پاکستانی معاشرہ کی تعریف کیجئے

arifkarim

معطل
ایک بڑا ماہر مصور تھا۔ اس نے ایک شاندار تصویر بنائی اور سرعام لٹکادی کہ اس کی غلطیاں بتائیں۔ بس، پھر تو لوگوں نے ڈھیر لگادیا۔۔۔ ہر جگہ نشانات کہ یہاں غلطی، یہاں غلطی۔۔۔ اس مصور نے ایک اور تصویر بنائی اور لکھا کہ اس میں کوئی غلطی ہو تو اصلاح کریں۔۔۔ کسی ایک نے بھی نہ چھیڑا۔
ایک محب الوطن

ہاہاہا، مجھے امید ہے یہ ماہر مصور یقینا ایک پاکستانی ہوگا! :grin:
 

شمشاد

لائبریرین
اس میں‌کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی سیاست ایک گند ہے جس میں کوئی بھی شریف آدمی شامل ہونا نہیں چاہتا اور نہ ہی گندے سیاستدان کسی شریف آدی کو سیاست میں آنے دیں گے۔ پاکستان کی سیاست غنڈہ گردی اور پیسے کی سیاست ہے۔ اور یہ پیسہ بھی غنڈہ گردی سے ہی حاصل کیا ہوا ہے۔ پاکستان کی سیاست اسلحے کی سیاست ہے۔ اسلحہ کے زور پر ووٹ بھی لیے جاتے ہیں۔ اکیلے چنے نے بہت دفعہ کوشش کر لی ہے بھاڑ جھونکنے کی لیکن کچھ نہیں بنا۔ وہی ڈھاک کے تین پات ہیں۔ رہی سہی کسر اسلام کے نام پر ووٹ لینے والے پوری کر دیتے ہیں۔ اور بعد میں اسلام کی بجائے انہیں بھی اسلام آباد ہی نظر آتا ہے۔
 

ماوراء

محفلین
کسی بھی معاشرے کا قیام اس میں بسنے والوں سے ہوتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ بھی ہم سب نے مل کر تخلیق کیا ہے۔ اور معاشرے میں ہر اچھائی ، برائی کے ذمہ دار بھی ہم خود ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جہاں اچھائیاں ہیں تو وہاں بہت سی خامیاں بھی ہیں۔ ہم سب میں سب سے بڑی یہی خامی ہے کہ معاشرے کی برائیوں، خامیوں کو ٹھیک کرنے کے بجائے اپنے ہی معاشرے کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں۔ اور ہم جیسے پردیسی دوسرے دوسرے ملکوں کے معاشرے کو بہترین کہنے لگتے ہیں۔ اور اپنے معاشرے میں بہتری لانے کے بجائے اس کی ہر ایک چیز پر نکتہ چینی کرنے لگتے ہیں۔ اور اسے نفرت سے دیکھنے لگتے ہیں۔
کسی اور معاشرے کے لوگوں نے آ کر ہمارے معاشرے کو ٹھیک نہیں کرنا۔ یہ ہم ہی ہیں، جنہوں نے قدم بڑھانا ہے۔ انفرادی طور پر ہی۔۔جو کچھ ہم کر سکتے ہیں، اس کو کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ لیکن مسئلہ یہی ہے کہ ہم اپنے گریبانوں میں جھانکتے ہی نہیں ہیں تو اپنی خامیاں کیسے نظر آئیں گی۔
ہم لوگوں نے خود ہی اپنے ملک کو بدنام کیا ہے۔ اور اپنے معاشرے کو بگاڑا ہے۔ پردیس میں رہنے والوں نے بھی کوئی کم کارنامے سرانجام نہیں دئیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا معاشرہ میں اس وقت بےشمار خامیاں ہیں۔ اور یہ بات حقیقت ہے کہ برائیاں، خامیاں انسان کو جلدی نظر آتی ہیں۔ اپنے معاشرے کی کن کن خامیوں کو بیان کیا جائے اب؟ :(

١۔ مذہب
- دین و مذہب سے دوری
- فرقہ واریت
- انتہاپسندی

٢۔ سیاست
- مخلص رہنماؤں کی کمی
- کرپٹ سیاستدان

٣۔ عدل و انصاف
- کرپٹ پولیس
- غریب کے لیے کوئی انصاف نہیں۔
- امیر جو مرضی کرتا رہے۔

٤۔ معاشرتی مسائل
- انسانیت کی کمی
ہمارے معاشرہ صرف امیروں کا معاشرہ ہے۔ غریب کی کوئی اہمیت نہیں۔
- خوشی و غمی کے مواقعوں پر بے جا اخراجات۔
- بے حیائی
- جھوٹ، فراڈ ، دھوکہ
- چوریاں، ڈاکے
- دہشت گردی، خودکش حملے


بلال نے شروع میں صحیح کہا ہے کہ اگر کسی غیر پاکستانی کو تعریف بتانی ہے تو اس کی تعریف ذرا الگ قسم کی ہو گی۔ چونکہ یہاں سب پاکستانی ہیں تو گلہ، شکوہ اپنوں سے ہی ہوتا ہے۔ اگر کوئی اور ہم سے پاکستانی معاشرے کی تعریف پوچھے تو یقیناً ہم تعریفوں کے پل باندھ دیں گے۔:grin:


 

ماوراء

محفلین
میں نے اس دھاگے کو آج ہی دیکھا ہے میں بھی اس پر لکھنا چاہتا ہوں انشاءاللہ کل لکھ کر لاؤں گا آج میں نے اس دھاگے کا پرینٹ لے لیا ہے سارا پڑھ کر پھر جواب دوں گا شکریہ خرم سینیئر صاحب
یہ پرنٹ کہاں سے کیا ہے؟ آفس سے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
ہماری ترجیحات:
1۔فرائض
2۔حقوق
نہ کہہ ، کرکے دکھا۔ ( ابوانیس محمد برکت علی لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ)
ہمارے مسائل اچھی باتیں نہ کہنے سے نہیں بلکہ ان پر عمل نہ کرنے سے پیدا ہوتے ہیں ، ایک بنو اور نیک بنو اگر میں نے ایک بھی بات اچھی کی ہے تو خدارا اس پر عمل کرو۔( امیر حزب اللہ سید فضل شاہ جلالپوری رحمۃ اللہ علیہ )
 

ساجداقبال

محفلین
حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے کی جامع تعریف ہو ہی نہیں سکتی جیسا کہ سب کہہ رہے ہیں کہ ہم فرقہ وارانہ، لسانی اور صوبائی طبقات میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہم کوئی ایسی تعریف نہیں کرسکتے جس پر بیک وقت سب متفق ہو سکیں۔
 
پاکستانی معاشرہ کی سب سے بڑی تعریف یہ ہے کہ اس ملک کا قانونی صدر غیرقانونی ہونے کے باوجود قانونی صدر ہے۔ آئین برقرار ہونے کے باوجود بھی معطل ہے اور سپریم کورٹ‌ باہر ہونے کے باوجود موجود ہے۔ قانون ساز ادارے ہونے کے باوجود ، موجود نہیں ہیں۔
ایک کہانی:
صدر بش کے پاکستان کے دورے کے دوران اس کی کار کا ایک پرزہ خراب ہوگیا۔ بش کو مش سے ملنے جانا تھا، لہذا جلدی تھی۔ بش کا بتایا گیا کہ کچھ انتظام کیا جارہا ہے ، دوسری کار چیک کی جارہی ہے۔ اور اس کار کا پرزہ ڈھونڈا جارہا ہے۔

ڈھونڈنے والے امریکی کے ساتھ اس کا اردو داں بھی تھا۔ چند جگہ وہ پرزہ دکھایا، لیکن کسی نے پہچانا نہیں۔ سب نے کہا فتو مستری کے پاس چلے جاؤ --- جگاڑ --- سے بنادے گا۔
فتو مستری کے پاس پہنچے ۔
فتو بولا، یہ ؟ ۔۔۔ صاحب ---- کچھ جگاڑ‌ لگاتے ہیں۔ اور تھوڑی سے دیر میں ہو بہو وہی پرزہ بنا کر دے دیا۔
امریکئ نے پوچھا، بھائی ۔۔۔۔ اتنی جلدی ۔ یہ ہو کیسے؟
پاکستانی نے کہا ۔۔۔۔ بھائی ۔۔۔۔ جگاڑ سے۔۔۔

امریکی جب بش کے پاس پہنچا تو اس کو "بریفنگ" دی کے یہ پرزہ " جوگار ٹکنالوجی " سے بنا ہے۔ اور ہم نے تو اس ٹکنالوجی کا نام بھی نہیں سنا۔ آپ مش سے کہیں کے ہم کو یہ ٹکنالوجی چاہئیے۔

بش جب مش سے ملا تو --- فوراً --- جوگار ٹیکنالوجی ٹرانسفر ----- کی فرمائیش کردی۔۔۔۔
مش ہکا بکا رہ گیا ۔۔۔۔۔ کہنے لگا ۔۔۔۔ سر ، یہ جگاڑ ٹکنالوجی ہم آپ کو کیسے دے دیں ۔ پھر ہمارے پاس بچے گا کیا؟ اسی جگاڑ سے تو میں صدر بنا ہوں !
 

خرم

محفلین
بلال، عمار اور ماوراء بہنا، اللہ آپ سب کو سلامت رکھے۔ جس امید کے ساتھ میں نے اردو محفل پر آنا شروع کیا تھا، الحمد للہ اب لگتا ہے کہ انشاء اللہ وہ امید پوری ہوگی۔ میرا ہمیشہ سے یہ ایقان رہا ہے کہ کسی بھی خوبصورت معاشرہ کی تشکیل ایک اجتماعی جدوجہد کی مرہون منت ہوتی ہے اور اس جدوجہد کا نقطہ آغاز ایک چھوٹے سے گروہ کی تشکیل سے ہوتا ہے جن کے پاس ایک ہی خواب ہو اور جو اپنے مقصد سے مخلص ہوں۔ جب یہ نیوکلیس میسر آجاتا ہے تو پھر اللہ کے کرم سے لوگ اس نیوکلیس کے گرد اکٹھا ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور کارواں بنتا جاتا ہے۔ مغل بھیا نے غلط اندازہ لگایا کہ میرا مقصد پاکستان کی ہنسی اُڑانا ہے۔ میرا مقصد تو ہمیشہ یہ رہا ہے کہ ہم پاکستانی اپنے ملک و معاشرہ میں پائی جانے والی خرابیوں و بیماریوں کا صحیح ادراک کریں، ان کے حل کی ذمہ داری کو اپنا اور صرف اپنا سمجھیں اور پھر تہیہ کریں ان مسائل کے حل کا اور چاہے جو بھی ہوجائے، راستی کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اسی لئے مختلف جگہوں پر، مختلف طریقوں سے اپنی بات کہنے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔
شمشاد بھیا، نہایت ادب کے ساتھ، سیاست بھی تو سُنتِ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اور پھر حق بات کا سمجھانا، بتانا اور اس پر عمل کرکے دکھانا تو سُنت اکبر کہوں گا میں۔ سیاست یہ نہیں ہوتی کہ آپ وزیر اعظم بن جائیں، مقصد یہ ہوتا ہے کہ قوم کی رفتار زندگی درست خطوط پر استوار کی جائے۔ ایک معاشرہ تشکیل دیا جائے جس میں حقدار کو اس کا حق ملے، مظلوم کو انصاف ملے، بھوکے کو روٹی ملے۔ مانا کہ آج کے سیاست دان ان باتوں سے دور ہیں لیکن کیا اس بات کو حجت مان لیا جائے کچھ بھی نہ کرنے کا؟ ایک مثال عرض کرتا ہوں۔ اگر کسی گاؤں میں صرف عطائی ہی دستیاب ہوں تو کیا وہاں کسی کا طب کی تعلیم حاصل کرنا ہی ممنوع کر دیا جائے؟ ایسی جگہ پر تو ایک مستند ڈاکٹر کی ضرورت مزید زیادہ ہوجاتی ہے۔ یہی صورت حال پاکستانی معاشرہ کی بھی ہے۔ ہمیں متحد ہوکر ایک نظریاتی قوت بننا ہوگا۔ ایک قوت جس کی بنیاد راستی اور حق کے نظریات پر ہو اور جو اپنے سفر عمل کے دوران نظریہ ضرورت سے محفوظ و مامون رہے۔ایک ایسا کارواں جس میں شامل ہر شخص کو اپنے مقاصد کا مکمل ادراک ہو۔ یہ سب خوابناک ہے، افسانوی ہے لیکن افسانے حقیقت میں بدلے جاسکتے ہیں۔ اور جب ہم سے پہلے اتنے سر پھروں نے مختلف ادوار میں مختلف علاقوں میں یہ کام کر دکھایا ہے تو ہم کیوں نہیں کرسکتے ایسا؟
بات صرف اتنی ہے کہ پہلے اپنی خامیوں کو خامیاں مانیں اور عہد کریں کہ ہم ان خامیوں میں حصہ دار نہیں بنیں گے۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ آتا ہے ایک باقاعدہ جماعت کی تشکیل کا۔ میرے خیال میں ہم ابھی پہلے مقام پر ہیں جب ہمیں اپنی خامیوں کا ادراک کرنا ہے۔ یہی مقصد تھا اس دھاگہ کے شروع کرنے کا۔ اور شمشاد بھائی، بلال، عمار اور ماوراء بہنا کے جوابات سے یقین ہوا کہ الحمد للہ اس راکھ میں چنگاریاں موجود ہیں۔
 

خرم

محفلین
باتیں ہی عمل بنتی ہیں عمار۔ ابھی دیکھئے کتنے لوگ ہیں جو یہ بات سوچتے بھی ہیں؟ تو سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ خود کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جو پاکستان کو نقصان پہنچائے۔ رشوت نہ دیں، منافع خوری نہ کریں کوئی غیر قانونی کام نہ کریں اور اپنے احباب و اعزہ کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دیں۔ پہلے ہمیں خود مثال بننا ہوگا پھر ایکدوسرے کی مدد کرنا ہوگی درست راستے پر چلنے میں۔ اگر ہم آج سے یہ تہیہ کر لیں اور اس پر عمل شروع کریں تو وقت تو لگے گا لیکن انشاءاللہ آہستہ آہستہ حالات بہتری کی جانب چلیں گے۔ سو آئیں، میں، آپ، بلال، ماوراء، مغل بھیا، شمشاد بھائی، ہم سب اس بات کا عہد کریں۔
 

شمشاد

لائبریرین
خرم بھائی اللہ آپ کو جزا دے لیکن مجھے یہ بتائیں جب ایک جائز کام بھی کسی طرح نہ ہو رہا ہو تو کوئی کیا کرئے۔ میرے پاس ایسی کئی مثالیں ہیں، جن میں میں خود بھی شامل ہوں کہ ایک جائز کام کے لیے سالوں سال جوتیاں چٹخاتے رہے، ہفتوں مہینوں کی بات نہیں کر رہا، سالہا سال کی بات کر رہا ہوں، اور کام بھی بالکل جائز لیکن پھر بھی نہیں ہو رہا۔ ادھر پیسے دو ادھر دنوں میں کام ہو جاتا ہے۔ اب کوئی کیا کرے۔

میرے ایک دوست ہیں، انہوں نے اپنی پرانی اور بوسیدہ دکان گرا کر دوبارہ تعمیر کروانی تھی۔ میونسپل کارپوریشن سے اجازت نامہ حاصل کرنا تھا۔ آپ یقین کریں وہ دس سال اس کوشش میں رہا کہ بغیر رشوت کے اجازت نامہ مل جائے، نہیں ملا۔ سوائے رشوت کے ہر حربہ آزما لیا لیکن ناکام رہا۔ آخر کار پچاس ہزار دیئے تو چند دنوں میں اجازت نامہ مل گیا۔
 

ملائکہ

محفلین
میں نے ایک جگہ کہیں پڑھا تھا کہ

آپ اپنے آپ کو نیک بنالیں اور یہ تصور کرلیں کہ ایک برا شخص اس دنیا سے ختم ہوگیا ہے


اگر ہم سب اپنی اپنی جگہ اپنے آپ کو ٹھیک کرلیں تو معاشرہ بہتری کی طرف آسکتا ہے اور یہ ذمہ داری معاشرے کے اہل علم افراد پر عائد ہوتی ہے
 
ملائکہ یہ بھی ایک سوچ ہے کہ ایک انسان خود اپنے آپ کو بہتر انسان بنائے اور یہ بھی ایک سوچ ہے کہ ایک ایسا نظام ہو کہ برے آدمی کی با آسانی نشاندہی ہوسکے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر انسان اپنے آپ کو خود اچھا بنا سکتے تو پھر یہ مذہبوں کی، عدالتوں کی، قانون کی ضرورت کیوں ہوتی؟
 

ملائکہ

محفلین
یہ بھی ہے مگر اصلاح تو سب سے پہلے اپنے آپ سے ہی شروع ہوتی ہے۔ایک ایسا نظام بننا جہاں برے لوگوں کی پہچان ہو یہی ہمیشہ سے تو پاکستان کا مسئلہ رہا ہے۔یہی ہماری بدنصیبی ہے:(:(
 

خرم

محفلین
شمشاد بھائی آپکے تجربہ سے اختلاف نہیں لیکن میرا اپنا تجربہ کافی مختلف رہا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میں نے گھی نکالنے کے لئے انگلیاں ہمیشہ زیادہ ٹیڑھی کی ہیں اور توپ سے چڑیا کاشکار کیا ہے۔ اگر معاملہ کانسٹیبل کا ہوا تو ایس ایس پی کی پاس گیا اور اگر لائن مین نے تنگ کیا تو شکایت ڈی ای سے کی اور دو دفعہ سے زیادہ کسی کے پاس نہیں گیا۔ اگر معاملہ نہیں بنا تو اس سے اوپر والے سے شکایت کی۔ اس سب کچھ کے دوران لڑائیاں بھی بہت ہوئیں، پاسپورٹ بنوانے گیا تو ٹاؤٹوں کے مسئلہ پر ڈائرکٹر سے الجھ پڑا، انہوں نےبھی مجھے شیو کروانے بھیجا لیکن بغیر پیسے دئے کام فوراً ہو گیا۔ اسی طرح لائسنس بنوانا تھا تو ایس ایس پی ٹریفک سے لڑ پڑا، لائسنس بن گیا بس کوشش یہی کی کہ بات ناجائز نہ کروں اور بد تمیزی نہ کروں۔ انصاف کا تقاضہ کرنا بہرحال بدتمیزی نہیں ہوتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
گزشتہ تین سال سے ایک ٹیچر کے تبادلے کا مسئلہ اٹکا ہوا ہے۔ تین سالوں میں اتنا ہوا کہ آرڈر ہو گئے۔ اب جب کہ سب کچھ ہو چکا ہے تو کلرک بادشاہ آرڈر جاری نہیں کرتے کہ پہلے پیسے دو۔ اور کھلم کھلا مانگتے ہیں۔ دوبارہ وزیر تک پہنچ کر دیکھ لیا ہے۔ مگر پیسے دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

آپ سپاہی سے کام کروانے کے لیے ڈی ایس پی اور ایس پی تک چلے گئے۔ لیکن یہاں لوگوں کے پاس نہ تو اتنا وقت ہوتا ہے اور نہ ہی پہنچ۔ کہ وہ جا سکیں اور بہت سے لوگ گھر بیٹھے پیسے دے کر کام نکلوا لیتے ہیں۔ پیسے نہ دو تو اتنے چکر لگواتے ہیں اور اتنا وقت ضائع کرواتے ہیں کہ بندہ سوچتا ہے کہ اس سے کم پیسوں میں تو ویسے ہی کام ہو جانا تھا۔

ہاں اگر سفارش تگڑی ہو تو بغیر پیسوں کے اور بغیر وقت ضائع کیئے آپ کا ناجائز کام بھی منٹوں میں ہو جائے گا۔

پہلے ایک مثال ہوتی تھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس، اب یہ مثال بدل گئی ہے اور اب " جس کا جتنا عہدہ، اس کی اتنی دھونس " ہے۔

پاکستانی معاشرے میں حلال حرام کی تمیز ختم ہو چکی ہے۔ اور رشوت وہ نہیں لیتا جسے ملتی نہیں۔ بصورت دیگر جہاں بھی سرکاری و غیر سرکاری دفاتر میں عوام کا واسطہ ہوتا ہے۔ بغیر رشوت کے کام ناممکن ہے۔

میں مانتا ہوں کہ کچھ لوگ ضرور ہوں گے جو رشوت نہیں لیتے ہوں گے اور کچھ لوگوں کے کام بغیر سفارش اور بغیر رشوت دیئے ہو جاتے ہوں گے لیکن اس کا تناسب آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔

پولیس میں تو پولیس والے آپس میں بھی رشوت دیتے اور لیتے ہیں۔
 
Top