سیدہ شگفتہ

لائبریرین
خوشی ہوئی یہ جان کر کہ ایران کی مانند اب دیوارِ مہربانی کا سلسلہ پاکستان میں بھی شروع ہو چکا ہے۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں دیوار مہربانی کلفٹن، سولجر بازار ، صدر وغیرہ میں آغاز ہو چکی ہیں۔ ماخذ کے مطابق

"عالمی شہرت یافتہ پاکستان کے سرفہرست ماڈل و معروف اداکار احسن خان نے کراچی کے قلب صدر تاج کمپلیکس کےسامنے ایم اے جناح روڈ پر دیوار مہربان کی بنیاد ڈالی۔"

xdz4ty.jpg

in6d6s.jpg

1z4l3eo.jpg

zx0236.jpg

34xjcqo.jpg

3128ubb.jpg

حسان خان
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کے چند دیگر شہروں میں بھی 'دیوارِ مہربانی' وجود پا چکی ہے۔ کون کون سے شہر ہیں اگر کوئی رکن جانتے ہوں تو اس بارے میں شیئر کیجیے۔​
 

arifkarim

معطل
پرانے وقتوں میں انسانی قبائل اکٹھے شکار کرتے اور جو ہاتھ آتا اسے آپس میں بانٹ کر کھا لیتے۔ جب انسان نے کھیتی باڑی کرنا سیکھی تو فصل کی کٹائی پر اکٹھا ہونے والا اناج تمام قبیلے میں تقسیم کر دیا جاتا۔
ایک روز کسی ذہین شخص کو خیال آیا کہ شکار اور اناج آپس میں بانٹنے کی بجائے اسکی قیمت قیمتی دھاتوں پر مبنی اکائی کے مطابق مقرر کر دیتے ہیں۔
زمانہ گزرتا گیا۔ پھر اس سے زیادہ ذہین شخص آیا اور اسنے ان قیمتی دھاتوں کی جگہ حکومتی کاغذ پر مبنی قیمتیں جاری کر دیں۔ یوں دیکھتے دیکھتے پورا انسانی معاشرہ اپنا ہر کام کرنے اور کروانے کیلئے ان قیمتیں لگانے والوں کا محتاج ہو گیا۔
پھر جدید زمانہ آیا جسکے ساتھ ہی یہ قیمتیں فزیکل سے ورچول ہو گئیں۔ لیکن لوگوں کی قبائلی ذہنیت ختم نہیں ہوئی۔ وہ آج بھی دیوار مہربانی پر اپنے اباؤ اجداد کی یاد تازہ کرنے جاتے ہیں۔ اور اپنی زائد پیداوار وہاں بغیر کسی قیمت کے بانٹ آتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
اسی جذبے سے منسلک ایک اور کام، جس کا الحمد للہ میں خود حصہ رہا۔
ہم چھوٹے تھے تو اس وقت سلیبس اور نصابی کتب ہر سال نہیں بدلا کرتی تھیں۔ ہر سال ہم امتحانات کے بعد کیمپس لگا کر پہلے نصابی کتب اکٹھی کرتے تھے، جہاں لوگ خود اپنے بچوں کی فارغ ہونے والی کتب جمع کروا دیا کرتے تھے۔ پھر ہم اسلام آباد کے غریب علاقوں میں لے جا کر کیمپس لگاتے تھے،اور وہاں کے لوگ اپنے بچوں کی ضرورت کے مطابق درسی کتب لے لیا کرتے تھے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
پرانے وقتوں میں انسانی قبائل اکٹھے شکار کرتے اور جو ہاتھ آتا اسے آپس میں بانٹ کر کھا لیتے۔ جب انسان نے کھیتی باڑی کرنا سیکھی تو فصل کی کٹائی پر اکٹھا ہونے والا اناج تمام قبیلے میں تقسیم کر دیا جاتا۔
ایک روز کسی ذہین شخص کو خیال آیا کہ شکار اور اناج آپس میں بانٹنے کی بجائے اسکی قیمت قیمتی دھاتوں پر مبنی اکائی کے مطابق مقرر کر دیتے ہیں۔
زمانہ گزرتا گیا۔ پھر اس سے زیادہ ذہین شخص آیا اور اسنے ان قیمتی دھاتوں کی جگہ حکومتی کاغذ پر مبنی قیمتیں جاری کر دیں۔ یوں دیکھتے دیکھتے پورا انسانی معاشرہ اپنا ہر کام کرنے اور کروانے کیلئے ان قیمتیں لگانے والوں کا محتاج ہو گیا۔
پھر جدید زمانہ آیا جسکے ساتھ ہی یہ قیمتیں فزیکل سے ورچول ہو گئیں۔ لیکن لوگوں کی قبائلی ذہنیت ختم نہیں ہوئی۔ وہ آج بھی دیوار مہربانی پر اپنے اباؤ اجداد کی یاد تازہ کرنے جاتے ہیں۔ اور اپنی زائد پیداوار وہاں بغیر کسی قیمت کے بانٹ آتے ہیں۔
میرے خیال میں دنیا کا پہلا لین دین دھاتوں پر مبنی اکائی کی بجائے "بارٹر" تھا یعنی چیز کے بدلے چیز اور یہ لین دین چاندی سونے کے سکے اور کاغذی نوٹوں کے بعد بھی سینکڑوں ہزاروں سال تک جاری رہا۔ بہت پرانی بات نہیں ہے، برصغیر کے دیہاتوں میں ہنر کار یعنی لوہار ترکھان وغیرہ زمینداروں کو ہل اور دوسری چیزیں بنا کر دیتے تھے اور فصل کی کٹائی پر بجائے کچھ نقد دینے کے زمیندار ان کو فصل میں سے حصہ دے دیتے تھے۔
 

اکمل زیدی

محفلین
پرانے وقتوں میں انسانی قبائل اکٹھے شکار کرتے اور جو ہاتھ آتا اسے آپس میں بانٹ کر کھا لیتے۔ جب انسان نے کھیتی باڑی کرنا سیکھی تو فصل کی کٹائی پر اکٹھا ہونے والا اناج تمام قبیلے میں تقسیم کر دیا جاتا۔
ایک روز کسی ذہین شخص کو خیال آیا کہ شکار اور اناج آپس میں بانٹنے کی بجائے اسکی قیمت قیمتی دھاتوں پر مبنی اکائی کے مطابق مقرر کر دیتے ہیں۔
زمانہ گزرتا گیا۔ پھر اس سے زیادہ ذہین شخص آیا اور اسنے ان قیمتی دھاتوں کی جگہ حکومتی کاغذ پر مبنی قیمتیں جاری کر دیں۔ یوں دیکھتے دیکھتے پورا انسانی معاشرہ اپنا ہر کام کرنے اور کروانے کیلئے ان قیمتیں لگانے والوں کا محتاج ہو گیا۔
پھر جدید زمانہ آیا جسکے ساتھ ہی یہ قیمتیں فزیکل سے ورچول ہو گئیں۔ لیکن لوگوں کی قبائلی ذہنیت ختم نہیں ہوئی۔ وہ آج بھی دیوار مہربانی پر اپنے اباؤ اجداد کی یاد تازہ کرنے جاتے ہیں۔ اور اپنی زائد پیداوار وہاں بغیر کسی قیمت کے بانٹ آتے ہیں۔
...بس. . . کیڑے بھائی ...نکا لنے ہیں . . . .
 
Top