زرقا مفتی
محفلین
پاکستان میں جمہوریت یا اسلامی نظام
پاکستانی عوام کے لئے جمہوریت ایک سہانا خواب رہی ہےجس کی تعبیر کا حصول عوام کے لئے ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ اس ملک کی ساٹھ سالہ تاریخ میں جتنے بھی حکمران آئے انہوں نے اداروں کو مظبوط کرنے کی بجائے شخصی اقتدار کو طول دینے کی راہیں کی اختیار کیں۔ اس کے لئے آئین کو حسبِ منشا تبدیل کیا جاتا رہا، ذرائع ابلاغ پر پابندیاں عائد کی جاتی رہیں، عدل و انصاف کی دھجیاں بکھیری گئیں۔ ہر حکمران نے اپنے لئے نظریہ ء ضرورت ایجاد کیا اور اس کے لئے اندرونی و بیرونی مخدوش حالات کی بیساکھی استعمال کی۔ ساٹھ سال کے عرصے میں عوام کا کردار خاموش تماشائی سے زیادہ نہیں رہا۔پڑھے لکھے عوام جمہوری عمل سے متنفر ہوگئے ۔ اور الیکشن ، سیلیکشن میں بدل گیا جہاں سیلیکشن کا اختیار زمینی خدا ؤں یعنی سپر پاورز کے سپرد کر دیا گیا۔نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہم پر امپورٹڈ وزیراعظم مسلط کئے جاتے رہے۔
مگرعوام کو اپنا سکوت اب تک مجرمانہ نہیں لگا
حیرت ہے
کیا ہم ایک مردہ قوم ہیں؟؟؟؟
پاکستانی معاشرہ اس وقت دو بڑے طبقوں میں تقسیم ہو چکا ہے جو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں یا متصادم ہیں
١۔ روشن خیال طبقہ
٢۔ دینی طبقہ
روشن خیال طبقہ مقربی قوتوں کے زیرِ اثر ہے اور جمہوریت کا حامی ہے اس طبقے کے خیال میں پاکستان کے مسائل کا حل جمہوریت کے تسلسل میں ہے ۔ یہ طبقہ مغرب سے درآمد کردہ ہر نئے نظریے پر نہ صرف ایمان لے آتا ہے بلکہ اس کی اندھی تقلید بھی کرتا ہے
دینی طبقہ دوسری انتہا پرڈیڑھ ہزار سال پرانے سیاسی ،معاشی، معاشرتی نظام کو رائج کرنا چاہتا ہے۔ اس طبقے نے متشدد احتجاجی مزاحمت کو ایک جائز شارٹ کٹ سمجھ کر اپنا لیا ہے ۔
دونوں طبقات اس وقت پاکستان کو فتح کرنے کے لئے عوام کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں اور عوام ان کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہے۔ اپنے استحصال کا تماشا دیکھ رہی ہے
کیا ہم بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ہیں؟؟
کیا ڈنڈے یا ترغیب کے زور پر ہمیں کسی بھی طرف ہانکا جا سکتا ہے؟؟؟
کیا ہماری قوم کسی اجتماعی شعور کی حامل نہیں؟؟؟؟
کیا ہم انتظار کرتے رہیں گے کہ ان میں سے جو فتح یاب ہو کر نکلے اس کے ہاتھ پر بیعت کر لیں؟؟؟
جمہوریت کیا ہے؟
عوام کے ذریعے عوام کی فلاح کے لئے عوام کی حکومت
جمہوریت کا سلوگن؟
طاقت کا سر چشمہ عوام
ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک عوام کو جو آزادی ،حقوق اور مراعات حاصل ہیں وہ کسی مسلمان ملک کے عوام کو حاصل نہیں۔
تاہم حد سے بڑھی ہوئی آزادی کے باعث اخلاقی بے راہ روی کا فروغ ہوا ہے ۔ خاندانی نظام تباہ ہو گیا ہے انفرادیت پرستی، مادہ پرستی عروج پر ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر بھی طاقت کا توازن مغرب کے حق میں ہے سو مغرب نے دُنیا پر طاقت کا قانون رائج کر رکھا ہے۔
اسلامی فلاحی مملکت کیسی ہو نی چاہیئے؟
جہاں حاکمیتِ اعلٰی اللہ کی ہو۔
جہاں رنگ نسل دولت یا رتبے کی بنیاد پر کسی سے امتیازی سلوک نہ کیا جاتا ہو۔ کیونکہ اللہ کے ہاں سب برابر ہیں اور سب جوابدہ بھی ہونگے
جہاں ایک عورت رات کی تاریکی میں زیور سے لدی پھندی ہزار میل کے سفر پر نکلے تو اس کے دل میں اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہو
جہاں ایک عام آدمی سرِ عام خلیفہء وقت سے اس کے لمبے کرتے کا حساب پوچھ سکے۔یعنی ہر کسی کا احتساب کیا جا سکے
جہاں حاکمِ وقت قومی دولت کا ایک پیسہ بھی اپنی ذات یا مفاد کے لئے خرچ نہ کرتا ہو
جہاں عوام کو تعلیم روزگار علاج رہائش غرض یہ کہ زندگی کی تمام بنیادی ضروریات تک بلا تخصیص رسائی ہو۔
جہاں ناجائز منافع خوری اور چور بازاری سے عوام کا استحصال نا ممکن ہو
جہاں عدلیہ آزاد ہو اور انصاف آدمی کے خون سے سستا ہو عدالت کی نظر میں حاکمِ وقت اور ایک عام آدمی برابر ہوں جج کو فیصلہ کرتے وقت اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہو
افسوس ہمارے ملک میں ایک بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں جس کا سیاسی منشور ایسی مملکت کے قیام کی یقین دہانی کرواتا ہو
ہمارے ہاں تمام سیاسی جماعتیں غیر جمہوری ہیں ہر جماعت شخصی یا خاندانی قیادت کے زیرِاثر ہے پھر چاہے وہ دینی جماعت ہو یا لا دینی
ہمارے رہنما بادشاہی مزاج کے حامل ہیں جو ایک بار اقتدار میں آ جاتے ہیں تو پاکستان کو اپنی میراث سمجھ لیتے ہیں اورملکی خزانے کو اپنی وراثت۔ اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کا اس ملک کی حکومت پر استحقاق قائم کرنے کی تدبیریں کرتے ہیں
اور عوام کی یاداشت ایک سلیٹ کی طرح ہے جس پر ہمارے رہنما اپنے سیاہ کارنامے ثبت کرتے ہیں اور چشمِ زدن میں ان کو مٹا بھی دیتے ہیں اور شہیدِ جمہوریت کہلاتے ہیں۔ یا پھر یوں کہئے کہ رہنماؤں کے باس ایسا جادوئی نغمہ ہے جس کی دھن پر ناچتے گاتے ہم ہنسی خوشی ہلاکت کے سمندر میں اترتے جا رہے ہیں
ہمارے قوانین موم سے بنے ہیں انہیں نظریہء ضرورت کے تحت کسی بھی آہنی سانچے میں ڈھالا جا سکتا ہے۔
بس اگر کسی سانچے میں نہیں ڈھالا جا سکتا تو وہ عوامی خواہشات کا سانچا ہے۔
کیا ہماری اجتماعی بصیرت ان خونخوار بھیڑیوں کو نہیں پہچان سکتی؟؟؟؟
کیا ہماری یاداشت ایک کچی سلیٹ کی جگہ ایسی ہارڈ ڈرائیو نہیں بن سکتی جسے کوئی ہیکر نہ چرا سکے۔؟؟؟
کیا عوام کے پاس ایسی کوئی طاقت نہیں کہ وہ اپناسیاسی منشور بنا سکے؟؟؟
ہم خاموش کیوں ہیں ؟؟؟
کیا ہم سب مجرم ہیں؟؟؟؟
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔