پاکستانی طالبہ سبیکا شیخ کی ہلاکت پر وزیرخارجہ پومپئو کا بیان

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


Ddu-c7d_VMAAWEQ2.jpg


میں سبیکا شیخ کے اہلخانہ اور دوستوں سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں جو گزشتہ روز ٹیکساس کے سانتا فے ہائی سکول میں پیش آنے والے فائرنگ کے المناک واقعے میں ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔ سبیکا امریکی دفتر خارجہ کی معاونت سے نوجوانوں کے لیے تبادلہ و تعلیم کے پروگرام کے تحت امریکہ آئی تھیں جس کا مقصد امریکہ اور پاکستان میں تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ سبیکا اور دیگر متاثرین کی اموات ہمارے لیے روح فرسا ہیں اور ان پر امریکہ اور پاکستان دونوں جگہوں پر دکھ اور افسوس کا اظہار ہو گا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

محمد وارث

لائبریرین
امریکی اسکولوں میں فائرنگ اور ہلاکتوں کے بڑھتے ہوئے واقعات امریکن اربابِ حل و عقد کے لیےمقامِ تفکر ہے!
 

فاخر رضا

محفلین
ابامہ نے کہا تھا کہ ہم 9/11 میں مرنے والے تین چار ہزار کی وجہ سے ٹریلین ڈالر خرچ کر چکے ہیں جبکہ 2001 سے اب تک ہر سال اوسطاً 11000 سے زیادہ لوگ ماس شوٹنگ میں ہلاک ہوتے ہیں
ماس شوٹنگ جس میں چار سے زیادہ افراد ہلاک یا زخمی ہوں
اوبامہ چاہتا تھا کہ گن کے خلاف قانون بنے مگر وہ ایسا نہ کرسکا کیونکہ گن بنانے والی کمپنیوں کے مالکان میں امریکہ کے صدور کے خاندان بھی شامل ہیں
 

Fawad -

محفلین

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی حکومت کو ميڈيا کے کسی بھی ادارے يا اخبار پر کنٹرول حاصل نہيں ہے۔ اس تناظر ميں امريکہ يا دنيا کے کسی بھی حصے ميں پيش آنے والے واقعے کو کيا رنگ ديا جاتا ہے، اس کے ليے امريکی حکومت ذمہ دار نہيں ہے۔

جہاں تک امريکی حکومت کا تعلق ہے تو يہ تاثر کہ تشدد کے ذمہ دار شخص کا مذہب، اس کی قوميت يا نسل کا اس کے خلاف قانونی کاروائ ميں کوئ بھی کردار ہے، بالکل غلط اور بے بنياد ہے۔

کسی بھی فرد، گروہ يا تنظيم کی مذہبی وابستگی يا سياسی اہداف اور مقاصد وہ عوامل نہيں ہيں جن کی بنياد پر امريکی حکومت کسی بھی محضوص واقعے کو دہشت گردی کے زمرے ميں ڈالتی ہے۔

دانستہ اور جانتے بوجھتے ہوئے بے گناہ شہريوں کو ہلاک کرنا اور سياسی مقاصد اور ايجنڈے کے حصول کے ليے دانستہ پرتشدد کاروائياں کرنا وہ اعمال ہيں جو اس پيمانے کو پورا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

جہاں تک کچھ رائے دہندگان کی جانب سے اس امر پر ناراضگی کے اظہار کا تعلق ہے کہ مبينہ طور پر عوامی سطح پر مسلمانوں اور مذہب اسلام کو منفی انداز ميں پيش کيا جاتا ہے تو اس ضمن میں مذمت اور غصے کا رخ ان کی جانب کيا جانا چاہيے جو مذہب کا لبادہ پہن کر گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرتے ہيں۔

مذہب کو دہشت گردی کے ضمن ميں غلط طريقے سے استعمال کيا گيا ہے۔ ليکن ميں اس رائے سے متفق نہیں ہوں امريکہ يا مغرب نے اسلام کو دہشت گردی سے تعبير کيا ہے۔ آپ شايد يہ بھول رہے ہيں کہ القائدہ، آئ ايس آئ ايس اور ديگر دہشت گرد تنظيموں نے ہميشہ يہ غلط دعوی کيا ہے کہ وہ اسلامی تعليمات پر عمل پيرا ہيں۔

امريکی حکومت کو اس بات کی چندہ کوئ ضرورت نہيں ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ عالمی کوششوں کو مسلم اور غير مسلموں کے مابين کسی چپقلش کا رنگ دے۔ يقينی طور پر اس کا حقيقت سے کوئ تعلق بھی نہيں ہے۔ يہ مہذب دنيا اور ان مجرموں کے مابين ايک جاری کوشش ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بے گناہ انسانوں کے قتل میں کوئ قباحت محسوس نہيں کرتے۔

جہاں تک امريکی حکومت کا تعلق ہے تو ہمارا مقصد صرف ان مجرموں کو پوری انسانيت کے خلاف ان مجرمانہ کاروائيوں سے روکنا ہے۔ مذہب يا قوميت کا اس معاملے سے کوئ تعلق نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

فاخر رضا

محفلین
ڈیئر فواد
میں نے جو جملہ لکھا اس پر کتنے لوگوں نے متفق کی ریٹنگ دی
ہر شخص اپنا perception بنانے میں آزاد ہے
آپ نے امریکی موقف پیش کیا اور ان کا دفعہ کیا یہی آپ کی نوکری کا حصہ ہے
بس امریکی حکومت کو چاہیے کہ لوگوں کا perception تبدیل کرنے کی کوشش کرے
یہ بھی تو ہے کہ آپ نے اس مراسلے میں اعداد و شمار نہیں دیئے کہ امریکہ میں کتنے واقعات میں امریکی گورے کو دہشت گرد قرار دے کر سزا دی گئی
خیر باقی کے مراسلات پر کمینٹ کا انتظار رہے گا
 

Fawad -

محفلین
یہ بھی تو ہے کہ آپ نے اس مراسلے میں اعداد و شمار نہیں دیئے کہ امریکہ میں کتنے واقعات میں امریکی گورے کو دہشت گرد قرار دے کر سزا دی گئی


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح کر دوں کہ گزشتہ دو دہائيوں کے دوران امريکہ کے اندر دہشت گردی کی جو کاروائياں ہوئ ہيں، وہ زيادہ تر امريکی شہريوں کی جانب سے ہی کی گئ ہيں۔

اس ضمن ميں کچھ اعداد وشمار پيش ہيں۔

Terror_Cases.jpg


امريکی حکومت نے ہميشہ ان مجرموں اور دہشت گردوں کے خلاف کاروائ کی ہے جو عام انسانوں کی جانوں کے ليے خطرہ بنے ہيں۔ اس ضمن ميں مذہبی يا قومی وابستگی کو بنياد بنا کر کبھی کوتائ نہيں کی گئ ہے۔

اجتماعی سطح پر بھی ميں چاہوں گا کہ آپ امريکی وزارت خارجہ کی اس سرکاری لسٹ پر ايک نظر ڈالیں جس ميں دہشت گردی سے متعلق مختلف تنظيموں کے نام اجاگر کيے گئے ہيں۔

Foreign Terrorist Organizations

آپ ديکھ سکتے ہيں کہ اس تاثر ميں کوئ صداقت نہيں ہے کہ امريکی حکومت صرف "اسلامی دہشت گرد گروہوں" کے خلاف کاروائ پر توجہ مرکوز کيے ہوئے ہے۔

يہاں پر يہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ امريکی حکومت اس حقي‍ت کو بھی سمجھتی ہے کہ تمام مذاہب ميں انتہا پسند موجود ہوتے ہيں جو مذہب کی تعليمات کو مسخ کر کے نفرت اور جنگ کے ليے جواز پيدا کرتے ہيں۔ کيا يہ حقيقت نہيں ہے کہ کلو کليس کلين ايک عيسائ تنظيم ہونے کی دعويدار تھی۔ جب اس تنظيم کی شرانگيز تقارير کے سبب معاشرے ميں بدامنی پھيلی تو ان جرائم میں مرتکب افراد کے خلاف بھی کاروائ کی گئ۔ اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ عيسائيوں کے خلاف ہے۔

اس ايشو کے حوالے سے ميں نے پہلے بھی واضح کيا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جدوجہد کا کسی بھی فرد کی شہريت اور مذہب سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ امريکی حکومت اور پاکستان سميت ہمارے تمام تر اتحاديوں کی توجہ اور تمام تر کوششوں کا مرکز ان افراد کی گرفتاری اور دہشت گردی کے ان اڈوں کا قلع قمع کرنا ہے جہاں اس سوچ کی ترويج وتشہير کی جاتی ہے کہ دانستہ بے گناہ افراد کی ہلاکت جائز ہے۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح کر دوں کہ امريکہ کو مطلوب القائدہ کے اہم ترين ليڈر ايک امريکی شہری ايڈم پرلمين رہے ہيں جو "عزام دا امريکن" کے نام سے بھی جانے جاتے ہيں۔ يہ ايک طے شدہ حقيقت ہے کہ وہ افغانستان ميں القائدہ تنظيم کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ امريکی حکومت ان کی امريکی شہريت سے قطع نظر ان کی گرفتاری اور ان کو قانون کے کٹہرے ميں لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی تھی۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 
Top