پاکستانی خفیہ ایجنسی کو بلیک واٹر ایجنٹوں کو گرفتار کرنیکی ہدایت،رپورٹ

کوئی پاکستان کو مفت کا ایک پیسہ بھی نہیں دیتا ہر ایک کو اپنا اپنا مفاد ہے۔ اپنے اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اور فیس کا نام امداد رکھتے ہیں
 
کوئی پاکستان کو مفت کا ایک پیسہ بھی نہیں دیتا ہر ایک کو اپنا اپنا مفاد ہے۔ اپنے اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اور فیس کا نام امداد رکھتے ہیں
پاکستان کو کیا کسی کو بھی کوئی نہیں دیتا! اور کہیں دیتا ہے تو اس سے کہیں زیادہ لے جاتا ہے، یا پھر پوری قوم کو اغوا کر لیتا ہے۔
جیسے فلپائن کو اغوا کر لیا گیا، حالانکہ وہ امریکہ کے ہم مذہب ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

مختلف فورمز پر پوسٹ کی گئ ان اخباری رپورٹس سے ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم بخوبی آگاہ ہے۔ بدقسمتی سے يہ کوئ پہلا موقع نہيں ہے کہ بليک واٹر کی اصطلاح استعمال کر کے بے بنياد، ہيجان انگيز اور مصالحے دار کہانياں تخليق کی گئ ہيں جن کا واحد مقصد دونوں ممالک کے مابين اسٹريجک تعلقات کو مضبوط کرنے اور دہشت گردی کے مشترکہ خطرے کے خلاف اجتماعی کاوشوں کی ضرورت سے توجہ ہٹانا ہے۔

گزشتہ کئ برسوں سے اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے، امريکی حکومت کے اعلی عہديداروں اور سينير سفارت کاروں نے تسلسل کے ساتھ ان تخيلاتی کہانيوں کا جواب ديا ہے۔ يہی نہيں بلکہ امريکی حکومت کے واضح بيانات پاکستانی ميڈيا کو ارسال کی گئ کئ پريس ريليزز ميں اجاگر کيے گئے ہيں تا کہ حقائق کو درست کرنے کے ساتھ ساتھ غلط اطلاعات کی نشاندہی کی جا سکے۔

يہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ اعلی پاکستانی حکومتی عہديدار بشمول سابقہ پاکستانی وزير داخلہ، وزير خارجہ اور وزرائے اعظم نے بھی اس ايشو کے حوالے سے ہمارے موقف سے اتفاق کيا ہے اور اس ضمن ميں عوامی سطح پر واضح بيانات ديے ہيں۔

بدقسمتی سے کچھ اخبارات اور ميڈيا کے مخصوص عناصر جو کسی بھی غير تحقيق شدہ بيان يا فوج کے کسی ريٹائرڈ افسر کے ذاتی حيثيت ميں کيے جانے والے تجزيے کی بنياد پر شہ سرخياں لگانے ميں کوئ قباحت محسوس نہيں کرتے، وہ نہ صرف امريکی بلکہ حکومت پاکستان کے بھی اہم سرکاری محکموں يا عہدیداروں کی جانب سے ديے جانے والے بيانات، وضاحت يا ريکارڈ شدہ حقائق کو يکسر نظرانداز کر ديتے ہیں۔

گزستہ کئ برسوں کے دوران پاکستان ميں تعنيات امريکی سفيروں نے يقين دہانی کرائ ہے کہ امريکی سفارت کار اور ان کا عملہ حکومت پاکستان کے ضوابط کی پاسداری کريں گے۔

نجی سيکورٹی گارڈز کے لیے سفارتی استثنی کے ضمن ميں جو سوال کيا گيا تھا اس حوالے سے ميں يہ واضح کر دوں کہ رائج عالمی قوانين کے عين مطابق حکومت پاکستان کو اس بات کا پورے اختيار حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے اندر داخل ہونے والے سفارتی عملے بشمول نجی کانٹريکٹرز اور ان کی سفارتی استثنی سے متعلق حيثيت کا تعين کرے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر غير ملکی شخص کی نقل وحرکت اور سرگرميوں کے حوالے سے اپنی مرضی کے قواعد وضوابط اور قوانين مرتب کرے۔

اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں کام کرنے والے امريکی مرينز، نجی سيکورٹی کمپنی کے اہلکار اور ديگر امريکی شہری اس قانون سے مبرا نہيں ہيں۔ جيسا کہ ميں نے پہلے واضح کيا تھا کہ پاکستان کے اندر رہنے اور کام کرنے والا ہر غير ملکی شہری حکومت پاکستان اور متعلقہ اداروں سے ويزہ حاصل کرتا ہے۔

امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ديگر ممالک ميں اپنے شہريوں کی جانب سے قوانين کی خلاف ورزی کی صورت ميں استثنی فراہم نہيں کرتا۔ ميں آپ کو پورے وثوق کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ ہر وہ واقعہ جس کے بارے ميں شواہد موجود ہوں اس کی تحقيق اور تفتيش کی جاتی ہے اور قصوروار افراد کے خلاف امريکی فوج اور سول عدالتوں ميں درج قواعد وضوابط کے مطابق کاروائ بھی کی جاتی ہے۔

اس کی ايک مثال

http://online.wsj.com/article/SB122874862056388125.html

ريمنڈ ڈيوس کے ضمن ميں امريکی حکومت کا موقف تبديل نہيں ہوا۔ ملک ميں داخلے کے ليے ويزے کے اجراء کے وقت حکومت پاکستان نے اس کی سفارتی حيثيت تسليم کی تھی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

قیصرانی

لائبریرین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

مختلف فورمز پر پوسٹ کی گئ ان اخباری رپورٹس سے ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم بخوبی آگاہ ہے۔ بدقسمتی سے يہ کوئ پہلا موقع نہيں ہے کہ بليک واٹر کی اصطلاح استعمال کر کے بے بنياد، ہيجان انگيز اور مصالحے دار کہانياں تخليق کی گئ ہيں جن کا واحد مقصد دونوں ممالک کے مابين اسٹريجک تعلقات کو مضبوط کرنے اور دہشت گردی کے مشترکہ خطرے کے خلاف اجتماعی کاوشوں کی ضرورت سے توجہ ہٹانا ہے۔

گزشتہ کئ برسوں سے اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے، امريکی حکومت کے اعلی عہديداروں اور سينير سفارت کاروں نے تسلسل کے ساتھ ان تخيلاتی کہانيوں کا جواب ديا ہے۔ يہی نہيں بلکہ امريکی حکومت کے واضح بيانات پاکستانی ميڈيا کو ارسال کی گئ کئ پريس ريليزز ميں اجاگر کيے گئے ہيں تا کہ حقائق کو درست کرنے کے ساتھ ساتھ غلط اطلاعات کی نشاندہی کی جا سکے۔

يہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ اعلی پاکستانی حکومتی عہديدار بشمول سابقہ پاکستانی وزير داخلہ، وزير خارجہ اور وزرائے اعظم نے بھی اس ايشو کے حوالے سے ہمارے موقف سے اتفاق کيا ہے اور اس ضمن ميں عوامی سطح پر واضح بيانات ديے ہيں۔

بدقسمتی سے کچھ اخبارات اور ميڈيا کے مخصوص عناصر جو کسی بھی غير تحقيق شدہ بيان يا فوج کے کسی ريٹائرڈ افسر کے ذاتی حيثيت ميں کيے جانے والے تجزيے کی بنياد پر شہ سرخياں لگانے ميں کوئ قباحت محسوس نہيں کرتے، وہ نہ صرف امريکی بلکہ حکومت پاکستان کے بھی اہم سرکاری محکموں يا عہدیداروں کی جانب سے ديے جانے والے بيانات، وضاحت يا ريکارڈ شدہ حقائق کو يکسر نظرانداز کر ديتے ہیں۔

گزستہ کئ برسوں کے دوران پاکستان ميں تعنيات امريکی سفيروں نے يقين دہانی کرائ ہے کہ امريکی سفارت کار اور ان کا عملہ حکومت پاکستان کے ضوابط کی پاسداری کريں گے۔

نجی سيکورٹی گارڈز کے لیے سفارتی استثنی کے ضمن ميں جو سوال کيا گيا تھا اس حوالے سے ميں يہ واضح کر دوں کہ رائج عالمی قوانين کے عين مطابق حکومت پاکستان کو اس بات کا پورے اختيار حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے اندر داخل ہونے والے سفارتی عملے بشمول نجی کانٹريکٹرز اور ان کی سفارتی استثنی سے متعلق حيثيت کا تعين کرے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر غير ملکی شخص کی نقل وحرکت اور سرگرميوں کے حوالے سے اپنی مرضی کے قواعد وضوابط اور قوانين مرتب کرے۔

اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں کام کرنے والے امريکی مرينز، نجی سيکورٹی کمپنی کے اہلکار اور ديگر امريکی شہری اس قانون سے مبرا نہيں ہيں۔ جيسا کہ ميں نے پہلے واضح کيا تھا کہ پاکستان کے اندر رہنے اور کام کرنے والا ہر غير ملکی شہری حکومت پاکستان اور متعلقہ اداروں سے ويزہ حاصل کرتا ہے۔

امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ديگر ممالک ميں اپنے شہريوں کی جانب سے قوانين کی خلاف ورزی کی صورت ميں استثنی فراہم نہيں کرتا۔ ميں آپ کو پورے وثوق کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ ہر وہ واقعہ جس کے بارے ميں شواہد موجود ہوں اس کی تحقيق اور تفتيش کی جاتی ہے اور قصوروار افراد کے خلاف امريکی فوج اور سول عدالتوں ميں درج قواعد وضوابط کے مطابق کاروائ بھی کی جاتی ہے۔

اس کی ايک مثال

http://online.wsj.com/article/SB122874862056388125.html

ريمنڈ ڈيوس کے ضمن ميں امريکی حکومت کا موقف تبديل نہيں ہوا۔ ملک ميں داخلے کے ليے ويزے کے اجراء کے وقت حکومت پاکستان نے اس کی سفارتی حيثيت تسليم کی تھی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
اگر آپ کی جگہ کوئی خاتون کی آئی ڈی یہ جواب دے رہی ہوتی تو کتنا شغل لگتا :)
 

Fawad -

محفلین
اگر آپ کی جگہ کوئی خاتون کی آئی ڈی یہ جواب دے رہی ہوتی تو کتنا شغل لگتا :)



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


http://www.urduweb.org/mehfil/threads/ڈيجيٹل-آؤٹ-ريچ-ٹيم.70528/

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
عوامی سطح پر امریکہ کے اعتبار کی ایک مثال:
میرا پوتا عمر تقریباً سولہ مہینے اپنی تقریباً ہم عمر تایازاد کو اکثر مارنے کاٹنے کو دوڑتا ہے، اور کوئی روکے تو خود چلانے لگتا ہے۔ گھر میں اس (پوتے) کا نام امریکہ پڑا ہوا ہے۔

امریکی سرکار کے اہل کار کا فرضِ منصبی ہے کہ وہ ’’اپنی‘‘ حکومت کے حق میں بات کرتا رہے۔ اور اس کی بات کی حیثیت ’’رائے‘‘ کی نہیں ہو گی، بلکہ اسے متعلقہ سرکار کی تازہ ترین (نو تبدیل شدہ) پالیسی کی وضاحت سمجھا جائے گا۔ ’’امریکہ بہادر‘‘ کی نت بدلتی پالیسیاں اور ہر قوم کے ساتھ امتیازی رویہ اپنی گواہ آپ ہیں۔
بہ ایں ہمہ ہمارے فاضل دوست کو اپنا فرض تو نبھانا ہے!
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
عوامی سطح پر امریکہ کے اعتبار کی ایک مثال:
میرا پوتا عمر تقریباً سولہ مہینے اپنی تقریباً ہم عمر تایازاد کو اکثر مارنے کاٹنے کو دوڑتا ہے، اور کوئی روکے تو خود چلانے لگتا ہے۔ گھر میں اس (پوتے) کا نام امریکہ پڑا ہوا ہے۔
واقعی اس میں سب قصور امریکہ کا ہے اور اس کے دادے کا کوئی ذکر نہیں۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
اگر آپ کی جگہ کوئی خاتون کی آئی ڈی یہ جواب دے رہی ہوتی تو کتنا شغل لگتا :)
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


http://www.urduweb.org/mehfil/threads/ڈيجيٹل-آؤٹ-ريچ-ٹيم.70528/

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
یہ فواد صاحب تو کوئی روبوٹ لگتے ہیں جو بس امریکہ بہادر کی پالیسیوں کی وضاحتیں دیتے رہتے ہیں۔۔ ارے بھائی کسی پر مزاح بات پر مسکرا بھی دیا کیجئے نہ کہ اس کے جواب میں اپنا نام و حوالہ دے کر بھاگ لیے۔ کچھ ہمیں بھی تو پتا چلے کہ واقعی آدم زاد ہیں۔۔ :)
 
یہ فواد صاحب تو کوئی روبوٹ لگتے ہیں جو بس امریکہ بہادر کی پالیسیوں کی وضاحتیں دیتے رہتے ہیں۔۔ ارے بھائی کسی پر مزاح بات پر مسکرا بھی دیا کیجئے نہ کہ اس کے جواب میں اپنا نام و حوالہ دے کر بھاگ لیے۔ کچھ ہمیں بھی تو پتا چلے کہ واقعی آدم زاد ہیں۔۔ :)
یہ فواد صاحب ہماری طرح گپ شپ کے لئے نہیں آتے۔ یہ صرف اپنی ڈیوٹی کرنے آتے ہیں، ممکن ہے یہ ایک آدمی کا آئی ڈی نا ہو بلکہ بلکہ خواتین و حضرات اسے استعمال کرتے ہوں اپنی ڈیوٹی کے لئے۔ ویسے یہ محفل کی کامیابی ہے کہ امریکہ کو بھی اپنا سفارت خانہ محفل پر کھولنا پڑ گیا ہے۔ :)
 
Top