پاکستانی
محفلین
پاکستانی معاشرہ دیکھنے میں بھی پرسکون اور تلاطم سے پاک دکھائی نہیں دیتا لیکن ذرا گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو معاشرے میں بہت زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے۔ اس کا اظہار اس رپورٹ سے ہوتا ہے جو لائیرز کمیٹی برائے انسانی حقوق پاکستان نے چند روز پہلے شائع کی ہے، اس میں یکم جنوری سے ستمبر 2006ء تک کے اعداد و شمار دیئے گئے ہیں اس کے مطابق ان نو مہینوں میں پاکستان میں 5800لوگوں نے خودکشی کی اور جس کے تین بڑے اسباب تھے1)بے روزگاری (2)غربت و افلاس (3)ڈپریشن کی بیماری۔ اس رپورٹ کے مطابق اوسطاً ہر مہنیے میں 500کے قریب لوگوں نے خود کشی کی اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں کس قدر دکھ اور آلام ہیں۔ ہر ماہ قریباً 500لوگوں کا خودکشی کرنا معاشرے کے مریض ہونے کی علامت ہے۔ اسی عرصے میں پاکستان میں مختلف وارداتوں میں 5282افراد قتل ہوئے۔ ان میں سے 385افراد پولیس کے ساتھ مقابلوں یا نام نہاد مقابلوں میں مارے گئے۔ ان میں سے کچھ جیل خانوں میں ہلاک ہوئے نو ماہ کے اس عرصے میں 2100عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ تقریباً 818مردوں اور عورتوں کو عزت کے نام پر قتل کی سزا دی گئی۔ اسی عرصے میں 3100بچوں پر جسمانی اور جنسی حملے کئے گئے۔ واضح رہے کہ متاثرہ بچوں کی بہت بڑی تعداد بے گھر لاوارث اور آوارہ زندگی گزارنے والی تھی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سٹریٹ کرائمز تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور تقریباً 2500موبائل فون اور 300گاڑیاں ہر روز یا تو چوری ہوتی ہیں یا گن پوائنٹ پر چھین لی جاتی ہیں۔ اسٹریٹ کرائم اگرچہ سارے ملک میں عام ہے لیکن کراچی میں اس کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ہر روز قریباً 500موبائل فون چھین لئے جاتے ہیں لیکن متاثرہ لوگوں کی غالب اکثریت اپنے نقصان کی اطلاع پولیس کو دینے سے گریز کرتی ہے اور بمشکل 50سے 70ایف آئی آرز درج کرائی جاتی ہیں۔ کراچی میں روزانہ 40سے 50گاڑیاں چھین لی جاتی ہیں اور ان میں سے اکثر کی رپورٹ پولیس کو مل جاتی ہے۔ ملک میں اس وقت چھوٹی بڑی 87جیلیں ہیں جن میں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدی رکھے گئے ہیں۔ اس وقت ان قیدیوں کی تعداد 90ہزار سے زیادہ ہے جو ان جیلوں کی حقیقی گنجائش سے کہیں زیادہ ہے۔ اس وقت ملک میں 200کے قریب افراد غائب ہیں اور ان میں دو قسموں کے لوگ زیادہ تر شامل ہیں: مذہبی جماعتوں کے کارکن اور بلوچ قوم پرست۔ اندیشہ یا اندازہ ہے کہ یہ 200لوگ ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں۔ کچھ درخواستیں عدالتوں میں زیر سماعت ہیں لیکن اکثر گمشدگان کے بارے میں ایجنسیاں اپنی لاعلمی کا اظہار کرتی ہیں۔ پچھلے نو ماہ میں قریباً 21صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ ایک کیمرہ مین اور ایک صحافی جاں بحق ہوئے۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے تین سینئر صحافی ودود مشتاق کیمرہ مین زاہد عظیم اور نذیر اعوان،ان کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ معاصر ”دی نیوز“ کے ایک رپورٹر شکیل انجم کے خلاف قتل کے تین جھوٹے کیس بنائے گئے۔ ایک نجی ٹی وی چینل کی نشریات وقتی طور پر روک دی گئیں کیونکہ اس نے اپنے صحافیوں کی گرفتاری کی خبر نشر کی تھی، نواب بگٹی کی ہلاکت کے بعد چھ ہزار کے قریب بلوچ قوم پرست نظربند کر دیئے گئے۔ اگرچہ بعد میں بتدریج ان کی بڑی تعداد رہا کر دی گئی لیکن اندازہ ہے کہ ایک سو کے لگ بھگ بلوچ قوم پرست نوجوان اب بھی زیر حراست ہیں لیکن کوئی ایجنسی ان کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ملک میں انسانوں کی اسمگلنگ کا کاروبار بھی بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے اور خیال ہے کہ زیر نظر عرصے میں پندرہ ہزار کے قریب لوگوں کو ناجائز طور پر ملک سے باہر بھیجنے کی کوشش کی گئی۔ لائرز کمیٹی برائے انسانی حقوق نے گزشتہ سال آٹھ اکتوبر کے زلزلہ زدگان کے حالات کا سروے کیا تو معلوم ہوا کہ مظفر آباد، بالاکوٹ میر پور مانسہرہ اور باغ کے علاقوں میں متاثرہ لوگوں کی اکثریت آج بھی ویسے ہی حالات سے دوچار ہے جیسے حالات سے وہ پچھلے سال دوچار تھی۔ متاثرہ لوگوں نے شکایت کی ہے کہ جو امداد تقسیم کی جاتی ہے وہ شفاف طریقے سے تقسیم نہیں ہوتی اسی طرح جو اربوں ڈالر زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے باہر سے آئے ہیں ان کا باقاعدہ حساب کتاب محفوظ نہیں سمجھا جاتا اور کوئی شخص اعتماد سے نہیں کہہ سکتا کہ باہر سے آنے والی رقوم انصاف کے مطابق اور طے شدہ ضابطوں کے تحت تقسیم کی جا رہی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ متاثرین کی بہت بڑی تعداد امداد کی منتظر ہے۔ لائیرز کمیٹی برائے انسانی حقوق کی اس اجمالی رپورٹ سے پاکستانی معاشرے کے حالات کی جو تصویر سامنے آتی ہے ہر زوایئے سے اور ہر لحاظ سے تشویشناک ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ معاشرے میں بے پناہ اونچ نیچ ہے۔ جاگیردارانہ اور قبائلی رسوم و رواج کا اب بھی دور دورہ ہے ریاست کی گرفت بہت کمزور ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے فرائض بحسن و خوبی ادا کرنے میں ناکام ہیں۔ عام شہری کے اندر انہی اسباب کی بنا پر عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے۔ ایک طرف زمینی حقیقتیں یہ ہیں دوسری طرف ملک کا حکمران طبقہ پاکستان کی ترقی کے قصیدے رات دن پڑھتا ہے اور بڑے بڑے کمالات انجام دینے کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ فی الحقیقت پاکستانی معاشرہ مختلف میدانوں میں ایک سرجیکل آپریشن کا طالب ہے لیکن اس کا اہتمام کون کرے جبکہ حکمران معاشرے میں کسی خرابی کی موجودگی کا اعتراف کرنے کے لئے ہی تیار نہیں ہیں نتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ روز بروز سنگین سے سنگین تر امراض کی گرفت میں آرہا ہے اور اصلاح احوال کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ کاش حکمرانوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا۔
حرف تمنا …ارشاد احمد حقانی
بشکریہ روزنامہ جنگ
حرف تمنا …ارشاد احمد حقانی
بشکریہ روزنامہ جنگ