قمراحمد
محفلین
پاکستان اورطالبان مسئلہ کیاہے؟
(قسط 1)
چوراہا … حسن نثار
(قسط 1)
چوراہا … حسن نثار
کسی اگلی ہجرت کا سوچنا ہو گا یا شانہ بشانہ اس خانہ خراب کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ اس ملک کے ہر باشعور زندہ ذہن اور زندہ ضمیر شخص کو میدان میں اترنا اور یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ پاکستان یا طالبان؟ سبحان اللہ ملاحظہ ہو کہ ایک قانون دان اقبال کے سوچے اور دوسرے قانون دان بانی ٴ پاکستان محمد علی جناح کے بنائے ملک کے لئے جمہوریت اور وکالت کو حرام اور ان عدالتوں کو بت خانے اور غیرشرعی قرار دے رہے ہیں جن کے سربراہ کی بحالی کے لئے عوام نے سردھڑ کی بازی لگائے رکھی جبکہ ان کے نزدیک ججز بحالی کی تحریک نے کفر کو تقویت دی ہے یعنی اس تحریک کا ہر ہیرو ولن ہی نہیں شیطان ہے۔
مومن کی فراست سے ڈرنا چاہئے اور ان کی وحشت کے نزدیک تو شاید عہد حاضر کے 90 فیصد پیشے حرام ہیں اور جن کے متعلق فرمایا گیا کہ وہ عصر حاضر کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہیں پتھر کے زمانے سے تعلق ہی نہیں رکھتے اس پر فخر بھی کرتے ہیں اور اس مائنڈ سیٹ کو سمجھنے کے لئے ہمیں جناب مبارک حیدر کی ”تہذیبی نرگسیت“ سے رجوع کرنا ہو گا۔
”جہاں تک سید قطب کا تعلق ہے ان کی کتاب ”معالم فی الطریق“ کی ایک ایک سطر تیغ آبدار کی طرح ہر اس چیز کو کاٹنے کا عزم کرتی ہے جو اسلام کے علاوہ اس دنیا میں کہیں بھی موجود ہے (حالانکہ اسلام کے مطابق دین میں جبر نہیں اور حکم یہ ہے کہ ان کے جھوٹے خداؤں کو بھی برا نہ کہو تاکہ وہ جواباً تمہارے سچے خدا کے بارے کچھ نہ کہیں)۔ یہ کتاب (معالم فی الطریق) آج کی تحریک غلبہ اسلام کے منشور کا درجہ رکھتی ہے۔ اس منشور کو سمجھنے کے لئے ساری کتاب کو پڑھنا ضروری ہے تاہم چند اقتباسات نقل کئے جاتے ہیں۔ پہلے باب میں تعارف کے طور پر لکھتے ہیں:
”اگر اسلام نے نوع انسانی کی پھر سے قیادت کرنی ہے تو پھر ضروری ہے کہ مسلم معاشرہ اسلام کی اصل صورت میں بحال کیا جائے “ (یہاں اصل صورت سے مراد ظاہری اور سطحی اصل صورت ہے اسی لئے ظواہر پر حد درجہ زور ہے چاہے وہ حلیہ ہو یا سیاق و سباق سے ہٹی ہوئی سزائیں) ۔
پھر فرماتے ہیں :
”جسے دنیائے اسلام کہا جاتا ہے وہ یورپ کے تخلیقی حسن سے مکمل طور پر خالی ہے اس کے باوجود اسلام کو بحال کرنا ضروری ہے“(حالانکہ اسلام کی بحالی کا اصل مطلب ہی یہ ہے کہ اس کے تخلیقی حسن کو ڈھونڈا، بحال کیا یا ازسرنو دریافت کیا جائے کہ اسلام کی حقیقی عظمت ہی اس کے تخلیقی حسن میں پنہاں ہے) ۔
سید قطب صاحب کے اس اقتباس کا تو جواب ہی نہیں۔
”مسلم معاشرہ کے لئے نہ یہ ممکن ہے نہ ہی ضروری کہ وہ اپنے آگے دنیا کا سر جھکانے کے لئے اور دوبارہ دنیا پر اپنی قیادت قائم کرنے کے لئے مادی ایجادات میں اپنی عظیم صلاحیت پیش کرے۔ اس میدان میں یورپ کا تخلیقی ذہن کہیں آگے ہے اور کم از کم کئی صدیاں ہم ان میدانوں میں یورپ کا مقابلہ کرنے اور اس پر فوقیت پانے کی توقع نہیں کر سکتے “ (یہ چند سطریں اعتراف شکست کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اعلان ہیں کہ کوئی بھونڈا شارٹ کٹ تلاش کیا جائے چاہے اس کے نتیجہ میں مکمل بربادی کا سامنا ہی کیوں نہ ہو) ۔
لکھتے ہیں :
”جدید دنیا کو دیکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ ساری دنیا جاہلیت میں غرق ہوئی پڑی ہے“ (حالانکہ وہاں عدالتی سے لے کر اقتصادی تحفظ تک سب کچھ موجود ہے ۔ وہ چاند پر سبزیاں اگا رہے ہیں، کائنات کے اسرار و رموز کی تلاش میں ہیں)
مزید لکھتے ہیں :
”اللہ کی حاکمیت کا یہ نیا نظام صرف ہمارے پاس ہے جسے دنیا نہیں جانتی۔ اس نئے نظام کو دنیا پر دوبارہ غالب کرنے کے لئے ضروری ہے کہ احیائے اسلام کی تحریک کسی ایک ملک میں قائم کی جائے۔ اس لئے لازم ہے کہ اس تحریک کا ایک ہراول دستہ جو عزم کر کے جاہلیت کے اس وسیع سمندر میں اپنا راستہ بناتا جائے گا، جس نے دنیا کو گھیر رکھا ہے تاکہ جاہلیتی نظاموں کو ختم کر کے اللہ کی حاکمیت قائم کی جائے“۔
پھر ایک اور اعتراف جو بدترین تضاد کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے۔
”آج ہم بھی جاہلیت میں گھرے ہوئے ہیں جو اسی طرح کی ہے جو اسلام کے پہلے دور میں تھی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ گہری ہے۔ ہمارا پورا ماحول، لوگوں کے عقائد اور خیالات، عادات اور فنون، ضابطے اور قانون سب جاہلیت ہے۔ اس حد تک کہ جسے ہم اسلامی ثقافت ، اسلامی مآخذ، اسلامی فلسفہ اور اسلامی فکر سمجھتے ہیں وہ بھی سب جاہلیت کے تعمیر کردہ ہیں“۔
(جاری ہے)