پاکستان فوج کاایسا استقبال کیوں نہیں ؟
ممبئی حملوں کے دوران ویسے تو جو بھی دیکھا دل دہلا دینے والا تھا لیکن ایک پہلو دیکھ کر بطور پاکستانی عجیب سا احساس ہوا۔ یہ منظر تھا جب بھارتی کمانڈوز نرمائن ہاؤس میں کامیاب کارروائی کے بعد ایک بس میں بیٹھے واپس جا رہے تھے۔ عام شہریوں اور صحافیوں نے بس کوگھیرا ہوا تھا۔ کئی نے ہاتھ اٹھا کر اپنے فوجیوں کے لیے تالیاں بجا کر ان کو داد دی۔ ایک آدھ نے گلاب کا پھول بھی انہیں دیا۔ ان فوجیوں کے چہروں پر خوشی دیکھنے کے لائق تھی۔
سوچا آخری مرتبہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کی اس طرح عوامی پذیرائی کب ہوئی تھی؟ ایک ساتھی نے یاد دلایا کہ فروری انیس سو چورانوے میں جب پاکستانی کمانڈوز نے سکول بس اغوا کرنے والے افغان شدت پسندوں کے خلاف اسلام آباد میں کامیاب کارروائی ہوئی تو اس کے بعد یہی خیرسگالی کے جذبات یہاں بھی دیکھے گئے تھے۔ ’پاک فوج زندہ باد جیسے نعرے بھی سنائی دیئے۔‘
لیکن اب محض چودہ برس کے عرصے گزر جانے کے بعد یہ جذبات تقریباً ہوا ہو چکے ہیں۔ اس کی وجہ کچھ عالمی حالات اور کچھ ’اپنوں کی چالاکیاں‘ زیادہ کارفرما رہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ فوجی پولیس کی حفاظت میں آتے جاتے ہیں، اپنی گاڑیوں کے رنگ انہوں نے تبدیل کر دیئے ہیں اور کسی عام شہری کو قریب پھٹکنے نہیں دیا جاتا۔
یہ نہیں کہ بھارتی فوج دودھ میں نہائی ہوئی ہے۔ کشمیر میں مظالم کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔اس طرح کے کئی بھارتی علاقوں میں وہ علیحدگی اور انتہا پسندی کی جنگ ناکام بنانے میں مصروف ہے۔ لیکن وہ اتنی سیاست میں نہیں الجھی جتنی پاکستان میں الجھائی گئی۔
پاکستانی فوج بھی اگر شاید سیاست سے دور رہتی تو آج عوام کا رویہ مختلف ہوتا۔ خود عسکری قیادت کو اس کا اب شدید احساس ہے اور تبدیلی لانے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ عوامی خیرسگالی واپس حاصل کرنا پھر کوئی مشکل نہیں ہوگا۔
بھارتی جذبات کی عکاسی اور انسانی زندگی کی اہمیت کا احساس گجرات حکومت کی جانب سے ممبئی حملوں میں ہلاک ہونے والے چودہ پولیس اہلکاروں کے لواحقین کے لیے ایک ایک کروڑ روپے کےمعاوضے کے اعلان سے بھی ہوتا ہے۔
پاکستان میں زیادہ سے زیادہ معاوضہ لاہور میں ایف آئی اے حملے میں ہلاک ہونے والوں کے لیے تیرا تیرا لاکھ تھا۔
لیکن ابھی حالات اتنے بھی بگڑے نہیں ہیں۔ پشاور میں گزشتہ برس محرم کے موقع پر ایک خودکش حملے میں ہلاک ہونے والے پولیس سربراہ ملک سعد کی مثال ہمارے پاس موجود ہے۔ اس جیسے فرض شناس اور قابل افسر کی ہلاکت کا دکھ سب نے محسوس کیا تھا۔
ان کے جنازے میں دو لاکھ افراد کی شرکت، انہیں بہادری کا سب سے بڑا ایواڈ ’نشان شجاعت‘ دیا جانا، ان کے نام سے کئی مقامات کو منسوب کرنا اور ان کے نام سے فلاحی ٹرسٹ کے قیام چند اقدامات ہیں جن سے انہیں اس قوم نے نوازا۔
اس وقت پاکستانی فوج شدید دباؤ میں ہے۔ جو فوجی آمر اس ملک کو اسلام کا قلعہ بنانا چاہتے تھے وہ تو نہیں بنا سکے ملک کو قتل و غارت گری کا بازار ضرور بنا دیا ہے۔
قبائلی علاقوں اور سوات میں جاری لڑائی کا کوئی خاتمہ دکھائی نہیں دے رہا۔ خود اعلیٰ حکام کہہ رہے ہیں کہ سیکورٹی فورسز ضرورت سے زیادہ پھیلی ہوئی ہیں۔
ہمسایہ ممالک انگلیاں اگر آپ کی حکومت کی طرف نہیں تو بقول صدر آصف علی زرداری ’غیر ریاستی عناصر‘ کی جانب اٹھا رہے ہیں۔ ایسے میں ان کے خلاف نہ صرف فوج بلکہ خفیہ ادارے بھی ناکام ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کا اعتراف حکومت بھی کر رہی ہے کہ شدت پسند علاقے میں ایک تیسری قوت بن کر ابھرے ہیں۔
پاکستانی عوام میں سراہنے کی صلاحیت کو کوئی دیمک نہیں لگی ہے اگر انہیں سو فیصد یقین ہو کہ جس نے جان بازی پر لگا دی وہ ان کے لیے تھی۔ یہ نہ ہو کہ جس شدت پسند کو آپ چھ برسوں میں ختم کرنے کے بظاہر درپے ہوں وہ یکدم ’محب وطن‘ قرار پا جائے۔
دل میں شاید ایک خواہش تھی کہ پاکستانی فوج کا بھی اسی طرح استقبال ہو، خیر مقدم ہو۔ اسی کسک نے شاید یہ لکھنے پر مجبور کیا۔
---------------------------------------------------------------------------------------
سورس یہاں سے
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/12/081202_mumbai_commando_ra.shtml