پاکستانی ٹرک امریکہ میں
واشنگٹن ڈی سی کی مرکزی شاہراہ نیشل مال پر چالیسواں سالانہ لوک میلہ شروع ہو گیا ہے۔ہر سال گرمیوں میں بپاکیے جانے والے اس میلے کا اہتمام امریکہ کا مشہورثقافتی اور فنی ادارہ سمتھ سونیون کرتا ہے۔ اس برس کے میلے کا بنیادی موضوع کینیڈا کے البرٹا صوبے کی لوک زندگی کے مختلف پہلو ہیں، جن میں گھڑ سواری، موسیقی، رقص، دستکاری، کھانا پکانا اور لوک داستانیں وغیرہ شامل ہیں۔ میلے میں ایک طرف امریکہ کے آبائی باشندوں کا گوشہ ہے جہاں ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کی گئی ہے۔ ایک سٹال پر نواہو خواتین ٹوکریاں اور دستکاری کی دوسری مصنوعات بن رہی ہیں ، جب کہ ایک اور شعبے میں عمر رسیدہ سرخ ہندی خواتین لوک کہانیاں سناتی ہیں۔ سمتھ سونیون کو اس برس میلے میں دس لاکھ لوگوں کی شرکت کی توقع ہے۔
یہ سب اپنی جگہ لیکن میلے کے بیچوں بیچ ایک نظارہ ایساملتاہے جسے دیکھ کر بندہ ایک لمحے کے لیےچونک جاتا ہے۔ اور یہ ہے ایک عدد رنگارنگ پاکستانی ٹرک۔ بظاہر تو اس ٹرک میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یہ ایک عام سا چھہتر ماڈل بیڈ فورڈ ٹرک ہے جسے پاکستان میں ڈرائیور بھائی پیار سے راکٹ کہتے ہیں۔ غیر معمولی بات ٹرک کا اس مقام پر ہونا ہے۔ ٹرک کے قریب جا کر دیکھا تومعلوم ہوا کہ ایک پینٹربابو اپنے رنگ اور برش لیے ٹرک کے ڈالے ، یعنی عقبی حصے پر نقش و نگار بنانے میں مصروف ہے۔ معلوم ہوا کہ ان کا نام جمیل الدین ہے اور انہیں کراچی سے خاص طور پر ان نمائش کے لیے بلایا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ یہ ٹرک چار سال قبل اسی جگہ منعقد ہونے والے شاہراہِ ریشم میلے کے سلسلے میں بذریعہ بحری جہازکیلی فورنیا تک لایا گیا اور پھر وہاں سے کنٹینر میں ڈال کر واشنگٹن پہنچایا گیا۔ قریب ہی ایک امریکی صاحب کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھ سےاردو میں گفتگو شروع کر دی اور اردو بھی وہ شستہ ، شین قاف سے درست کہ اچھے اچھےاہلِ زبان شرما جائیں۔ یہ ڈاکٹر جوناتھن مارک کینوئر ہیں، جو ویسے تو ماہرِ آثارِ قدیمہ ہیں اور ہڑپا اور موہنجوداڑو میں پچھلے پچیس برس سے کھدائیاں کر رہے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ پاکستا ن کے لوک ٹرک آرٹ شناس بھی ہیں۔اس ٹرک کی نمائش کے پیچھے انہی کی کوششیں کارفرما ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس آرٹ کی جڑیں نو ہزار سال پہلے تلاش کی جاسکتی ہیں جب وادیِ سندھ کے قدیم باسی اپنی بیل گاڑیوں اور چھکڑوں کو آرائشی بیل بوٹوں اور نقش و نگار سے مزین کیا کرتے تھے۔ یہ گاڑیاں شاہراہِ ریشم پر تجارت کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔ خیال رہے کہ وادیِ سندھ اورعراق کےسمیری تمدن کے درمیان تجارتی روابط قائم تھےاور انہی راستوں سے سامانِ تجارت چین سے مشرقِ وسطیٰ اور پھر آگے یورپ تک لے جایا جاتا تھا۔
پینٹر جمیل نے بتایا کہ پاکستان کے ہر علاقے کا ٹرک آر ٹ الگ سے پہچانا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئٹہ کے ٹرکوں پر شیشے کا باریک کام کیا جاتا ہے،پشاور کے ٹرک لکڑی کے نفیس کام کے لیے مشہور ہیں جبکہ راولپنڈی کے کاریگر چمکدارپلاسٹک کی پٹیوں سے دیدہ زیب جھالریں بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ گویاآپ ٹرک کو دیکھ کر پہچان سکتے ہیں کہ اس کی تزئین کس علاقے میں کی گئی ہے۔
میں نے پاس کھڑے حیرت سے ٹرک کو تکتے اوراس کے آگے کھڑے ہو کر دھڑادھڑ تصاویر کھنچواتے گوروں کے خیالات جاننا چاہے تو اکثر کا ایک ہی سوال ہوتا تھا، کہ آخر اس ٹرک پر کونسے خاص مال کی ترسیل ہوتی ہےجو اسے اس قدر سجایا گیا ہے؟ میں کیا کہتا کہ آخر کونسا مال ہے جو ان پر نہیں ڈھویا جاتا۔
ایک نئے ٹرک کی سجاوٹ پر خرچ کتنا بیٹھتا ہے ؟ جمیل صاحب نے بتایا کہ یہ تو وہی بات ہے کہ جتنا گڑ ڈالوگے اتنا ہی میٹھا ہو گا۔جتنی مالک کی استطاعت ہو گی اور جتنا باریک اورنفیس کام وہ کروانا چاہے گا، اتنی ہی لاگت آئے گی۔ تاہم اس کام پر عام طور پردو لاکھ سے لے کر پانچ لاکھ روپے اٹھ جاتے ہیں اورعام طور پر ڈھائی سے تین مہینے کی محنت لگتی ہے۔
لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخرٹرکوں کے اس قدر بناؤسنگھار کا مقصد کیا ہے؟ اس سوال کے کئی جواب ممکن ہیں۔ ایک تو وہی ہزاروں برس پرانی روایت جس کا ذکر ڈاکٹر کینوئر نے کیا۔بعض ماہرین کا کہنا ہے اس کا باعث شاید ہمارے معاشرے کی تصنع پسندی اور معمولی چیزوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی عادت ہے۔لیکن بات یہ ہے کہ سجاوٹ تو ویسے ہی ہمارے مزاج کا حصہ ہے ۔ ہماری دیہاتی عورتیں اگر دیوار پر اپلے بھی تھوپتی ہیں تو وہ بھی کسی خوشنما ڈیزائن میں۔ لیکن ٹرک ڈرائیوروں نے تو اس کو انا کا مسئلہ بنا ڈالا ہے۔ اگر ان کے ٹرک کی تزئین ان کے معیارسے کم ہوجب کہ ان کاحریف ڈرائیور ایک سرتاپا سجے سجائے، سولہ سنگھار سے لیس ٹرک میں ہارن بجا کر پاس سےگزر جائے تو ایسے ٹرک کو چلانابڑی توہین کی بات سمجھا جاتا ہے۔
اور پھر اس ٹرک آرٹ سے ڈرائیور اپنے دلی جذبات کے اظہارکا کام بھی لیتے ہیں۔ ان ٹرکوں پر طرح طرح کے اقوالِ زریں، تبلیغی جماعت زندہ باد، ماں کی دعاجنت کی ہوا، فلمی اداکار ،کھلاڑی، فوجی جوان، غوری اور شہاب میزائل، ملک کے مشہور مناظرکی تصاویر، غرض کیا کچھ نہیں ملتا۔ گویا ٹرک کیا ہیں، چلتی پھرتی نمائشیں ہیں جو ملکِ عزیز کے گوشے گوشے میں دیکھنے والوں کے ذوقِ بصارت کو مفت تسکین فراہم کرتے ہیں۔
ان ٹرکوں کی ایک اور خصوصیت ان پر لکھی جانے والی شاعری ہے۔ ٹرک اشعار کے موضوعات کی وسعت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ہردلعزیز لوک گلوکار عطااللہ عیسیٰ خیلوی کے بارے میں ایک لطیفہ مشہور تھا وہ اپنے گانے کسی شاعر سے نہیں لکھواتے بلکہ شام کر جی ٹی روڈ کے کنارے پنسل کاپی لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ پندرہ ٹرک گزرے اور ایک عدد گانا تیار ہو گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہر دوسرے ٹرک میں آپ کو عطااللہ ہی کا گانا بجتا سنائی دے گا۔
گویاذات کا اظہار صرف صوفی، شاعر، ادیب اور فنکار ہی کا مسئلہ نہیں ہے ، ٹرک ڈرائیور بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ اس مضمون کا اختتام میں ایک اپنے پسندیدہ ’ٹرک شعر‘سے کرنا چاہوں گا:
ڈرائیور کی زندگی بھی عجیب کھیل ہے
موت سے بچ گیا تو سنٹرل جیل ہے
واشنگٹن ڈی سی کی مرکزی شاہراہ نیشل مال پر چالیسواں سالانہ لوک میلہ شروع ہو گیا ہے۔ہر سال گرمیوں میں بپاکیے جانے والے اس میلے کا اہتمام امریکہ کا مشہورثقافتی اور فنی ادارہ سمتھ سونیون کرتا ہے۔ اس برس کے میلے کا بنیادی موضوع کینیڈا کے البرٹا صوبے کی لوک زندگی کے مختلف پہلو ہیں، جن میں گھڑ سواری، موسیقی، رقص، دستکاری، کھانا پکانا اور لوک داستانیں وغیرہ شامل ہیں۔ میلے میں ایک طرف امریکہ کے آبائی باشندوں کا گوشہ ہے جہاں ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کی گئی ہے۔ ایک سٹال پر نواہو خواتین ٹوکریاں اور دستکاری کی دوسری مصنوعات بن رہی ہیں ، جب کہ ایک اور شعبے میں عمر رسیدہ سرخ ہندی خواتین لوک کہانیاں سناتی ہیں۔ سمتھ سونیون کو اس برس میلے میں دس لاکھ لوگوں کی شرکت کی توقع ہے۔
یہ سب اپنی جگہ لیکن میلے کے بیچوں بیچ ایک نظارہ ایساملتاہے جسے دیکھ کر بندہ ایک لمحے کے لیےچونک جاتا ہے۔ اور یہ ہے ایک عدد رنگارنگ پاکستانی ٹرک۔ بظاہر تو اس ٹرک میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یہ ایک عام سا چھہتر ماڈل بیڈ فورڈ ٹرک ہے جسے پاکستان میں ڈرائیور بھائی پیار سے راکٹ کہتے ہیں۔ غیر معمولی بات ٹرک کا اس مقام پر ہونا ہے۔ ٹرک کے قریب جا کر دیکھا تومعلوم ہوا کہ ایک پینٹربابو اپنے رنگ اور برش لیے ٹرک کے ڈالے ، یعنی عقبی حصے پر نقش و نگار بنانے میں مصروف ہے۔ معلوم ہوا کہ ان کا نام جمیل الدین ہے اور انہیں کراچی سے خاص طور پر ان نمائش کے لیے بلایا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ یہ ٹرک چار سال قبل اسی جگہ منعقد ہونے والے شاہراہِ ریشم میلے کے سلسلے میں بذریعہ بحری جہازکیلی فورنیا تک لایا گیا اور پھر وہاں سے کنٹینر میں ڈال کر واشنگٹن پہنچایا گیا۔ قریب ہی ایک امریکی صاحب کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھ سےاردو میں گفتگو شروع کر دی اور اردو بھی وہ شستہ ، شین قاف سے درست کہ اچھے اچھےاہلِ زبان شرما جائیں۔ یہ ڈاکٹر جوناتھن مارک کینوئر ہیں، جو ویسے تو ماہرِ آثارِ قدیمہ ہیں اور ہڑپا اور موہنجوداڑو میں پچھلے پچیس برس سے کھدائیاں کر رہے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ پاکستا ن کے لوک ٹرک آرٹ شناس بھی ہیں۔اس ٹرک کی نمائش کے پیچھے انہی کی کوششیں کارفرما ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس آرٹ کی جڑیں نو ہزار سال پہلے تلاش کی جاسکتی ہیں جب وادیِ سندھ کے قدیم باسی اپنی بیل گاڑیوں اور چھکڑوں کو آرائشی بیل بوٹوں اور نقش و نگار سے مزین کیا کرتے تھے۔ یہ گاڑیاں شاہراہِ ریشم پر تجارت کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔ خیال رہے کہ وادیِ سندھ اورعراق کےسمیری تمدن کے درمیان تجارتی روابط قائم تھےاور انہی راستوں سے سامانِ تجارت چین سے مشرقِ وسطیٰ اور پھر آگے یورپ تک لے جایا جاتا تھا۔
پینٹر جمیل نے بتایا کہ پاکستان کے ہر علاقے کا ٹرک آر ٹ الگ سے پہچانا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئٹہ کے ٹرکوں پر شیشے کا باریک کام کیا جاتا ہے،پشاور کے ٹرک لکڑی کے نفیس کام کے لیے مشہور ہیں جبکہ راولپنڈی کے کاریگر چمکدارپلاسٹک کی پٹیوں سے دیدہ زیب جھالریں بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ گویاآپ ٹرک کو دیکھ کر پہچان سکتے ہیں کہ اس کی تزئین کس علاقے میں کی گئی ہے۔
میں نے پاس کھڑے حیرت سے ٹرک کو تکتے اوراس کے آگے کھڑے ہو کر دھڑادھڑ تصاویر کھنچواتے گوروں کے خیالات جاننا چاہے تو اکثر کا ایک ہی سوال ہوتا تھا، کہ آخر اس ٹرک پر کونسے خاص مال کی ترسیل ہوتی ہےجو اسے اس قدر سجایا گیا ہے؟ میں کیا کہتا کہ آخر کونسا مال ہے جو ان پر نہیں ڈھویا جاتا۔
ایک نئے ٹرک کی سجاوٹ پر خرچ کتنا بیٹھتا ہے ؟ جمیل صاحب نے بتایا کہ یہ تو وہی بات ہے کہ جتنا گڑ ڈالوگے اتنا ہی میٹھا ہو گا۔جتنی مالک کی استطاعت ہو گی اور جتنا باریک اورنفیس کام وہ کروانا چاہے گا، اتنی ہی لاگت آئے گی۔ تاہم اس کام پر عام طور پردو لاکھ سے لے کر پانچ لاکھ روپے اٹھ جاتے ہیں اورعام طور پر ڈھائی سے تین مہینے کی محنت لگتی ہے۔
لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخرٹرکوں کے اس قدر بناؤسنگھار کا مقصد کیا ہے؟ اس سوال کے کئی جواب ممکن ہیں۔ ایک تو وہی ہزاروں برس پرانی روایت جس کا ذکر ڈاکٹر کینوئر نے کیا۔بعض ماہرین کا کہنا ہے اس کا باعث شاید ہمارے معاشرے کی تصنع پسندی اور معمولی چیزوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی عادت ہے۔لیکن بات یہ ہے کہ سجاوٹ تو ویسے ہی ہمارے مزاج کا حصہ ہے ۔ ہماری دیہاتی عورتیں اگر دیوار پر اپلے بھی تھوپتی ہیں تو وہ بھی کسی خوشنما ڈیزائن میں۔ لیکن ٹرک ڈرائیوروں نے تو اس کو انا کا مسئلہ بنا ڈالا ہے۔ اگر ان کے ٹرک کی تزئین ان کے معیارسے کم ہوجب کہ ان کاحریف ڈرائیور ایک سرتاپا سجے سجائے، سولہ سنگھار سے لیس ٹرک میں ہارن بجا کر پاس سےگزر جائے تو ایسے ٹرک کو چلانابڑی توہین کی بات سمجھا جاتا ہے۔
اور پھر اس ٹرک آرٹ سے ڈرائیور اپنے دلی جذبات کے اظہارکا کام بھی لیتے ہیں۔ ان ٹرکوں پر طرح طرح کے اقوالِ زریں، تبلیغی جماعت زندہ باد، ماں کی دعاجنت کی ہوا، فلمی اداکار ،کھلاڑی، فوجی جوان، غوری اور شہاب میزائل، ملک کے مشہور مناظرکی تصاویر، غرض کیا کچھ نہیں ملتا۔ گویا ٹرک کیا ہیں، چلتی پھرتی نمائشیں ہیں جو ملکِ عزیز کے گوشے گوشے میں دیکھنے والوں کے ذوقِ بصارت کو مفت تسکین فراہم کرتے ہیں۔
ان ٹرکوں کی ایک اور خصوصیت ان پر لکھی جانے والی شاعری ہے۔ ٹرک اشعار کے موضوعات کی وسعت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ہردلعزیز لوک گلوکار عطااللہ عیسیٰ خیلوی کے بارے میں ایک لطیفہ مشہور تھا وہ اپنے گانے کسی شاعر سے نہیں لکھواتے بلکہ شام کر جی ٹی روڈ کے کنارے پنسل کاپی لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ پندرہ ٹرک گزرے اور ایک عدد گانا تیار ہو گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہر دوسرے ٹرک میں آپ کو عطااللہ ہی کا گانا بجتا سنائی دے گا۔
گویاذات کا اظہار صرف صوفی، شاعر، ادیب اور فنکار ہی کا مسئلہ نہیں ہے ، ٹرک ڈرائیور بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ اس مضمون کا اختتام میں ایک اپنے پسندیدہ ’ٹرک شعر‘سے کرنا چاہوں گا:
ڈرائیور کی زندگی بھی عجیب کھیل ہے
موت سے بچ گیا تو سنٹرل جیل ہے