سید شہزاد ناصر
محفلین
غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا سب سے بڑا نمائندہ جس نے اس کو باقاعدہ رواج دیا تھا۔ وہ ولی دکنی تھا۔ لیکن ولی سے غزل کاآغاز نہیں ہوتا اس سے پہلے ہمیں دکن کے بہت سے شعراءکے ہاں غزل ملتی ہے۔ مثلاً قلی قطب شاہ، نصرتی ، غواصی ، ملاوجہی۔ لیکن ولی نے پہلی بار غزل میں تہذیبی قدروں کو سمویا ۔ اس کے بعد ہمارے سامنے ایہام گو شعراءآتے ہیں۔ جنہوں نے بھی فن اور فکر کے حوالے سے غزل کو تہذیب و روایات سے قریب کیا۔ایہام گوئی کے کی بعد اصلاح زبان اور فکر کی تحریک شروع ہوئی جو مظہر جانِ جاناں نے شروع کی انہوں نے غزل میں فارسیت کو رواج دیا۔ لیکن وہ مکمل طور پر ہندیت کو غزل سے نکال نہیں سکے۔لہٰذا اس کے بعدمیر تقی میر او ر سودا کا دور ہمارے سامنے آتا ہے اس میں ہمیں نئی تہذیب اور اسلوب کا سراغ ملتا ہے۔ اس میں ہمیں وہ کلچر نظر آتا ہے جو ہندی ایرانی کلچر ہے ۔وہ اسلوب ہے جس میں فارسی کا غلبہ تو ہے لیکن اندرونی طور پر ھندی ڈکشن کے اثرات ہیں۔میر اورسودا کا دور غزل کے عہد زریں کا دور ہے ۔ جس میں مکمل طور پر کلاسیکی پیمانوں کی پیروی کی گئی ۔
لکھنو میں غزل کا پہلا دور مصحفی ، انشاء، رنگین اور جرات کا ہے یہاں پہلی دفعہ کلاسیکی موضوعات پر ضرب پڑتی ہے اور اسلوب اور موضوع کے حوالے سے بہت سی نئی باتیں سامنے آئیں ۔ لکھنو کا دوسرا دور جو آتش اور ناسخ کا دور ہے اس میں پچھلے دور کے اقدار کو مزید مضبوط کیا جاتا ہے۔ یہاں سے محبوب اور اس کی شخصیت تبدیل ہونی شروع ہوتی ہے۔ اس سے پہلے جو پاکیزگی کا تصور تھا اس میں دراڑیں پڑتی ہیں
اس کے بعد غالب کا دو رآتا جس پر لکھنو کا اثر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن فکری حوالے سے اس دور میں بڑی تبدیلی نظرآتی ہے۔ یہاں سے ایسی غزل شروع ہوتی ہے جو اپنے دامن میں تفکر کے بہت سے زاویے رکھتے ہی جس میں فلسفہ اور خاص کر خدا ، انسان اور کائنات کارشتہ مقرر کرنا جیسے موضوعات غزل میں داخل ہوتے ہیں۔
1857ءکے بعد غزل کا وہ دور شروع ہوتا ہے جس میں کلاسیکی عمل کے اثرات ہیں۔ یعنی رام پور کا دور ۔ اس دور میں داغ دہلوی، امیر ، جلال اور تسلیم جیسے شاعر شامل ہیں۔
اس کے بعد صحیح معنوں میں غزل کا جدید دور شروع ہوتا ہے۔ اور وہ ہے الطاف حسین حالی کادور اس میں کوئی شک نہیں کہ حالی نے جدید غزل کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ حالی کی غزل کی بنیاد دراصل مقصدیت پر ہے۔اس کے بعد جو اہم نام جدید غزل کے حوالے سے ہمارے سامنے آتا ہے وہ اقبال کا ہے ۔ وہ حالی کی مقصدیت کو آگے لے کر چلتے ہیں لیکن وسیع معنوں میں۔ اقبال صرف اخلاقیات اور مقصدی مضامین تک محدود نہیں رہے۔ اقبال کی غزل کا مرکزی کردار مکالمے کرتا ہے ۔ فطرت سے، کائنات سے ، اور سب سے بڑھ کر اپنے داخل سے ۔ اب غزل ایک نئے تصور کے تحت آگئی ہے۔ انسان ، خدا ، کائنات اور فطرت کے رشتے اور پھیلی ہوئی کائنات سب اس میں موجود ہیں۔
اقبال کے بعداصغر ، فانی بدایونی ، حسرت موہانی ، جگر مراد آبادی اور یاس یگانہ چنگیزی جدید معمار ہیں۔ اصغر تصوف کے راستے اور فانی نے موت اور یاسیت کے راستے کائنات کی معنویت تلاش کرنے کی کوشش کی۔ جگر ایک رندی اور سرمستی کے راستے تلاش کرتا ہے۔ جبکہ حسرت موہانی ایک نیا تصورِ عشق سامنے لاتے ہیں ۔ انھوں نے غیر مادی تصور عشق کو مٹا کر مادی تصورِعشق دیا۔ اُس نے ایک مادی پیکر محبوب کو دیا جو اسی زمین پر ہمارے درمیان رہتا ہے۔ جبکہ یاس یگانہ چنگیزی حقیقت کے حوالے سے اور ذات کی انانیت کے حوالے سے اہم نام ہے۔
اس کے بعد ہمارے سامنے ترقی پسندوں کا گروپ آتا ہے جس میں بہت سے شاعر ساحر، فیض ، مجروح، احمد ندیم قاسمی ، عدم ، جانثار اختر وغیر ہ شامل ہیںاور ترقی پسند تحریک تک غزل پہنچتی ہے۔ اس کے بعد 1947ءکے بعد کچھ شاعر ہندوستان میں رہ جاتے ہیں اور کچھ پاکستان میں ۔
پاکستانی غزل تقسیم کے بعد47سے 57تک
کلاسیکی رجحان
شروع کے پاکستانی شعرا میں سے ایسے کئی شعراءتھے جو کہ پاکستان بننے سے پہلے شاعری کر رہے تھے ان میں سے کئی شعراءکلاسیکی رجحان سے متاثر رہے اور انھوںنے بعد میں بھی ان کو جاری رکھا جو کلاسیکی نقطہ نظر سے وابستہ تھے وہ حفیظ ہوشیار پوری اور حفیظ جالندھری ہیں ۔
حفیظ جالندھری
حفیظ کی غزل پر کچھ حوالوں سے اقبال کے اثرات رہے ہیں لیکن حفیظ کی غزل پر کلاسیکی نقطہ نظر موضوع اور اسلوب دونوں حوالوں سے اثرات پڑے۔ ترنم اور موسیقیت ان کے کلام کی اہم خصوصیت ہے۔ اُن کی غزل پر تمام کلاسیکی شعراءمیر، غالب ، اور مومن کے اثرات موجود ہیں۔
ارادے باندھتا ہوں ، سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
صوفی تبسم
صوفی تبسم پر بھی کلاسیکی اثرات نمایاں ہیں۔ ویسے تو یہ بچوں کی شاعری کے لیے مشہور رہے لیکن غزل کی شاعری بھی انہوں نے خوب کی ۔ فارسی روایت کا ان کے ہاں گہرا اثر رہا ۔ تبسم خوبصورت کلاسیکی موڈ کے ساتھ غزل کہتے ہیں۔ حسن و عشق کی لطافت لہجے کی خوبصورتی ، ترنم و موسیقیت ان کی شاعری میں موجود ہے۔
دل کو جب بے کلی نہیں ہوتی
زندگی زندگی نہیں ہوتی
موت کی دھمکیاں نہ دو ہم کو
موت کیا زندگی نہیں ہوتی
دل تبسم کسی کو دو پہلے
مفت میں شاعری نہیں ہوتی
ترقی پسند رجحان
اس رجحان میں وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعراءشامل ہیں جو47 سے پہلے بھی غزل کہتے رہے اور بعد میں خوبصورت غزل ان لوگوں نے کہی۔
فیض احمد فیض
فیض احمد فیض ترقی پسند شعراءمیں ایک بہت بڑا نام ہے۔ ان کے ہاں اردو غزل کے لہجے کی وہی روایتی خوبصورتی موجود ہے۔ جو کہ اردو غزل کا طرہ امتیاز رہا ہے۔انھوں نے اُنہی روایتی علامات کو نیا رنگ دے کر اپنی غزل میں پیش کیا۔ اور حقیقت اور رومان کا سنگم بنا کر غزل کہی
میدانِ وفا دربار نہیں یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں
کچھ عشق کسی کی ذات نہیں عاشق تو کسی کا نام نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
احمد ندیم قاسمی
احمد ندیم قاسمی کی شاعری میں نئے محبوب کی مکمل تصویر ہمیں نظر آتی ہے جو کہ عاشق کی طرح دکھ سہتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے نظریے کے حوالے سے بھی انہوں نے خوبصورت اشعار غزل میں کہے ہیں۔
پوچھ بیٹھا ہوں میں تجھ سے تیرے کوچے کا پتہ
تیرے حالات نے کیسی تیری صورت کر دی
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
عبدالحمید عدم
عبدالحمید عدم کی غزل میں روانی سرور و مستی اور حسن و عشق کی لطافت بنیادی عنصر ہے۔ خاص کر عدم کا موضوع ہمارے وہ منافقانہ روےے ہیں جو ہمارے معاشرے میں سیاسی و سماجی حالات کے باعث پید اہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ سیاسی جبر کے حوالے سے بھی عد م نے لکھا ہے۔
ہم کو شاہوں کی عدالت سے توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
اے عدم ہر گناہ کر لیکن
دوستوں سے ریا کی بات نہ کر
اس کے علاوہ محبت کے بارے میں اُن کے ایک شعر میں طنز کو آسانی سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔
اب ہم کو الزام نہ دینا
ہم بھی کچھ مجبور ہوئے ہیں
میر پرستی
ا س میں وہ شعراءشامل ہیں جن پرہجرت نے بہت اثر ڈالا ۔اس دور میں دکھ اور اداسیوں کی پرچھائیاں عام ہیں اس لیے اس دور میں جس شاعر کو سب سے زیادہ یاد کیا گیا وہ میر تقی میر ہیں۔ اس طرح بہت سے شعراءمیر پرستی کا شکار ہو گئے۔ کیونکہ میر کے دو ر اور 47 کے حالات میں تھوڑی بہت مماثلت ضرور پائی جاتی ہے۔میرسے متاثر ہونے والے شعراءمیں ناصر کاظمی، ابن انشاء،مختار صدیقی ، اور حفیظ ہوشیار پوری شامل ہیں۔
تاصر کاظمی
ناصر کاظمی کی غزل میں دکھ کی ہلکی سی سلگتی ہوئی آنچ نظر آتی ہے۔ دکھ میں چھلبلاہٹ ہوتی ہے غصہ ہوتا ہے لیکن ناصر کے ہاں یہ چیزیں نہیں بلکہ دبی دبی کیفیت موجود ہے جو کہ میر کا خاصہ ہے۔ لیکن ناصر میر کی تقلید نہیں کرتا بلکہ صرف متاثر نظرآتے ہیں ۔ ناصر نے جو دکھ بیان کیے ہیں وہ سارے دکھ ہمارے جدید دور کے دکھ ہیں ناصر نے استعارے لفظیات کے پیمانے عشقیہ رکھے لیکن اس کے باطن میں اسے ہم آسانی سے محسوس کرسکتے ہیں۔ محض عشق نہیں بلکہ ہجرت ، جدید دور کے مسائل ،اور دوسری بہت سی چیزیں ان کی غزلوں میں ملتی ہیں۔ مثلاً
کہاں تک تاب لائے ناتواں دل
کہ صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں
جنہیں ہم دیکھے کر جیتے تھے ناصر
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں
دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
ابن انشا
ابن انشاء کے ہاں بھی میر کا اثر نمایاں ہے۔ ان کے ہاں دکھ کی فضاءایسی محبت کے دکھ کی فضاءجو مکمل طور پر پختہ ہو چکی ہے اور جوانسان کو اندر سے توڑتی ہے۔ اس کا ذکر باہر نہیں ہوسکتا ۔ انشاءکے ہاں یہی درد ہمیں نظرآتا ہے۔ دوسرا حوالہ ان کی لفظیات اور ڈکشن ہے جس پر ہندی اثرات غالب ہیں۔ جو میر کے ہاں بھی ہمیں نظرآتے ہیں ۔مقلد یہ بھی نہیں ۔ رومان سے حقیقت کی طرف آتے ہیں ۔اور دنیا میں چاند نگر بنانا چاہتے ہیں۔ وہ اجتماعی دکھ کو چھپا کر انفرادی دکھ میں شامل کر دیتے ہیں۔
ہم رات بہت روئے بہت آہ و فغاں کی
دل درد سے بوجھل ہو تو پھر نیند کہاں کی
اللہ کرے میر کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی
مختار صدیقی
مختار صدیقی کا تعلق حلقہ ارباب ذوق سے رہا ۔ ان کے ہاں بھی زبان و بیان اور دکھ کے حوالے سے میر کے اثرات نمایاں ہیں۔
سب خرابے ہیں تمنائوں کے
کوبستی ہے جو بستی ہے یاں
حفیظ ہوشیا ر پوری
شاعری میں حفیظ ہوشیار پوری ، ناصر کاظمی کے استاد رہے۔ ان کے ہاں روایت کا بڑا سلیقہ ہمیں نظرآتا ہے ۔ ان کا عاشق محبت کرتے وقت سماجی اور تہذیبی اقدار کا بہت خیال رکھتا ہے۔ لہٰذا اس کے محبت کے باب میں ایک پردہ کا عمل ہے شور شرابہ نہیںبلکہ ہجر و فراق کی جان لیوا کیفیات موجود ہیں:
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
تیری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
تمام عمر تیرا انتظار ہم نے کیا
اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا
اس کے بعد 47 سے 57 تک کے دور میں دو اور اہم شعراء قتیل شفائی اور ادا جعفری ہیں۔
قتیل شفائی
ان کا تعلق ترقی پسندوں سے رہا ان کی شہرت کا سبب ان کی غزلیں اور گیت ہیں۔ ان کی غزلوں میں ترنم او ر موسقیت کا شعور ی انتظام موجود ہے ۔ محبت رومان ، قتیل کی غزل کی بنیاد ہے۔ ایسی محبت جس میں سرور و لطافت کی پرچھائیاں زیادہ ہیں دکھ اور مایوسی کم ہے ۔ جب کے ترقی پسند سوچ کے حوالے سے بھی ان کے ہاں اشعار کثرت سے ملتے ہیں:
مل کر جد ا ہوئے تو نہ سویاکریں گے ہم
ایک دوسرے کی یاد میں رویا کریں گے ہم
گنگناتی ہوئی آئیں ہیں فلک سے بوندیں
کوئی بدلی تیری پازیب سے ٹکرائی ہے
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
ادا جعفری
ادا جعفری کی شاعری میں بنیادی طور پر دو چیزیں شامل ہیں پہلی تہذیبی رویوں سے اسکے جذبے کا منسلک ہونا اور دوسری عورت ہونے کے ناطے عورتوں کے جذبات ، احساسات کی ترجمانی کرنا ہے۔ان کی شاعری میں محبت لطافت اور کچھ خارجی مسائل کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ادا نے سادہ اور خوبصورت غزلیں کہی ہیں:
ہونٹوں پہ کبھی اُن کے میرا نام بھی آئے
آئے تو کبھی برسرِالزام بھی آئے
میں نے سونپ دی جس کو کائناتِ جاں اپنی
وہ خدا نہ تھا لیکن کس قدر اکیلا تھا
57 اور 70 تک کے دور کی شاعری
1955ءاور 1960ءکے قریب نئی شعری تحریک شرو ع ہوئی ۔ اس دور میں شعر میں ایسی باتیں برتی جانے لگیں جو پہلے موجود نہ تھیں ۔ اس لیے اساس دور کی شاعری مکمل طور پر جدید شاعری ہے جس میں نیا ماحول اور نئی کیفیات ملتی ہیں۔اس ادب پر زیادہ تر اثر صنعتی تہذیب اورمشینی زندگی کا ہے۔ جس کی وجہ سے اس دور کی شاعری میں ان چیزوں سے فرار اور باطن کی طرف سفر کا عمل زیادہ ہے۔اور غزل میں داخل اور خارج کی کشمکش جاری ہے۔ فن اور اسلوب کے حوالے سے اس دور میں بڑی تبدیلی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ ہے یہاں کی غزل میں ہماری اپنی مٹی کی خوشبو ہے ۔ تمام استعارے اور لفظیات کا تعلق فطرت اور ہماری مٹی سے ہے۔ مثلا درخت ،پرندے ، سفر ، ہجرت ، گلی ، چاندنی ، دھو پ ، دھواں، منڈیر ، شاخیں ، بادل ، تنہائی ، سایہ جیسے لفظیات، آئیے اس دور میں نئی غزل کے شعراءکا جائزہ لیتے ہیں۔
احمد فراز
نئی شاعری کے حوالے سے ایک بڑا نام احمد فراز کا ہے ۔ جو 55 اور 60 کے درمیان سامنے آئے ۔ ان کے ہاں کلاسیکی نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ نئے دور کے مسائل بھی نظرآتے ہیں۔کہیں فیض کا اثر ہے اور کہیں ترقی پسندی لیکن فراز بنیادی طور ایک رومانی شاعری ہے۔ ان کی غزل کے موضوعات حسن و عشق پر مبنی ہیں۔پہلے کی شاعری میں محبوب بے وفا تھا لیکن فراز کے ہاں کا عاشق بھی بے وفا ہے یعنی اُس کا تصور ِ عشق آگے کی چیز ہے ۔
یہ غزل دین اُس غزال کی ہے
جس میں ہم سے وفا زیادہ تھی
دل منافق تھا شبِ ہجر میں سویا کیسا
اور جب تجھ سے ملا ٹوٹ کے رویا کیسا
فراز کے ہاں مسلسل تصورِ محبت میں بے وفائی کا عمل نظرآئے گا کئی جگہ وہ اقرار کرتا ہے:
ہم نے جس جس کوبھی چاہا تیرے ہجراں میں وہ لوگ
آتے جاتے ہوئے موسم تھے زمانہ تو تھا
اُن کے ہاں تصور عشق میں زمانہ کی تلخی اور فرسٹیشن بھی در آئی ہے :
اس زندگی میں کتنی فراغت کسے نصیب
اتنا نہ یاد آ کہ تجھے بھول جائیں ہم
آنکھ سے دو ر نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
منیر نیازی
منیر نیازی کی غزل کئی دکھوں سے تعمیر ہوئی اس میں محبت کے دکھ بھی ہیں اور سماجی در د بھی ۔ کہیں کہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ہاں سماج کے بہت سے اندرونی دکھ محبت کے دکھ میں مل گئے ہیں۔ اور یہ دونوں دکھ مل کر کوئی اکائی تشکیل دے رہے ہیں۔
اُس آخری نظر میں عجب درد تھا منیر
جانے کا اس کے رنج مجھے عمر بھر رہا
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر
غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں
صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا
منیر کے ہاں دو الفاظ بہت زیادہ ہیں ایک شہر اور ایک سفر ۔ ایسا لگتا ہے کہ منیر کی غزل کی غزل کا مسافر اندھیرے میں کھو گیا ہے ۔ اور شہر کے سارے مناظر اندھیرے میں کھو گئے ہیں ۔ اس لیے اُن کے ہاں سایے اور دھند کی کیفیت ملتی ہے۔ اُن کے ہاں تنہائی اور خوف کی فضاءموجود ہے۔ جو اُس دور کے نئے ماحول کو ظاہر کرتی ہے۔
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمین پہ اٹھا دینا چاہیے
میری ساری زندگی کو بے ثمر اُس نے کیا
عمر میر ی تھی مگر اس کو بسر اُس نے کیا
شہر کو برباد کرکے رکھ دیا اُس نے منیر
شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اُس نے کیا
شہزاد احمد
شہزاد احمد کے ہاں دھند اور ساےے کی کیفیت تو نہیں مگر و ہ سماجی مسائل کی طرف ضرور آتا ہے اور خارجی حقیقتوں کو بیان کرتا ہے ۔ لیکن پس منظر میں تنہائی ، سناٹا اور نامرادی ان کے ہاں بھی موجود ہے۔ ان کے شاعری کے کردار شہر کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں جن کے احساس میں منافقتیں رچی بسی ہیں۔ جن کا بنیادی المیہ بے حسی ہے۔ وہ کہنا بہت کچھ چاہتے ہیں اور کرنا بھی لیکن وہ نہ کچھ کہہ سکتے ہیں اور نہ کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وطن کی مٹی کی محبت کا حوالہ بھی ان کے ہاں گہرا ہے۔
میرا وہ جادہ ہے جس پہ چلا تھا نہ کوئی
تم ہراک راہ میں نقشِ پا کفِ پا مانگتے ہو
انھوں نے سائنس ،فلسفہ ، نفسیات کے موضوعات کو بھی غزل میں جگہ دی ہے۔ دکھ کے بیان کرتے وقت ایسے ماحول کو بیان کرتا ہے جہاں اس کے استعارے فطری ہوتے ہیں:
سوا نیزے پہ سورج آگیا ہے
یہ دن بھی اب بسر کرنا پڑے گا
بہت آتے ہیں پتھر ہر طرف سے
شجر کو بے ثمر کرنا پڑے گا
شکیب جلالی
شکیب جلالی وہ شاعر ہے جس نے 35 سال کی عمر میں خود کشی کر لی ۔ مرنے کے بعد اُس کی جیب سے ایک کاغذ کا ٹکڑا ملا جس پر یہ شعر لکھا ہوا تھا:
تونے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
ان کے ہاں کلاسیکی لطف ضرور ہے لیکن وہ بہت سے حوالوں سے جدید شاعر ہیں جس نے اپنی غزل میں جدید ماحول،اقدار اور جدید روےے پیش کیے ہیں ۔ ان کے ہاں ایک گہری بے اطمینانی اور انتشار کی کیفیت موجود ہے۔ جس میں سماجی گھٹن اور تنہائی بنیادی کردار ہیں اور یہ بے اطمینانی کا سلسلہ اس کی شخصیت سے مل جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ خودکشی کرتا ہے۔ محبوب کو اُنھوں نے ایک نئے زواےے سے دیکھا ایسا زاویہ جس سے شاید آج تک کسی نے نہ دیکھا ہو ۔ ان کے ہاں سارے رویوں میں بنیادی چیز جدید دور کی منافقت ہے جسے وہ سماج سے محبوب تک لے آیا ہے۔
دھوکے سے اُس حسین کو اگر چوم بھی لیا
پائو گے دل کا زہر لبوں کی مٹھاس میں
یہ اور بات وہ لب تھے پھول سے نازک
کوئی نہ سہہ سکے لہجہ کرخت ایسا تھا
ملبوس خوشنما ہیں مگر جسم کھوکھلے
چھلکے سجے ہو جیسے پھلوں کی دکا ن پر
اپنی انتشاری کیفیت کی وجہ سے وہ فطرت سے مکالمہ کرتا ہے۔اور اپنے دکھ فطرت کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہے۔ او رآخر یہ ساری بے اطمینانی ایک نقطے پر آکر ختم ہوجاتی ہے جب انسان نجات حاصل کرکے وقت سے آگے نکل جاتا ہے۔
کنارے آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی
گماں گزرتا ہے یہ شخص دوسرا ہے کوئی
درخت راہ بتائیں ہلاہلا کر ہاتھ
کہ قافلے سے مسافر بچھڑ گیا ہے کوئی
فیصل ِ جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدودِ وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
جون ایلیا
جون ایلیا پر مشاعروں میں پڑھتے ہوئے ایک جنون کی کیفیت طاری ہو جاتی ان کے ہاں محبت کے باب میں ایک بہت گہری شدت اور جذبے کی وارفتگی پائی جاتی ہے۔
کسی لباس کی خوشبو جب اُڑ کے آتی ہے
تیرے بدن کی جدائی بہت ستاتی ہے
میرے بغیر تجھے چین کیسے پرتا ہے
تیرے بغیر مجھے نیند کیسے آتی ہے
یہ مجھے چین کیوں نہیں آتا
ایک ہی شخص تھا جہاں میں کیا
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہو ں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
ایک اور مضبوط حوالہ ان کے ہاں وہی المیہ ہے جو ایک مادی دور میں روحانی انسان کا ہے۔ ایک ایسے شخص کا جو دل کی آواز کو باہر نکال رہا ہے۔
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز ایک چیز ٹوٹ جاتی ہے
عبیداللہ علیم
ان کی غزل میں محبت اور سماجی جدوجہد کے حوالے ملتے ہیں ۔ خاص طور پر جدید دور میں تصورِ حسن و عشق میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں اور معاشرے کا سناٹا ، تنہائی اور خاص کر عقائد اور حقائق کی کشمکش ان کا موضوع ہے۔ان کے ہاں عاشق اور محبوب دونوں محبت کرتے ہیں اور دکھ اُٹھاتے ہیں ۔
تم نے بھی میرے ساتھ اُٹھائے ہیں دکھ بہت
خوش ہوں کہ راہ شوق میں تنہا نہیں ہو ں میں
اُس نے پوچھا ہے بڑے پیار سے کیسے ہو علیم
اے غم ِعشق ذرا اور فروزاں ہونا
لیکن اس کے ساتھ ساتھ محبت کے باب میں اسے فکری تغیرات کا احساس بھی ہے انسانی مزاج کی تبدیلیاں بھی ان کی نظر میں ہیں مثلاً
میں ایک سے کسی موسم میں رہ نہیں سکتا
کبھی تو وصل کبھی ہجر سے رہائی دے
اس کے ساتھ علیم کے ہاں ملک میں ہونے والے ظلم و ستم اور بد امنی کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں :
میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں
موضوع اور اسلوب کے حوالے سے تجربات
تقریباً60 کی دہائی میں بہت سے شاعروں نے محسوس کیا کہ نئی غزل میں موضوع اور اسلوب دونوں حوالوں سے تبدیلی آنی چاہےے ۔ اس حوالے سے د و نام اہم ہیں ظفر اقبال ، اور سلیم احمد
ظفر اقبال
ظفر اقبال کی کتاب ”گلافتاب“ غزل میں تجربوں کے حوالے سے اہم ہیں۔ ان تجربات کی دو جہتیں ہیں پہلی کا تعلق موضوع سے ہے اور دوسری کا تعلق اسلوب سے ہے ۔ موضوعات میں انھوں نے روایتی موضوعات سے انحراف کرنے کی کوشش کی ان کا خیال ہے کہ ہر خیال غزل میں آنا چاہےے ۔ جو کچھ بھی سوچا جائے بیان کرنا چاہےے ۔ اب ہر چیز کے بیان کے عمل میں ان کے ہاں مزاحیہ کیفیت پیدا ہوتی ہے۔جہاں تک اسلوب کا تعلق ہے تو وہ ایسے الفاظ کو غزل میں لائے جو ہماری غزل میں بہت کم استعمال ہوئے ہیں۔ انہوں نے مقامی زبان کے الفاظ غزل میں شامل کیے :
ٹوٹے ہوئے مکاں کی ادا دیکھتا کوئی
سرسبز تھی منڈیر کبوتر سیا ہ تھا
تجربات کے علاوہ بھی اُن کے اشعار میں خوبصورت اشعار ہمیں ملتے ہیں
یہاں کسی کو کوئی حسبِ آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا
رو میں آئے تو خود ہی گرمئی بازار ہوئے
ہم جنہیں ہاتھ لگا کر ہی گنہگار ہوئے
جھوٹ بولا ہے ظفر تو اس پہ قائم بھی رہو
آدمی کو صاحبِ کردار ہو نا چاہیے
سلیم احمد
سلیم احمد بطور نقاد بھی اردو ادب میں اپنی ایک حیثیت رکھتے ہیں ۔ ابتداءمیں ان پر میر کا اثر رہا پھر حسرت کا اثر نمایاں ہے اور بعد میں یاس یگانہ چنگیزی سے متاثر ہوئے ۔ ان کے ہاں بھی غزل میں تجربات کے دو حوالے ہیں ایک اسلوبیاتی ، اور دوسرا موضوعاتی، موضوع کے حوالے سے وہ روح کے جھمیلوں سے نکل کر جسم اور روح کے امتزاج کی طرف آتے ہیں۔ اس طرح انھوں نے نئی غزل میں روح اور جسم ، سائنس اور جذبے کا حسین امتزاج پیش کیا ہے۔
اتنی کوشش بھی نہ کر میری اسیری کے لیے
تو کہیں میرا گرفتار نہ سمجھاجائے
وہاں دیوار اٹھا دی میری معماروں نے
گھر کے نقشے میں مقرر تھا جہا ں در ہونا
کربِ بدن سے کم نہ ہوئے دل کے فاصلے
اک عمر کٹ گئی کسی ناآشنا کے ساتھ
یہ کیسے لوگ ہیں صدیوں کی ویرانی میں رہتے ہیں
انھیں کمرے کی بوسیدہ چھتوں سے ڈر نہیں لگتا
1970ءکی دہائی کی غزل
اس دہائی کے زیادہ تر شاعر 47 کے بعد پیدا ہوئے اس طرح پاکستانی ادب کے سب سے زیادہ اثرات ان پر پڑے ۔ ان کے افکار میں سیاسی حالات کے ساتھ ساتھ جنگوں کا اثر بھی ہے ۔ خاص کر 65 اور 71 کی جنگوں کو داخلی سطح پر لیا ۔ 70 کی غزل میں مٹی سے وابستگی کے ساتھ ساتھ تاریخی مذہبی اور اساطیری رجحان نمایاں ہے۔ ان میں بعض شعراءکے ہاں فیض کی روایت کا اثر ہے ۔ جس میں محبت کے رویے کے ساتھ ساتھ انقلابی رویے بھی مل جاتے ہیں ۔ ان میں تین نام سب سے اہم ہے
پروین شاکر
پروین شاکر کا موضوع محبت رہا ہے لیکن اُس نے محبت کی جو کیفیات بیان کی ہیں وہ خالصتاً روحانی نہیں ۔ اس میں جسم کا لمس او ر جنسیت کا عمل بھی موجود ہے۔ انھوںنے مخصوص انداز میں نسوانی مسائل بیان کےے ہیں ۔ لہٰذا ان کے ہاں نسوانی جذبات لمس کی کیفیات اور خاص کر دوری کے عمل سے پیدا ہونے والا انتشار موجود ہے۔
کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزمائوں گی
میں اپنے ہاتھ سے اُس کی دلہن سجائوں گی
جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محبت کا
وہ کہہ رہا تھا کہ میں اُس کو بھو ل جائوں گی
پروین شاکر کی شاعر ی میں دوری کا المیہ بہت زیادہ ہے مثلاً:
اب بھی برسات کی راتوں میں بد ن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
محسن نقوی
محسن نقوی بھی اسی روایت کے شاعر ہیں جنہوں نے محبت کے حوالے سے خوبصورت اشعار کہے ہیں ۔اس کے علاوہ انقلاب کے حوالے سے اور جدید میں فرد کی محرومیوں اور تنہائی کے حوالے سے بہترین اشعار غزل میں کہے ہیں ۔شخصی انانیت کا رویہ محسن نقوی کی پہچان ہے ۔ انھیں اپنی ذات کا احساس ہے جو جگہ جگہ ہمیں اس کی غزل میں ملتا ہے۔ محبت کی کیفیات کو کچھ اس طرح شعر میں سمویا ہے :
بچھڑکے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے
ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ہے
اُسے گنوا کے زندہ ہوں اس طرح محسن
کہ جیسے تیز ہوا میں چراغ جلتا ہے
بچھڑتے وقت سے اب تک میں یوں نہیں رویا
وہ کہہ گیا تھا یہی وقت امتحاں کا ہے
انقلابی حوالے سے ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
میں سرِ مقتل حدیث ِزندگی کہتا رہا
انگلیاں اُٹھتی رہیں محسن میرے کردار پر
افتخار عارف
افتخار عارف کا تعلق بھی فیض کی روایت سے رہا ہے ۔ انہوں نے کربلا کے واقعے کو لے کے ہماری غزل میں سماجی مسائل سے ملا دیا ہے۔ دوسرا حوالہ ان کی وطن سے محبت کا ہے۔
میرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اُس کو گھر کر دے
میں اپنی خاک سے کٹ کر جیوں تو میرے خدا
اجاڑ دے میری مٹی کو در بدر کر دے
اساطیری اور تاریخی رجحان
70کی دہائی میں کچھ ایسے شاعر بھی ہمارے سامنے آتے ہیں جن کے ہاں وطن،زمین ، تاریخ اور اطیری ، مذہبی اور تہذیبی رجحان ملتا ہے۔ یہ شاعر اس ماحول میں رہتے ہوئے بھی تاریخ میں رہتے ہیں جس شخص کے ہاں یہ رجحان سب سے زیادہ وہ ثروت حسین ہیں
ثروت حسین
ثروت حسین کا ایک مجموعہ ”خاکدان “ شائع ہوچکا ہے۔ انہوں نے خو د کشی کر لی تھی۔ ان کی غزل میں ہمیں اساطیر اور تاریخ کی طرف سفر نمایاں ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی تلمیحات بھی ان کے ہاں نمایاں ہیں ۔ ان کی غزل میں شہزادے ، شہزادی ، پریزاد ، چاند ، ستارے جیسے الفاظ عام ہیں۔ وہ ایسا شخص ہے جو خوابوں میں رہتا ہے:
کبھی تیغ ِ تیز سپرد کی کبھی تحفہ گل تر دیا
کسی شاہزادی کے عشق نے میرا دل ستاروں سے بھر دیا
زمین چھوڑ کر نہیں جائوں گا نیا ایک شہر بسائوں گا
میرے وقت نے میرے عہد نے مجھے اختیار اگر دیا
اُن کے ہاں خواب زیادہ ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دنیا معدوم ہونے والی ہے اور یہی بے اطمینانی اُن کو موت کی طرف لے آتی ہے:
قسم ہے آگ اور پانی کی
موت اچھی ہے بس جوانی کی
موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروت
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خود کشی کے بارے میں
غلا م محمد قاصر
غلام محمد قاصر ان کی غزل میں کلاسیکیت اور اساطیر سے وابستگی زیادہ ہے ۔ اور اپنے اس کیفیت سے وہ ایک داستانوی ماحول بناتا ہے اور ہمیں ایک قدیم اساطیر اور تہذیب کی طرف لے جاتا ہے۔ لہٰذا اس کے ہاں تلمیحاتی نظام مضبوط ہے۔
کتاب ِ زندگی رکھتے ہیں تابِ زندگی کم ہے
نئے کردار ہیں ہم لوگ اگلی داستانوں کے
اُن کی اس کیفیت سے کئی راستے پھوٹے ایک تو یہ کہ جب اُس نے جدیددور کا مطالعہ کیا تو اُس نے محسوس کیا کہ یہاں محبت کی کمی ہے ۔ اور زمین پر محبت کا فقدا ن ہے۔ اور یہاں سے ہمیں کہیں اور جانا پڑے گا ۔ اور اس لیے انھوں نے اپنی طرح کے انسانوں کے اس قسم کے شعر کہے:
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
اکیلا دن ہے کوئی اور نہ نہ تنہا رات ہوتی ہے
میں جس پل سے گزرتا ہوں محبت ساتھ ہوتی ہے
جلیل عالی
جلیل کے ہاں غزل میں تہذیبی اور ثقافتی عناصر شامل ہیں ۔ اُن کے کچھ پرانے خوب ہیں ، وجود کے اندر پرانی دیواریں ہیں جن کو وہ اس عہد میں پیٹ رہے ہیں۔
اظہار الحق
اظہار الحق کے ہاں مسلم تہذیب کے نشیب و فراز موجود ہیں خاص کر تہذیبی نقوش موجود ہیں۔ ان کی لفظیات میں داستانوی رنگ نمایاں ہے ۔ جس میں غلام ، محل اور شاہزادے موجو د ہیں۔
صابر ظفر
صابر ظفر کی غزل میں ہمارے عہد کے کچھ مسائل ہیں ۔ ان کے ہاںایک طرف احساسات اور جذبات ہیں اور دوسری طرف ہماری نئی معاشرتی قدریں ہیں۔لیکن جدید حسیات کا وہ جہاں بھی ذکر کرتا ہے پس منظر میں ہماری تہذیب اور روایات موجود ہیں۔ وہ دونوں سلسلوں کو لیکر آگے بڑھتا ہے وہ نئے دور کی کچھ تصویریں بھی دکھاتا ہے ان تصویروں میں تنہائی، محرومی ، سناٹے اور خاص کر بے یقینی کی فضا موجود ہے مثال کے طور پر اُن کی ایک مشہور غزل ملاحظہ ہو:
دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے
اگرچہ بولتا کوئی نہیں ہے
میں ایسے جمگھٹے میں گر گیا ہوں
جہاں میرے سواکوئی نہیں ہے
کھلی ہیں کھڑکیاں ہر گھر کی لیکن
گلی میں جھانکتا کوئی نہیں ہے
جمال احسانی
جمال احسانی کا رویہ مادی اور معاشی دنیا میں ایک روحانی فرد کا ہے جو بہت چاہنے کے باوجود بھی معاشرے کے مادی اقدار کا حصہ نہ بن سکا اس لیے ان کا تخلیل ان کو ایک غیر مادی معاشرے کی طرف لے جاتا ہے ۔جو شاید تاریخی ہو سکتا ہے۔
تیرا انجام ہو اجو وہی ہونا تھا جمال
اس جہاں میں تو کسی اور جہاں کا نکلا
دراصل ان کی شاعر ی کا اصل موضوع دکھ ہے۔ جس کے باقی شعراءسے نوعیت مختلف ہے۔ اُن کا دکھ ذات سے شروع ہوتا ہے جس میں محبت کے دکھ بھی شامل ہو جاتے ہیں اور اس طرح اس کا دکھ ہمسائے کی طرف سفر کرتا ہے اور جب و ہ سے ان کی ذات میں لوٹتا ہے تو اس میں بہت سے سماجی ، تہذیبی اور معاشرتی اور روحانی زاوےے بھی شامل ہو چکے ہوتے ہیں ۔ اور پھر وہ دکھ ذات کا نہیں بلکہ ہر چیز کا دکھ بن جاتا ہے۔
چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
یہ سانحہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا
محبت اس دکھ میں بہت بڑا عنصر ہے
یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑے کی
کہ اب تو جاکے کہیں دن سنورنے والے تھے
ابھی تو منزل منزل ِ جاناں سے کوسوں دور ہوں میں
ابھی تو راستے ہیں یاد اپنے گھر کے مجھے
ان کے ہاں عشق دو طرفہ ہے لیکن مسئلہ ذات کے دکھ اور اس کی انانیت کا ہے جہاں محبت کرنے والے کو بھی کوئی محبت نہیں دے سکتا
جو لکھتا پھرتا ہے دیوار و در پہ نام میرا
بکھیر دے نہ کہیں حرف حرف کرکے مجھے
اگر ایسا نہ ہوتا تو ذات کا حوالہ کبھی اس میں شامل نہ ہوتا اور وہ یہ شعر کبھی نہ کہتا :
کمال اُس نے کیا اور میں نے حد کردی
کہ خود بدل گیا اُس کی نظر بدلنے تک
دکھ جب پڑوسی سے ذات کی طرف سفر کرتا ہے تو انسان اپنے آپ میں گم ہو جاتا ہے اور واپس پلٹ کر نہیں آتا :
اُس رستے میں پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑھی سیدھے پاؤں کی
اس کے علاوہ غلام حسین ساجد ، سلیم کوثر ، خالد احمد اور سجاد بابر وغیرہ بھی70 کے دہائی کے اہم شاعر ہیں ۔
مجموعی جائزہ
پاکستانی غزل ایک طویل ارتقائی سفر طے کرنے کے بعد آج جام مینا، گل و بلبل ، اور محبوب کے فرضی تصورات سے نکل کر جیتی جاگتی ، رواں دواں زندگی کی ٹھوس حقیقتوں سے نبرد آزما ہے۔ نئے شعرا نے نئے لفظیات اور نئی علامتوں کو متعارف کروایا۔ الغرض قیام پاکستان سے لیکر سقوط ڈھاکہ تک ، جہاد افغانستان سے لے کر روس کے زوال تک ، نیوورلڈ آڈر سے لے کر کشمیر تک اور بوسنیا میں ڈھائے جانے والے مظالم تک کوئی اہم واقعہ یا حادثہ ایسا نہیں جس کا عکس پاکستانی غزل میں نہ آیا ہو۔ بلکہ پاکستان کی مکمل تہذیبی اور سماجی تاریخ پاکستانی غزل کے آئےنے میں واضح نظرآتی ہے۔اور ہمیں ایک نیا اور پر امید اور حوصلہ کن پیغام دیتی ہے۔
ربط