تھا؟
 

نایاب

لائبریرین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں يہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ بليک واٹر ايک نجی سيکورٹی ايجنسی ہے۔ کوئ بھی کارپوريٹ يا نجی ادارہ اس ايجنسی کی خدمات حاصل کر سکتا ہے۔ اس تناظر ميں يہ ذمہ داری امريکی حکومت کی نہيں ہے کہ وہ اس ايجنسی کے ملازمين کی پاکستان ميں موجودگی کی وضاحت يا توجيہہ پيش کرے۔

پاکستان ميں رہنے اور کام کرنے والے ہر غير ملکی کو ويزے کے اجراء کی ذمہ دار حکومت پاکستان اور متعلقہ پاکستانی محکمے اور ايجينسياں ہیں۔

جہاں تک امريکی حکومت کا تعلق ہے تو میں يہ بات پورے وثوق اور يقين کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان ميں امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کا يو ايس ٹريننگ سنٹر (جو کہ بليک واٹر کے نام سے جانی جاتی تھی) سے کوئ معاہدہ نہيں ہے۔

بليک واٹر/ايکس ای/ يو ايس ٹريننگ سنٹر کی جانب سے بے شمار کرائے کے مکانات يا اپنے مشنز کی تکميل کے لیے ديگر سہوليات کے استعمال کے حوالے سے يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے پاس کوئ معلومات نہيں ہيں۔

يہ درست ہے کہ اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں توسيع کے سبب کچھ ملازمين کو وقتی طور پر کرائے کے مکانات ميں منتقل کيا گيا تھا۔ اسلام آباد ميں امريکی سفير نے اس بات کی وضاحت باقاعدہ ايک پريس بريفنگ ميں کی تھی۔ کچھ ٹی وی اينکرز کی جانب سے بے بنياد کہانيوں اور تشہير کے برعکس يہ کوئ خفيہ سازش نہيں بلکہ سرکاری ريکارڈ کا حصہ ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
یہ وضاحت کس لیئے بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہیں کچھ دال میں کالا دکھنے کا اندیشہ ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی حکومت نے شروع دن سے يہ موقف اختيار کيا ہے کہ ريمنڈ ڈيوس کو سال 1961 کے سفارتی تعلقات سے متعلق ويانا کنونشن کے تحت سفارتی استثنی حاصل تھی۔ جب ريمنڈ ڈيوس پاکستان آئے تھے تو امريکی حکومت نے تحريری طور پر حکومت پاکستان کو مطلع کيا تھا کہ ان کی تعنياتی اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں تکنيکی اور انتظامی سٹاف کی حيثيت سے سفارتی کيٹيگری ميں سفارت کار کی حيثيت سے کی گئ ہے۔ ويانا کنونشن کے آرٹيکل 37 کے تحت سفارت خانے کے تکنيکی اور انتظامی عملے کو مکمل طور پر قانونی کاروائ سے استثنی حاصل ہوتی ہے اور کنونشن کے تحت انھيں قانونی طور پر گرفتار يا قيد نہيں کيا جا سکتا۔


جس طريقے سے کچھ تجزيہ نگار اندھادھند انداز ميں ريمنڈ ڈيوس کا ذکر ايک خاص پيرائے ميں کرتے ہيں، اس سے تو يہ تاثر ملتا ہے کہ وہ کوئ ايسا گمنام شخص تھا جسے اچانک ہی دريافت کر ليا گيا ہے اور اس کی ملک میں موجودگی اور حدودواربعہ کے بارے میں کسی کو بھی کچھ پتا نہيں تھا۔

يقينی طور پر حقيقت يہ نہيں ہے۔ جو شخص اپنے نام کا کارڈ اور اپنے پاسپورٹ کے ساتھ سفر کر رہا ہو وہ کوئ ايسا مشکوک کردار نہيں ہو سکتا جو اپنے آپ کو پوشيدہ رکھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس کے علاوہ پاکستانی ميڈيا پر جن دستاويزات کو دکھايا گيا ہے اس سے يہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستانی اور امريکی افسران کے مابين مراسلے جاری تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی حکومت اور وزارت خارجہ پاکستانی ميں ان کی موجودگی سے پوری طرح آگاہ تھی۔ بلکہ حکومت پاکستان نے تو انھيں متعلقہ ويزہ بھی جاری کيا تھا۔

جيسا کہ ميں نے پہلے بھی واضح کيا کہ يہ ذمہ داری کلی طور پر پاکستانی حکومت کی ہے کہ وہ امريکی سميت پاکستان کے اندر رہنے اور کام کرنے والے ہر غير ملکی شہری کو ضروری تفتيشی مراحل سے گزارے۔ پاکستان ايک خودمختار ملک ہے جو اس بات کا مکمل اختيار رکھتا ہے کہ کسی بھی غير ملکی شخص کا ويزہ منظور يا مسترد کرے۔ اس کام کی تکميل کے ليے درجنوں کی تعداد ميں حکومتی ادارے اور اہلکار موجود ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

قیصرانی

لائبریرین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی حکومت نے شروع دن سے يہ موقف اختيار کيا ہے کہ ريمنڈ ڈيوس کو سال 1961 کے سفارتی تعلقات سے متعلق ويانا کنونشن کے تحت سفارتی استثنی حاصل تھی۔ جب ريمنڈ ڈيوس پاکستان آئے تھے تو امريکی حکومت نے تحريری طور پر حکومت پاکستان کو مطلع کيا تھا کہ ان کی تعنياتی اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں تکنيکی اور انتظامی سٹاف کی حيثيت سے سفارتی کيٹيگری ميں سفارت کار کی حيثيت سے کی گئ ہے۔ ويانا کنونشن کے آرٹيکل 37 کے تحت سفارت خانے کے تکنيکی اور انتظامی عملے کو مکمل طور پر قانونی کاروائ سے استثنی حاصل ہوتی ہے اور کنونشن کے تحت انھيں قانونی طور پر گرفتار يا قيد نہيں کيا جا سکتا۔


جس طريقے سے کچھ تجزيہ نگار اندھادھند انداز ميں ريمنڈ ڈيوس کا ذکر ايک خاص پيرائے ميں کرتے ہيں، اس سے تو يہ تاثر ملتا ہے کہ وہ کوئ ايسا گمنام شخص تھا جسے اچانک ہی دريافت کر ليا گيا ہے اور اس کی ملک میں موجودگی اور حدودواربعہ کے بارے میں کسی کو بھی کچھ پتا نہيں تھا۔

يقينی طور پر حقيقت يہ نہيں ہے۔ جو شخص اپنے نام کا کارڈ اور اپنے پاسپورٹ کے ساتھ سفر کر رہا ہو وہ کوئ ايسا مشکوک کردار نہيں ہو سکتا جو اپنے آپ کو پوشيدہ رکھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس کے علاوہ پاکستانی ميڈيا پر جن دستاويزات کو دکھايا گيا ہے اس سے يہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستانی اور امريکی افسران کے مابين مراسلے جاری تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی حکومت اور وزارت خارجہ پاکستانی ميں ان کی موجودگی سے پوری طرح آگاہ تھی۔ بلکہ حکومت پاکستان نے تو انھيں متعلقہ ويزہ بھی جاری کيا تھا۔

جيسا کہ ميں نے پہلے بھی واضح کيا کہ يہ ذمہ داری کلی طور پر پاکستانی حکومت کی ہے کہ وہ امريکی سميت پاکستان کے اندر رہنے اور کام کرنے والے ہر غير ملکی شہری کو ضروری تفتيشی مراحل سے گزارے۔ پاکستان ايک خودمختار ملک ہے جو اس بات کا مکمل اختيار رکھتا ہے کہ کسی بھی غير ملکی شخص کا ويزہ منظور يا مسترد کرے۔ اس کام کی تکميل کے ليے درجنوں کی تعداد ميں حکومتی ادارے اور اہلکار موجود ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
یعنی کوئی بھی حکومت کسی پرائیوٹ کنٹریکٹر کو اپنا سفارتی عملہ بنا کر دوسرے ملک بھیج سکتا ہے؟
 

x boy

محفلین
1528760_682026791848788_1229026021_n.jpg
 
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/02/110221_raymond_cia_us.shtml
’ریمنڈ سی آئی اے کا اہلکار ہے‘
110216110316_raymond_davis_226x170_afp.jpg

امریکی حکام نے تصدیق کی ہے کہ لاہور میں دو پاکستانیوں کے قتل میں گرفتار امریکی اہلکار ریمنڈ ڈیوس امریکہ کے خفیہ ادارے سی آئی اے کے لیے کام کر رہا تھا۔لاہور کی سینٹرل جیل میں قید امریکی شہری کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے دفاع میں دونوں پاکستانیوں کو ہلاک کیا۔ اوباما انتظامیہ نے اس سے پہلے کہا تھا کہ ڈیوس امریکی سفارتکار ہیں اور انہیں ویانا کنوینشن کے تحت پاکستان کے عدالتی نظام سے استثنی حاصل ہے۔واشنٹگن میں بی بی سی کے نامہ نگار اسٹیو کنگسٹن کے مطابق امریکی حکام اب کہتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس لاہور کی ایک خفیہ جگہ سے امریکی سی آئی اے کے لیے کام کر رہے تھے اور 27 جنوری کو جب قرطبہ چوک پر انہوں نے گولیاں مار کر دو پاکستانیوں کو ہلاک کیا، اس وقت وہ بنیادی طور پر علاقے کی نگرانی کے کام پر نکلے ہوئے تھے البتہ یہ ضرور تھا کہ انہوں نے اپنی حرکات و سکنات کو خفیہ رکھا ہوا تھا۔ ریمنڈ ڈیوس نے پاکستانی تفتیش کاروں کو بتایا ہے کہ انہوں نے گولی اس لیے چلائی کہ موٹر سائیکل پر سوار دو مسلح افراد انہیں لوٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ریمنڈ ڈیوس امریکی فوج کی خصوصی فورسز کے سابقہ اہلکار ہیں اور ان کی رہائی کے لیے امریکہ نے پاکستان پر سخت دباؤ ڈال رکھا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تعینات امریکہ کے سفارتی عملے کا رکن ہونے کی وجہ سے ڈیوس کو سفارتی تعلقات سے متعلق بین الاقوامی قانون کے تحت پاکستان کے عدالتی نظام سے استثنی حاصل ہے۔
پچھلے ہفتے ہی امریکی صدر باراک اوباما نے ڈیوس کے بارے میں کہا تھا کہ وہ پاکستان میں ہمارے سفارتکار ہیں لیکن اب ان کے پاکستان میں مزید خفیہ کردار کے متعلق امریکی انکشاف سے دونوں ملکوں کے پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید متاثر ہوں گے۔ امریکہ کے کئی ذرائع ابلاغ کو کافی پہلے سے علم تھا کہ ڈیوس سی آئی اے کے لیے کام کرتے تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ انہیں اوباما انتظامیہ نے پاکستانی حراست میں ڈیوس کی زندگی کو لاحق خطرات کی وجہ سے یہ خبر دینے سے منع کر رکھا تھا۔
لیکن ان کے بارے میں یہ تفصیلات اس وقت سامنے آئیں جب ایک برطانوی اخبار گارڈین نے ان کے سی آئی اے سے تعلق کے بارے میں خبر دی۔
 

سید زبیر

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں يہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ بليک واٹر ايک نجی سيکورٹی ايجنسی ہے۔ کوئ بھی کارپوريٹ يا نجی ادارہ اس ايجنسی کی خدمات حاصل کر سکتا ہے۔ اس تناظر ميں يہ ذمہ داری امريکی حکومت کی نہيں ہے کہ وہ اس ايجنسی کے ملازمين کی پاکستان ميں موجودگی کی وضاحت يا توجيہہ پيش کرے۔
پاکستان ميں رہنے اور کام کرنے والے ہر غير ملکی کو ويزے کے اجراء کی ذمہ دار حکومت پاکستان اور متعلقہ پاکستانی محکمے اور ايجينسياں ہیں۔
جہاں تک امريکی حکومت کا تعلق ہے تو میں يہ بات پورے وثوق اور يقين کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان ميں امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کا يو ايس ٹريننگ سنٹر (جو کہ بليک واٹر کے نام سے جانی جاتی تھی) سے کوئ معاہدہ نہيں ہے۔
بليک واٹر/ايکس ای/ يو ايس ٹريننگ سنٹر کی جانب سے بے شمار کرائے کے مکانات يا اپنے مشنز کی تکميل کے لیے ديگر سہوليات کے استعمال کے حوالے سے يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے پاس کوئ معلومات نہيں ہيں۔
يہ درست ہے کہ اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں توسيع کے سبب کچھ ملازمين کو وقتی طور پر کرائے کے مکانات ميں منتقل کيا گيا تھا۔ اسلام آباد ميں امريکی سفير نے اس بات کی وضاحت باقاعدہ ايک پريس بريفنگ ميں کی تھی۔ کچھ ٹی وی اينکرز کی جانب سے بے بنياد کہانيوں اور تشہير کے برعکس يہ کوئ خفيہ سازش نہيں بلکہ سرکاری ريکارڈ کا حصہ ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu

ارے سُکھ سے بانسری بجاو ۔ امریکہ بھادر کو معلوم ہے کہ صدیوں سے اس منڈی میں
وطن فروشوں کی کمی نہیں ، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں
نقاب مختلف ہیں ، انداز مختلف ہے ، کراہیت سب پر ایک جیسی عیاں ہے
مگر جب امریکہ بھاگنے لگے گا تو پھر ان خوشامدیوں کی مسخریاں ، اور امریکی فوجیوں کی دوڑیں بھی قابل دید ہونگی ۔
 

x boy

محفلین
ارے سُکھ سے بانسری بجاو ۔ امریکہ بھادر کو معلوم ہے کہ صدیوں سے اس منڈی میں
وطن فروشوں کی کمی نہیں ، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں
نقاب مختلف ہیں ، انداز مختلف ہے ، کراہیت سب پر ایک جیسی عیاں ہے
مگر جب امریکہ بھاگنے لگے گا تو پھر ان خوشامدیوں کی مسخریاں ، اور امریکی فوجیوں کی دوڑیں بھی قابل دید ہونگی ۔
زبیر بھائی آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے یہ پاکستانی نہیں ہے ولایت متحدہ کا باسی ہے اور سب جانتے ہیں کہ جس ملک میں پیدا ہوئے ہوں اس ملک سے ایمانداری سے وفاداری کرنی ہے چونکہ ہم لوگ پاکستان میں پیدا ہوئے اور وہی کے ہیں اسلئے ہم لوگ پاکستان کے وفادار ہیں
اور وفاداری اچھی بات ہے کم از کم فواد جو ہے ان پاکستانیوں کی طرح نہیں جو کھا پاکستان کا رہے اور گن گا رہے ولایت متحدہ کا۔
:haha:
 
Top