سید رافع
محفلین
سابق پاکستانی امریکی سفیرحسین حقانی اپنی کتاب Pakistan between Mosque and Military میں کہتے ہیں کہ یہ سمجھنا غلط ہے کہ پاکستان میں اسلامائزئشن کا عمل ضیاء یا مشرف نے شروع کیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ریاست پاکستان کے نظریے کو توسیع دی۔ ان کا کہنا ہے کہ 1949 کی قرار داد مقاصد پاکستان کو اسلامسٹ بنانے کی طرف پہلا قدم تھا۔
پاکستان کے لوگوں کو اسلامسٹ بنا کر کبھی کشمیر میں لڑایا جاتا ہے اور کبھی افغانستان میں۔ 1971 میں کبھی بنگلہ دیش کی منتخب لیڈروں کو اسلامسٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے تو کبھی انکے ذریعے پاکستان کی سیاست کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ حسین حقانی کا کہنا ہے کہ پاکستان بننا مغلوں کے دور میں مسلمانوں کو ملنے والی مراعات چھننے کا نتیجہ ہے۔ حسین صاحب کی باتوں سے لگتا ہے کہ دو قومی نظریہ ایک عرصے سے مسلمانوں میں گردش تو کر رہا تھا لیکن کبھی کسی نے تفصیلی طور پر یہ سوچا نہ تھا کہ بننے والا ملک کیسا ہو گا؟ مسلم لیگ نے دو قومی نظریے کو محض مراعات حاصل کرنے کے لیے ایک کارڈ کے طور پر استعمال کرنے کا سوچا تھا۔ ایک الگ ریاست بننے کا انہوں نے کبھی نہ سوچا تھا۔
حسین حقانی ایک طرف تو اسلام کو پاکستان کا نظریہ بتاتے ہیں تو دوسری طرف کہتے ہیں کہ قائد اعظم کی امید نہ تھی کہ مذہب ریاست پر حکمرانی کے لیے اختیار کیا جائے گا۔ قائد اعظم اپنی 11 اگست کی تقریر کے تحت ایک سیکولر اسٹیٹ چاہتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اسلامسٹ ملک اس لیے بنا کیونکہ جیسے پاکستان کی تخلیق سے پہلے ہر قسم کے مسائل کو اسلام اور مسلمان ہونے کے تحت دبا دیا جاتا اسی طرح پاکستان بننے کے بعد تمام اندرونی اختلافات کو مسلم ہونے کے ناتے دبا دیا گیا۔ مثلاً بنگالی زبان کے مسئلے کو بھی مسلم شناخت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی۔
اسلام پر جب اسقدر زور دیا گیا تو مذہبی لیڈر مضبوط تر ہوتے چلے گئے اور یوں ملٹری، بیورکریسی اور خفیہ اداروں کی ان مذہبی لیڈران کے ساتھ گٹھ جوڑ قائم ہو گیا۔ ساتھ ہی انڈیا کو پاکستان کے وجود کے لیے خطرہ بتایا گیا اور اسطرح ایک بڑی فوج وجود میں آ گئی جس کا اثر رسوخ ملک کے ہر شعبے میں ہے۔
پاکستان کی پان اسلامک پالیسی نے دنیا کے دیگر مسلم ممالک میں کوئی خاص توجہ حاصل نہیں کی۔ دیگر مسلم ممالک سیکولر حکومتیں چاہتے تھے جو عرب یا دیگر نیشنل ازم پر مبنی ہوں۔ لیکن پاکستان کی پان اسلامک سوچ کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں دنیا بھر کی اسلامسٹ تحریکوں کے لوگوں آنے لگے جن میں اخوان المسلمون سرفہرست ہے۔ پاکستان کی اسی سوچ کی وجہ سے او ای سی بنی۔ اس وقت ملک کے امور پنجابی یا اردو بولنے والے چلا رہے اور بنگلہ، پشتون اور سندھی بولنے والوں میں اس پر سخت اضطراب پایا جاتا تھا۔
تقسیم ہند کے بعد پاکستان کو برطانوی خفیہ ادارے کا مذہبی سیکشن دیا گیا۔ تقسیم سے قبل اس سیکشن کا مقصد ہندووں اور مسلمانوں کو مذہبی فرقہ وارنہ معاملات میں الجھائے رکھنا تھا تاکہ برطانوی راج کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کامیابی سے چلتی رہے۔ تقسیم کے بعد اس سیکشن نے مسلمانوں کے مختلف طبقوں کو اسی طریقے سے فرقہ وارنہ معاملات میں الجھائے رکھا۔
مولانا مودودی نے بھی پاکستان کو اسلامسٹ بنانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ جماعت اسلامی کا ڈھانچہ کمیونسٹ پارٹیز سے ملتا جلتا تھا۔ اس پارٹی نے اراکین بھرتی کرنے شروع کیے اور اسلامی انقلاب لانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ لیاقت علی خان نے سول سرونٹس اور ملٹری عہدے داروں کو جماعت اسلامی میں شامل ہونے پر پابندی لگا دی۔
پاکستان کے لوگوں کو اسلامسٹ بنا کر کبھی کشمیر میں لڑایا جاتا ہے اور کبھی افغانستان میں۔ 1971 میں کبھی بنگلہ دیش کی منتخب لیڈروں کو اسلامسٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے تو کبھی انکے ذریعے پاکستان کی سیاست کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ حسین حقانی کا کہنا ہے کہ پاکستان بننا مغلوں کے دور میں مسلمانوں کو ملنے والی مراعات چھننے کا نتیجہ ہے۔ حسین صاحب کی باتوں سے لگتا ہے کہ دو قومی نظریہ ایک عرصے سے مسلمانوں میں گردش تو کر رہا تھا لیکن کبھی کسی نے تفصیلی طور پر یہ سوچا نہ تھا کہ بننے والا ملک کیسا ہو گا؟ مسلم لیگ نے دو قومی نظریے کو محض مراعات حاصل کرنے کے لیے ایک کارڈ کے طور پر استعمال کرنے کا سوچا تھا۔ ایک الگ ریاست بننے کا انہوں نے کبھی نہ سوچا تھا۔
حسین حقانی ایک طرف تو اسلام کو پاکستان کا نظریہ بتاتے ہیں تو دوسری طرف کہتے ہیں کہ قائد اعظم کی امید نہ تھی کہ مذہب ریاست پر حکمرانی کے لیے اختیار کیا جائے گا۔ قائد اعظم اپنی 11 اگست کی تقریر کے تحت ایک سیکولر اسٹیٹ چاہتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اسلامسٹ ملک اس لیے بنا کیونکہ جیسے پاکستان کی تخلیق سے پہلے ہر قسم کے مسائل کو اسلام اور مسلمان ہونے کے تحت دبا دیا جاتا اسی طرح پاکستان بننے کے بعد تمام اندرونی اختلافات کو مسلم ہونے کے ناتے دبا دیا گیا۔ مثلاً بنگالی زبان کے مسئلے کو بھی مسلم شناخت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی۔
اسلام پر جب اسقدر زور دیا گیا تو مذہبی لیڈر مضبوط تر ہوتے چلے گئے اور یوں ملٹری، بیورکریسی اور خفیہ اداروں کی ان مذہبی لیڈران کے ساتھ گٹھ جوڑ قائم ہو گیا۔ ساتھ ہی انڈیا کو پاکستان کے وجود کے لیے خطرہ بتایا گیا اور اسطرح ایک بڑی فوج وجود میں آ گئی جس کا اثر رسوخ ملک کے ہر شعبے میں ہے۔
پاکستان کی پان اسلامک پالیسی نے دنیا کے دیگر مسلم ممالک میں کوئی خاص توجہ حاصل نہیں کی۔ دیگر مسلم ممالک سیکولر حکومتیں چاہتے تھے جو عرب یا دیگر نیشنل ازم پر مبنی ہوں۔ لیکن پاکستان کی پان اسلامک سوچ کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں دنیا بھر کی اسلامسٹ تحریکوں کے لوگوں آنے لگے جن میں اخوان المسلمون سرفہرست ہے۔ پاکستان کی اسی سوچ کی وجہ سے او ای سی بنی۔ اس وقت ملک کے امور پنجابی یا اردو بولنے والے چلا رہے اور بنگلہ، پشتون اور سندھی بولنے والوں میں اس پر سخت اضطراب پایا جاتا تھا۔
تقسیم ہند کے بعد پاکستان کو برطانوی خفیہ ادارے کا مذہبی سیکشن دیا گیا۔ تقسیم سے قبل اس سیکشن کا مقصد ہندووں اور مسلمانوں کو مذہبی فرقہ وارنہ معاملات میں الجھائے رکھنا تھا تاکہ برطانوی راج کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کامیابی سے چلتی رہے۔ تقسیم کے بعد اس سیکشن نے مسلمانوں کے مختلف طبقوں کو اسی طریقے سے فرقہ وارنہ معاملات میں الجھائے رکھا۔
مولانا مودودی نے بھی پاکستان کو اسلامسٹ بنانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ جماعت اسلامی کا ڈھانچہ کمیونسٹ پارٹیز سے ملتا جلتا تھا۔ اس پارٹی نے اراکین بھرتی کرنے شروع کیے اور اسلامی انقلاب لانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ لیاقت علی خان نے سول سرونٹس اور ملٹری عہدے داروں کو جماعت اسلامی میں شامل ہونے پر پابندی لگا دی۔
آخری تدوین: