آج روزنامہ جنگ میں اس حوالے سے حامد میر کا ایک اہم و دلچسپ کالم شائع ہوا ہے جو پیش خدمت ہے
ٹی وی اینکرز کا احتساب؟,,,,قلم کمان …حامد میر
بل اوریلی امریکا کے معروف ٹی وی اینکرز میں سے ایک ہے وہ فاکس نیوز پر ”دی اوریلی فیکٹر“ کے نام سے ایک مقبول ٹاک شو کی میزبانی کرنے کے علاوہ کئی اخبارات میں کالم بھی لکھتا ہے۔ اوریلی سیاسی معاملات پر اپنی رائے کا ہمیشہ کھل کر اظہار کرتا ہے۔ وہ 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کا بہت بڑا حامی تھا اور اسی لئے بہت سے مبصرین اسے جارج ڈبلیو بش کا حامی قرار دیتے ہیں۔ بعض اوقات اس پر قدامت پرستی کا الزام بھی لگایا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ اکثر جانبدار ہو جاتا ہے اور اس کی گفتگو میں معروضیت (objectivity) کی بجائے ایک مخصوص سیاسی تعصب نظر آتا ہے۔ ان تمام الزامات کے باوجود کئی سال سے بل اوریلی کی مقبولیت قائم ہے کیونکہ وہ اپنا بہترین محتسب اپنے ناظرین اور قارئین کو سمجھتا ہے اوریلی پر تنقید کرنے والوں کا عام طور پر ایسے اداروں سے تعلق ہوتا ہے جو میڈیا کے مختلف شعبوں اور رجحانات پر تحقیق کرتے ہیں۔ یہ تنقید علمی انداز میں کی جاتی ہے اور ایسی تنقید کسی بھی ٹی وی اینکر کے لئے ہمیشہ بہت مفید ہوتی ہے۔
پچھلے کچھ عرصہ سے پاکستان کے کچھ ٹی وی اینکر بھی جائز و ناجائز تنقید کی زد میں ہیں۔ اس تنقید نے انتہائی جارحانہ انداز اکتوبر 2005ء کے زلزلے کے بعد اختیار کیا۔ زلزلے کے بعد پاکستان کے مختلف پرائیویٹ ٹی وی چینلز نے متاثرین کے مسائل اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا لہٰذا اس زلزلے کے لاکھوں متاثرین ٹی وی چینلز کو تو دعائیں دیتے تھے لیکن حکومت کی اہم شخصیات ٹی وی چینلز کے مجموعی کردار سے سخت ناراض تھیں۔ زلزلے کے کچھ ہی دن بعد پرویز مشرف نے میرے سمیت پانچ ٹی وی اینکرز کو بلایا اور کہا کہ ہم متاثرین زلزلہ کی آہیں اور سسکیاں نشر کر کے قوم میں مایوسی پھیلا رہے ہیں جب ہم نے بتایا کہ ان آہوں اور سسکیوں نے پوری قوم کو بیدار کر دیا ہے اور متاثرین زلزلہ کو پوری دنیا کی توجہ مل رہی ہے تو پرویز مشرف نے ہماری رائے مسترد کر دی ۔ کچھ دن بعد وہ کیپٹل ٹاک سے ناراضگی میں اتنے آگے چلے گئے کہ وائس چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل احسن سلیم حیات کو ایک دس سالہ بچے کی تلاش میں وادی نیلم کے دور دراز پہاڑی گاؤں گجو خواجہ بھیج دیا۔ وائس چیف آف دی آرمی اسٹاف ہیلی کاپٹر پر اس گاؤں میں پہنچے اور اس بچے سے پوچھا کہ کیا حامد میر واقعی تمہارے پاس یہاں آیا تھا یا تم اسے مظفر آباد میں ملے تھے؟ بچے نے بتایا کہ جیو ٹی وی کے ایک انکل خچر پر سفر کر کے ہمارے گاؤں آئے تھے اور ہم نے انہیں بتایا تھا کہ زلزلے کے دو ماہ بعد بھی ہمیں کوئی امدادی سامان نہیں ملا۔ جب کیپٹل ٹاک میں بیان کئے گئے حقائق درست ثابت ہوگئے تو پھر حکومت کے امدادی اداروں نے اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے الزام لگایا کہ آپ نے بچے کا یکطرفہ موقف پیش کیا اور ہمارا موقف معلوم نہ کرکے جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ 2005ء کا زلزلہ پرویز مشرف اور پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے درمیان کشیدگی کے آغاز کا باعث بنا اور زلزلے کے بارے میں کی گئی رپورٹنگ کی بنیاد پر پی ٹی وی کے ایک پروگرام ”نیوز نائٹ“ میں پرویز مشرف کے پریس سیکرٹری شوکت سلطان نے اس خاکسار کو ملک دشمن بھی قرار دے ڈالا۔ اس کشیدگی کی انتہا 2007 کا عدالتی بحران تھا۔ ایک حاضر سروس چیف جسٹس کو آرمی ہاؤس میں بلا کر استعفیٰ مانگا گیا اس نے انکار کردیا جس کے بعد اسے گھر میں نظر بند کردیا گیا۔ چیف جسٹس نے گھر سے نکلنے کی کوشش کی تو اسے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا اور کپڑے پھاڑ دیئے گئے۔ میڈیا نے اس واقعے کو غیر معمولی اہمیت دی اور پرویز مشرف ایک دفعہ پھر ناراض ہوگئے۔ انہوں نے ٹی وی چینلز کے مالکان کے ساتھ براہ راست شکوے شکایتیں کیں اور ان کے قریبی ساتھیوں نے ٹی وی اینکرز کو طرح طرح کے لالچ دیئے۔ کسی کو اسٹاک مارکیٹ کا سرمایہ کار بنا دیا گیا اور کسی کو پی ٹی وی کے جال میں پھانسنے کی کوشش کی گئی۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے میرے سمیت متعدد ٹی وی اینکرز کو بھاری معاوضے پر پی ٹی وی میں ملازمت کی پیشکش کی لیکن معذرت کے بعد غصہ یوں نکالا کہ 3 نومبر کی ایمرجنسی کے بعد ٹی وی چینلز پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ ان پابندیوں کا سب سے زیادہ نقصان جیو ٹی وی کو ہوا۔
تین نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کے بعد کچھ ٹی وی چینلز اور ان کے اینکرز کو پاکستان کی سلامتی اور معیشت کا دشمن قرار دیا جانے لگا۔ پرویز مشرف نے کسی عدالت میں ہم پر مقدمہ دائر کرنے اور تحریری چارج شیٹ پیش کرنے کی بجائے صرف زبانی کلامی الزامات لگائے۔ میڈیا میں ان کے کچھ حامیوں نے بھی ٹی وی اینکرز پر خوب غصہ نکالا۔ پچھلے چند ماہ سے لاہور سے شائع ہونے والا ایک انگریزی اخبار ان تمام ٹی وی اینکرز کی کردار کشی میں مصروف ہے جوتین نومبر 2007ء کے بعد پرویز مشرف کو ناپسند تھے اور 18 فروری 2008 کے بعد نئی حکومت کی کچھ شخصیات کو گوارا نہیں۔ 21 جون کو مذکورہ اخبار نے ٹی وی اینکرز کے خلاف ایک لمبا چوڑا اداریہ لکھاہے جس کا عنوان ہے ”دشمن ٹی وی اینکرز کی حکمرانی“ اداریے میں تنقید کا لہجہ کم اور الزامات زیادہ ہیں۔ انگریزی اخبار نے معزول ججوں کی بحالی کے معاملے کو اہمیت دینے، قومی مفاہمتی آرڈی نینس پر تنقید کرنے اور پرویز مشرف سے استعفے کا مطالبہ کرنے والے ٹی وی اینکرز پر کڑی تنقید کرتے ہوئے انہیں جانبدار قرار دیا ہے۔ اخبارنے الزام لگایا ہے کہ بعض اینکرز مہمند ایجنسی میں امریکی طیاروں کی بمباری سے پاکستانی جوانوں کی شہادت کے معاملے کو اچھال کر پاکستان کیلئے مسائل پیدا کر رہے ہیں ستم ظریفی دیکھئے کہ ٹی وی اینکرز پر جانبداری کا الزام ایک ایسے اخبار نے لگایا ہے جس کے پبلشر پنجاب کے گورنر بن چکے ہیں اور جس کے ایڈیٹر 1996 کے فاروق لغاری کی نگراں حکومت میں مشیر بن گئے تھے ۔ یہ اخبار پچھلے ایک سال سے وکلاء تحریک کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے اور ان ٹی وی اینکرز کو پرویز مشرف کا دشمن قرار دے رہاہے جواپنے ٹاک شوز میں احمد رضا قصوری، بیرسٹر محمد علی سیف، خالد رانجھا اور دیگر مشرف نواز وکلاء کو بلا کر معروضی صحافت کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انگریزی اخبار کو ایک ٹی وی اینکر پر بہت غصہ ہے جس نے مہمند ایجنسی میں امریکی حملے کے بعد واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی سے گفتگو کی اوریہ معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کی تجویز پیش کی۔ اداریے کے بغور مطالعے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مذکورہ انگریزی اخبار کے خیال میں پاکستان کے تمام صحافیوں کو چاہیے کہ وہ قومی غیرت کو بھول جائیں اور امریکا کے سامنے مکمل طور پر سرنگوں ہوجائیں کیونکہ اس کے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ شائد اخبار کے پبلشر اور ایڈیٹر نہیں جانتے کہ مہمند ایجنسی میں پاکستانی جوانوں کی شہادت کے بعد دفتر خارجہ نے امریکی سفیر کو طلب کیا تو انہوں نے بہانہ بنایا اور اپنے نائب کو بھیجنے کی کوشش کی لیکن سیکرٹری خارجہ نے واضح کیا کہ امریکی سفیر خود دفتر خارجہ آئیں گی لہٰذا سفیر صاحبہ کو بادل نخواستہ آنا پڑا اور انہیں وہ کچھ سننا پڑا جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ نیویارک ٹائمز نے بھی اعتراف کیا ہے کہ مہمند ایجنسی میں امریکی حملے کے بعد پاکستان کی فوجی قیادت سخت ناراض ہے۔
دفتر خارجہ اور فوجی قیادت نے امریکیوں سے اسی لہجے میں بات کی ہے جو لہجہ مہمند ایجنسی میں حملے کے بعد ٹی وی اینکرز کا تھا تو اس لہجے پر غصے کا اظہار صرف ٹی وی اینکرز پر کیوں؟ دفتر خارجہ اور فوجی قیادت پر کیوں نہیں؟
سچ تو یہ ہے کہ ٹی وی اینکرز کی کسی کے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی نہیں اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو اصلی فیصلہ ساز یا حکمران سمجھتے ہیں۔ یہ ٹی وی اینکرز اگر خود حکومت ہوتے تو بار بار پابندیوں کا شکار نہ ہوتے اور سڑکوں پر آزادی صحافت کے نعرے لگاتے ہوئے نظر نہ آتے۔ کیا یہ ٹی وی اینکرز 3 نومبر 2007 کے بعد نگراں حکومت میں وزیر نہیں بن سکتے تھے؟ اگر سب ٹی وی اینکرز پی ٹی وی سے وابستہ ہوجائیں تو کیا پاکستان کے سب مسائل حل ہو جائیں گے ٹی وی اینکرز پرجائز تنقید ضرور کی جائے لیکن بے بنیاد الزامات نہ لگائے جائیں کیونکہ اس قسم کا لبرل فاشزم معاشرے میں انتہاپسندی کو فروغ دیتا ہے۔ ہم نے کبھی کسی مغربی سفارتخانے میں جاکر یہ نہیں کہا کہ دینی مدارس کے خلاف ایک ٹی وی چینل کے اجراء کیلئے ہمیں ڈالروں میں امداد دی جائے۔ ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم نہ تو کسی بیرونی طاقت اور نہ ہی کسی اندرونی آمر کا وفادار بننے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی کوئی سرکاری عہدہ لیکر اپنی آزادی کو لاکھوں کروڑوں میں بیچنے کیلئے تیار ہیں۔ ہم کسی بھی تنازعے کے تمام فریقوں کا نقطئہ نظر سامنے لانے کیلئے تیار ہیں لیکن ہماری اصل وفاداری اپنے دین، وطن اور صحافت کے اعلیٰ اصولوں کے ساتھ ہے۔ ہمارے اصل محتسب ہمارے ناظرین اور قارئین ہیں جس دن وہ ہمیں مستردکریں گے ہمارے ٹاک شوز اور کالم خود بخود بند ہو جائیں گے۔
ٹی وی اینکرز کا احتساب؟,,,,قلم کمان …حامد میر
بل اوریلی امریکا کے معروف ٹی وی اینکرز میں سے ایک ہے وہ فاکس نیوز پر ”دی اوریلی فیکٹر“ کے نام سے ایک مقبول ٹاک شو کی میزبانی کرنے کے علاوہ کئی اخبارات میں کالم بھی لکھتا ہے۔ اوریلی سیاسی معاملات پر اپنی رائے کا ہمیشہ کھل کر اظہار کرتا ہے۔ وہ 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کا بہت بڑا حامی تھا اور اسی لئے بہت سے مبصرین اسے جارج ڈبلیو بش کا حامی قرار دیتے ہیں۔ بعض اوقات اس پر قدامت پرستی کا الزام بھی لگایا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ اکثر جانبدار ہو جاتا ہے اور اس کی گفتگو میں معروضیت (objectivity) کی بجائے ایک مخصوص سیاسی تعصب نظر آتا ہے۔ ان تمام الزامات کے باوجود کئی سال سے بل اوریلی کی مقبولیت قائم ہے کیونکہ وہ اپنا بہترین محتسب اپنے ناظرین اور قارئین کو سمجھتا ہے اوریلی پر تنقید کرنے والوں کا عام طور پر ایسے اداروں سے تعلق ہوتا ہے جو میڈیا کے مختلف شعبوں اور رجحانات پر تحقیق کرتے ہیں۔ یہ تنقید علمی انداز میں کی جاتی ہے اور ایسی تنقید کسی بھی ٹی وی اینکر کے لئے ہمیشہ بہت مفید ہوتی ہے۔
پچھلے کچھ عرصہ سے پاکستان کے کچھ ٹی وی اینکر بھی جائز و ناجائز تنقید کی زد میں ہیں۔ اس تنقید نے انتہائی جارحانہ انداز اکتوبر 2005ء کے زلزلے کے بعد اختیار کیا۔ زلزلے کے بعد پاکستان کے مختلف پرائیویٹ ٹی وی چینلز نے متاثرین کے مسائل اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا لہٰذا اس زلزلے کے لاکھوں متاثرین ٹی وی چینلز کو تو دعائیں دیتے تھے لیکن حکومت کی اہم شخصیات ٹی وی چینلز کے مجموعی کردار سے سخت ناراض تھیں۔ زلزلے کے کچھ ہی دن بعد پرویز مشرف نے میرے سمیت پانچ ٹی وی اینکرز کو بلایا اور کہا کہ ہم متاثرین زلزلہ کی آہیں اور سسکیاں نشر کر کے قوم میں مایوسی پھیلا رہے ہیں جب ہم نے بتایا کہ ان آہوں اور سسکیوں نے پوری قوم کو بیدار کر دیا ہے اور متاثرین زلزلہ کو پوری دنیا کی توجہ مل رہی ہے تو پرویز مشرف نے ہماری رائے مسترد کر دی ۔ کچھ دن بعد وہ کیپٹل ٹاک سے ناراضگی میں اتنے آگے چلے گئے کہ وائس چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل احسن سلیم حیات کو ایک دس سالہ بچے کی تلاش میں وادی نیلم کے دور دراز پہاڑی گاؤں گجو خواجہ بھیج دیا۔ وائس چیف آف دی آرمی اسٹاف ہیلی کاپٹر پر اس گاؤں میں پہنچے اور اس بچے سے پوچھا کہ کیا حامد میر واقعی تمہارے پاس یہاں آیا تھا یا تم اسے مظفر آباد میں ملے تھے؟ بچے نے بتایا کہ جیو ٹی وی کے ایک انکل خچر پر سفر کر کے ہمارے گاؤں آئے تھے اور ہم نے انہیں بتایا تھا کہ زلزلے کے دو ماہ بعد بھی ہمیں کوئی امدادی سامان نہیں ملا۔ جب کیپٹل ٹاک میں بیان کئے گئے حقائق درست ثابت ہوگئے تو پھر حکومت کے امدادی اداروں نے اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے الزام لگایا کہ آپ نے بچے کا یکطرفہ موقف پیش کیا اور ہمارا موقف معلوم نہ کرکے جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ 2005ء کا زلزلہ پرویز مشرف اور پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے درمیان کشیدگی کے آغاز کا باعث بنا اور زلزلے کے بارے میں کی گئی رپورٹنگ کی بنیاد پر پی ٹی وی کے ایک پروگرام ”نیوز نائٹ“ میں پرویز مشرف کے پریس سیکرٹری شوکت سلطان نے اس خاکسار کو ملک دشمن بھی قرار دے ڈالا۔ اس کشیدگی کی انتہا 2007 کا عدالتی بحران تھا۔ ایک حاضر سروس چیف جسٹس کو آرمی ہاؤس میں بلا کر استعفیٰ مانگا گیا اس نے انکار کردیا جس کے بعد اسے گھر میں نظر بند کردیا گیا۔ چیف جسٹس نے گھر سے نکلنے کی کوشش کی تو اسے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا اور کپڑے پھاڑ دیئے گئے۔ میڈیا نے اس واقعے کو غیر معمولی اہمیت دی اور پرویز مشرف ایک دفعہ پھر ناراض ہوگئے۔ انہوں نے ٹی وی چینلز کے مالکان کے ساتھ براہ راست شکوے شکایتیں کیں اور ان کے قریبی ساتھیوں نے ٹی وی اینکرز کو طرح طرح کے لالچ دیئے۔ کسی کو اسٹاک مارکیٹ کا سرمایہ کار بنا دیا گیا اور کسی کو پی ٹی وی کے جال میں پھانسنے کی کوشش کی گئی۔ سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے میرے سمیت متعدد ٹی وی اینکرز کو بھاری معاوضے پر پی ٹی وی میں ملازمت کی پیشکش کی لیکن معذرت کے بعد غصہ یوں نکالا کہ 3 نومبر کی ایمرجنسی کے بعد ٹی وی چینلز پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ ان پابندیوں کا سب سے زیادہ نقصان جیو ٹی وی کو ہوا۔
تین نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کے بعد کچھ ٹی وی چینلز اور ان کے اینکرز کو پاکستان کی سلامتی اور معیشت کا دشمن قرار دیا جانے لگا۔ پرویز مشرف نے کسی عدالت میں ہم پر مقدمہ دائر کرنے اور تحریری چارج شیٹ پیش کرنے کی بجائے صرف زبانی کلامی الزامات لگائے۔ میڈیا میں ان کے کچھ حامیوں نے بھی ٹی وی اینکرز پر خوب غصہ نکالا۔ پچھلے چند ماہ سے لاہور سے شائع ہونے والا ایک انگریزی اخبار ان تمام ٹی وی اینکرز کی کردار کشی میں مصروف ہے جوتین نومبر 2007ء کے بعد پرویز مشرف کو ناپسند تھے اور 18 فروری 2008 کے بعد نئی حکومت کی کچھ شخصیات کو گوارا نہیں۔ 21 جون کو مذکورہ اخبار نے ٹی وی اینکرز کے خلاف ایک لمبا چوڑا اداریہ لکھاہے جس کا عنوان ہے ”دشمن ٹی وی اینکرز کی حکمرانی“ اداریے میں تنقید کا لہجہ کم اور الزامات زیادہ ہیں۔ انگریزی اخبار نے معزول ججوں کی بحالی کے معاملے کو اہمیت دینے، قومی مفاہمتی آرڈی نینس پر تنقید کرنے اور پرویز مشرف سے استعفے کا مطالبہ کرنے والے ٹی وی اینکرز پر کڑی تنقید کرتے ہوئے انہیں جانبدار قرار دیا ہے۔ اخبارنے الزام لگایا ہے کہ بعض اینکرز مہمند ایجنسی میں امریکی طیاروں کی بمباری سے پاکستانی جوانوں کی شہادت کے معاملے کو اچھال کر پاکستان کیلئے مسائل پیدا کر رہے ہیں ستم ظریفی دیکھئے کہ ٹی وی اینکرز پر جانبداری کا الزام ایک ایسے اخبار نے لگایا ہے جس کے پبلشر پنجاب کے گورنر بن چکے ہیں اور جس کے ایڈیٹر 1996 کے فاروق لغاری کی نگراں حکومت میں مشیر بن گئے تھے ۔ یہ اخبار پچھلے ایک سال سے وکلاء تحریک کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے اور ان ٹی وی اینکرز کو پرویز مشرف کا دشمن قرار دے رہاہے جواپنے ٹاک شوز میں احمد رضا قصوری، بیرسٹر محمد علی سیف، خالد رانجھا اور دیگر مشرف نواز وکلاء کو بلا کر معروضی صحافت کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انگریزی اخبار کو ایک ٹی وی اینکر پر بہت غصہ ہے جس نے مہمند ایجنسی میں امریکی حملے کے بعد واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی سے گفتگو کی اوریہ معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کی تجویز پیش کی۔ اداریے کے بغور مطالعے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مذکورہ انگریزی اخبار کے خیال میں پاکستان کے تمام صحافیوں کو چاہیے کہ وہ قومی غیرت کو بھول جائیں اور امریکا کے سامنے مکمل طور پر سرنگوں ہوجائیں کیونکہ اس کے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ شائد اخبار کے پبلشر اور ایڈیٹر نہیں جانتے کہ مہمند ایجنسی میں پاکستانی جوانوں کی شہادت کے بعد دفتر خارجہ نے امریکی سفیر کو طلب کیا تو انہوں نے بہانہ بنایا اور اپنے نائب کو بھیجنے کی کوشش کی لیکن سیکرٹری خارجہ نے واضح کیا کہ امریکی سفیر خود دفتر خارجہ آئیں گی لہٰذا سفیر صاحبہ کو بادل نخواستہ آنا پڑا اور انہیں وہ کچھ سننا پڑا جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ نیویارک ٹائمز نے بھی اعتراف کیا ہے کہ مہمند ایجنسی میں امریکی حملے کے بعد پاکستان کی فوجی قیادت سخت ناراض ہے۔
دفتر خارجہ اور فوجی قیادت نے امریکیوں سے اسی لہجے میں بات کی ہے جو لہجہ مہمند ایجنسی میں حملے کے بعد ٹی وی اینکرز کا تھا تو اس لہجے پر غصے کا اظہار صرف ٹی وی اینکرز پر کیوں؟ دفتر خارجہ اور فوجی قیادت پر کیوں نہیں؟
سچ تو یہ ہے کہ ٹی وی اینکرز کی کسی کے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی نہیں اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو اصلی فیصلہ ساز یا حکمران سمجھتے ہیں۔ یہ ٹی وی اینکرز اگر خود حکومت ہوتے تو بار بار پابندیوں کا شکار نہ ہوتے اور سڑکوں پر آزادی صحافت کے نعرے لگاتے ہوئے نظر نہ آتے۔ کیا یہ ٹی وی اینکرز 3 نومبر 2007 کے بعد نگراں حکومت میں وزیر نہیں بن سکتے تھے؟ اگر سب ٹی وی اینکرز پی ٹی وی سے وابستہ ہوجائیں تو کیا پاکستان کے سب مسائل حل ہو جائیں گے ٹی وی اینکرز پرجائز تنقید ضرور کی جائے لیکن بے بنیاد الزامات نہ لگائے جائیں کیونکہ اس قسم کا لبرل فاشزم معاشرے میں انتہاپسندی کو فروغ دیتا ہے۔ ہم نے کبھی کسی مغربی سفارتخانے میں جاکر یہ نہیں کہا کہ دینی مدارس کے خلاف ایک ٹی وی چینل کے اجراء کیلئے ہمیں ڈالروں میں امداد دی جائے۔ ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم نہ تو کسی بیرونی طاقت اور نہ ہی کسی اندرونی آمر کا وفادار بننے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی کوئی سرکاری عہدہ لیکر اپنی آزادی کو لاکھوں کروڑوں میں بیچنے کیلئے تیار ہیں۔ ہم کسی بھی تنازعے کے تمام فریقوں کا نقطئہ نظر سامنے لانے کیلئے تیار ہیں لیکن ہماری اصل وفاداری اپنے دین، وطن اور صحافت کے اعلیٰ اصولوں کے ساتھ ہے۔ ہمارے اصل محتسب ہمارے ناظرین اور قارئین ہیں جس دن وہ ہمیں مستردکریں گے ہمارے ٹاک شوز اور کالم خود بخود بند ہو جائیں گے۔