مشرقی شہر لاہور کو تاریخ اور ثقافت کے حوالے سے جانا جاتا ہے لیکن موبائل گیمز تیار کرنے والی نوجوانوں کی نئی نسل اسے پاکستان کی سیلکن ویلی بنانا چاہتی ہے۔
اندازوں کے مطابق پاکستان کی ابھرتی ہوئی گیمنگ انڈسٹری کی مالیت تقریباﹰ 2.8 ارب ڈالر ہے۔ اس وقت پاکستان میں درجنوں ایسی کمپنیاں کام کر رہی ہیں، جو اسمارٹ موبائل فونز کے لیے گیمز تیار کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک کمپنی بابر احمد کی ہے۔ تینتیس سالہ احمد امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر آسٹن میں سرکٹ انجينيئر کے طور پر کام کرتے تھے لیکن سن 2006ء سے اپنے بھائی فراز کے ساتھ لاہور میں ’مائنڈ سٹروم اسٹوڈیوز‘ کے نام سے کمپنی چلا رہے ہیں۔
اس کمپنی میں کل سینتالیس افراد کام کرتے ہیں اور سن 2010ء میں ان کی تیار کردہ گیم ’واکسی ٹیکسی‘ دنیا کے پچیس ممالک میں ایپل کے ایپ اسٹور میں سر فہرست رہی تھی۔ اسی طرح سن 2012ء میں متعارف کرائی جانے والی گیم ’کرکٹ پاور‘ اور 2012ء میں شہرت حاصل کرنے والی ’مافیہ فارم‘ بھی اسی کمپنی نے تیار کی تھیں۔
احمد کا کہنا ہے کہ وہ امریکا میں پاکستان سے متعلق ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر باتیں کرنے سے تنگ آ چکے تھے اور عملی طور پر کچھ کرنا چاہتے تھے، ’’میرا آئیڈیا گیمز کی دنیا میں پاکستان کو آگے لانے کا تھا۔‘‘
اسمارٹ فونز کا انقلاب
مائنڈ سٹروم کی طرح موبائل گیمز تیار کرنے والی زیادہ تر کمپنیاں لاہور میں کام کر رہی ہیں لیکن متعدد کمپنیاں اسلام آباد اور کراچی میں بھی ہیں۔ احمد کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں آئی فون کے آنے کے بعد گیم اور گیمر کی تعریف راتوں رات تبدیل ہو گئی تھی۔ روایتی طور پر کمپیوٹر اور ٹیلی وژن پر کھیلی جانے والی گیمز کی تیاری کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے لیکن موبائل گیمز کی تیاری کا کام محدود سرمائے کے ساتھ بھی شروع کیا جا سکتا ہے۔
لاہور ہی میں گمیز تیار کرنے والی کمپنی ’ٹِن ٹیش‘ کے چیف آپریشنز آفيسر جازیب ظاہر بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ محدود سرمایہ کاری کی وجہ سے پاکستان، فلپائن اور مشرقی یورپ کے ممالک گیمز کی دنیا میں آگے آ رہے ہیں۔ ٹِن ٹیش کمپنی نے ’فشنگ فرینزی‘ نامی گیم تیار کی تھی، جس کا شمار ٹاپ ٹین میں ہوتا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس وقت تقریباﹰ 24 ہزار افراد سافٹ ویئر ایکسپورٹ سے وابستہ ہیں۔
حدوں کو توڑنا
پاکستان میں کام کرنے والی ان کمپنیوں میں یہ خاص طور پر خیال رکھا گیا ہے کہ ’کام کاج کے ماحول‘ کو بھی دوستانہ اور بہتر سے بہتر بنایا جائے۔ لاہور میں ’کرمل ٹیک‘ کے نام سے کام کرنے والی کمپنی میں بھی کام کرنے کی جگہ کو کلیدی اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ فرم مشہور زمانہ گیم ’فروٹ نینجا‘ کی کوڈنگ کے لیے کام کرتی ہے۔ اس کمپنی میں دفتری کمروں کے ساتھ ساتھ پلے رومز بھی بنائے گئے ہیں، جہاں مختلف تفریحی گیمیں کھیلی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کی ان اُبھرتی ہوئی کمپنیوں میں ہر مزاج کے ملازمین کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں آپ کو جینز پہنی لڑکیاں بھی نظر آتی ہیں اور حجاب پہن کر کام کرنے والی خواتین بھی۔
مائنڈ سٹروم سے تعلق رکھنے والے احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں ذہانت کی کمی نہیں لیکن انفراسٹرکچر کے مسائل ضرور موجود ہیں، ’’اکثر بجلی نہیں ہوتی اور ہمیں ان حالات میں بھی کام کرنا پڑتا ہے۔‘‘ احمد اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے شمسی پینل استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہیں نہ صرف خراب ٹیلیفون کی لائنوں بلکہ سلامتی کے خطرات اور کرپشن جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔
مآخذ
اندازوں کے مطابق پاکستان کی ابھرتی ہوئی گیمنگ انڈسٹری کی مالیت تقریباﹰ 2.8 ارب ڈالر ہے۔ اس وقت پاکستان میں درجنوں ایسی کمپنیاں کام کر رہی ہیں، جو اسمارٹ موبائل فونز کے لیے گیمز تیار کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک کمپنی بابر احمد کی ہے۔ تینتیس سالہ احمد امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر آسٹن میں سرکٹ انجينيئر کے طور پر کام کرتے تھے لیکن سن 2006ء سے اپنے بھائی فراز کے ساتھ لاہور میں ’مائنڈ سٹروم اسٹوڈیوز‘ کے نام سے کمپنی چلا رہے ہیں۔
اس کمپنی میں کل سینتالیس افراد کام کرتے ہیں اور سن 2010ء میں ان کی تیار کردہ گیم ’واکسی ٹیکسی‘ دنیا کے پچیس ممالک میں ایپل کے ایپ اسٹور میں سر فہرست رہی تھی۔ اسی طرح سن 2012ء میں متعارف کرائی جانے والی گیم ’کرکٹ پاور‘ اور 2012ء میں شہرت حاصل کرنے والی ’مافیہ فارم‘ بھی اسی کمپنی نے تیار کی تھیں۔
احمد کا کہنا ہے کہ وہ امریکا میں پاکستان سے متعلق ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر باتیں کرنے سے تنگ آ چکے تھے اور عملی طور پر کچھ کرنا چاہتے تھے، ’’میرا آئیڈیا گیمز کی دنیا میں پاکستان کو آگے لانے کا تھا۔‘‘
اسمارٹ فونز کا انقلاب
مائنڈ سٹروم کی طرح موبائل گیمز تیار کرنے والی زیادہ تر کمپنیاں لاہور میں کام کر رہی ہیں لیکن متعدد کمپنیاں اسلام آباد اور کراچی میں بھی ہیں۔ احمد کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں آئی فون کے آنے کے بعد گیم اور گیمر کی تعریف راتوں رات تبدیل ہو گئی تھی۔ روایتی طور پر کمپیوٹر اور ٹیلی وژن پر کھیلی جانے والی گیمز کی تیاری کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے لیکن موبائل گیمز کی تیاری کا کام محدود سرمائے کے ساتھ بھی شروع کیا جا سکتا ہے۔
لاہور ہی میں گمیز تیار کرنے والی کمپنی ’ٹِن ٹیش‘ کے چیف آپریشنز آفيسر جازیب ظاہر بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ محدود سرمایہ کاری کی وجہ سے پاکستان، فلپائن اور مشرقی یورپ کے ممالک گیمز کی دنیا میں آگے آ رہے ہیں۔ ٹِن ٹیش کمپنی نے ’فشنگ فرینزی‘ نامی گیم تیار کی تھی، جس کا شمار ٹاپ ٹین میں ہوتا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس وقت تقریباﹰ 24 ہزار افراد سافٹ ویئر ایکسپورٹ سے وابستہ ہیں۔
حدوں کو توڑنا
پاکستان میں کام کرنے والی ان کمپنیوں میں یہ خاص طور پر خیال رکھا گیا ہے کہ ’کام کاج کے ماحول‘ کو بھی دوستانہ اور بہتر سے بہتر بنایا جائے۔ لاہور میں ’کرمل ٹیک‘ کے نام سے کام کرنے والی کمپنی میں بھی کام کرنے کی جگہ کو کلیدی اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ فرم مشہور زمانہ گیم ’فروٹ نینجا‘ کی کوڈنگ کے لیے کام کرتی ہے۔ اس کمپنی میں دفتری کمروں کے ساتھ ساتھ پلے رومز بھی بنائے گئے ہیں، جہاں مختلف تفریحی گیمیں کھیلی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کی ان اُبھرتی ہوئی کمپنیوں میں ہر مزاج کے ملازمین کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں آپ کو جینز پہنی لڑکیاں بھی نظر آتی ہیں اور حجاب پہن کر کام کرنے والی خواتین بھی۔
مائنڈ سٹروم سے تعلق رکھنے والے احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں ذہانت کی کمی نہیں لیکن انفراسٹرکچر کے مسائل ضرور موجود ہیں، ’’اکثر بجلی نہیں ہوتی اور ہمیں ان حالات میں بھی کام کرنا پڑتا ہے۔‘‘ احمد اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے شمسی پینل استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہیں نہ صرف خراب ٹیلیفون کی لائنوں بلکہ سلامتی کے خطرات اور کرپشن جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔
مآخذ