پاکستانی کرکٹ ٹیم ہدف کا پیچھا کرنے میں ہمیشہ کمزور ثابت ہوئی ہے۔ رنز کے اتنے بڑے پہاڑ کو دیکھ کر پاکستانی بلے بازوں کی سٹی گم ہونا ہی تھی اور یہ ہار اسی وقت سے متوقع ہو گئی تھی جب آسٹریلیا کی رنز اوسط 10 سے اوپر چلی گئی تھی۔ بیس اووروں کے میچ میں 7 رنز سے اوپر کی اوسط بعد والی ٹیم کے لئے کافی مشکلات پیدا کر دیا کرتی ہے۔ پاکستانی باؤلنگ اتنی زیادہ ناکام نہیں ہوئی ۔ آسٹریلیا کے 7 کھلاڑی آؤٹ کرنا اور 11 رنز کے قریب پہنچی ہوئی اوسط کو 8.5 کے قریب کے لے آنا باؤلروں کی محنت کی وجہ سے ممکن ہوا۔ 111 پر آسٹریلیا کا پہلا کھلاڑی آؤٹ ہوتا ہے اور اس وقت یہ گمان تھا کہ پاکستان کو 200 رنز یا اس سے زیادہ کا ہدف ملے گا لیکن پاکستانی بالرز کی نسبتاً بہتر کارکردگی کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا۔
فیلڈنگ بھی بری نہیں کہی جا سکتی۔ سوائے ایک آدھ مسنگ کے باقی معاملہ ٹھیک ہی تھا۔
بیٹنگ البتہ بری طرح ناکام ہوئی۔ عمران نذیر کے جلد آؤٹ ہو جانے کے بعد گویا بوری میں سوراخ ہو گیا اور دانے گرنے لگے ۔ 19 رنز پر 5 کھلاڑی پویلین واپس لوٹ گئے۔ بُڈھے گھوڑے اس میچ میں بھی سب کو کھٹکے۔ شعیب ملک کی پہلے تو بالنگ میں جم کے دھلائی ہوئی اور پھر بیٹنگ میں اس کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ عبدالرزاق کی اس میچ میں ہرگز جگہ نہ تھی۔ اگرچہ اس نے 13 رنز بنائے لیکن اس کی بجائے کسی سپنر کو کھلایا جاتا تو بہتر ہوتا۔ چونکہ پاکستان سیریز پہلے ہی سے جیت چکا تھا اس لئے آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم کے خلاف ینگ پلئیرز کو پریکٹس کروانے کا یہ بہترین موقع تھا لیکن ہمارے سلیکٹرز نے اس پر توجہ نہ دی۔
سعید اجمل ایک بار پھر قابلِ تعریف رہا۔ 4 اووروں میں انیس رنز اور 2 وکٹیں اس میچ کے تناظر میں شاندار کارکردگی کہلائے گی۔
اس میچ میں بھی اچھی کرکٹ دیکھنے کو ملی۔ 12 اووز تک آسٹریلیا کی طرف سے دھلائی اور آخری 8 اوورز میں پاکستانی بالرز کی کھیل میں واپسی اور آسٹریلیا کے جن کو 168 تک محدود کرنا۔ اس کے بعد پاکستان کے ابتدائی اوورز میں پاکستانی بلے بازوں کی بد حواسیاں اور 19 رنز پر 5 مستند کھلاڑیوں کی رخصتی اور بعد ازاں آخری 5 کھلاڑیوں کی طرف سے قدرے مزاحمت بہت دلچسپ رہی۔
آسٹریلوی ٹیم نے اس میچ میں ہر شعبے میں پاکستان سے بہتر کارکردگی دکھائی اور بلا شبہ وہ اس جیت کی مستحق تھی۔