پاکستان تحریک انصاف کی معاشی پالیسی

نایاب

لائبریرین
1
تحریک انصاف نے معاشی پالیسی کا اعلان کر دیا۔ 16 رکنی پولیٹیکل سٹریٹجک کمیٹی نے رہنماؤں کے اثاثوں کی تفصیلات انٹرنیٹ پر جاری کر دی ہیں، عمران خان 3 لاکھ 84 ہزار روپے کے مقروض ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پارٹی رہنما نے برسراقتدار آنے پر اپنی معاشی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے ایوان صدر کا بجٹ 50 فیصد کم کرنے‘ وزیراعظم‘ وزراءاعلیٰ اور گورنر ہاؤسز کو تعلیمی اداروں‘ لائبریریوں اور سپورٹس کمپلیکسز میں بدلنے‘ وفاقی وزارتوں کی تعداد 37 سے کم کرکے 17 کرنے‘ مفت اور رعایتی نرخوں پر سیاستدانوں‘ بیوروکریٹس‘ ججوں اور صحافیوں کو پلاٹوں کی فراہمی کے خاتمے‘ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 15 فیصد تک بڑھانے اور افراط زر کی شرح 7 فیصد تک لانے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ طبقاتی نظام تعلیم ختم کرکے ملک بھر میں یکساں نظام رائج کرنے اور 5 سال میں تعلیم کے شعبے پر 2195 ارب اور صحت کے شعبے پر 1142 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے۔ نائب صدر اسد عمر نے اعلان چیئرمین عمران خان کی موجودگی میں سیمینار میں کیا۔ اس موقع پر صدر جاوید ہاشمی‘ شاہ محمود قریشی‘ جہانگیر ترین اور شفقت محمود بھی موجود تھے۔ اسد عمر نے کہا کہ تحریک انصاف نے ملک کو درپیش صورتحال سے نکالنے کیلئے 5 نکاتی ایمرجنسی پروگرام بنایا ہے جس کے نتیجے میں کم ترین معاشی ترقی کی شرح‘ بلند ترین افراط زر اور غربت میں اضافے پر قابو پائے گی۔ یکساں ٹیکس کا نظام عائد کیا جائے گا‘ زراعت کا شعبہ بھی قابل ٹیکس ہو گا‘ جن شعبوں کو ٹیکس کی چھوٹ ہے وہ ختم کر دی جائے گی‘ صوبوں کو ذمہ دار بنا کر بڑے زمینداروں سے ٹیکس وصولی ممکن بنائی جائے گی۔ ایف بی آر کی تنظیم نو کرکے اسے سیاسی اثر ورسوخ سے آزاد کیا جائے گا۔ احتساب کے ادارے کو حکومت کے اثر ورسوخ سے آزاد کرکے اسے فعال بنایا جائے گا‘ ملک سے لوٹ کر بیرون ملک منتقل کی گئی دولت واپس لانے کے انتظامات کئے جائیں گے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ بڑی تبدیلی کیلئے بڑے فیصلے کرنا ہونگے۔ دیرپا ترقی کیلئے ضروری ہے کہ گاؤں کی سطح پر ترقی یقینی بنائی جائے گی۔ پاکستان میں مافیا ہے جو کامیاب ہوتا ہے لیکن حکمرانوں میں فیصلے کرنے کی اہلیت نہیں ہے۔ جن رہنماؤں کے اثاثے انٹرنیٹ پر جاری کئے گئے ان میں شیریں مزاری، عمران خان، جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر عارف علوی، جہانگیر ترین، اسد عمر، شفقت عمر، فوزیہ قصوری، ایس ایم رشید، سیف اللہ نیازی اور نادر لغاری شامل ہیں۔ تفصیلات کے مطابق عمران خان کی اراضی کی کل مالیت دو کروڑ 19 لاکھ 48 ہزار 758 روپے۔ عمران خان کا لاہور میں ایک گھر اور اسلام آباد میں بھی انکا گھر ہے۔ عمران کی اسلام آباد میں ہی 6 کنال 16 مرلے اراضی بھی ہے۔ ان کے بنک اکاؤنٹس میں 12 ہزار 223 پاؤنڈز، چار لاکھ 24 ہزار 265 ڈالرز اور 92 ہزار 548 یورو موجود ہیں۔ عمران کے پاس 58 لاکھ روپے مالیت کی دو گاڑیاں ہیں۔
2
ایوان صدر اور گورنرہاوسز کو تعلیمی اداروں میں بد ل دینگے،تحریک انصاف کا معاشی پالیسی کااعلان
پاکستان تحریک انصاف نے معاشی پالیسی پلان کا اعلان کردیا ، پالیسی ایجنڈے کے مطابق بیوروکریٹس، سیاستدان اور صحافیوں کو دی جانے والی غیر ضروری مراعات ختم کردی جائیں گی جبکہ غیر ضروری وزارتوں میں کمی پر بھی غور کیا جائے گا’2ہزارارب روپے کرپٹ عناصر سے لے کر پاکستانی عوام پر خرچ کئے جائیں گے تا کہ تعلیم اور صحت جیسے شعبوں کو یکساں معیاری بنایا جا سکے’نئے معاشی پالیسی پلان کے مطابق جی ایس ٹی کی مد میں ٹیکس کی شرح کو کم کر کے عوام کو یقین دلائیں گے کہ یہ پیسہ ان پر ہی خرچ کیا جائے گا’ اقتصادی استحکام کے بغیر ملکی وخود مختاری برقرار نہیں رہ سکتی’ اقتدار میں آکر ایوان ِ صدر اور گورنر ہاوسز کو تعلیمی ادارے اور لائبریریوں میں تبدیل کر دینگے’کرپٹ قیادت کی وجہ سے سب سے زیادہ خیرات دینے والی قوم سب سے کم ٹیکس دیتی ہے’ کشمیر بنیادی مسئلہ ہے جنگ کی بجائے سیاسی حل نکالنا ہوگا، اسرائیل سے تجارت ممکن نہیں’لوکل گورنمنٹ سسٹم ہمارے انقلاب کی بنیاد ہے ‘عوام کو گائوں کی سطح پر بااختیار بنائینگے۔ اسکا اعلان انہوںنے گزشتہ روز مقامی ہوٹل میں اکنامک پالیسی پلان سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔جاوید ہاشمی’ شاہ محمود قریشی’ جہانگیر ترین’اسد عمر اورشفقت محمود سمیت دیگر بھی موجودتھے ۔ سیمینار میں تحریک انصاف کے رہنمائوں سمیت غیر ملکی سفارتکاروں اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس وقت ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے جسے بچانے کے لئے غیر ملکی امداد کی بجائے ملکی وسائل کو ترجیح دینا ہو گی جبکہ پاکستان کو خود مختار بنانے کے لئے طاقت کا سرچشمہ عوام کو بنانا ہو گا۔ملک اب ان حالات سے گزر رہا ہے جہاں جرات مندانہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کی خوشی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف میں وہ لوگ شامل ہو رہے ہیں جو اس ملک کی بات کرتے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف وہ واحد جماعت ہے جس کے عہدیداروں نے اپنے ٹیکس اور اثاثوں کی تفصیل ظاہر کی ہے اگر کسی کارکن کی تفصیل غلط ہوئی تو وہ ان کی جماعت سے الیکشن نہیں لڑ سکے گا۔ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ نئے پالیسی پلان کے مطابق وہ جی ایس ٹی کی مد میں ٹیکس کی شرح کو کم کر کے عوام کو یقین دلائیں گے کہ یہ پیسہ ان پر ہی خرچ کیا جائے گا۔ اقتصادی استحکام کے بغیر ملکی وخود مختاری برقرار نہیں رہ سکتی’ معاملات آسان نہیں جرات مندانہ فیصلے کر کے مافیا پر ہاتھ ڈالنا ہوگا’کرپٹ قیادت کی وجہ سے سب سے زیادہ خیرات دینے والی قوم سب سے کم ٹیکس دیتی ہے’ کشمیر بنیادی مسئلہ ہے جنگ کی بجائے سیاسی حل نکالنا ہوگا، اسرائیل سے تجارت ممکن نہیں’لوکل گورنمنٹ سسٹم ہمارے انقلاب کی بنیاد ہے ‘عوام کو گائوں کی سطح پر بااختیار بنائینگے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اقتدار میںآکر ایوان ِ صدر اور گورنر ہائوسز کو تعلیمی ادارے اور لائبریریوں میں تبدیل کر دینگے۔ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ اور وسائل کی کمی نہیں حکومت کی ناقص پالیسیوں کی بناء پر ماہرین اور سرمایہ بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے ۔ قبضہ مافیا اسمبلیوں میں بیٹھا ہے ایفڈرین کیس کے پیچھے بھی سیاستدان ہیں ۔ ملک کی پائیدار ترقی کیلئے سیاسی مداخلت ختم کرینگے ۔ تحریک انصاف کی قیادت پر عزم ہے ہم نے اپنے اثاثے ظاہر کر دیے ہیں اگر ہماری قیادت کے اثاثے غلط نکلے تو پارٹی آئندہ انتخابات میں انہیں ٹکٹ نہیں دے گی۔
3
انفرادیت۔۔۔۔۔۔ضمیر نفیس
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان عام انتخابات میں کیا نتائج حاصل کرتے ہیں اس کے بارے میں سردست کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے تاہم ان کی سیاست کے دوپہلو ایسے ہیں جو انہیں ملک کے دیگر سیاستدانوں اور ان کی جماعتوں سے مختلف ثابت کرتے ہیں اول یہ کہ ان کے جلسوں میں کسی بھی دوسری جماعت کے مقابلے میں عوام کی بھاری تعداد شریک ہوتی ہے اور نوجوان بڑی تعداد میں ان کی پارٹی کی طرف متوجہ ہیں یہ ایسے نوجوان نہیں کہ جنھیں محض بھنگڑا سیاست کہہ کر نظر انداز کر دیاجائے یہ شناختی کارڈ اور ووٹ رکھنے والے نوجوان ہیں جو سیاست کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں دوسرا پہلو جو تحریک انصاف کو تمام جماعتوں سے منفرد رکھتاہے وہ اس کا ہوم ورک ہے جو اس نے ابھی سے شروع کر رکھاہے ہماری سیاسی جماعتوں کی انتخابی سیاست صرف جلسوں اور پولنگ انتظامات تک محدود رہتی ہے اقتدار میںآکرملک کے مسائل کیسے حل کرنے ہیں اس کے بارے میں وہ اقتدار ملنے کے بعد سوچتی ہیں ان کے پاس کوئی روڈ میپ ہوتاہے نہ پارٹی میں مختلف شعبوں کے ماہرین اس حوالے سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی تازہ ترین مثالیں موجود ہیں پیپلز پارٹی گیارہ سال سے زائد عرصہ تک اپوزیشن میں رہی جب2008 کے الیکشن کے بعد اسے حکومت ملی تواس کے پاس اپنا کوئی وزیر خزانہ نہ تھا جو بجٹ تیار کرتا ان دنوں مسلم لیگ(ن) شریک اقتدار تھی چنانچہ اسحاق ڈار نے بجٹ بنایا مگر بجٹ پیش کرنے سے قبل مسلم لیگ(ن) حکومت سے الگ ہوچکی تھی اب مسلم لیگ(ن)کا احوال سن لیں یہ نوسال بعد پنجاب میں برسراقتدار آئی مگر حکومت سنبھالنے کے بعد اس نے مختلف شعبوں کے بارے میں ٹاسک فورسز بنائیں تاکہ ان سے متعلق ہوم ورک مکمل کیاجائے پرویز مشرف کے اقتدار کے نو برسوں میں اپوزیشن میں رہنے کے باوجود اس نے پاکستان کے مسائل اور ان کے حل کے سلسلے میں کسی قسم کی کوئی تیاری نہ کی تھی اس تناظر میں تحریک انصاف سائنسی بنیادوں پر کام کر رہی ہے وہ ابھی سے نہ صرف اپنا منشور دے رہی ہے بلکہ اس روڈ میپ کی تیاری میں بھی مصروف ہے کہ اقتدار حاصل ہونے کی صورت میںمسائل کیسے حل کرے گی تحریک انصاف کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات احمد جواد کی دعوت اور محبت مجھے اس سیمینار میں لے گی جو ان کی پارٹی نے اقتصادی پالیسی کے اعلان کے سلسلے میں منعقد کیا تھا احمد جواد نے کہا تھا کہ اہم شرکاء کی” ان پٹ،، سے بھی پارٹی استفادہ کرے گی مگر یہ تو ایک اجتماع تھا جس میں اسد عمر نے معاشی پالیسی کے خدوخال بیان کئے عمران خان کا خطاب ہوا اور پریس کانفرنس کی طرز پر چند سوالات، اس نشست کو زیادہ بامعنی بنایاجا سکتاتھا اگر اسے اجتماع کی شکل نہ دی جاتی اور رائونڈ ٹیبل کی طرز پر اہتمام ہوتا اورایڈیٹروں، دانشوروں،سینئر صحافیوں ومعاشی ماہرین سے مزید تجاویز طلب کی جاتیں اور نئی تجاویز کو معاشی پالیسی میں شامل کرنے کی کوشش کی جاتی مگرسیاسی لیڈروں کو جلسے یا پریس کانفرنس کے علاوہ اور کوئی پیٹرن نظر نہیں آتا موقع بے موقع انہیں اپنا خطاب ضرور کرناہوتاہے رائونڈ ٹیبل نشست کی صورت میں بھی تجاویز کے بعد خان صاحب کے خطاب کی گنجائش موجود تھی بہر حال تحریک انصاف کی معاشی پالیسی کو انقلابی قرار دیا جاسکتا ہے اس میں سٹیٹس کو توڑنے کی بہت سی علامتیں موجود ہیں ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم کی دیواریں گرا کرانہیں لائبریریوں اور تعلیمی اداروں میں منتقل کرنے کا عزم اور اعلیٰ طبقات سے ٹیکسوں کی وصولی اور مختلف مافیاء کے خاتمے کے سلسلے میں جوش وخروش یقیناً تبدیلی کے اشارے ہیں پانچ سال میں توانائی بحران ختم کرنے ایک کروڑ افراد کو روزگار فراہم کرنے شرح نمو میں دگنا اضافہ کرنے اور اشرافیہ سے دوہزار ارب روپے ٹیکس وصول کرنے کی پالیسی قابل عمل ہے ہر شے قابل عمل ہو تی ہے بشرطیکہ عمل کی نیت ہو نیت نہ ہوتو معاملات برسابرس تک کمیٹیوں اور کمشنوں میں معلق رہتے ہیں تحریک انصاف کے عہدیداروں کی طرف سے اثاثے ظاہر کرنے کا اقدام بھی منفرد ہے عمران خان نے کوئٹہ میں بہت بڑا جلسہ کرکے بھی ثابت کردیا ہے کہ وہ دوسرے لیڈروں کے مقابلے میں پرعزم اور جرات مند ہیں برسراقتدار پارٹی جرات کا مظاہر ہ نہیں کرسکی اسی طرح وزیر ستان میں جلسے کا اعلان کرکے بھی انہوں نے اپنی برتری برقرار رکھی ہے
 

زونی

محفلین
تحریک انصاف پہ اعتراضات اپنی جگہ لیکن صرف یہی کہوں گی کہ اس بار ووٹ تحریک کا حق بنتا ھے ،،،،،، اگر ہم آزمائے ہوؤں کو بار بار آزمانے سے نہیں ڈرتے تو نئی قیادت کو آزمانے سے کیوں خوفزدہ ہیں ؟؟؟ کیا تحریک انصاف کی قیادت کا ریکارڈ باقیوں سے زیادہ برا ھے ؟؟؟؟؟
 

طالوت

محفلین
تحریک انصاف جمہوریت کے لئے کوشاں ایک جمہوری پارٹی ہے مگر جماعت اسلامی سب سے زیادہ جمہوری پارٹی ہے ۔ بڑھکیں اور چولیں دونوں مار رہی ہیں ۔

آنکھوں دیکھی مکھی نگلنا مشکل ہے پر پھر بھی ایک موہوم سی امید کے ساتھ تحریک انصاف کو سپورٹ کریں گے کہ شاید ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
تحریک انصاف جمہوریت کے لئے کوشاں ایک جمہوری پارٹی ہے مگر جماعت اسلامی سب سے زیادہ جمہوری پارٹی ہے ۔ بڑھکیں اور چولیں دونوں مار رہی ہیں ۔

آنکھوں دیکھی مکھی نگلنا مشکل ہے پر پھر بھی ایک موہوم سی امید کے ساتھ تحریک انصاف کو سپورٹ کریں گے کہ شاید ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جماعت کی اندرون خانہ جمہوریت کا تو میں بھی دل سے معترف ہوں، باقی جماعتیں شخصیت سے شروع ہو کر ان ہی پر ختم ہو جاتی ہے۔

تحریکِ انصاف سے بھی اچھی اُمیدیں ہیں۔
 

راشد احمد

محفلین
تحریک انصاف میں بہت سے دوستوں کو جانتا ہوں جو اندر کا منظر بتاتے ہیں خدا کی پناہ
تحریک انصاف کی خوبی بھی یہی ہے کہ کارکن آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں لیکن پارٹی نہیں چھوڑتے۔
عمران خان کے منہ پر کارکن یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ آپ نے فلاں فلاں غلط بندے کو لے لیا ہے اور عمران خان سے اختلاف رائے بہت کیا جاتا ہے۔
امیر مقام تحریک انصاف میں شامل ہونا چاہتا تھالیکن درمیان میں آئی ایس ایف اور یوتھ ونگ آگئی اور عمران خان کو روکا کہ اس بندے کو نہ لے یہ تو ہمیں لڑوا کر رکھ دے گا۔ ایک یوٹیوب پر ویڈیو بھی موجود ہے۔
جب عمران خان نے گوجرانوالہ کے بندے شاہد بھنڈر کو لیا تو گوجرانوالہ کے کارکنوں نے احتجاج شروع کردیا اور عمران خان نے گوجرانوالہ جاکر ان کو ٹھنڈا کیا لیکن یہ رکنے والے نہیں تھے اور ان کو اتنا تنگ کیا کہ وہ خود ہی پارٹی چھوڑ کرچلے گئے۔ اس کے جانے کے بعد گوجرانوالہ میں کارکنوں نے جشن منایا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ ن لیگ ہو، اے این پی یا پی پی پی، سب کو اپنی پارٹی میں الیکشن کراتے موت پڑتی ہے اور ملک میں الیکشن اور شفاف الیکشن کے نعرے لگاتے ان کے گلے نہیں سوکھتے۔ کیا یہ منافقت کی بدترین قسم نہیں یا پھر محض اقتدار کے حصول کی گھٹیا کوششیں؟
 

راشد احمد

محفلین
پارٹی الیکشن کروانا بہت مشکل کام ہے۔ پارٹیاں ڈرتی ہیں کہ کہیں ہارنے والے پارٹی نہ چھوڑدیں اور پارٹی کمزور نہ پڑجائے۔ ویسے بھی پارٹیوں میں عہدے پسند ناپسند کی بنیاد پر ملتے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
پارٹی الیکشن کروانا بہت مشکل کام ہے۔ پارٹیاں ڈرتی ہیں کہ کہیں ہارنے والے پارٹی نہ چھوڑدیں اور پارٹی کمزور نہ پڑجائے۔ ویسے بھی پارٹیوں میں عہدے پسند ناپسند کی بنیاد پر ملتے ہیں۔
تو بھئی الیکشن اسی لئے تو کروا رہے ہیں کہ جو اناڑی سیاست دان میرٹ پر نہیں اترتے وہ اپنے آپ فارغ ہو جائیں۔ اسمیں ڈر کیسا؟
 

راشد احمد

محفلین
تو بھئی الیکشن اسی لئے تو کروا رہے ہیں کہ جو اناڑی سیاست دان میرٹ پر نہیں اترتے وہ اپنے آپ فارغ ہو جائیں۔ اسمیں ڈر کیسا؟
جنرل الیکشن میں کچھ ماہ باقی ہیں۔ اس سے قبل پارٹی الیکشن کروانا ایک غلط فیصلہ ہے۔ جب الیکشن ہوں گے اور ہارے ہوئے لوگ چھوڑ کر جائیں گے تو عمران خان کو بہت سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میڈیا کی توپوں کا رخ اس کی طرف ہوجائے گا اور مخالفین پروپیگنڈا کریں گے کہ تحریک انصاف نے الیکشن ٹھیک نہیں کروائے اس لئے لوگ چھوڑ کر جارہے ہیں یا تحریک انصاف کو لوگ چھوڑ کر جارہے ہیں اس لئے انہیں ووٹ نہ دو۔
عمران خان کو چاہئے تھا کہ پارٹی الیکشن جنرل الیکشن کے بعد کروائے تاکہ ووٹ بنک نہ ٹوٹے۔ عین الیکشن سے کچھ عرصہ قبل الیکشن کروانا حماقت ہے
 
Top