مشرف کے پہلے تین سال سب سے بہترین تھے جس میں وہ حکومت چلانے میں آزاد تھا۔ وہ اپنی پسند کے اہلیت والے لوگوں کو لایا اور اقتصادی پابندیوں کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر نواز دور کے 300 ملین ڈالرز سے بڑھ کر ساڑے تین ارب ڈالر تک پہنچ گئے اور پاکستان ڈیفالٹر ہونے سے بچا ( یہ فیکٹ ان لوگوں کے غور کا مقام ہے جو کہتے ہیں کہ مشرف دور میں فقط امریکی امداد کی وجہ سے ترقی ہوئی۔ انہیں مشرف کے پہلے تین سال دیکھنے چاہیے جو کہ گیارہ ستمبر سے پہلے کا وقت ہے اور جس میں ملک تیزی سے ترقی کر رہا تھا)۔
جناب اعلیہ! اسی قسم کی وقتی اقتصادی ترقی تو اللہ بخشے اپنے ایوب ڈکٹیٹر کے دور میں بھی ہوئی تھی۔ ساری دنیا گواہ ہے کہ پاکستان نے 60 کی دہائی میں ایوب کے دور میں بیش بہا اقتصادی ترقی حاصل کی۔ لیکن اسی اقتصادی ترقی کی آڑ میں ہمارے ملک پر 1965 کی جنگ مسلط کی گئی جسکا خمذیادہ مزید بین الاقوامی قرضوں، پی پی پی کی آمد، بنگلہ دیش کی آزادی اور 1971 کی جنگی پسپائی کی صورت میں حاصل ہوا:
During the 1960s, Pakistan was seen as a model of economic development around the world, and there was much praise for its economic progression. The capital Karachi was seen as an economic role model around the world, and there was much praise for the way its economy was progressing. Many countries sought to emulate Pakistan's economic planning strategy and one of them, South Korea, copied the city's second "Five-Year Plan"; the World Financial Center in Seoul is modeled after Karachi.
پھر مشرف کو زبردستی جمہوریت متعارف کروانا پڑی۔
ہاہاہا۔ جمہوریت زبردستی متعارف کروائی نہیں جاتی بلکہ عوام خود کچھ عرصہ بعد آمر کو مجبور کرتی ہے کہ وہ دفع ہو جائے۔ پچھلے سال پوری عرب دنیا میں ہونے والے انقلاب ’’عرب بہار‘‘ تو آپنے دیکھے ہی ہوں گے کہ کس طرح مغربی حمایت یافتہ ٹٹو نما پتلے ڈکٹیٹرز جو پچھلے 30 - 40 برسوں سے وہاں مسلط تھے کو عرب عوام کے انقلاب نے چند مہینوں میں دفع دور کرکے جمہوریت اپنا لی
اس کے لیے مشرف کو ق لیگ کے لوٹوں اور جاگیرداروں کا سہارا لینا پڑا۔ بہرحال پھر بھی ملک اچھی رفتار سے ترقی کرتا رہا۔
لو جی یہ کیا منطق ہوئی؟ اسنے یہ کام جمہوریت کی بحالی کیلئے نہیں بلکہ اپنے ذاتی اقتدار کی بحالی کیلئے کیا تھا۔ کچھ ہوش کے ناخن لیں۔
مگر چونکہ ہمارے ملک کے لوگ انتہا پسند ہیں اور ناشکرے ہیں، اس لیے ایک بہانے یا دوسرے بہانے یہ سب مل کر مشرف کے اوپر پل پڑے۔ ان میں عمران خان، پیپلز پارٹی، نواز شریف اور مذہبی جماعتیں سب شامل ہیں۔
تو کیا ہمارے ملک کی اپوزیشن مشرف جیسے آمر کی پش پناہی کرتی جسنے بغیر پاکستانی قوم سے پوچھے امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کیخلاف جنگ میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ 70 ارب روپے کا نقصان بھی کروایا۔ نیز اسکی بدولت ہونے والا جانی نقصان اور سیکیورٹی کا فقدان ایسے عوامل ہیں جنکی تلافی کرنا ناممکن ہے۔
آج حقیقت یہ ہے کہ عمران خان بھی اپنی قاف لیگ بنا رہا ہے۔
جی نہیں۔ وہ سب پاکستانیوں کو دعوت دے رہا ہے کہ وہ تحریک انصاف میں شامل ہو کر پاکستان کی تقدیر بدلیں۔ پارٹی الیکشنز میں کھڑے ہو کر ٹکٹ جیتیں اور پھر ملکی الیکشنز جیت کر پاک عوام کی خدمت کریں۔ اسمیں قاتل لیگ کے کونسے عناصر ہیں؟ وہ تو ادھیڑ عمر پنجابی چوہدریان کا ایک ٹولہ جسکو سوائے باتیں کرنے کے کچھ نہیں آتا۔
جی ہاں، عمران خان بھی پنجاب میں جاگیرداروں اور برادری سسٹم کو استعمال کر رہا ہے۔
اور اس الزام کا کیا ثبوت ہے آپکے پاس؟
عمران خان کو چار و ناچار وہیں سے چلنا ہے جہاں سے مشرف نے چھوڑا تھا۔
مشرف ایک آمر تھا۔ پاک عوام اسکے خلاف تھی۔ ایک آمر میں اور ایک جمہوری لیڈر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اتنا سمجھنا کیا مشکل ہے؟
مگر یہ سو فیصدی بات ہے کہ جس طرح سب سیاسی و مذہبی جماعتیں و میڈیا مل کر مشرف کے پیچھے پڑا تھا، وہی سب مل کر عمران خان کی ٹانگ کھینچنے کے لیے موجود ہوں گے جیسا کہ مشرف وقت میں انہوں نے کیا تھا۔
عمران خان کی ٹانگیں تو باقی سب جماعتیں بشمول پی پی پی اور نون لیگ ابھی سے ہی کھینچ رہی ہیں۔ ایم کیو ایم والے بھی اس میدان میں شامل ہو جائیں گے جب انہیں عمران خان سے خطرہ محسوس ہوگا۔ لیکن بالآخر جیت اسی پارٹی کی ہوگی جسپر عوام کی اکثریت اعتماد کرے گی۔ اور اسوقت سوائے تحریک انصاف کے کسی دوسری جماعت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایک واحد پاکستانی پارٹی ہے۔ ایم کیو ایم سندھ، پی پی پی جنوبی پنجاب، مسلم لیگ ق اور ن شمالی پنجاب ، جبکہ عوامی لیگ خیبر پختونخواہ کی علاقائی پارٹیاں ہیں۔ اسکے برعکس پاکستان تحریک انصاف ایک پاکستانی پارٹی ہے جو کہ پورے وطن عزیز اور تمام پاکستانیوں کے یکساں حقوق اور فرائض کیلئے لڑ رہی ہے۔ باقی پارٹیاں ملک توڑنے میں مصروف ہیں۔ تحریک انصاف ملک کو جوڑنے اور قائم کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاک عوام اس بار علاقائی ٹھیکے داروں کو ووٹ دیگی یا حقیقی پاکستانی پارٹی کو۔
حرف آخر یہ ہے کہ یہ قوم اسی قابل ہے کہ اس پر زرداری جیسے لوگ حکمرانی کریں۔
تو جناب عالیہ اس ستم ظریفی میں پاک عوام کا کیا قصور ہے؟ ہماری اکثریت انپڑھ جاہل ہے تو اسمیں ان بیچاروں نے کیا گناہ کیا ہے؟ مغرب میں کسی حد تک کامیاب جمہوریت پوری عوام میں مفت تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے ذرائع مہیا کرنے کے کم از کم 30 سال بعد آئی ہے۔ آپکو بہترین جمہوریت حاصل کرنے کیلئے عوام کو زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ بنانا ہوگا۔ جاہلین کی فوج پر زرداری جیسے لٹیرے اسلئے حکومت کر رہے ہیں کیونکہ ہمنے 18 کروڑ کی آبادی میں پڑھی لکھی، سمجھدار اور فہم و ادرارک رکھنے والی اکثریت پیدا ہی نہیں کی۔ ہماری ذہین ترین کریم تو ملک سے باہر دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے تو بیچارے جو ملک میں باقی بچے ہیں وہ اس قسم کے سیاست دانوں کو ہی ووٹ دیں جو انکے تعلیمی اور فہمی مزاج کے مطابق ہوگا۔ ذہین، قابل اور گہری سوچ رکھنے والا سیاست دان جیسا کہ عمران خان کی زیادہ تر باتیں تو انکے اوپر سے ہی گزر جاتی ہیں۔