پاکستان ایمبیسی اور قحط الرّجال

nazar haffi

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پاکستان ایمبیسی اور قحط الرّجال
نذر حافی
اداروں کا حُسن پڑھے لکھے ،باصلاحیت اور تجربہ کار افراد سے ہوتاہے۔بھلے وقتوں کی بات ہے کہ مختار مسعود تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی میں اپنے فرائض منصبی انجام دیاکرتے تھے۔موصوف کے والد ِ گرامی علی گڑھ یونیورسٹی میں معاشیات کے استاد تھے اور موصوف خود بھی علی گڑھ یونیورسٹی کے ہی تعلیم یافتہ تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعدانہیں کئی اہم سرکاری عہدوں پر تعینات ہونے کا موقع ملا اور ملت پاکستان کی خدمت کے سلسلے میں انہیں کئی ممالک میں اپنے فرائض انجام دینے کا موقع ملا۔
انہوں نے سرکاری اداروں کے اندر صرف وقت نہیں گزارا بلکہ اپنی تعلیم و تجربے کو ملت کی خدمت کے لئے صرف کیا اور اپنے مشاہدات و تجربات کو تاریخ،ادب اور فن کے سانچے میں ڈھال کر لوحِ ایّام،آوازِ دوست اورسفرِ نصیب کے نام سے تین کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی ہر کتاب علمی و فنّی اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے اور علم و ادب کا خزانہ شمار ہوتی ہے۔
لوحِ ایّام میں انہوں نے ایران میں اپنے قیام کے دوران مختلف تجربات و مشاہدات اور انقلاب اسلامی کی آمد کے اپنی آنکھوں دیکھے واقعات کو جس دلکشی اور ہنرسے بیان کیا ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اسی طرح سفرِ نصیب میں انہوں نے حالات و واقعات کی جو منظرنگاری کی ہے اور منظر نگاری کے دوران جو پیغامات دئیے ہیں وہ ہمارا ملّی سرمایہ ہیں۔ آوازِ دوست کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کتاب میں جس طرح ادب، فلسفے اور تاریخ کو ایک دوسرے کے ساتھ پیوست کرکے پیش کیا گیا ہے اس پہلے ایسی مثال نہیں ملتی ، ”آواز دوست“ کے مضامین ہمہ پہلو اور ہمہ جہت ہیں۔ صاحبانِ اردو زبان اور خصوصاً اہلیان پاکستان کی آئندہ نسلیں ان سفر ناموں کی روشنی میں اپنے ماضی ،حال اور مستقبل کا خاکہ شفاف انداز میں دیکھ سکتی ہیں۔
وہ صرف لکھتے نہیں تھے بلکہ اپنے معاشرتی تجربے کو فکر کی سانچ پر پرکھ کر الفاظ کے موتیوں میں پرو دیتے تھے۔مثال کے طور پر ان کی کتاب سفرِ نصیب سے ان کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیں:۔ " غلامی کی بے شمار قسمیں اور طرح طرح کی شکلیں ہوا کرتی ہیں گمراہی غلامی کی بد ترین صورت ہے اگر آزاد ہونے کے بعد بھی صحیح راستہ کا پتہ نہ چلے اور اگر چلے تو اس پر چلنے کی ہمت نہ ہو تو یہ صورت غلامی سے بدرجہا بد تر ہوتی ہے " اسی طرح ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ "زندگی کی تعاقب میں رہنےوالے قحط سے زیادہ قحط الرّجال کا غم کھاتے ہیں۔" مختار مسعود نے بھی قحط الرّجال کا بہت غم کھایا اورشاید یہی وجہ ہے کہ آوازِ دوست کا طویل ترین مضمون قحط الرّجال ہی ہے۔
ڈاکٹر ظہور احمد اعوان نے ایک جگہ پر مختار مسعود کے قحط الرّجال کے احساس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ " 1971.72ءتک پہنچتے پہنچتے پاکستان میں بڑے آدمی بننا بند ہوگئے تھے۔ بڑے آدمی سبھی 1947ءسے پہلے بن چکے تھے اس کے بعد ٹوٹنے کا عمل شروع ہو گیا تھا۔"
اسی طرح پاکستان کی بیوروکریسی کی تاریخ میں آب کوثر،رود کوثر اور موج کوثر کے مصنف شیخ محمد اکرم جیسے صاحبانِ علم و دانش کا ایک بڑا نام اور مقام ہے۔جیسے جیسے ہم قیام ِ پاکستان سے دور ہوتے جارہے ہیں ہمارے ہاں تمام شعبوں میں خصوصا بیوروکریسی کے شعبے میں" قحط الرّجال"کا احساس شدت سے زور پکڑتاجاتاہے۔
میں ایک طالب علم ہوں اور اس زمانے کی پیداوار ہوں کہ جب سے پاکستان میں بڑے آدمی بننا بند ہوگئے تھے۔میں نے بڑے آدمیوں کو زیادہ تر کتابوں میں ہی پایاہے۔مجھے بچپن سے ہی مختار مسعود اور شیخ محمد اکرم جیسے لکھاریوں سے قلبی لگاو رہاہے اور اب جب کسی سرکاری ادارے میں قدم رکھتاہوں اور اس کے اہلکاروں کو دیکھتاہوں تو ایک خواب میں چلاجاتاہوں اور ایک عجیب احساس کے ساتھ سوچتاہوں کہ صرف چند سال پہلے تک ان اداروں میں کیسے کیسے علم دوست اور انسانیت پرور لوگ ملت پاکستان کی خدمت کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہتے تھے۔
وہ زمانہ بھی کیا زمانہ تھا جب سرکاری دفاتر کے اہلکاروں کو یقین ہوتا تھا کہ انہیں ملت کی خدمت کے عوض تنخواہیں دی جاتی ہیں ،جب سرکاری آفیسرز اپنے آپ کو ملت کا خادم سمجھتے تھے اور جب ملت کی سہولت اور آسائش کو مدّنظر رکھر قانون بنائے جاتے تھے۔
مجھے چند دن پہلے تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی میں ایک صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا جنہیں پیاس اور گرمی نے ستا رکھا تھا اورانہیں چودہ دن کے بعد یہ اطلاع دی گئی تھی کہ آپ کے فارم ناقص ہیں لہذا دوبارہ تشریف لائیں۔وہ صاحب کہنے لگے کہ وہ اس زمانے میں بھی اس ایمبیسی آئے تھے جب یہاں کا عملہ بااخلاق ،چوکس اور اپنے کام کاماہر ہوتا تھا لیکن اب گزشتہ چند سالوں سے ہر روز لوگوں کو ذلیل کیاجاتاہے ۔خصوصا جو لوگ پہلی مرتبہ ایمبیسی آتے ہیں انہیں پورا دن ایمبیسی میں بٹھا کر ٹائمنگ پوی کی جاتی ہے اور پھر فارم دے کر واپس بھیج دیاجاتاہے اور انہیں مجبور کیاجاتاہے کہ وہ چند بار ایمبیسی کے چکر لگائیں۔ میں نے پوچھا ایسا کیوں ہے وہ بولے ایسا اس لئے ہے کہ جب تعلیم و تجربے اور میرٹ کو نظر انداز کرکے لوگوں کو بھرتی کر لیاجائے اور انہیں پبلک ڈیلنگ پر مامور کیا جائے تو وہ ایساہی کریں گے۔ اگر ایمبیسی میں پبلک ڈیلنگ کے لئے ایک تعلیم یافتہ اور تجربہ کار شخص کو بٹھادیاجائے توپورے دن میں کیا سات آٹھ فارم یا زیادہ سے زیادہ دس فارم پُر کرنا کوئی مشکل کام ہے۔
انہوں نے یہ کہا تو مجھے مختار مسعود کا یہ جملہ یاد آگیا کہ " غلامی کی بے شمار قسمیں اور طرح طرح کی شکلیں ہوا کرتی ہیں گمراہی غلامی کی بد ترین صورت ہے اگر آزاد ہونے کے بعد بھی صحیح راستے کا پتہ نہ چلے اور اگر چلے تو اس پر چلنے کی ہمت نہ ہو تو یہ صورت غلامی سے بدرجہا بد تر ہوتی ہے " ۔
ہم غلامی کی بدترین صورت میں جی رہے ہیں۔ہم اپنے ہی ملکی اور سرکاری اداروں میں چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے سر پٹختے ہیں،چیختے اور چلاتے ہیں لیکن کہیں ہماری شنوائی نہیں ہوتی ۔ تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی کے اہلکار کیا ادنیٰ اور کیا اعلیٰ سب اپنی اپنی دھن میں لگے ہیں اورمخلوقِ خدا پر کیا بیت رہی ہے اس کا کسی کو احساس ہی نہیں،لوگوں کے فارم نامکمل ہونے کا ڈرامہ تو سب کو معلوم ہے لیکن یہ فارم کیوں پورا پورا دن نامکمل رہتے ہیں اور تین تین چکر لگانے کے باوجود پُر نہیں ہوتے اس بارے میں کوئی نہیں پوچھتا۔
قحط الرّجال کے اس دور میں کیا پاکستان ایمبیسی میں ایک ذمہ دار آفیسربھی نہیں رہا جو اپنی ملت کو اس ذلت سے نجات دلائےاور نااہل کو اہل اور بد اخلاق کو خوش اخلاق کی جگہ سے ہٹائے۔
 

زبیر مرزا

محفلین
بہت عمدہ تحریر جناب لیکن ہمیں اس قحط الرجال کی کچھ ذمہ داری خود بھی قبول کرنی چاہیے
اورہم جس بھی ادارے سے وابستہ ہیں اس میں کام کو دیانت داری اور قومی فریضہ سمجھ کر انجام دنیا چاہیے کہ تبدیلی اوراصلاح کی ابتداء اپنی ذات سے
شروع ہوتو بہتری آئے گی -
 

عمراعظم

محفلین
اصلاحِ حال کی ترغیب دیتی تحریر۔ اب تو اداروں میں داخل ہونے سے پہلے آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ آپ کی جیب اس کی متحمل ہو سکتی ہے یا نہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
71 کے بعد ملک و ملت کے خادم کم اور مجھ جیسے مفاد پرست نا اہل تیزی سے بڑھے ۔
ایمبیسی ہی کیا کسی بھی سرکاری دفتر جانے کا تجربہ کبھی بھول ہی نہیں پاتا ۔
بہت خوب تحریر محترم نذر حفی صاحب
 

عمراعظم

محفلین
71 کے بعد ملک و ملت کے خادم کم اور مجھ جیسے مفاد پرست نا اہل تیزی سے بڑھے ۔
ایمبیسی ہی کیا کسی بھی سرکاری دفتر جانے کا تجربہ کبھی بھول ہی نہیں پاتا ۔
بہت خوب تحریر محترم نذر حفی صاحب
آپکی پوسٹ کو کوئی ریٹنگ نہ دے سکا ۔
 

عمراعظم

محفلین
اور میں یہ بات نہیں سمجھ سکا
آپ نے کوشش کی ہوتی تو سمجھ جاتے۔۔۔۔۔ میں نایاب بھائی کی پوسٹ کو اس لیئے ریٹنگ نہ دے سکا چونکہ اُنہوں نےتحریر کیا تھا کہ" 71 کے بعد ملک و ملت کے خادم کم اور مجھ جیسے مفاد پرست نا اہل تیز ی سےبڑھے ۔" میری معلومات کے مطابق نایاب بھائی نہ ہی مفاد پرست ہیں اور نہ ہی نا اہل۔
 
71 کے بعد ملک و ملت کے خادم کم اور مجھ جیسے مفاد پرست نا اہل تیزی سے بڑھے ۔
ایمبیسی ہی کیا کسی بھی سرکاری دفتر جانے کا تجربہ کبھی بھول ہی نہیں پاتا ۔
بہت خوب تحریر محترم نذر حفی صاحب
دل تو چاہتا ہے غیر متفق کی ریٹنگ دے دوں
مگر کیا کروں آپ تو رگ جاں سے بھی زیادہ قریب ہیں
 

نایاب

لائبریرین
دل تو چاہتا ہے غیر متفق کی ریٹنگ دے دوں
مگر کیا کروں آپ تو رگ جاں سے بھی زیادہ قریب ہیں

آپ کی جانب سے " غیر متفق " کی ریٹنگ ملنا بھی میرے لیئے اک اعزاز ہوتا محترم سید بادشاہ
پاکستان جو کہ ایشین ٹائیگر بننے کی جانب گامزن تھا ۔ 71 کے بعد مفاد پرست لٹیروں کے ہاتھوں یرغمال بن گیا اور آج تنزلی کی انتہا پر پہنچ گیا ۔
 
آپ کی جانب سے " غیر متفق " کی ریٹنگ ملنا بھی میرے لیئے اک اعزاز ہوتا محترم سید بادشاہ
پاکستان جو کہ ایشین ٹائیگر بننے کی جانب گامزن تھا ۔ 71 کے بعد مفاد پرست لٹیروں کے ہاتھوں یرغمال بن گیا اور آج تنزلی کی انتہا پر پہنچ گیا ۔
میرے بھائی اللہ سے بہتری کی امید رکھنی چھاہئے انشاءاللہ مایوسی کے اندھیروں میں امید کی کرن ضرور پھوٹے گی اور یاد رکھیں روشنی تاریکی کے بطن سے ہی جنم لیتی ہے
 
بہت ہی جامع اور دلکشا تحریر ہے نذر صاحب۔ میں آپ کے کالمز سے استفادہ کرتا رہتا ہوں۔ آپ بہت ہی پائے کے کالم نگار ہیں۔
 
Top