کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر فضیلت نہیں سوائے تقوی کے۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کا یہ فقرہ اس کسوٹی پر پرکھ لیں۔ وما علینا الا البلغ
(* )جبکہ احادیثِ متواترہ سے فضل نسب،فرقِ احکام و نفعِ آخرت بلاشبہ ثابت تو امثالِ حدیث:الا لافضل لعربی علٰی عجمی ولا لاحمر علٰی اسود(نہ عربی کی فضیلت عجمی پر ہے اور نہ سفید کی کالے پر) و حدیث:انظر فانک لست بخیر من احمر ولا اسود الا ان تفضلہ بتقویٰ(بے شک تم سفید اور کالے سے بہتر نہیں۔مگر تم کو صرف تقویٰ سے فضلیت حاصل ہے)میں مثل کریمہ:ان اکرمکم عنداللّٰہ اتقاکم (بے شک تم میں اللہ کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے) سلب فضل کُلی ہے نہ سلب کلی فضل۔
کسی مسلمان بلکہ کافر ذِمی کو بھی بلاحاجتِ شرعیہ ایسے الفاظ سے پکارنا یا تعبیر کرنا جس سے اس کی دِل شکنی ہو،اسے ایذا پہنچے،شرعاً ناجائز و حرام ہے ،اگرچہ بات فی نفسہ سچی ہو،
فان کل حق صدق و لیس کل صدق حقا (ہر حق سچ سے مگر ہر سچ حق نہیں)
بحرالرائق و درمختار میں ہے۔
جس نے کسی ذِمی یہودی یا مجوسی سے کہا ۔اے کافر! اور یہ بات اسے گراں گزری تو کہنے والا گنہکار ہوگا ،اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ اسے تعزیز کی جائے۔
تحقیق مقام و مقال بکمال اجمال یہ ہے کہ مدارِ نجات تقویٰ پر ہے علی تبائن مراتبھا و ثمراتھا(فرقِ مراتب اور اس کے نتائج کے لحاظ سے)نہ کہ محض نسب،وما یضا ھیہ من الفضائل مو ھو باتھا و مکسوباتھا(جو فضائل کے مشابہ ہو ان کے وہبی اور کسبی چیزوں میں)،لہٰذا محض تقویٰ بس ہے،اگرچہ شرفِ نسب و تکمیل علوم سمیہ نہ ہو اور مجرد شریف القوم یا ملاّ صاحب کہلانا کافی نہیں جبکہ تقویٰ اصلاً نہ ہو۔
بیشک عذاب کے سپاہی فاسق علماء کی طرف سبقت کریں گے (اور یا جیسے) بتوں کے پجاری کی طرف جو عمل میں سُست ہوگا فضلِ نسب میں آگے نہ ہوگا۔
حدیث میں من ابطأبہ لم یسرع بہ نسبہ کے یہی معنی ہیں نہ کہ فضل نسب شرعاً محض باطل و مہجور و ہباء منثور،یا شرافت و سیادت ،نہ دنیاوی احکامِ شرعیہ میں وجہ امتیاز،نہ آخرت میں اصلاً نافع و باعثِ اعزاز ۔حاشا ایسا نہیں بلکہ شرع مطہر نے متعدد احکام میں فرقِ نسب کو معتبر رکھا ہے۔اور سلسلۂ طاہرہ ذریت عاطر ہ میں انسلاک و انتساب ضرور آخرت میں بھی نفع دینے والا ہے۔کتاب النکاح میں سارا باب کفائت تو خاص اسی اعتبار تفرقہ و مزیت پر مبنی ہے۔سید زادی اگر کسی مغل پٹھان یا شیخ انصاری سے بے رضائے ولی نکاح کرے گی نکاح ہی نہیں ہوگا جب تک بہ سبب فضلِ علمِ دین مکافات ہو کر کفائت نہ ہوگئی ہو،یونہی اگر غیراَب وجَد بشرائط معلومہ نابالغہ کا ایسانکاح کردیں۔ وہ بھی باطل و مردود محض ہے۔اسی طرح اگر مغلانی ،پٹھانی نابالغہ کسی جولاہے یا دُھنیے سے نکاح کرلے ،یا ولی غیر ملزم نابالغہ کا نکاح کردے یہ سب باطل و نا منعقد ہیں،والمسائل ومصرح بھا متنا و شرحا و فتاویٰ(یہ مسائل دیگر متداول کتب و متون و شروح اور کتبِ فتاویٰ میں تفصیل سے درج ہیں۔)
یوں ہی امامتِ صغریٰ میں ترتیب میں شرفِ نسب بھی وجہِ ترجیح ہے۔تنویر الابصار میں ہے۔
سب سے زیادہ مستحقِ امامت وہ ہے جو زیادہ علم رکھتا ہو(مصنف کے اس قول تک)پھر وہ جو باعتبارِ نسب کے زیادہ شریف ہو،پھر وہ جس کے کپڑے زیادہ سُتھرے ہوں۔
درمختار میں ہے:وہ جو باعتبارِ نسب زیادہ شریف،پھر جس کی آواز بہتر ہو۔
قریش کی خلافت:اور امامت کبریٰ میں شرح مطہر نے اس درجہ کا لحاظ فرمایا ہے کہ اسے صرف قریش کے ساتھ مخصوص فرما دیا۔غیرِ قریش اگرچہ عالمِ اَجل ہو امام و خلیفہ نہیں ہوسکتا۔رسول اللہ ۖ فرماتے ہیں ۔
تمام خلفاء قریش ہوں گے۔(مسند احمد بن حنبل عن انس رضی اللہ عنہ)
احکامات و نکات:
اور اب بعض دیگر احکام میں فرق دکھا کر اخلاقِ فاضلہ پھر نفع اخروی کی طرف توجہ کریں۔
تین حکم تو یہ تھے۔
١۔نکاح،٢۔امامتِ صغریٰ،٣۔امامتِ کبریٰ،
٤۔عرب کبھی بحالِ کفر پر غلام نہ بنائے جائیں،٥۔ان کے مشرکوں پر جزیہ نہ رکھا جائے کہ ان میں جو غلام نہ بن سکے اس پر جزیہ بھی نہیں۔،٦۔ان کی زمین سے کبھی خراج نہ لیا جائے بہرحال وہ عشری ہے۔
اخلاقِ فاضلہ:مشاہدہ شاہد اور تجربہ گواہ ہے کہ شریف قومیں بحیثیتِ مجموعی دیگر اقوام سے حیا،حمیت ،تہذیب،مروت ،سخاوت،شجاعت،سیر چشمی،فتوت،حوصلہ،ہمت،صفائے قریحت وغیرہا بکثرت اخلاقِ حمیدہ،موہوبہ ،مکسوبہ میں زائد ہوتی ہیں۔اور سب کا آدم و حواعلیہما الصلوٰة والسلام ایک ماں باپ سے ہونا جس طرح تفاوت افراد کا منافی نہیں ایک آدمی ایک لاکھ کے برابر ہوتا ہے۔رسول اللہ ۖ فرماتے ہیں۔
انسان کے سوا کوئی چیز اس کی ہم جنس ہزار کے برابر نہیں ہوسکتی۔(المعجم الکبیر)
یوں ہی تفاوت اصناف و اقوام کا منافی نہیں ۔قریش کی جرأت ،شجاعت،سماحت،فتوت،قوت، شہامت، اسلام و جاہلیت دونوں میں شہرۂ آفاق رہی ہے۔اور ان میں بالخصوص بنی ہاشم یوں ہی جاہلیت میں بنی باہلہ خست و دناء ت سے معروف تھے۔حتی قال قائلھم(ان میں سے ایک نے کہا)
بنی ہاشم سے اصل کا ہونا نافع نہیںجب وہ بنی باہلہ کا فرد ہو
جب کُتّے کو ''یا باہلی'' کہا جائے تو وہ اس نسب کی شرمساری سے ماند ہوجاتا ہے
اسی تفاوتِ ہمت کی باعث ہے کہ دین و دنیا دونوں کی سلطنتیں یعنی سلطنتِ ملک و سلطنتِ علم ہمیشہ شریف اقوام ہی میں رہی۔دوسری قوموں کا اس میں حصہ معدوم یا کالمعدوم ہے۔
متعدد احادیث میں گزرا کہ ایک قریش کی قوت دو مرد کے برابر اور ایک قریش کی امانت دو آدمیوں کے مثل۔
حضورۖ فرماتے ہیں۔بے شک ایک شخص نے مجھے ایک ناقہ نذر دیا تھا۔میں نے اِس کے بدلے چھ جوان ناقے عطا فرمائے اور وہ ناراض ہی رہا،بے شک میرا ارادہ ہوا کہ ہدیہ قبول نہ کروں مگر قریشی یا انصاری یا ثقفی یا دوسی کا۔الحدیثاس کو روایت کیاہے احمد اور ترمذی اور نسائی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیحسند کے ساتھ۔مناوی نے تیسیر میں کہا کہ وہ اپنے کرم ،اخلاق اور شرافت کے باعث کمینوں کی طرح ہدیہ پر زیادہ معاوضے کے طلب گار نہیں رہتے۔(جامع ترمذی باب المناقب باب فی ثقیف و بنی حنیفہ)
حضورِ اقدس ۖ نے فرمایا۔ہمارے مصحف نہ لکھیں مگر قریش یا ثقیف کے لڑکے(یہ بابِ امانت سے ہوا)اسے ابو نعیم نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔(التیسیر شرح الجامع الصغیر)
حضورِ اقدس ۖ نے فرمایا۔جیسے سونے چاندی کی مختلف کانیں ہوتی ہیں۔یونہی آدمیوں کی ہیں۔اور رَگ خفیہ اپنا کام کرتی ہے۔اور بُرا اَدب بُری رَگ کی طرح ہے۔اس کو بہیقی نے شعب الایمان میں اور خطیب نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے۔
یہیں سے کہتے ہیں،''اصل بد از خطا ، خطا نہ کند(بد اصل غلطی کا مرتکب رہتا ہے)''
کُف میں شادی:حضورِ اقدس ۖ نے فرمایا،''اپنے نُطفے کیلئے اچھی جگہ تلاش کرو،کُف میں بیاہ ہو ،اور کُف سے بیاہ کرلائوکہ عورتیں اپنے ہی کنبے کے مشابہ جنتی ہیں۔۔(سنن ابن ماجہ)۔
اور فرماتے ہیں ۖ:١۔اچھی نسل میں شادی کروکہ رَگِ خفیہ اپنا کام کرتی ہے۔(ابن عدی اور دارقطنی نے حضرت انس سے روایت کیا)،٢۔گھوڑے کی ہریالی سے بچو،بُری نسل میں خوبصورت عورت۔(الفردوس بمأثور الخطاب حدیث١٥٣٧)
حضورِ اقدس ۖ نے فرمایا:العرب للعرب اکفاء والموالی للموالی اکفاء الّا حائک او حجام۔ عرب عرب کے کفو ہیں اور موالی موالی کے مگر جولاہا یا حجام۔(جولاہا یا حجام موالی یعنی غیرِعرب کا کفو نہیں)
نفعِ آخرت:ظاہر ہے اخلاقِ فاضلہ باعثِ اعمالِ صالحہ ہیں،اور اعمالِ صالحہ نفعِ آخرت اور اس خصوص میں نصوص بکثرت۔
جنت میں بلند درجے والا کون؟:حضور اقدس ۖ فرماتے ہیں :میں جنت میں گیا تو ملاحظہ فرمایا کہ جعفر بن ابی طالب کا درجہ زید بن ثابت کے درجے کے اوپر ہے میں نے کہا ،مجھے گمان نہ تھا کہ زید جعفر سے کم ہے،جبریل نے عرض کی زید جعفر سے کم تو نہیں مگر ہم نے جعفر کا درجہ اس لئے زیادہ کیا کہ انہیں حضور سے قرابت ہے۔(طبقات الکبریٰ)
فرماتے ہیں ۖ :جس نے قرآن حفظ کیا اور اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام ٹھہرایا ،اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے اسے جنت میں داخل کرے گا اور اس کے اہلِ خانہ کے دَس افراد کے متعلق اس کی سفارش قبول ہوگی جن پر جہنم واجب ہوچکی تھی۔(جامع ترمذی)
فرماتے ہیںۖ :چار سو عزیزوں قریبوں کے حق میں حاجی کی شفاعت قبول ہوگی ۔حاجی گناہ سے ایسے نکل جاتا ہے جیسا جس دِن ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔(کنزالعمال)
فرماتے ہیں ۖ:شہید کی شفاعت اس کے ستر اقارب کے حق میں قبول ہوگی۔(سنن ابی دائود)
فرماتے ہیںۖ :شہید کے بدن سے پہلی بار جو خون نکلتا ہے اس کے ساتھ ہی اِس کی مغفرت فرما دی جاتی ہے،اور دَم نکلتے ہی دو حوریںاِس کی خدمت کو آجاتی ہیں،اور اپنے گھروالوں سے ستر اشخاص کی شفاعت کا اِسے اختیار دیا جاتا ہے۔(المجعم الاوسط)
دو یتیموں کی دیوار اور اصلاحِ اعمال:
جب مقبولانِ خدا سے اتنا سا علاقہ کہ کبھی اِن کو پانی پلا دیا،یا وضو کو پانی دے دیا۔عمر میں ان کا کوئی کام کردیا، آخرت میں ایسا نفع دے گاتو خود اُن کا جُز ہونا کس قدر نافع ہونا چاہئے۔بلکہ دنیا و آخرت میں صالحین سے علاقہ نسب کا ہونا قراٰنِ عظیم سے ثابت ہے:
وہ دیوار شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی اور اِس کے نیچے ان کا خزانہ تھا،اور ان کا باپ نیک تھا،تو میرے رَب نے اپنی رحمت سے چاہا کہ یہ اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکالیں۔(القراٰن،الکھف،٨٢)
خضر علیہ السلام نے جو ایک دیوارگرتے دیکھی اور ہاتھ لگا کر اِسے قائم کر دیااور وہاں والوں نے ان کواور موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کو مہمانی دینے سے انکار کردیا تھااور ان کو کھانے کی حاجت تھی،اس پر موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ''آپ چاہتے تو اس پر اُجرت لیتے''خضرعلیہ السلام نے اس کا جواب یہ دیا کہ:''یہ دیوار دو یتیموں کی تھی جو ایک مردِ صالح کی اولاد میں ہیںاور اس میں نیچے ان کا خزانہ ہے،دیوار گر جاتی تو خزانہ ظاہر ہو جاتا،لوگ لے جاتے،لہٰذا آپ کے رب عزوجل نے اپنی رحمت سے چاہا کہ دیوار قائم اور خزانہ محفوظ رہے کہ وہ جوان ہو کر نکالیں،ان کے صالح باپ کے صدقہ میں ان پر رحمت ہوئی۔
علماء فرماتے ہیں :وہ اُن کا آٹھواں یا دسواں باپ تھا۔
حدیث:عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں،ان کے باپ کی صلاح کا لحاظ فرمایا گیا،ان کی اپنی صلاح کا کوئی ذکر نہ فرمایا۔
یعنی وہ اگرچہ خود بھی صالح ہوںاور کیوں نہ ہوں کہ اُن کیلئے خزانۂ لازوال محفوظ رکھا تھا۔سونے کی تختی پر لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ ۖ لکھا ،اور کچھ نصائح و مواعظ۔
فرماتے ہیں ۖ ،بے شک اللہ تعالیٰ آدمی کی صلاح سے اس کی اولاداور اولادِ اولاد کی صلاح فرما دیتا ہے،اور اس کی نسل اور اس کے ہمسایوں میں اس کی رعایت فرمادیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پردہ پوشی و امان میں رہتے ہیں۔(ابن ابی حاتم)
اولاد کا ثواب اور اس کا اَجر:کعب احبار نے فرمایا،اللہ تعالیٰ بندۂ مومن کی اولاد میں اَسی برس تک اِس کی رعایت فرماتا ہے۔اس کو احمد نے زہد میں روایت کیا۔
وقال اللہ عزوجل(اور اللہ عزوجل نے فرمایا) القراٰن کریم،الطور،٢١
والذین اٰمنوواتبعتھم ذریتھم بایمان الحقنابہم ذریتھم وما التنٰھم من عملھم من شی۔
اور وہ جو ایمان لائے اور ان کی اولاد ایمان میں اِن کی تابع ہوئی ہم نے ان کی اولاد ان سے ملا دی ان کے ثواب سے کچھ کم نہ کیا۔
فرماتے ہیں ۖ ،بے شک اللہ تعالیٰ مومن کی ذریت کو اس کے درجہ میںاس کے پاس اُٹھالے گا،اگرچہ وہ عمل میں اس سے کم ہو،تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔
فرماتے ہیں ۖ،جب آدمی جنت میں جائے گا اپنے ماں باپ اور اولادکو پوچھے گا ،ارشاد ہوگا کہ وہ تیرے درجے اور عمل کو نہ پہنچے۔عرض کرے گا ،اے رب میرے!میں نے اپنے اور ان کے سب کے نفع کیلئے عمل کئے تھے۔اس پر حکم ہوگا کہ وہ اس سے ملادئیے جائیں۔اسے طبرانی نے و ابن مردویہ نے اس سے روایت کیا۔
صحابہ اور اہلِبیت کی اولاد کے درجات:جب عام صالحین کی صلاح اِن کی نسل و اولاد کو دین و دُنیا و آخرت میں نفع دیتی ہے تو صدیق و فاروق و عثمان و علی و جعفر و عباس و انصارِ کرام رضی اللہ عنہم کی صلاح کا کیا کہنا،جن کی اولاد میں شیخ،صدیقی و فاروقی و عثمانی وعلوی و جعفری وعباسی و انصاری ہیں،یہ کیوں نہ اپنے نسبِ کریم سے دین و دُنیا و آخرت میں نفع پائیں گے۔پھر اللّٰہُ اکبر حضرت عُلیہ ساداتِ کرام،اولادِ امجاد حضرت خاتونِ جنت بتول زَہرہ کہ حضورِ پُرنور سید الصالحین،سید العالمین،سید المرسلین ۖ کے بیٹے ہیں کہ ان کی شان تو ارفع و اعلیٰ و بلند و بالا ہے۔اللہ عزوجل فرماتا ہے۔
اللہ یہی چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی دُور رَکھے اے نبی کے گھروالو،اور تمہیں سُتھرا کردے خوب پاک فرما کر۔
تنبیہ نبیہ اور نتیجہ:اَقُولُ (میں کہتا ہوں):ان نصوصِ جلیلۂ قراٰنِ عظیم و احادیث نبیٔ کریم ۖ سے روشن ہوا کہ :
(٣)جبکہ احادیثِ متواترہ سے فضل نسب،فرقِ احکام و نفعِ آخرت بلاشبہ ثابت تو امثالِ حدیث:الا لافضل لعربی علٰی عجمی ولا لاحمر علٰی اسود(نہ عربی کی فضیلت عجمی پر ہے اور نہ سفید کی کالے پر) و حدیث:انظر فانک لست بخیر من احمر ولا اسود الا ان تفضلہ بتقویٰ(بے شک تم سفید اور کالے سے بہتر نہیں۔مگر تم کو صرف تقویٰ سے فضلیت حاصل ہے)میں مثل کریمہ:ان اکرمکم عنداللّٰہ اتقاکم (بے شک تم میں اللہ کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے) سلب فضل کُلی ہے نہ سلب کلی فضل۔
………
تفاضلِ انساب
بالجملہ تفاضلِ انساب بھی یقینا ثابت ،اور شرعاً اِس کا اعتبار بھی ثابت،اور اَنساب کریمہ(اچھا نسب ،اچھی ذات وقوم) کا آخرت میں نفع دینا بھی جزماً ثابت،اور نَسب کو مطلقاً محض بے قدر و ضائع و برباد جاننا سخت مردود و باطل،خصوصاً اس نظر سے کہ اس کا عموم عرب،بلکہ قریش،بلکہ بنی ہاشم ،بلکہ ساداتِ کرام کو بھی شامل،اَب یہ قول اشد غضب و ہلاک دیوار ہائل اور اسی پر نظر فقیرغفرلہ القدیر کو اس قدرتطویل حامل ،کہ نسب عرب نہ کہ قریش،نہ کہ ہاشم،نہ کہ سادات کرام کی حمایت ہر مسلمان پر فرضِ کامل۔
نسب پر فخر جائز نہیں:
٭ہاںنَسب پر فخر جائز نہیں۔
٭نَسب کے سبب اپنے آپ کو بڑا جاننا ،تکبر کرنا جائزنہیں۔
٭دوسروں کے نَسب پر طعن جائز نہیں۔
٭اِنہیں کم نَسبی کے سبب حقیر جاننا جائز نہیں۔
٭اس کے سبب کسی مسلمان کا دِل دُکھانا جائز نہیں۔
(…)(…)(…)