پاکستانی نوجوانوں نے خون نکالے بغیر گلوکوز کی پیمائش کا آلہ ایجاد کرلیا

جاسم محمد

محفلین
پاکستانی نوجوانوں نے خون نکالے بغیر گلوکوز کی پیمائش کا آلہ ایجاد کرلیا
صبا ناز پير 19 اگست 2019
1781176-faizanmain-1566148765-455-640x480.jpg

اقرا یونیورسٹی کے طالبعلم فیضان احمد نے خون کا ایک قطرہ نکالے بغیر ذیابیطس کی شناخت کرنے والا کم خرچ آلہ تیار کیا ہے۔ فوٹو: صبا ناز

کراچی: اقراء یونیورسٹی کے ہونہار طالب علم نے ذیابیطس کے مریضوں کےلیے ایک آلہ تیار کیا ہے جس کی بدولت سوئی چبھوئے اور خون نکالے بغیر خون میں گلوکوز کی درست پیمائش کی جاسکتی ہے اور اس ساتھ ہی نبض کی رفتار کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔

یونیورسٹی کی فیکلٹی آف انجینئرنگ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے وابستہ طالب علم فیضان احمد نے اسے ’غیر تکلیف دہ خون کے ٹیسٹ‘ یا نان انویسیو بلڈ ٹیسٹ کا نام دیا ہے۔ دوسال کی محنت اور تحقیق کے بعد بنائے جانے والی اس ڈیوائس میں سوئی چبھو کر خون کے قطرے نکالنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

یہ دستی آلہ انفراریڈ، ایل ای ڈی، فوٹو ڈایوڈ، آئی سی اور دیگر سرکٹس پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں اس وقت ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 3 سے 4 کروڑ کے درمیان ہے۔ اسی صورتِ حال کے پیشِ نظر فیضان احمد نے اپنے استاد ڈاکٹر عرفان انیس کی سرپرستی میں ایسے نظام پر کام شروع کیا جو بار بار سوئی چبھو کر خون نکالنے کی ضرورت ختم کردے۔

68733644_673026639872054_3743478638901723136_n-1566148829.png


اس آلے کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس کی لاگت ڈیڑھ ہزار روپے ہے جو ہر ایک کی پہنچ میں ہے۔ یہ آلہ ان لوگوں کےلیے مفید ہے جنہیں دن میں بار بار خون میں گلوکوز ناپنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔

ڈیوائس میں ایک گول ڈبیا ہے جس میں انفراریڈ روشنی والی ڈایوڈز اور سینسر نصب ہیں۔ جیسے ہی کوئی شخص اس سیاہ ڈبیا میں انگلی رکھتا ہے تو روشنی انگلی پر پڑتی ہے۔ خون کی رنگت دیکھتے ہوئے ڈیوائس ڈسپلے پر نتیجہ دکھتا ہے کہ خون میں شوگر کا لیول اب کیا ہے۔

68949201_712311329190688_4156349975300669440_n-1566148833.png


فیضان نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ اس آلے میں مزید تبدیلیاں کرکے خون میں ہیموگلوبن کی مقدار بھی معلوم کی جاسکے گی۔ ’’ایک جرمن کمپنی ایسے ہی آلے پر کام کررہی ہے، میں نے اپنا منصوبہ مختلف صنعت کاروں کے سامنے پیش کیا ہے جسے بہت سراہا گیا ہے،‘‘ فیضان نے کہا۔ ان کے مطابق اسے مزید مختصر کرکے اتنا چھوٹا کیا جاسکتا ہے کہ یہ مٹھی میں سما سکے گا۔
 

محمد سعد

محفلین
اگر یہ سپیکٹرومیٹری کر رہے ہیں تو مجھے اس سینسر کی تفصیل چاہیے۔ کب سے اس تلاش میں ہوں کہ کوئی مناسب قیمت کا سپیکٹروسکوپ ہاتھ لگ جائے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک ایپ بھی ہے جو اسی طرح انگلی رکھنے سے دل کی دھڑکن بتا دیتی ہے لیکن اس میں مارجن آف ایرر کافی زیادہ ہے۔ اگر اس ایجاد میں مارجن آف ایرر کم ہے تو یہ واقعی خاصے کی چیز ہوگی کیونکہ خون میں گلوکوز کی مقدار پر تو ڈاکٹرز بہت اہم فیصلے کرتے ہیں۔ اور ہیموگلوبن کے لیے تو لیبارٹری کو "تکلیف" دینی پڑتی ہے۔ دیکھیے یہ کب "کامیاب" ہوتی ہے۔
 

رانا

محفلین
یہ صرف گلوکوز بتاتی ہے جبکہ کراچی میں ایک مشہور حکیم مرسلین تو نبض دیکھ کر مریض کی پوری ہسٹری بتادیتے تھے۔:)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک ایپ بھی ہے جو اسی طرح انگلی رکھنے سے دل کی دھڑکن بتا دیتی ہے لیکن اس میں مارجن آف ایرر کافی زیادہ ہے
دھڑکن کے لیے تو انگلی کو کلائی پر رکھنا ہی کافی ہے ۔ اس کے لیے کسی چیز کی ضرورت نہیں سوائے سیکنڈ والی گھڑی کے۔
البتہ انفرا ریڈ فریکوئینسی کے ذریعے سینسر کا محض رنگ سے گلوکوز کی مقدار کا تعین کرنا دلچسپ ہوگا اور اس سینسر کی سستی دستیابی بھی ایک اہم چیز ہو گی ۔
 
Top