پاکستان عطائیوں اور اپنا کام نکالنے والے سرجنز کے ہاتھ چڑھ گیا ہے

زیرک

محفلین
پاکستان عطائیوں اور اپنا کام نکالنے والے سرجنز کے ہاتھ چڑھ گیا ہے
مہنگائی اور بیروزگاری کا یہ عالم ہے کہ مہنگائی کی شرح ٪11 فیصد سے بڑھ رہی ہے، سال 2019 کے اختتام تک 12 لاکھ پاکستانی بیروزگار ہوئے، اس طرح بیروزگاری کی تعداد اور شرح دونوں میںاضافہ ہوتا جا رہا ہے، بیروزگار ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ ماہانہ بنتی ہے، گویا کل ملا کر مہنگائی کی وجہ سے 88 لاکھ پاکستانی شرح غربت سے نیچے آ گئے ہیں، اگر یہی شرح برقرار رہی تو 2020 میں ایک کروڑ افراد روزگار سے محروم ہو چکے ہوں گے۔ شرح سود ٪13.75 ہو چکی ہے جس کی وجہ سے کاروبار اور صنعتیں شدید متاثر ہو کر بند ہوتی جا رہی ہیں، کاروبار بند ہونے سے روزگار سیکٹر سخت متاثر ہوا ہے جنوری کے آخری ہفتے میں روزگار سیکٹر سے نکلنے والوں کی شرح ٪31 سے بھی زیادہ ہے اور خدشہ ہے کہ یہ مزید اوپر جائے گی۔ بہتری کی جانب گامزن ٹیکسٹائل سیکٹر کی بجلی مہنگی کرنے سے مزید بیروزگاری پھیلنے کا قوی امکان ہے۔ ھکومت ہر مہینے دو مہینے بعد اپنی پالیسی 360 ڈگری تبدیل کر لیتی ہے، اس تبدیلئ معکوس کی وجہ اس کی بڑی وجہ آئی ایم ایف ہے جسے اپنے دئیے گئے قرضے کی واپسی کا خیال ہے اور ان کی ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کو مکمل طور پر ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، آج آئی ایم ایف کے لیے کام کرنے والے مرتضیٰ سید کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا نائب گورنر مقرر کر دیا گیا ہے، ان کو اپنا منافع کمانے سے غرض ہے، ادھر شرح سود میں اضافہ کر کے اپنا کام نکال لیں گے اور روزگار سیکٹر مزید پستی میں جاگرے گا، مطلب جو کمی رہ گئی تھی وہ بھی پوری ہو جائے گی۔ مریض بچے نہ بچے سرجن آتے رہیں گے اور اپنی مرضی کے اعضاء کاٹ کر لے جاتے رہیں گے یہ سلسلہ تب تک چلے گا جب تک میرے منہ میں خاک مریض تڑپ کر جان نے دے دے۔ اس وقت متوقع سالانہ گروتھ ریٹ یعنی سالانہ شرح نمو قریباً 2.4 بتائی جا رہی ہے، کچھ عالمی مالیاتی اداروں نے جون 2020 تک پاکستان کی متوقع شرح نمو 2.0 اور 2.2 کے درمیان بتائی ہے۔ کام کے مواقع پیدا کرنے کے لیے شرح نمو کو کم از کم 4 پر لانا ضروری ہوتا ہے لیکن میرے منہ میں خاک یہی حال رہا اور اگر خوراک کے مسائل اسی طرح چلتے رہے اور بیروزگاری کی شرح میں اسی تناسب سے اضافہ ہوتا رہا تو موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے اس سال کے قرض اور قرض پہ سود کی قسط تو نکال لے گی مگر یہ فگر 2.0 سے بھی نیچے گر جائے گی اور پھر وہی ہونے کا ڈر ہے جسے بنک کرپسی کہتے ہیں، ٹیکنیکل بنک کرپسی تو سمجھیں واقع ہو چکی، بس رسمی اعلان نہیں کیا جا رہا۔ حکومت کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے بے چاری عوام پس رہی ہے اور مزید پسے گی اور موجودہ دور کا شیخ چلی قوم کو کٹے، وچھے، مرغیاں پالنے کے مشورے دے کر چ بناتا رہے گا۔ کیا کیا جائے پاکستان ایک طرف سیاسی عطائیوں اور دوسری طرف اپنا کام نکالنے والے ماہر سرجنز کے ہاتھ چڑھ گیا ہے جو اس کا گوشت مرضی سے کاٹ رہے ہیں، اعضاء بخرے کیے جا رہے ہیں اور ایسا سب مقتدر قوتوں کی آشیر باد سے ہو رہا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
شرح سود ٪13.75 ہو چکی ہے
شرح سود 13 فیصد مہنگائی 12 فیصد تک بڑھنے کی وجہ سےہوئی ہے جو ریکارڈ تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خساروں کی روک تھام کیلئے ناگزیر تھا۔ اگر سابقہ حکومت کو ملک کے غریبوں، بیروزگاروں کی اتنی فکر تھی تو اگلی حکومت کیلئے اتنے خسارے اور واجب الادا قرضے چھوڑ کر نہ جاتے۔ اب بھگتیں نتیجہ۔ جو بویا وہی کاٹا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ھکومت ہر مہینے دو مہینے بعد اپنی پالیسی 360 ڈگری تبدیل کر لیتی ہے
180 ڈگری کہنا چاہ رہے ہیں؟ 360 ڈگری کا تو یہ مطلب ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسی وہی ہے جو پہلے تھی۔ یعنی پچھلی حکومت کے چھوڑے ہوئے ریکارڈ خساروں کو کم کرنا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس کی بڑی وجہ آئی ایم ایف ہے جسے اپنے دئیے گئے قرضے کی واپسی کا خیال ہے اور ان کی ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کو مکمل طور پر ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے
پچھلی ن لیگی حکومت نے آئی ایم ایف کو بھی سرکاری بینک سمجھا ہوا تھا۔ جس سے اربوں روپے قرضے لے کر یہ قومی چور بعد میں اپنا رسوخ استعمال کرتے ہوئے معاف کروا لیتے تھے۔ اب ان کو چاہئے کہ اپنا رسوخ استعمال کرتے ہوئے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضے بھی معاف کروائیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
پھر وہی ہونے کا ڈر ہے جسے بنک کرپسی کہتے ہیں، ٹیکنیکل بنک کرپسی تو سمجھیں واقع ہو چکی، بس رسمی اعلان نہیں کیا جا رہا۔
آئی ایم ایف کے پاس اس لیانا جانا پڑا کیونکہ سابقہ حکومت نے ریکارڈ 18 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ چھوڑا تھا۔ اور ملک اس خسارہ کو پورا نہ کرنے کے سبب دیوالیہ ہو چکا تھا۔ آئی ایم ایف نے قرض اس شرط پہ دیا کہ حکومت ان ریکارڈ خساروں کو کم کرے تاکہ ملک اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکے۔
پچھلے 16 ماہ میں یہ بیرونی خسارے تیزی سے کم ہوئے ہیں۔ اور پاکستان سے دیوالیہ پن کی لٹکتی تلوار ہٹ گئی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس وقت متوقع سالانہ گروتھ ریٹ یعنی سالانہ شرح نمو قریباً 2.4 بتائی جا رہی ہے، کچھ عالمی مالیاتی اداروں نے جون 2020 تک پاکستان کی متوقع شرح نمو 2.0 اور 2.2 کے درمیان بتائی ہے۔ کام کے مواقع پیدا کرنے کے لیے شرح نمو کو کم از کم 4 پر لانا ضروری ہوتا ہے لیکن میرے منہ میں خاک یہی حال رہا اور اگر خوراک کے مسائل اسی طرح چلتے رہے اور بیروزگاری کی شرح میں اسی تناسب سے اضافہ ہوتا رہا تو موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے اس سال کے قرض اور قرض پہ سود کی قسط تو نکال لے گی م
ماضی کی حکومت کی طرح امپورٹس بے لگام کرکے شرح نمو دوبارہ 5 فیصد یا اس سے زیادہ کی جا سکتی ہے۔ اور پھر 3 سال بعد اگلی حکومت کو آج سے بھی زیادہ دیوالیہ پاکستان ورثہ میں ملے گا۔ آپ ملک کے غریبوں کو بچانے کے چکر میں ملک دیوالیہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
 

زیرک

محفلین
ماضی کی حکومت کی طرح امپورٹس بے لگام کرکے شرح نمو دوبارہ 5 فیصد یا اس سے زیادہ کی جا سکتی ہے۔ اور پھر 3 سال بعد اگلی حکومت کو آج سے بھی زیادہ دیوالیہ پاکستان ورثہ میں ملے گا۔ آپ ملک کے غریبوں کو بچانے کے چکر میں ملک دیوالیہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
تمہارے تمام سوالات و جوابار کا ایک ہی جواب ہے کہ حکومت کے پاس کوئی پالیسی نہیں سوائے مہنگائی کے ان ڈائریکٹ ٹیکس لگانے کے۔
حکومتی وژن کا یہ حال ہے کہ گندم فالتو قرار دے کر 29 روپے کلو کی کم قیمت پرافغانستان کو ایکسپورٹ کی اور اب جب نایاب ہو گئی تو 70 روپے کلو باہر سے منگوائی جائے گی۔
حکومتی وزیر برائے فوڈ سیکورٹی کہتا ہے سندھ میں 50 روپے کلو بک رہی ہے اور کے پی کے میں 52 روپے جبکہ اصل حالات یہ ہیں کہ چکی والوں کو بؑہ مشکل سے 68 روپے کلو آٹا بیچنے پر راضی کیا گیا ہے۔
حکومت کو مبارک ہو چینی اور دالوں میں مہنگائی کے اثرات نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ لگتا ہے حکومت جائے یا نہ جائے ترین صاحب اپنا لگایا خوب پورا کرنے جا رہے ہیں۔
 

زیرک

محفلین
پاکستان سے برہمن ازم ختم کیا جائے
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اس کا مراعات یافتہ طبقہ ہے، جو اول تو ٹیکس نہیں دیتا، دیتا ہے تو احسان جتا کر اور پھر ٹیکس ریٹرن، امپورٹ یا ایکسپورٹ میں مراعات لے لیتا ہے۔مراعاتا یافتہ طبقے کو مفت مراعات کا بل عوام چکاتی ہے، مہنگائی کا بوجھ بھی عوام اٹھاتی ہے، آج مہنگائی کنٹرول ہو سکتی ہے اگرمراعات یافتہ طبقے سے پٹرول، بجلی، گیس، تعلیم اور علاج کی مفت سہولتیں واپس لے لی جائیں، مراعات یافتہ طبقے سے جب مفت مراعات واپس لی جائیں گی تو تب ہی انہیں احساس ہو گا کہ غریب کن مشکل حالات میں جی رہا ہے۔ کوئی خوفِ خدا ہی نہیں کہ ہر یوٹیلیٹی بل میں مقدس مخلوق کو دی جانے والے مراعات کا بل ایڈجسٹمنٹ کے نام پر عام غریب صاف کے بل میں ڈال دیا جاتا ہے، غریب بے چارے ان کے بل چکائیں یا دو وقت کی روٹی کھائیں؟ پاکستان سے برہمن ختم کیئے جائیں غربت خودبخود ختم ہو جائے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
حکومت کو مبارک ہو چینی اور دالوں میں مہنگائی کے اثرات نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ لگتا ہے حکومت جائے یا نہ جائے ترین صاحب اپنا لگایا خوب پورا کرنے جا رہے ہیں۔
خان صاحب پر کی گئی سرمایہ کاری بھی تووصول کرنی ہے۔
 

زیرک

محفلین
خان صاحب پر کی گئی سرمایہ کاری بھی تووصول کرنی ہے۔
شکر ہے سچی بات کو مانتے ہو مگر ذرا لولیول پر، خیر یہ بھی تو اچھا ہے۔
پچھلے 20 سال میں پاکستان دوسری دفعہ گندم درآمد کرے گا، پچھلی بار جب گندم امپورٹ کی گئی تھی تب بھی اس کام کی دیکھ بھال جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کر رہے تھے اور اب بھی یہی ہو رہا ہے۔پہلے بھی لمبا مال بنایاتھا اور اس بار تو گندم کے ساتھ چینی اور بہت سے لواازمات ہیں، لگتا ہے اس بار لمبا ہاتھ مارنے کا ارادہ ہے۔
 
Top