پاکستان میں اردو

جیسبادی

محفلین
شارق مستقیم نے کہا:
اردو کا ہر چاہنے والا اردو کی موجودہ صورتحال اور اس کے مستقبل کے بارے میں فکرمند رہتا ہے اس لیے میں اس بحث کو لایعنی ہر گز نہیں سمجھتا۔

ہم تو جس نئی نسل کو دیکھ رہے ہیں وہ اردو سے زیادہ سے زیادہ احتراظ کرنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے۔ اس میں کچھ تو حالات کی ستم ظریفی ہے کہ انگریزی کو language of success سمجھ لیا گیا ہے سو اب والدین بھی بچے سے کہتے ہیں دیکھو وہ مون ہے اور وہ سٹار!

اسی طرح نئی نسل منہ ٹھیڑھا کر کر کے انگریزی بولنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ ان سے اگر آپ اردوئے مبین میں بات کر جائیں تو منہ دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کے سامنے اچھی اردو بولنے والا خود بے وقوف بن جاتا ہے۔

بیچارے اردو کے چاہنے والوں کے لیے ایک نئی اصطلاح "اردو میڈیم" بھی مقبول کردی گئی ہے۔ اس سے ان کو دقیانوسی ثابت کیا جاتا ہے۔

مثلاً بہت سے لوگوں کو جب میں روزنامہ بوریت سے متعارف کرواتا ہوں تو ان کا منہ بن جاتا ہے کہ "اردو ویب سائٹ!!!"

یہ تو میرے اطراف میں صورتحال ہے دوسری جگہوں پر معاملہ بہتر ہوسکتا ہے۔

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ قومیں اپنی زبان نظر انداز کرکے کبھی ترقی نہیں کرسکتیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ آپ دوسری زبان میں پڑھ اور لکھ تو سکتے ہیں، مگر سوچ نہیں سکتے۔ اس نکتے پر میں جیس سے رائے دینے کی درخواست کروں گا۔
میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ اصل مجرم یہاں ہمارے سکولوں میں انگریزی کی تعلیم کا ناقص ہونا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ ہم کئی سال پڑھ کر بھی انگریزی بولنا نہیں سیکھ پاتے۔ اس لئے اانگریزی کے زیادہ سے زیادہ الفاظ اردو کے جملے میں استعمال کر لاشعوری طور پر اس کمی کا مواخذہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لکھنے اور سمجھنے میں کجا کتنی ہی مہارت ہو، مگر بولنے میں مار کھاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ کبھی بولنے کی مشق کرنے کا موقع نہیں مل پاتا۔ اگر طالب علموں کو انگریزی بولنا جلد سکھا دیا جائے تو وہ انگریزی کو صرف ایک زبان سمجھیں گے اور بوقت ضرورت بولیں گے۔ اردو میں انگریزی ملانا چھوڑ دیں گے۔ کئی یورپی ممالک کے لوگ انگریزی صرف چند سال کیلئے پڑھتے ہیں اور ہمارے سے کہیں بہتر بولتے ہیں۔ باقی کام اپنی زبان میں کرتے ہیں۔
دوسری وجہ جس کی وجہ سے اردو میں انگریزی ملانے کی یہ ہے کہ چونکہ ہم اردو لکھتے بہت کم ہیں اس لئے اردو اصطلاحات سے نابلد ہوتے جاتے ہیں چنانچہ عام الفاظ کیلئے بھی انگریزی ٹھوکنے لگتے ہیں۔ اب اس طرح کے چوپالوں پر اردو لکھ کر اردو بول چال بھی بہتر ہونے کا قوی امکان ہے۔
 

جہانزیب

محفلین
ایک بات اردو میڈیم والی سے تو میں سو فیصد متفق ہوں ھمارے ملک میں اس کو ایک تضحیک کا معیار بنا لیا گیا ہے۔ میرے دوست کی جو یہاں نیویارک میں رہتا ھے کی کراچی میں شادی ھوئی بھابھی یہاں آئیں اس وقت میں اپنے بلاگ پر ایک مضمون لکھ رہا تھا، انہوں نے مجھ سے پوچھا کیا کر رہے ہو میں نے بتا دیا اور ساتھ ہی انھیں بلاگ پڑہنے کی دعوت دے دی۔ جیسے ہی انہوں نے بلاگ دیکھا تو فورا کہنے لگیں کہ یہ تو اردو میں ہے اور مجھے اردو پڑھنا نہیں آتی۔ خیر میرے پاس اسکا انتہائی معقول جواب ہے میری نانی ماں اور دادی ماں دیہات میں رہنے والی تھیں دونوں پکی پینڈو اور سکول کا منہ تک نہیں دیکھا کبھی صرف قرآن پاک پڑھا ہوا تھا۔ وہ بغیر سکول گئے صرف قرآن پڑہنے کی وجہ سے اردو پڑھ لیتی تھیں۔ اردو اخبار اور باقی دینی کتابیں وہ اسی ایک قرآن کے پڑھے ہوئے کی بنیاد پر پڑھ لیتی تھیں۔ لیکن اگر آپ پاکستان میں سکول جا کر بعد میں ایسا کہیں کہ اردو پڑھنا نہیں آتا تو اس کی مکمل پڑھائی پر ہی مجھے شک پڑ جاتا ہے۔ کہ آیا پڑھا بھی ہے یا صرف سکول جانے کا ڈھکوسلا کیا ہے۔
 
جیسبادی نے کہا:
اگر طالب علموں کو انگریزی بولنا جلد سکھا دیا جائے تو وہ انگریزی کو صرف ایک زبان سمجھیں گے اور بوقت ضرورت بولیں گے۔ اردو میں انگریزی ملانا چھوڑ دیں گے۔ کئی یورپی ممالک کے لوگ انگریزی صرف چند سال کیلئے پڑھتے ہیں اور ہمارے سے کہیں بہتر بولتے ہیں۔ باقی کام اپنی زبان میں کرتے ہیں۔
واہ جناب واہ، آپ کی بات دل کو لگی ہے۔ اس سے پہلے میں‌نے اس زاویے سے نہیں سوچا تھا۔ آپ نے بالکل درست کہا کہ ہم لوگ ان جگہوں پر بھی انگریزی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں جہاں بڑی آسانی کے ساتھ اردو کے متبادل الفاظ موجود ہیں، اور جیسا کہ آپ نے کہا، اسکی وجہ انگریزی نہ بول سکنے کا احساس کمتری ہے۔
کاش ہمارا نظام تعلیم اتنا اچھا ہوتا کہ لوگ انگریزی کی ایک زبان کے طور پار سیکھ پاتے۔ یہاں تو یہ ہوتا ہے کہ لوگ انگریزی نہ جاننے کی وجہ سے اردو کا بیڑا غرق کردیتے ہیں۔
 
جہانزیب نے کہا:
ایک بات اردو میڈیم والی سے تو میں سو فیصد متفق ہوں ھمارے ملک میں اس کو ایک تضحیک کا معیار بنا لیا گیا ہے۔ میرے دوست کی جو یہاں نیویارک میں رہتا ھے کی کراچی میں شادی ھوئی بھابھی یہاں آئیں اس وقت میں اپنے بلاگ پر ایک مضمون لکھ رہا تھا، انہوں نے مجھ سے پوچھا کیا کر رہے ہو میں نے بتا دیا اور ساتھ ہی انھیں بلاگ پڑہنے کی دعوت دے دی۔ جیسے ہی انہوں نے بلاگ دیکھا تو فورا کہنے لگیں کہ یہ تو اردو میں ہے اور مجھے اردو پڑھنا نہیں آتی۔ خیر میرے پاس اسکا انتہائی معقول جواب ہے میری نانی ماں اور دادی ماں دیہات میں رہنے والی تھیں دونوں پکی پینڈو اور سکول کا منہ تک نہیں دیکھا کبھی صرف قرآن پاک پڑھا ہوا تھا۔ وہ بغیر سکول گئے صرف قرآن پڑہنے کی وجہ سے اردو پڑھ لیتی تھیں۔ اردو اخبار اور باقی دینی کتابیں وہ اسی ایک قرآن کے پڑھے ہوئے کی بنیاد پر پڑھ لیتی تھیں۔ لیکن اگر آپ پاکستان میں سکول جا کر بعد میں ایسا کہیں کہ اردو پڑھنا نہیں آتا تو اس کی مکمل پڑھائی پر ہی مجھے شک پڑ جاتا ہے۔ کہ آیا پڑھا بھی ہے یا صرف سکول جانے کا ڈھکوسلا کیا ہے۔

جہانزیب بہت خوبصورت بات کی ہے اور میں اس چیز سے پوری طرح متفق ہوں کہ اپنی زبان کو بہت سے اہل وطن نے جو ایک طویل عرصہ پاکستان رہیں اور اب بیروں ملک رہائش پذیر ہیں اردو پڑھنے کو کوئی کمتر یا تحقیر کا باعث سمجھتے ہیں۔ میرے بھی کئی دوست اور احباب بیرون ملک ہیں اور سب پڑھے لکھے بھی ہیں مگر جب انہیں اردو میں کچھ پڑھنے کے لیے کہوں تو طرح طرح کے بہانے کرنے لگتے ہیں اور اردو پڑھنے کو انتہائی مشکل عمل بتانے کی کوشش کرتے ہیں جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ میری والدہ صرف چار جماعتیں ہی پڑھی ہیں مگر وہ اردو آسانی سے پڑھ اور لکھ سکتی ہیں اور میری نانی بھی لکھ پڑھ سکتی تھی اردو مگر بیروں ملک پاکستانیوں کی اردو خاص طور پر کمزور ہو رہی ہے یا وہ اسے کمتر زبان ہی سمجھتے ہیں اور پاکستان میں بھی خاصا رجحان پایا جاتا ہے۔ انگلش سیکھنا اور بولنا یقینا ایک قابل ستائش عمل ہے ہر اس شخص‌کے لیے جس کی یہ دوسری زبان ہے مگر انتہائی شرم کی بات ہے اگر کوئی پاکستانی ہے اور اسے اردو نہیں آتی باوجود مواقع ہونے کے۔ کچھ لوگوں کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ بیرون ملک بھی اردو کے لیے کتنا جذبہ ہے اور ذوق شوق سے آتے ہیں۔
 
جواب

محترم مسئلہ دراصل یہ ہے ہم نے زبان کو سرکاری زبان تو قرار دے دیا ہے لیکن اعلی تعلیم کے لیے ہم لوگ انگریزی سے دامن نہیں چڑا سکے۔ یوں اردو کی اہمیت گھٹنے لگی۔ اور آج یہ حالت ہے جناب کہ جب ہم ایم اردو کے لیے یونیورسٹی پہنچے تو نجانے کتنے لوگوں نے ہمارا مذاق اڑایا۔ دوسری طرف میرے خیال میں زبان کی ترویج میں ادب اور کتاب کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے آج کے دورمیں مادہ پرستی اتنی عام ہو گئی ہے کہ ادبی کتاب گھر میں‌اٹھاو تو پہلے ماں باپ اعتراض کرتے ہیں کہ بھئی کیا بکواس پڑھ رہے اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔ شاعری ناول پڑھنے سے تمہیں کیا حاصل ہوگا۔ سکول اور کالج کی لائبریری میں زبان اور ادب کے متعلق مواد دیکھ کر ہمیشہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ کتابیں اتنی مہنگی ہیں کہ ہم اسے خریدنے کے قابل نہیں ہوتے۔ سنا ہے کہ اب تو لائبریری کی جگہ مارکیٹیں بننے کے منصبوبے ہیں کوہاٹ میں بھی ایسا ہی ہوا جہاں لائبریری کی عمارت گرا کر مارکیٹ تعمیر کی گئی ہے۔ واہ جناب ایسی حالت میں ہماری زبان اور ادب کیسے ترقی کریں گے۔ اس کا فیصلہ آپ پر ہے۔
 

جیسبادی

محفلین
اعلٰی تعلیم تو کم ہی لوگ استعمال کرتے ہیں۔ اس میں قصور یہ بھی تھا کہ اردو ٹائپ رائیٹر کو رائج نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے بابو لوگ اردو میں چٹھیاں جاری نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ انگریزی عملاً سرکاری زبان بن گئی۔ اب اس طرح کے چوپالوں پر لوگوں کو لکھتا دیکھ کر یہ امید ہونا شروع ہو گئی ہے کہ نوجوانوں میں اردو کو شعور جاگ رہا ہے۔ اگر آپ لوگ مزید پراپیگنڈہ کرتے رہیں اور لوگوں کو کھینچ کر اردو فورم سے روشناش کراتے رہیں، تو بہتری آئے گی۔ نیٹ کے دور میں عام لوگوں کے پاس بہت طاقت ہے۔ اب حکومت وغیرہ کی کوئی محتاجی نہیں۔
 
صورت حال ذرا مایوس کن ہے۔
تمام اعلیٰ تعلیم اور بہتر نوکری کے تقاضے انگریزی زبان سے ہی پورے ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں میرا پاکستان جانا ہوا اور سوچا کہ گلی کے نکڑ پر جو اسکول ہے وہاں ہی بچے کو داخل کرادوں تاکہ اس کی اردو کچھ بہتر ہوجائے۔ ملاقات ہوئی ایک ایجوکیشنل ایکسپرٹ سے جو شکل سے اردو میڈیم اسکول (جس کا میں‌پڑھا ہوا ہوں) کے پی ٹی ماسٹر لگتے تھے۔ پاٹ دار اواز میں‌ پنجابی دار انگریزی بول رہے تھے۔ ان کا تمام اصرار اس بات پر تھا کہ اپ بچے سے گھر میں‌بھی انگریزی ہی بولیں تاکہ بچے کو جھجھک نہ ہو۔ جب انہیں بتایا کہ ان کے پاس انے کی غرض یہ کہ بچے کی اردو ٹھیک ہوسکے تو ہکا بکا رہ گئے۔ باھر نکلا تو بچوں‌پر نظر پڑی۔ پھول جیسے معصوم بچے۔ مگر اس وقت میں بھی دھک سے رہ گیا جب چھوٹی بچیوں کے لباس (یونی فارم) پر نظر پڑی۔ وہ صرف ایک لمبی شرٹ میں‌بغیر شلوار کے ملبوس تھیں۔ یا الہیٰ یہ پاکستان ہے جہاں انچل سر سے کھسک جائے تو قیا مت برپا ہوجاتی تھی۔
بچہ اسکول جانے لگا۔ اسکول کا نام بھلا سا تھا کوئی سینٹ ائیں‌بائیں شائیں۔ کوئی معقول نام ہی نہ ملا تھا ان کو۔ بعد میں‌پتہ چلا کہ مالک نے نام اس لے رکھا ہے کہ زیادہ لوگ انگریزی میڈیم میں بچے داخل کرائیں۔ کرسچن نام زیادہ امدنی- استانیوں سے ملاقات ہو ئی سب کی سب جینز اور شارٹ شرٹ‌میں‌ملبوس۔ ہائے بائے کرتی ہوئی۔ اگلے دن میں‌نے بچے سے پوچھا کہ کیا حال رہا۔ تو کہنے لگا کہ ابو یہ تو “گڈ مارننگ“ اسکول ہے۔ جب میں‌اسکول گیا اور سلام کہا مس کو تو جواب“گڈ مارننگ“ ہاے ہاے۔ صرف اس سکول کی ماسی کو سلام کا جواب دینا اتا تھا۔ ہائے ہائے۔
 
مثبت تعصب

اکبر کا ایک شعر تھوڑا مختلف انداز میں استعمال کر رہا ہوں، کہتے ہیں:

دین کو سیکھ کے دنیا کے کرشمے سیکھو
مذہبی درس الف بے ہو، الیگڑھ تے ہو

ہمیں یہ سمجھنے کی اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اپنی زبان سیکھ کر پھر جو چاہو زبان سیکھو، سمجھو اور بولو۔ مگر اپنی زبان کو سب سے زیادہ قدر دو۔ اس طرح کے مثبت تعصب قوموں کے لیے بہت ضروری ہیں۔
 
اصل میں بحیثیت قوم ہم انتہائی احساسِ کمتری کا شکار ہوچکے ہیں اور انگریزی کو ہم آسمانِ ستائش پر بٹھا لیا۔ انگریزی کی افادیت اور عالمگیریت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا مگر اسے حواسوں پر سوار کرلینے کی بھی کیا ضرورت ہے۔ میری جب بھی بحث ، یہی طعنہ ملا کہ اردو کی ضرورت کیا ہے اور انگریزی ہی سیکھنے پر ساری صلاحیتیں صرف کرنی چاہیے۔ میری انگریزی بری نہیں بلکہ انگریزی کی حمایت کرنے والے بہت سے ایسے لوگ جن کی پہلی زبان انگریزی نہیں ان سے کہیں بہتر ہے مگر میں یہ احساس رکھتا ہوں کہ زبان قوموں کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ ہمیں انگریزی ضرورت کے تحت سیکھنی چاہیے نہ کہ فرض کے طور پر۔ لوگوں کی سوچ اب اتنی سطحی ہو چکی ہے اور اس قدر احساسِ کمتری ہے کہ جو شخص انگریزی نہ بول سکے اسے پڑھا لکھا ہی نہیں سمجھتے چاہیے وہ علم و فن کے کتنے ہی بلند مرتبے پر ہو۔

ایک دلچسپ قصہ دو ماہ پہلے پیش آیا، مانچسٹر میں میرے گاؤں کے جاننے والے رہتے ہیں پچھلے پچیس سال سے۔ میں ان سے ملنے گیا اور مجھے ایک ریفرنس لیٹر چاہئے تھا میں نے ان سے کہا کہ مضمون بنوا دیں ذرا انہوں نے میری مدد کرنی شروع کی اور میں نے لکھ لیا۔ لکھنے کے بعد میں نے ان سے کہا کہ ذرا پڑھ لیں کہ میں نے ٹھیک لکھا ہے تو مسکرانے لگے اور کہا “ کیوں مذاق کرتے ہو بھائی اگر پڑھ لکھ سکتے تو اور کیا چاہئے تھا“۔ تب مجھے احساس ہوا کہ وہ انگریزی بول اور سمجھ تو اس لیے سکتے ہیں کیوں کہ وہ 25 سال سے انگلستان میں ہیں مگر ہیں تو ان پڑھ ہی نہ۔ میں شرط لگا کر کہہ سکتا ہوں میں انہیں پاکستان لے جاؤ اور ان سے صرف انگریزی میں بات کروں تو لوگ اندازوں میں جانے کتنا پڑھا لکھا سمجھیں جب کہ وہ ایک لائن نہ لکھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں صرف زبان بولنی اور سمجھنی آتی ہے۔
 
اردو پڑھنے والوں کی کمی

زاہدہ حنا اردو کی ایک ممتاز لکھاری ہیں۔ انہوں نے ایک تازہ انٹرویو میں پاکستان میں اردو پڑھنے والوں کی کمی کی وجہ بتائی:

"ہمارے ہاں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اردو بول تو سکتے ہیں لیکن لکھ یا پڑھ نہیں سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین بچوں کو اردو زبان یا ادب سیکھنے کی ترغیب نہیں دیتے چنانچہ اردو پڑھنے والوں کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔"

http://www.hindustantimes.com/news/181_1660947,00110004.htm
 
Top