پاکستان تحریک انصاف کی نظریاتی ویڈیو

دوست

محفلین
میرے خیال سے تبدیلی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اور الاخوان والے بھی لے کر آئے ہیں۔ پھر ان کے لیڈر کُتے بلے نہیں تھے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اس دنیا میں بہت کچھ "آئیڈیل" نہیں ہے۔
بہت سی جگہوں پر "کمپرومائز" کرنا پڑتا ہے۔

جمہوریت کا مطلب ہے "آئیڈیل نہیں بلکہ سب سے اچھے شخص کو چننا"۔ ۔۔۔ اور پاکستان کے حالات کے حساب سے "سب سے کم برے شخص کو چننا"۔

اگر کسی "غیر جمہوری" انقلاب کا انتظار ہے میری رائے میں افق پر اسکے چانسز بہت کم دکھائی دے رہے ہیں۔ کوئی ایسی متبادل قیادت یا نظام نظر نہیں آتا جو کہ پاکستان کو مسائل سے نکال سکے۔ اسلامی پارٹیاں اگرچہ کہ اسلامی انقلاب کا نعرہ لگا رہی ہیں، مگر مجھے نہیں لگتا کہ یہ اکثریت میں ہیں۔۔۔۔ اور اگر بندوق کے زور پر انہوں نے زبردستی طاقت حاصل کر لی تو پھر ان سے امید نہیں کی جا سکتی کہ یہ پاکستان کے مسائل کو حل کر سکیں گے۔

چنانچہ لے دے کر ہمارے پاس چوائس یہی رہ جاتی ہے کہ موجودہ نظام کو اپنے ووٹوں کی مدد سے بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔

میں نے ابتک مشرف کو اسی اصول کی بنیاد پر سپورٹ کیا کیونکہ موجودہ حالات میں وہ بہترین چوائس تھی (اگرچہ کہ انکی قاف لیگ سے ہزار اختلاف تھا اور مجھے وہ اتنے اہلیت کے لوگ کبھی نہیں لگے)۔ مگر مشرف دور بہرحال نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے دور سے کہیں بہتر دور تھا۔

عمران خان نے بھی وہی "قاف" لیگ والے ہتھکنڈے استعمال کرنے ہیں اور اپنی قاف لیگ تشکیل دینی ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے لازمی ہو جاتا ہے کہ انکی مخالفت میں عمران خان کو ووٹ دیے جائیں۔

ہمارا ملک اب اس قابل نہیں رہ گیا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی یا نواز لیگ کا ایک اور پانچ سالہ دور جھیل سکے۔ کسی غیر جمہوری انقلاب کی پرچھائیاں تک دور دور تک نہیں دکھائی دے رہیں ۔۔۔ ایسے میں عمران خان پر چاہے کھل کر تنقید کریں اور اسکی پالیسیز سے اختلاف کریں، مگر خدا کے لیے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی سے قوم کی جان چھڑوائیں۔

میں بذات خود عمران خان کی بہت ناقد ہوں اور عمران خان نے "صحیح وقت" پر مشرف کا ساتھ نہ دے کر میری نظر میں قوم و ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے، لیکن آج کے حالات کا تقاضا ہے ہمیں کسی اور طرف بلاتا ہے کہ اختلافات چاہے رکھے جائیں، مگر ان اختلافات کا فائدہ نواز لیگ یا پیپلز پارٹی نہ اٹھانے پائے۔
 

arifkarim

معطل
لیکن 'وال اسٹریٹ جرنل' کے مضمون نگار کے بقول عمران خان اپنی اس مقبولیت کے باوجود اب تک ان بحرانوں کا کوئی ٹھوس حل پیش نہیں کرسکے ہیں جن میں پاکستان ان دنوں گھرا ہوا ہے۔ اس کے برعکس وہ ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور دیگر مسائل کا الزام امریکہ پر دھرتے ہیں اور طالبان کو ایک خطرہ ماننے سے صاف انکاری ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ تحریکِ انصاف کے رہنمائوں کی 'دفاعِ پاکستان کونسل' نامی اتحاد سے گاڑھی چھنتی ہے جس میں کئی کالعدم اور شدت پسند جماعتیں شامل ہیں۔
'وال اسٹریٹ جرنل' کے مطابق عمران کی معاشی پالیسی بھی ٹھوس منصوبہ بندی سے عاری ہے۔ وہ اقتدار میں آنے کے بعد 90 دن میں ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کا دعویٰ کر رہے ہیں جو مضحکہ خیز لگتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانےکا وعدہ کرتے ہیں جو پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔
اخبار نے لکھا ہے کہ اس وقت پاکستان کو سرمایہ کار دوست ماحول اور ذمہ دارانہ معاشی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے نہ کہ دن میں دیکھے جانے والے خوابوں کی۔
'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ 'پیو ریسرچ سینٹر' کے اس تازہ ترین سروے کے مطابق چین جیسا دوست ملک اور مصر ، اردن اور تیونس جیسے برادر مسلم ممالک کے عوام کی اکثریت پاکستان کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو ایک ایسے سنجیدہ رہنما کی ضرورت ہے جو داخلی حالات سدھارنے اور بین الاقوامی چلینجز سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
وال اسٹریٹ جرنل ایک صیہونی اخبار ہے اور ظاہر سی بات ہے وہ ہر اس سوچ کے خلاف ہیں جو انکے مغربی نظریات کی عکاسی نہیں کرتی۔ جیسے یہ الزام کے عمران خان طالبان کو خطرہ ماننے سے انکاری ہیں۔ بندہ پوچھے کہ یہ طالبان ہماری ہی آئی ایس آئی نے سی آئی کے کہنے پر ’’تخلیق‘‘ کئے ہیں۔ اور یہ ہمارے لئے خطرہ تو تب بنے ہیں جب ہمنے امریکہ کے کہنے پر اسکی نام نہاد دہشت گردی کیخلاف جنگ میں حصہ لیا۔ وگرنہ طالبان تو 90 کی دہائی سے ہماری فوج اور حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ یاد رہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو صرف دو ممالک نے تسلیم کیا تھا اور وہ تھے پاکستان اور سعودی عرب یعنی وہابی جہادی ممالک۔
عمران خان نے امریکہ پر الزام نہیں لگایا بلکہ انکی سابقہ سیکریٹری اسٹیٹ کنڈولیزا رائس کی اپنی ہی کتاب میں کئے گئے دعوے سے ثبوت پیش کیا ہے کہ پاکستانی این آر او کا اصل خالق و مؤجد کون ہے!
باقی جہاں تک وال اسٹریٹ جرنل ہمیں ذمہ دار معاشی منصوبہ بندی کا طعنہ دیتے ہیں تو یہاں انکی مراد مزید قرضے ہیں جنکو لینے سے عمران خان نے صاف انکار کیا ہے۔
پاکستان بلاشبہ فلاحی ریاست بن سکتا ہے اگر عوام عمران خان کا ساتھ دیں بجائے اسکے کہ سارا کام پارٹی ممبران پر سپرد کرکے خود فراغت اختیار کر لیں۔
 

arifkarim

معطل
بھئی انہی ہی کو ٹکٹ ملے گی نا جو عمران خان کے آس پاس ہونگے تو عمران خان کے آس پاس کون ہیں، بڑے بڑے بزرجمہر کون ہیں؟ جن کو ہم سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہی لٹیرے، وہی ڈاکو، وہی کرپٹ، وہی حرام خور یا تمثیل کے مطابق وہی کتے بلے بھیڑیے گیدڑ سؤر جو پہلے اوروں کے ساتھ تھے اب عمران خان کے ساتھ ہیں۔
ویسے الیکشن کا وعدہ تو کر بیٹھے ہیں اپنے عمران خان صاحب۔ اگر یہ وعدہ بھی بس وعدہ ہی رہا اور پارٹی ٹکٹ الیکشن کی بجائے کسی ایرے غیرے پرانے لٹیرے سیاست دان کو دے دیا تو سمجھ لیں کہ قوم کیساتھ ایک اور فراڈ ہوا ہے۔
 

arifkarim

معطل
ویسے مجھے پاک قوم پر کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ ہر ڈکٹیٹر کے جانے کے بعد پھر دوبارہ کسی للو پنجو آزمودہ پارٹی اور انکے نام نہاد 'لیڈران' کو ووٹ دے دیتے ہیں۔ یا وہ ووٹ ڈالتے ہی نہیں اوریہ سب ڈھکوسلے از خود ہی جیت جاتے ہیں۔
صرف یحییٰ کے جانے کے بعد قوم نے حقیقتاً ووٹ ڈالا اور اسکا نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں ظاہر ہوا۔ بعد میں تو ضیاء کی ہلاکت کے بعد پھر وہی پی پی پی اور مسلم لیگ نواز باری باری قوم کو لوٹتے رہے۔ اور قوم لٹتی رہی۔ مشرف ڈکٹیٹر کو ایوب کی طرح گالیاں پڑیں تو پھر خوشی خوشی پی پی پی کو ایوانوں میں بھیج دیا۔ یہ خانہ پوری کتنی صدیوں تک چلے گی؟
 

عسکری

معطل
چلو یار ایک بار ٹرائی کرنے میں کیا حرج ہے 65 جہاں گزار لیے عمران کو 5 دے کر دیکھ لیتے ہیں کیا کرتا ہے کیا بدلتا ہے کم از کم زرداری ٹولہ جیسا تو نہیں ہو گا :p
 

arifkarim

معطل
لیجئے۔ عمران خان نے آج آفیشلی اعلان کر ہی دیا کہ انکی پارٹی تحریک انصاف میں ٹکٹ اسی کو ملی گی جو پارٹی الیکشن میں جمہوری طریقہ سے جیتے گا:
 

مہوش علی

لائبریرین
مشرف کے پہلے تین سال سب سے بہترین تھے جس میں وہ حکومت چلانے میں آزاد تھا۔ وہ اپنی پسند کے اہلیت والے لوگوں کو لایا اور اقتصادی پابندیوں کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر نواز دور کے 300 ملین ڈالرز سے بڑھ کر ساڑے تین ارب ڈالر تک پہنچ گئے اور پاکستان ڈیفالٹر ہونے سے بچا ( یہ فیکٹ ان لوگوں کے غور کا مقام ہے جو کہتے ہیں کہ مشرف دور میں فقط امریکی امداد کی وجہ سے ترقی ہوئی۔ انہیں مشرف کے پہلے تین سال دیکھنے چاہیے جو کہ گیارہ ستمبر سے پہلے کا وقت ہے اور جس میں ملک تیزی سے ترقی کر رہا تھا)۔

پھر مشرف کو زبردستی جمہوریت متعارف کروانا پڑی۔

اس کے لیے مشرف کو ق لیگ کے لوٹوں اور جاگیرداروں کا سہارا لینا پڑا۔ بہرحال پھر بھی ملک اچھی رفتار سے ترقی کرتا رہا۔


مگر چونکہ ہمارے ملک کے لوگ انتہا پسند ہیں اور ناشکرے ہیں، اس لیے ایک بہانے یا دوسرے بہانے یہ سب مل کر مشرف کے اوپر پل پڑے۔ ان میں عمران خان، پیپلز پارٹی، نواز شریف اور مذہبی جماعتیں سب شامل ہیں۔


آج حقیقت یہ ہے کہ عمران خان بھی اپنی قاف لیگ بنا رہا ہے۔

جی ہاں، عمران خان بھی پنجاب میں جاگیرداروں اور برادری سسٹم کو استعمال کر رہا ہے۔

عمران خان کو چار و ناچار وہیں سے چلنا ہے جہاں سے مشرف نے چھوڑا تھا۔

مگر یہ سو فیصدی بات ہے کہ جس طرح سب سیاسی و مذہبی جماعتیں و میڈیا مل کر مشرف کے پیچھے پڑا تھا، وہی سب مل کر عمران خان کی ٹانگ کھینچنے کے لیے موجود ہوں گے جیسا کہ مشرف وقت میں انہوں نے کیا تھا۔

حرف آخر یہ ہے کہ یہ قوم اسی قابل ہے کہ اس پر زرداری جیسے لوگ حکمرانی کریں۔
 

arifkarim

معطل
مشرف کے پہلے تین سال سب سے بہترین تھے جس میں وہ حکومت چلانے میں آزاد تھا۔ وہ اپنی پسند کے اہلیت والے لوگوں کو لایا اور اقتصادی پابندیوں کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر نواز دور کے 300 ملین ڈالرز سے بڑھ کر ساڑے تین ارب ڈالر تک پہنچ گئے اور پاکستان ڈیفالٹر ہونے سے بچا ( یہ فیکٹ ان لوگوں کے غور کا مقام ہے جو کہتے ہیں کہ مشرف دور میں فقط امریکی امداد کی وجہ سے ترقی ہوئی۔ انہیں مشرف کے پہلے تین سال دیکھنے چاہیے جو کہ گیارہ ستمبر سے پہلے کا وقت ہے اور جس میں ملک تیزی سے ترقی کر رہا تھا)۔
جناب اعلیہ! اسی قسم کی وقتی اقتصادی ترقی تو اللہ بخشے اپنے ایوب ڈکٹیٹر کے دور میں بھی ہوئی تھی۔ ساری دنیا گواہ ہے کہ پاکستان نے 60 کی دہائی میں ایوب کے دور میں بیش بہا اقتصادی ترقی حاصل کی۔ لیکن اسی اقتصادی ترقی کی آڑ میں ہمارے ملک پر 1965 کی جنگ مسلط کی گئی جسکا خمذیادہ مزید بین الاقوامی قرضوں، پی پی پی کی آمد، بنگلہ دیش کی آزادی اور 1971 کی جنگی پسپائی کی صورت میں حاصل ہوا:
During the 1960s, Pakistan was seen as a model of economic development around the world, and there was much praise for its economic progression. The capital Karachi was seen as an economic role model around the world, and there was much praise for the way its economy was progressing. Many countries sought to emulate Pakistan's economic planning strategy and one of them, South Korea, copied the city's second "Five-Year Plan"; the World Financial Center in Seoul is modeled after Karachi.



پھر مشرف کو زبردستی جمہوریت متعارف کروانا پڑی۔
ہاہاہا۔ جمہوریت زبردستی متعارف کروائی نہیں جاتی بلکہ عوام خود کچھ عرصہ بعد آمر کو مجبور کرتی ہے کہ وہ دفع ہو جائے۔ پچھلے سال پوری عرب دنیا میں ہونے والے انقلاب ’’عرب بہار‘‘ تو آپنے دیکھے ہی ہوں گے کہ کس طرح مغربی حمایت یافتہ ٹٹو نما پتلے ڈکٹیٹرز جو پچھلے 30 - 40 برسوں سے وہاں مسلط تھے کو عرب عوام کے انقلاب نے چند مہینوں میں دفع دور کرکے جمہوریت اپنا لی :)


اس کے لیے مشرف کو ق لیگ کے لوٹوں اور جاگیرداروں کا سہارا لینا پڑا۔ بہرحال پھر بھی ملک اچھی رفتار سے ترقی کرتا رہا۔
لو جی یہ کیا منطق ہوئی؟ اسنے یہ کام جمہوریت کی بحالی کیلئے نہیں بلکہ اپنے ذاتی اقتدار کی بحالی کیلئے کیا تھا۔ کچھ ہوش کے ناخن لیں۔


مگر چونکہ ہمارے ملک کے لوگ انتہا پسند ہیں اور ناشکرے ہیں، اس لیے ایک بہانے یا دوسرے بہانے یہ سب مل کر مشرف کے اوپر پل پڑے۔ ان میں عمران خان، پیپلز پارٹی، نواز شریف اور مذہبی جماعتیں سب شامل ہیں۔

تو کیا ہمارے ملک کی اپوزیشن مشرف جیسے آمر کی پش پناہی کرتی جسنے بغیر پاکستانی قوم سے پوچھے امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کیخلاف جنگ میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ 70 ارب روپے کا نقصان بھی کروایا۔ نیز اسکی بدولت ہونے والا جانی نقصان اور سیکیورٹی کا فقدان ایسے عوامل ہیں جنکی تلافی کرنا ناممکن ہے۔


آج حقیقت یہ ہے کہ عمران خان بھی اپنی قاف لیگ بنا رہا ہے۔
جی نہیں۔ وہ سب پاکستانیوں کو دعوت دے رہا ہے کہ وہ تحریک انصاف میں شامل ہو کر پاکستان کی تقدیر بدلیں۔ پارٹی الیکشنز میں کھڑے ہو کر ٹکٹ جیتیں اور پھر ملکی الیکشنز جیت کر پاک عوام کی خدمت کریں۔ اسمیں قاتل لیگ کے کونسے عناصر ہیں؟ وہ تو ادھیڑ عمر پنجابی چوہدریان کا ایک ٹولہ جسکو سوائے باتیں کرنے کے کچھ نہیں آتا۔


جی ہاں، عمران خان بھی پنجاب میں جاگیرداروں اور برادری سسٹم کو استعمال کر رہا ہے۔
اور اس الزام کا کیا ثبوت ہے آپکے پاس؟


عمران خان کو چار و ناچار وہیں سے چلنا ہے جہاں سے مشرف نے چھوڑا تھا۔
مشرف ایک آمر تھا۔ پاک عوام اسکے خلاف تھی۔ ایک آمر میں اور ایک جمہوری لیڈر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اتنا سمجھنا کیا مشکل ہے؟

مگر یہ سو فیصدی بات ہے کہ جس طرح سب سیاسی و مذہبی جماعتیں و میڈیا مل کر مشرف کے پیچھے پڑا تھا، وہی سب مل کر عمران خان کی ٹانگ کھینچنے کے لیے موجود ہوں گے جیسا کہ مشرف وقت میں انہوں نے کیا تھا۔
عمران خان کی ٹانگیں تو باقی سب جماعتیں بشمول پی پی پی اور نون لیگ ابھی سے ہی کھینچ رہی ہیں۔ ایم کیو ایم والے بھی اس میدان میں شامل ہو جائیں گے جب انہیں عمران خان سے خطرہ محسوس ہوگا۔ لیکن بالآخر جیت اسی پارٹی کی ہوگی جسپر عوام کی اکثریت اعتماد کرے گی۔ اور اسوقت سوائے تحریک انصاف کے کسی دوسری جماعت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایک واحد پاکستانی پارٹی ہے۔ ایم کیو ایم سندھ، پی پی پی جنوبی پنجاب، مسلم لیگ ق اور ن شمالی پنجاب ، جبکہ عوامی لیگ خیبر پختونخواہ کی علاقائی پارٹیاں ہیں۔ اسکے برعکس پاکستان تحریک انصاف ایک پاکستانی پارٹی ہے جو کہ پورے وطن عزیز اور تمام پاکستانیوں کے یکساں حقوق اور فرائض کیلئے لڑ رہی ہے۔ باقی پارٹیاں ملک توڑنے میں مصروف ہیں۔ تحریک انصاف ملک کو جوڑنے اور قائم کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاک عوام اس بار علاقائی ٹھیکے داروں کو ووٹ دیگی یا حقیقی پاکستانی پارٹی کو۔

حرف آخر یہ ہے کہ یہ قوم اسی قابل ہے کہ اس پر زرداری جیسے لوگ حکمرانی کریں۔
تو جناب عالیہ اس ستم ظریفی میں پاک عوام کا کیا قصور ہے؟ ہماری اکثریت انپڑھ جاہل ہے تو اسمیں ان بیچاروں نے کیا گناہ کیا ہے؟ مغرب میں کسی حد تک کامیاب جمہوریت پوری عوام میں مفت تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے ذرائع مہیا کرنے کے کم از کم 30 سال بعد آئی ہے۔ آپکو بہترین جمہوریت حاصل کرنے کیلئے عوام کو زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ بنانا ہوگا۔ جاہلین کی فوج پر زرداری جیسے لٹیرے اسلئے حکومت کر رہے ہیں کیونکہ ہمنے 18 کروڑ کی آبادی میں پڑھی لکھی، سمجھدار اور فہم و ادرارک رکھنے والی اکثریت پیدا ہی نہیں کی۔ ہماری ذہین ترین کریم تو ملک سے باہر دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے تو بیچارے جو ملک میں باقی بچے ہیں وہ اس قسم کے سیاست دانوں کو ہی ووٹ دیں جو انکے تعلیمی اور فہمی مزاج کے مطابق ہوگا۔ ذہین، قابل اور گہری سوچ رکھنے والا سیاست دان جیسا کہ عمران خان کی زیادہ تر باتیں تو انکے اوپر سے ہی گزر جاتی ہیں۔
 
Top