منقب سید
محفلین
آکر پٹیل بی بی سی، نئی دہلی
ممبئی حملوں کے کیس میں لشکر طیبہ کے ذکی الرحمان لکھوی کو ضمانت ملنے کے بعد بھارتی ذرائع ابلاغ نے بڑی تیزی سے پاکستانی فوج کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
اس پر بہت سے بھارتی شہریوں نے مختلف ویب سائٹس پر پشاور حملوں کے حوالے سے ایسے تبصرے بھی کیے کہ چونکہ پاکستان کی پالیسیاں ہی ایسی ہیں اس لیے جو کچھ ہوا وہ اس کا مستحق ہے۔
اس پر ردِ عمل دکھاتے ہوئے بھارت کے معروف صحافی راج دیپ سر دیسائی نے اپنے بلاگ پر لکھا ’ہمارے ملک میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان، اس کا مستحق ہے، خدا کے واسطے حکومت اور سول سوسائٹی کے درمیان فرق کرنا سیکھیں۔ کوئی بھی معصوم بھارتی یا پاکستانی شہری موت کا مستحق نہیں ہے۔ نا 11/26 میں اورنا ہی 12/16 میں۔ ہاں، دہشت گردوں اور آزادی کے لیے لڑنے والوں کے درمیان سنجیدہ فرق کو ضرور ختم ہونا چاہیے، اور ہاں، پاکستانی فوج کو اپنے اس دہرے معیار پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایک طرف دہشتگردی کو فروغ دے رہی ہے اور دوسری جانب اس سے نبرد آزما بھی ہے، لیکن ہمیں اتنے بڑے المیوں کو ایک دوسرے پر الزام تراشی کی شروعات کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘
تو کنفیوژن کس کے متعلق ہے؟ اصل میں طالبان چاہتے کیا ہیں اور آخر پاکستان کے لیے ان سے لڑنا آسان کیوں نہیں ہے؟
ایسو سی ایٹیڈ پریس نے 17 دسمبر کو ’پشاور میں دہشت گرد حملہ: پاکستانی طالبان کیا چاہتے ہیں؟ کے عنوان سے اس کے جوابات دیتے ہوئے ایک مضمون شائع کیا تھا۔
اس مضمون میں کہا گيا کہ ’تحریکِ طالبان پاکستان نے حکومت کو ختم کر کے اس کی جگہ سخت اسلامی قوانین نافذ کرنے کا تہیّہ کر رکھا ہے۔‘
امریکی ٹی وی چینل سی این این پر ( طالبان کیا چاہتے ہیں؟) کے نام سے لورا سمتھ، سپارک اور ٹم لسٹر نے یہ رپورٹ کیا کہ ’جب بالآخر محاصرہ ختم ہوا، پاکستان صدمے سے دہل گیا اور دنیا حیرت زدہ رہ گئی۔ ایسا کون کر سکتا ہے؟ اس سے وہ حاصل کرنا کیا چاہتے ہیں؟ پشاور میں آرمی کے تحت چلنے والے سکول میں قتل عام کرنے والے گروپ کی شناخت کوئی راز نہیں ہے۔ طالبان جنہوں نے، حکومت کے خلاف طویل جنگ چھیڑ رکھی ہے حکومت کا تختہ اُلٹ کر نیا شرعی نظام لانا چاہتے ہیں، نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے میں تاخیر نہیں کی۔‘
جیمز رش نے برطانوی اخبار انڈی پینڈنٹ میں ’طالبان کون ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں؟‘ کے عنوان سے لکھا ’پاکستانی طالبان حکومت کا تختہ اُلٹ کر ایک سخت اسلامی ریاست کے قیام کے لیے لڑتے رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں فوج کی طرف سے باغیوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن چل رہا ہے، اور اسی لیے اس گروپ نے بڑے حملے کرنے کا عہد کر رکھا تھا۔‘
ذبیح اللہ مجاہد جو ملّا عمر کے ایک ترجمان ہیں نے سی این این سے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ہم ابتداء سے ہی کہہ رہے ہیں اور ایک بار پھر کہتے ہیں کہ افغانستان میں شرعی نظام کا نفاذ اور اسلامی حکومت کا قیام، ہمارے ملک سے غیر ملکی افواج کا انخلا ہمارا مقصد ہے۔‘
دو ہزار بارہ کے ’کرسچن سائنس مانیٹر‘ کے شمارے میں آرتھر برائٹ نے ’طالبان کون ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں؟‘ کے عنوان سے طالبان کی فنڈنگ کے متعلق ایک اقتباس کا حوالہ دیا تھا کہ اس کا ’ایک بڑا حصہ خلیجی ریاستوں میں رہنے والے امیر افراد سے آتا ہے۔ باغی حج کے موقع کو بھی مکہ کی زیارت کے دوران فنڈز کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس سے خلیجی ممالک کے شدت پسندوں سے بھی ان کے روابط بنتے ہیں جس سے بعض گروہوں پر القاعدہ کا اثر رسوخ بھی بڑھا ہے۔‘
طالبان کا شرعی نظام لانے کا مطالبہ
طالبان شرعی نظام لانے کا آخر مطالبہ کرتے کیوں ہیں؟
اس کا جواب پاکستانی قانون میں ہے۔
پاکستانی آئین کی دفعہ 227 ’اسلامک پرویژن نواں حصہ‘ میں اس طرح لکھا ہے:
’(1) تمام موجودہ قوانین کو اسلامی احکامات کے مطابق لایاجائے گا جس طرح سے قرآن اور سنّت میں وہ بیان کیے گئے ہیں، اس حصے کو اسلامی احکامات سے تعبیر کیا جائیگا اور کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جائیگا جو ان احکامات کے منافی ہو۔ ‘
یہ وعدہ یا عزم بہت غیر واضح اور غیر مبہم ہے۔ یہ انیس سو انچاس میں پاس کی گئی اس قراداد سے آتا ہے جو بانی پاکستان محمد علی کے وارث لیاقت علی خان کی ماتحت آئین ساز اسمبلی نے کیا تھا۔
اس قرارداد کا متن کچھ اس طرح ہے: ’کائنات کی ملکیت صرف ذاتِ واحد خدا کے ہاتھ میں ہے، اور پاکستان کے لوگ اسی اختیار کا استعمال کریں گے جو اس نے اپنی مقدس کتاب میں بیان فرمایا ہے۔‘
اس کا جواب پاکستانی قانون میں ہے۔
پاکستانی آئین کی دفعہ 227 ’اسلامک پرویژن نواں حصہ‘ میں اس طرح لکھا ہے:
’(1) تمام موجودہ قوانین کو اسلامی احکامات کے مطابق لایاجائے گا جس طرح سے قرآن اور سنّت میں وہ بیان کیے گئے ہیں، اس حصے کو اسلامی احکامات سے تعبیر کیا جائیگا اور کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جائیگا جو ان احکامات کے منافی ہو۔ ‘
یہ وعدہ یا عزم بہت غیر واضح اور غیر مبہم ہے۔ یہ انیس سو انچاس میں پاس کی گئی اس قراداد سے آتا ہے جو بانی پاکستان محمد علی کے وارث لیاقت علی خان کی ماتحت آئین ساز اسمبلی نے کیا تھا۔
اس قرارداد کا متن کچھ اس طرح ہے: ’کائنات کی ملکیت صرف ذاتِ واحد خدا کے ہاتھ میں ہے، اور پاکستان کے لوگ اسی اختیار کا استعمال کریں گے جو اس نے اپنی مقدس کتاب میں بیان فرمایا ہے۔‘
سنہ انیس سو اسّی میں اس وقت کے صدر جنرل ضیاءالحق نے بھی بعض اسلامی قوانین کو متعارف کروایا تھا۔ اس میں شراب پیتے یا زنا کرتے پکڑے گئے لوگوں پر کوڑے لگانا یا دیت دینا وغیرہ شامل ہے۔
تجزیہ نگار خالد احمد پاکستان کو ایک نا مکمل اسلامی ریاست کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ شریعت کو پوری طرح سے نافذ کرنے کا وعدہ نہیں نبھایا گیا جس سے ابہام پیدا ہوا اور طالبان اسی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
تجزیہ نگار اس سوال کا جواب دینے کے لیے اپنا سر کھجاتے رہے ہیں کہ طالبان اصل میں پاکستان کے آئین کا نفاذ چاہتے ہیں۔ اسی لیے ان سے لڑنا اتنا مشکل ہے، کیونکہ وہ کہتے کہ قانون کے سوال پر ان کا موقف درست ہے۔ جب تک آئین میں اس تذبذب کو دور نہیں کیا جاتا یا پھر وعدے پورے نہیں کیے جاتے اس وقت تک ان کے خلاف کسی بھی لڑائی میں کامیابی پانا یا پھر ان کے خلاف مناسب لڑائی کا آغاز کرنا مشکل ہے۔
میرے خیال سے یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پر فوج اور حکومت کو تشویش ہونی چاہیے، اس کے لیے سول سوسائٹی کو چارج لینا ہوگا۔ اسی لیے طالبان سے لڑنا بہت مشکل ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/opinion/2014/12/141219_pakistan_taliban_aaker_patel_piece_tim
یہ تجزیہ محفلین کی خدمت میں تبصرہ کے لئے پوسٹ کیا جا رہا ہے۔ میرا اس سے متفق یا غیر متفق ہونا ضروری نہیں۔
ممبئی حملوں کے کیس میں لشکر طیبہ کے ذکی الرحمان لکھوی کو ضمانت ملنے کے بعد بھارتی ذرائع ابلاغ نے بڑی تیزی سے پاکستانی فوج کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
اس پر بہت سے بھارتی شہریوں نے مختلف ویب سائٹس پر پشاور حملوں کے حوالے سے ایسے تبصرے بھی کیے کہ چونکہ پاکستان کی پالیسیاں ہی ایسی ہیں اس لیے جو کچھ ہوا وہ اس کا مستحق ہے۔
اس پر ردِ عمل دکھاتے ہوئے بھارت کے معروف صحافی راج دیپ سر دیسائی نے اپنے بلاگ پر لکھا ’ہمارے ملک میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان، اس کا مستحق ہے، خدا کے واسطے حکومت اور سول سوسائٹی کے درمیان فرق کرنا سیکھیں۔ کوئی بھی معصوم بھارتی یا پاکستانی شہری موت کا مستحق نہیں ہے۔ نا 11/26 میں اورنا ہی 12/16 میں۔ ہاں، دہشت گردوں اور آزادی کے لیے لڑنے والوں کے درمیان سنجیدہ فرق کو ضرور ختم ہونا چاہیے، اور ہاں، پاکستانی فوج کو اپنے اس دہرے معیار پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایک طرف دہشتگردی کو فروغ دے رہی ہے اور دوسری جانب اس سے نبرد آزما بھی ہے، لیکن ہمیں اتنے بڑے المیوں کو ایک دوسرے پر الزام تراشی کی شروعات کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘
تو کنفیوژن کس کے متعلق ہے؟ اصل میں طالبان چاہتے کیا ہیں اور آخر پاکستان کے لیے ان سے لڑنا آسان کیوں نہیں ہے؟
ایسو سی ایٹیڈ پریس نے 17 دسمبر کو ’پشاور میں دہشت گرد حملہ: پاکستانی طالبان کیا چاہتے ہیں؟ کے عنوان سے اس کے جوابات دیتے ہوئے ایک مضمون شائع کیا تھا۔
اس مضمون میں کہا گيا کہ ’تحریکِ طالبان پاکستان نے حکومت کو ختم کر کے اس کی جگہ سخت اسلامی قوانین نافذ کرنے کا تہیّہ کر رکھا ہے۔‘
امریکی ٹی وی چینل سی این این پر ( طالبان کیا چاہتے ہیں؟) کے نام سے لورا سمتھ، سپارک اور ٹم لسٹر نے یہ رپورٹ کیا کہ ’جب بالآخر محاصرہ ختم ہوا، پاکستان صدمے سے دہل گیا اور دنیا حیرت زدہ رہ گئی۔ ایسا کون کر سکتا ہے؟ اس سے وہ حاصل کرنا کیا چاہتے ہیں؟ پشاور میں آرمی کے تحت چلنے والے سکول میں قتل عام کرنے والے گروپ کی شناخت کوئی راز نہیں ہے۔ طالبان جنہوں نے، حکومت کے خلاف طویل جنگ چھیڑ رکھی ہے حکومت کا تختہ اُلٹ کر نیا شرعی نظام لانا چاہتے ہیں، نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے میں تاخیر نہیں کی۔‘
جیمز رش نے برطانوی اخبار انڈی پینڈنٹ میں ’طالبان کون ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں؟‘ کے عنوان سے لکھا ’پاکستانی طالبان حکومت کا تختہ اُلٹ کر ایک سخت اسلامی ریاست کے قیام کے لیے لڑتے رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں فوج کی طرف سے باغیوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن چل رہا ہے، اور اسی لیے اس گروپ نے بڑے حملے کرنے کا عہد کر رکھا تھا۔‘
ذبیح اللہ مجاہد جو ملّا عمر کے ایک ترجمان ہیں نے سی این این سے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ہم ابتداء سے ہی کہہ رہے ہیں اور ایک بار پھر کہتے ہیں کہ افغانستان میں شرعی نظام کا نفاذ اور اسلامی حکومت کا قیام، ہمارے ملک سے غیر ملکی افواج کا انخلا ہمارا مقصد ہے۔‘
دو ہزار بارہ کے ’کرسچن سائنس مانیٹر‘ کے شمارے میں آرتھر برائٹ نے ’طالبان کون ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں؟‘ کے عنوان سے طالبان کی فنڈنگ کے متعلق ایک اقتباس کا حوالہ دیا تھا کہ اس کا ’ایک بڑا حصہ خلیجی ریاستوں میں رہنے والے امیر افراد سے آتا ہے۔ باغی حج کے موقع کو بھی مکہ کی زیارت کے دوران فنڈز کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس سے خلیجی ممالک کے شدت پسندوں سے بھی ان کے روابط بنتے ہیں جس سے بعض گروہوں پر القاعدہ کا اثر رسوخ بھی بڑھا ہے۔‘
طالبان کا شرعی نظام لانے کا مطالبہ
طالبان شرعی نظام لانے کا آخر مطالبہ کرتے کیوں ہیں؟
اس کا جواب پاکستانی قانون میں ہے۔
پاکستانی آئین کی دفعہ 227 ’اسلامک پرویژن نواں حصہ‘ میں اس طرح لکھا ہے:
’(1) تمام موجودہ قوانین کو اسلامی احکامات کے مطابق لایاجائے گا جس طرح سے قرآن اور سنّت میں وہ بیان کیے گئے ہیں، اس حصے کو اسلامی احکامات سے تعبیر کیا جائیگا اور کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جائیگا جو ان احکامات کے منافی ہو۔ ‘
یہ وعدہ یا عزم بہت غیر واضح اور غیر مبہم ہے۔ یہ انیس سو انچاس میں پاس کی گئی اس قراداد سے آتا ہے جو بانی پاکستان محمد علی کے وارث لیاقت علی خان کی ماتحت آئین ساز اسمبلی نے کیا تھا۔
اس قرارداد کا متن کچھ اس طرح ہے: ’کائنات کی ملکیت صرف ذاتِ واحد خدا کے ہاتھ میں ہے، اور پاکستان کے لوگ اسی اختیار کا استعمال کریں گے جو اس نے اپنی مقدس کتاب میں بیان فرمایا ہے۔‘
- جہاں تک ریاست کا سوال ہے تو وہ اپنی طاقت اور اختیار کا استعمال عوام کی جانب سے منتخب کیے ہوئے نمائندوں کی جانب سے کرے گی۔
- جبکہ جمہوری اصول، آزادی، برابری، برداشت اور سماجی انصاف جیسی قدریں، جیسا کہ اسلام میں بیان کیا گیا ہے، کا پورا خیال رکھا جائیگا۔
- مسلمانوں کو اس لائق بنایا جائیگا کہ وہ اپنی انفرادی یا اجتماعی سطح پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھال سکیں جیسا کہ قرآن اور سنّت میں کہا گیا ہے۔
اس کا جواب پاکستانی قانون میں ہے۔
پاکستانی آئین کی دفعہ 227 ’اسلامک پرویژن نواں حصہ‘ میں اس طرح لکھا ہے:
’(1) تمام موجودہ قوانین کو اسلامی احکامات کے مطابق لایاجائے گا جس طرح سے قرآن اور سنّت میں وہ بیان کیے گئے ہیں، اس حصے کو اسلامی احکامات سے تعبیر کیا جائیگا اور کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جائیگا جو ان احکامات کے منافی ہو۔ ‘
یہ وعدہ یا عزم بہت غیر واضح اور غیر مبہم ہے۔ یہ انیس سو انچاس میں پاس کی گئی اس قراداد سے آتا ہے جو بانی پاکستان محمد علی کے وارث لیاقت علی خان کی ماتحت آئین ساز اسمبلی نے کیا تھا۔
اس قرارداد کا متن کچھ اس طرح ہے: ’کائنات کی ملکیت صرف ذاتِ واحد خدا کے ہاتھ میں ہے، اور پاکستان کے لوگ اسی اختیار کا استعمال کریں گے جو اس نے اپنی مقدس کتاب میں بیان فرمایا ہے۔‘
- جہاں تک ریاست کا سوال ہے تو وہ اپنی طاقت اور اختیار کا استعمال عوام کی جانب سے منتخب کیے ہوئے نمائندوں کی جانب سے کرے گی۔
- جبکہ جمہوری اصول، آزادی، برابری، برداشت اور سماجی انصاف جیسی قدریں، جیسا کہ اسلام میں بیان کیا گیا ہے، کا پورا خیال رکھا جائیگا۔
- مسلمانوں کو اس لائق بنایا جائیگا کہ وہ اپنی انفرادی یا اجتماعی سطح پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھال سکیں جیسا کہ قرآن اور سنّت میں کہا گیا ہے۔
سنہ انیس سو اسّی میں اس وقت کے صدر جنرل ضیاءالحق نے بھی بعض اسلامی قوانین کو متعارف کروایا تھا۔ اس میں شراب پیتے یا زنا کرتے پکڑے گئے لوگوں پر کوڑے لگانا یا دیت دینا وغیرہ شامل ہے۔
تجزیہ نگار خالد احمد پاکستان کو ایک نا مکمل اسلامی ریاست کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ شریعت کو پوری طرح سے نافذ کرنے کا وعدہ نہیں نبھایا گیا جس سے ابہام پیدا ہوا اور طالبان اسی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
تجزیہ نگار اس سوال کا جواب دینے کے لیے اپنا سر کھجاتے رہے ہیں کہ طالبان اصل میں پاکستان کے آئین کا نفاذ چاہتے ہیں۔ اسی لیے ان سے لڑنا اتنا مشکل ہے، کیونکہ وہ کہتے کہ قانون کے سوال پر ان کا موقف درست ہے۔ جب تک آئین میں اس تذبذب کو دور نہیں کیا جاتا یا پھر وعدے پورے نہیں کیے جاتے اس وقت تک ان کے خلاف کسی بھی لڑائی میں کامیابی پانا یا پھر ان کے خلاف مناسب لڑائی کا آغاز کرنا مشکل ہے۔
میرے خیال سے یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پر فوج اور حکومت کو تشویش ہونی چاہیے، اس کے لیے سول سوسائٹی کو چارج لینا ہوگا۔ اسی لیے طالبان سے لڑنا بہت مشکل ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/opinion/2014/12/141219_pakistan_taliban_aaker_patel_piece_tim
یہ تجزیہ محفلین کی خدمت میں تبصرہ کے لئے پوسٹ کیا جا رہا ہے۔ میرا اس سے متفق یا غیر متفق ہونا ضروری نہیں۔