حاتم راجپوت
لائبریرین
بھارت کے زیرانتظام کشمیر اور پاکستان کے صوبہ پنجاب اور کشمیر کے علاقوں میں مسلسل بارشوں کی وجہ سے مختلف واقعات میں تقربیاً 117 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔
سرینگر میں ہمارے نامہ نگار ریاض مسرور کے مطابق بھارت کے زیرِ کشمیر میں حکومت نے تصدیق کی ہے کہ جمعرات کو سیلابی ریلے نےباراتیوں سے بھری جس مسافر بس کو بہا لیا تھا، اس میں سوار سبھی پچاس افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ جموں کے ڈویژنل کمشنر شانت منو نے بی بی سی کو بتایا: ’ چار لاشیں برآمد ہوئی ہیں اور دیگر لاشوں کی تلاش جاری ہے۔‘
مون سون کی بارشوں نے پاکستان کے مختلف حصوں میں بھی تباہی مچا دی ہے ۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے وفاقی ادارے این ڈی ایم کی ویب سائٹ پر جاری بیان کے مطابق بارشوں کی وجہ سے صوبہ پنجاب میں اب تک 30 افراد ہلاک اور 32 زخمی ہوئے ہیں جبکہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں 10 افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے ہیں۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بارشوں سے نقصان
جموں کے دیگر اضلاع اور کشمیر میں مختلف واقعات کے دوراں 27 افراد مارے گئے ہیں۔ مختلف اضلاع میں لوگوں نے بتایا کہ انتظامیہ کی غفلت سے انھیں مشکلات کا سامنا ہے۔
علیحدگی پسند رہنما سید علی گیلانی نے بھی بحرانی صورتحال سے نمٹنے میں حکومت کی مبینہ ناکامی پر اہل اقتدار کی تنقید کی ہے۔ انھوں نے اعلان کیا کہ ان کے کارکن لوگوں کی رضاکارانہ مدد کے لیے متاثرہ آبادیوں کی طرف نکل پڑے ہیں۔
دریں اثنا کشمیر کے وزیرخزانہ عبدالرحیم راتھر نے جمعرات کو دیر رات ایک پریس کانفرنس میں بتایا: ’یہ سچ ہے کہ کچھ علاقوں میں خراب موسم کی وجہ اسے امدادی کام میں خلل پڑا ہے لیکن ہم24گھنٹے چوکس ہیں۔ ہیلی کاپٹر تیار ہیں لیکن ہمیں خراب موسم کی وجہ سے اڑان کا کلئیرنس نہیں مل رہا ہے۔ جونہی پرواز کے لیے موسم سازگار ہوجائے گا ہم متاثرہ علاقوں میں امدادی کام میں تیزی لائیں گے۔‘
ہلاکتوں کی تفصیل دیتے ہوئے حکام نے بتایا کہ چار فوجی اہلکار کپوارہ میں اُس وقت مارے گئے جب بارش کی وجہ سے مٹی کا تودا ان کی گاڑی پر آ گرا۔ جموں کے ریاسی اور پونچھ اضلاع میں خاتون اور بچے سمیت 12 افراد ہلاک ہوگئے۔ جنوبی کشمیر کے کوکرناگ میں دو، شمالی ضلع بارہمولہ میں دو اور بڈگام میں دو افراد ہلاک ہوگئے۔
کشمیر اور جموں خطوں سے تین دریا، جہلم، سندھ اور چناب بہتے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ تینوں دریاوں کا پانی خطرے کے نشان سے اُوپر تک پہنچ گیا ہے۔ حکومت نے دریائے جہلم اور سندھ کے کناروں پر یا ان کے نزدیک آباد بستیوں کومکان خالی کرنے کے لیے کہا ہے۔ سرینگرمیں انسداد بحران سے متعلق ایک کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے۔ سرکاری ترجمان کے مطابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ خود اس کنٹرول روم کی نگرانی کررہے ہیں۔
بدھ کی رات کو ہی سرینگر کے کئی ہسپتالوں میں داخل مریضوں کو نکالا گیا کیونکہ یہاں کے اکثر ہسپتال دریائے جہلم کے کنارے واقع ہیں۔ اس دوران گاندربل، کنکن اور سونہ مرگ کی طرف سے تیزرفتار دریائے سندھ میں میں کئی لوگ بہہ گئے۔ تاہم ڈویژنل کمیشنر روہت کنسل نے بتایا کہ فوج، پولیس اور سول اہلکاروں کی فوری امدادی کاروائی سے انہیں بچالیا گیا۔
موسمیات محکمہ کے سربراہ سونم لوٹس کا کہنا ہے کہ مان سُون بارشوں کا سلسلہ مزید کئی دن تک جاری رہے گا اور کہیں کہیں پر برفباری کا بھی امکان ہے۔ اس دوران بارشوں سے نہ صرف دیہات میں سیلابی صورتحال ہے بلکہ سرینگر اور دوسرے قصبوں میں بھی شاہراہیں ایک دریائی منظر پیش کررہی ہیں۔ سکول اور کالج بند ہیں اور تمام امتحانات ملتوی کردیے گئے ہیں۔ چار سو کلومیٹر سرینگر۔لداخ اور تین سوکلومیٹر مسافت کی سرینگر۔جموں شاہراہیں بھی آمدورفت کے لیے بند ہیں۔
کشمیر میں پاکستان کے ساتھ لگنے والی حدمتارکہ یا لائن آف کنٹرول اور باقاعدہ سرحد کے قریبی علاقوں میں سیلاب کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔ ان پہاڑوں خطوں میں تیز بارش کی وجہ سے مٹی کے تودے گرنے سے فوج کے کئی عبوری ٹھکانے تباہ ہوگئے ہیں۔
سابق سرکاری افسر نعیم اختر کا کہنا ہے: 'تاریخ گواہ ہے جب بھی اگست یا ستمبر میں اس پیمانہ کی بارش ہوتی تھی، کشمیر سیلاب میں ڈوب جاتا تھا۔'
پاکستان میں بارشیں
پاکستان کی سرکاری ٹی وی پی ٹی وی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کے حوالے سے بتایا ہے کہ بارشوں سے پیدا ہونے والی صورتِ حال میں امدادی کاموں کے لیے پاکستان فوج کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق پنجاب کے علاقوں سیالکوٹ، ناروال، ہیڈ مرالہ، وزیر آباد اور جلال پور جٹاں میں فوج بھیج دی گئی ہے جبکہ لاہور کے قریب شاہدرہ میں بھی فوج کو امدادی کاررائیوں کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
پنجاب کے وسطی علاقوں میں بارش کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے اور محکمۂ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ بارشوں کا یہ سلسلہ 36 سے 48 گھنٹوں تک جاری رہے گا۔
موسلادھار بارش کے باعث لاہور سمیت کئی شہروں میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی میں بھی وقفے وقفے سے شدید بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔
سرکاری ٹی وی کے مطابق راوالپنڈی کے نالہ لئی میں طغیانی ہے اور پانی کی سطح 15 فٹ سے تجاوز کر گئی ہے۔ راوالپنڈی کی انتظامیہ نے نالہ لئی کے قریب رہنے والوں کو الرٹ کر دیا ہے۔
لاہور کے ریسکیو حکام کے مطابق بدھ کی شام شروع ہونے والی بارش سے مزنگ، جوہر ٹاؤن، جی او آر ٹو، سبزہ زار اور گارڈن ٹاؤن کے علاقوں میں گھروں کی چھتیں گرنے اور کرنٹ لگنے سے 12 افراد ہلاک ہوئے۔
اس کے علاوہ سیالکوٹ، فیصل آباد،گوجرانوالہ اور دیگر شہروں میں فیکٹری اور مکانوں کی چھتیں گرنے سے 17 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔
بارش کے باعث جگہ جگہ سڑکوں پر پانی کھڑا ہوگیا ہے۔ نشیبی علاقوں میں لوگوں کے گھروں میں بھی پانی داخل ہوچکا ہے۔
بارش کے باعث بجلی کا نظام بھی درہم برہم ہو گیا۔ لاہور میں کئی علاقوں کے فیڈر ٹرپ کر گئے جس سے لوگوں کو بجلی کی بندش کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے باغ میں بارش کے باعث مٹی کا تودہ گرنے سے پاکستانی فوج کے تین اہلکار ہلاک جبکہ تین زخمی ہوگئے۔
دوسری جانب سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے والے ادارے کے مطابق ستلج، راوی، چناب، جہلم اور ان سے ملحقہ ندی نالوں میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کا امکان ہے۔
محکمۂ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل حضرت میر کا کہنا ہے کہ خاص طور پر لاہور،گوجرانوالہ، اور راولپنڈی ڈویژن کے شہری علاقوں میں ان بارشوں سے طغیانی آ سکتی ہے۔
محکمۂ موسمیات کے مطابق لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، ساہیوال، گوجرانوالہ اور بہاولپور ڈویژنوں میں موسلادھار بارشوں کا یہ سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہنے کا امکان ہے۔
بی بی سی نیوز۔