امداد دے کر ہی تو یہ لوگ "بے دھڑک" ہو کر چلے آتے ہیں ۔۔۔ نہ کوئی روک ٹوک ۔۔۔ نہ ہی پوچھ گچھ ۔۔۔ پھر چل سو چل ۔۔۔ جو جی میں آئے گا، کرتے چلے جائیں گے ۔۔۔
امداد دے کر ہی تو یہ لوگ "بے دھڑک" ہو کر چلے آتے ہیں ۔۔۔ نہ کوئی روک ٹوک ۔۔۔ نہ ہی پوچھ گچھ ۔۔۔ پھر چل سو چل ۔۔۔ جو جی میں آئے گا، کرتے چلے جائیں گے ۔۔۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
سفارت کاروں کا تو کام ہی يہ ہوتا ہے کہ وہ ميزبان ملک کی سياسی قيادت سے مسلسل رابطے ميں رہيں۔ مسلسل روابط کے يہ سلسلے ان کی ذمہ داريوں کا حصہ ہيں اور اسی مناسبت سے ان کی تعنياتی کی جاتی ہے۔
کچھ تجزيہ نگار اس حقیقت کا ادارک کيے بغير بے بنياد تھيورياں پيش کرنا شروع کر ديتے ہیں کہ سيادی قيادت اور امريکہ سميت کسی بھی ملک کے سفارتی عہديداروں کے درميان ملاقاتيں قواعد و ضوابط کے دائرے کے اندر اور سفارتی تعلقات کی روح کے عين مطابق ہے۔
اگر اہم حکومتی عہديداروں، سياست دانوں اور سفارت کاروں کے درميان ملاقاتيں سازش کے زمرے ميں آتی ہيں تو پھر اس اعتبار سے تو دنيا کے تمام سفارت کار ہی اس سازشی عمل کا حصہ ہيں۔
يہ نقطہ بھی اہم ہے کہ ان ملاقاتوں کا دائرہ کسی ايشو کے حوالے سے ايک مخصوص نقطہ نظر رکھنے والے سياسی قائدين تک محدود نہيں ہوتا۔ عام طور پر امريکی اہلکار ملک ميں حکومت اور اپوزيشن سميت تمام اہم قائدين سے ملاقاتيں کرتے ہيں۔ چاہے وہ عمران خان ہوں، مولانا فضل الرحمن، نواز شريف يا کوئ اور سياسی ليڈر – يہ سفارت کاروں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ مختلف ملکی قائدين، رائے عامہ سے متعلق اکابرين اور سول سوسائٹی کے ساتھ مسلسل ملاقاتوں کے ذريعے دو طرفہ امور پر خيالات اور نظريات سے ايک دوسرے کو آگاہ رکھيں۔ يہ معمول کی ملاقاتيں خفيہ نہيں بلکہ پہلے سے طے شدہ ايجنڈے کی بنياد پر ہوتی ہيں اس کے علاوہ پاکستانی سفارت کار بھی واشنگٹن ميں سفارت کاری کے اس مسلسل عمل کا حصہ ہوتے ہيں۔
دنيا کے ہر ملک کی حکومت اپنے مفادات اور علاقائ اور جغرافيائ تقاضوں کے تحت اپنی خارجہ پاليسی بناتی ہے اور حکومتی سفير مختلف ممالک میں بات چيت اور ڈائيلاگ کے ذريعے اسی خارجہ پاليسی کا اعادہ کرتے ہيں۔ امريکی سفارت کاروں کی پاکستانی سياست دانوں سے ملاقاتيں اسی تسلسل کا حصہ ہے۔ درجنوں ممالک کے سفارت کار اور اہم عہديدار پاکستانی اکابرين کے ساتھ رابطے ميں رہتے ہيں۔ اس ميں کوئ انہونی بات نہيں ہے۔
جو رائے دہندگان امريکی اور پاکستانی عہديداران کے مابين ملاقاتوں کو شک کی نگاہ سے ديکھتے ہيں، ان سے گزارش ہے کہ امريکہ ميں تعينات پاکستانی سفير شيری رحمان کی مصروفيات پر ايک نظر ڈالیں جو تواتر کے ساتھ امريکی عہديداروں اور سياست دانوں سے ملاقاتيں کرتی رہتی ہيں۔
http://sherryrehman.com/?cat=5
عالمی سطح پر يہ ايک طے شدہ حقیقت ہے کہ سفیر دراصل اپنی ذات ميں اپنے ملک کے ليے تشہير کا ذريعہ ہوتا ہے جس کا کام ہر موڑ پر ہر ممکنہ طریقے سےاپنے ملک کے بہترين مفادات کو ملحوظ رکھنے کے علاوہ اپنے ملک کی مارکٹنگ کرنا بھی ہوتا ہے۔
ايک سفير کی يہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک کی نمايندگی کے لیے پرزور اور ہر ممکن کاوش کرے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
توں مافی سے دے دے پائی سانوں ان میں سے کونسا ملک سٹیبل ہے ذرا یہ تو بتانا تیری امداد جہاں پہنچی گھر میں آگ اتنی جلدی لگتی ہے کہ ہمارے محلے کی مائی لگائی بجھائی بھی اس سپیڈ سے نہیں لگاتی
زندہ باد نایاب بھائیبہت غریب پرور ہے امریکہ بہادر ۔۔۔ ۔۔
صاحب بہادر سے بس یہی التجا ہے کہ ہم اس کی امداد کے قابل نہیں ۔ ہمیں بخش کسی اور ملک کی امداد کرے ۔ ہم بھوکے غریب ہی بھلے ۔۔۔ ۔۔
قسمے اتنی ہنسی آئی شاید ہنتے ہنستے مر جاتا اور میرا خون تیری گردن پر ہوتا
تو آرام کرو نااس لیے آج میں بہت تھک گیا ہوں کام کر کر کے
تو آرام کرو نا
نس جاؤ ایتھوںوہی کر رہا ہوں
نس جاؤ ایتھوں
آرام کرو جا کے
کدی کوئی بندیاں والا کم وی کیتا ای؟میرے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر لیپ ٹاپ پڑ رہتا ہے انٹرنیٹ اور آرام ایک ساتھ چلتے ہیں
کدی کوئی بندیاں والا کم وی کیتا ای؟
بہت غریب پرور ہے امریکہ بہادر ۔۔۔ ۔۔
صاحب بہادر سے بس یہی التجا ہے کہ ہم اس کی امداد کے قابل نہیں ۔ ہمیں بخش کسی اور ملک کی امداد کرے ۔ ہم بھوکے غریب ہی بھلے ۔۔۔ ۔۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
اگر آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی امداد کو وصول کرنا درست نہيں ہے تو پھر آپ اس بارے ميں کيا کہيں گے کہ تربيلہ ڈيم جس سے لاکھوں پاکستانيوں کی توانائ کی ضروريات پوری ہوتی ہيں، وہ بھی يو ايس ايڈ کے تعاون سے ہی وجود ميں آيا تھا۔ کيااسے بھی آپ غلط قرار ديں گے؟
اور پھر اسی حوالے سے يہ حقائق بھی توجہ طلب ہيں کہ پاکستان ميں حاليہ اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق سال 2011 -12 کے دوران امريکہ ميں مقيم پاکستانيوں کی جانب سے ملک ميں جو زرد مبادلہ بيجھا گيا ہے وہ کل آمدنی کا 7۔17 فيصد يعنی کہ 4۔1922 ملين ڈالرز ہے۔
کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ يہ بات پاکستان کے مفاد ميں ہے کہ دونوں ممالک کے مابين تعلقات کو منقطع کر ديا جائے اور اس امريکی امداد کو بھی مسترد کر ديا جائے جس سے لاکھوں عام پاکستانی شہريوں کے مفادات بالواسطہ يا بلاواسطہ وابستہ ہيں؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
اور اپنے " تعاون " کی قیمت لاکھوں جانوں کو دہشت گردی کے ہاتھوں بیچ کر وصول کی ۔۔۔ ۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
اس ميں کوئ شک نہيں کہ گزشتہ دس برسوں کے دوران ہزاروں کی تعداد ميں معصوم پاکستانی شہری اور فوجی القائدہ اور اس سے منسلک تنظيموں کی کاروائيوں کے سبب لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ہم نے ہر پليٹ فارم پر ان عظيم قربانيوں کو اجاگر بھی کيا ہے اور انھيں تسليم بھی کيا ہے۔ صدر اوبامہ سميت ہمارے اہم ترين عہديداروں اور سفارت کاروں کے بيانات اس ضمن ميں ريکارڈ کا حصہ ہيں۔ پاکستان کی افواج اور حکومت کے ساتھ ہماری مشترکہ کاوشيں اسی ضرورت اور خواہش کو مدنظر رکھ کر جاری ہيں کہ يہ قربانياں رائيگاں نا جائيں اور ہزاروں بے گناہ شہريوں کو ہلاک کرنے والے ذمہ داروں کو کيفر کردار تک پہنچايا جائے۔ يقينی طور پر آپ ہم پر اس بنياد پر تنقيد نہيں کر سکتے کہ ہم انھی مجرموں کا تعاقب کر رہے ہيں جن کی جانب سے پھيلائ جانے والی تبائ کو آپ اجاگر کر رہے ہيں۔
امريکی حکومت نے کبھی بھی يہ دعوی نہيں کيا کہ ہم ان دہشت گردوں کا تعاقب محض اپنے دفاع کے لیے کر رہے ہیں۔ چاہے وہ لندن کے ٹرين اسٹيشن پر ہونے والا حملہ ہو، بالی میں 200 افراد کی ہلاکت کا المناک سانحہ يا عراق کے بازاروں اور سڑکوں پر ہونے لاتعداد خودکش حملے اور بم دھماکے، القائدہ اور اس کی قيادت نے يہ ثابت کر ديا ہے کہ ان کا لائحہ عمل اور طريقہ کار عالمی سطح پر بغير کسی مذہبی اور سياسی تفريق کے ہر اس وجود کو نشانہ بنانا ہے جو ان کے نظريات سے اختلاف کرتا ہے۔ يہ تصور اور تاثر بالکل غلط ہے کہ اگر 911 کے واقعات کے بعد پاکستانی حکومت امريکہ کا ساتھ نہ ديتی تو القائدہ کی جانب سے پاکستان کے خلاف کوئ کاروائ نہ کی جاتی۔
القائدہ کی عالمی دسترس اور تمام مہذب دنيا کو لاحق مشترکہ خطرہ ہی وہ وجہ تھی جو ايک مشترکہ عالمی کاوش اور اتفاق رائے کی وجہ بنی تا کہ دنيا بھر ميں بے گناہ انسانی جانوں کو محفوظ بنانے کے لیے معاشرے سے اس عفريت اور شيطانيت کو جڑ سے اکھاڑ ديا جائے۔
صدر اوبامہ نے بھی 911 کی دس سال مکمل ہونے پر اپنے بيان میں اسی بات کو اجاگر کيا ہے
"ستمبر 11، 2001 میں دہشت گردوں کے حملوں کی اس دسویں برسی پر ہمیں یاد ہے کہ 11/9 کا حملہ صرف امریکہ ہی پر نہیں کیا گیا تھا، بلکہ وہ دنیا پر، بنی نوعِ انساں پر اور ہماری ان امیدوں پر حملہ تھا جو ہم سب میں مشترک ہیں۔
ہمیں یاد ہے کہ اُس دن جو 3,000 کے قریب بے گناہ لوگ اپنی جانوں سے گئے، اُن میں 90 سے زیادہ ملکوں کے سینکڑوں شہری شامل تھے۔وہ بہت سی نسلوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے مرد اور عورتیں، جوان اور بوڑھے لوگ تھے۔اس باوقار برسی کے موقع پر ہم اُن کی یادوں کو خراج عقیدت پیش کرنے میں اُن کے خاندانوں اور ملکوں کے ساتھ ہیں۔"
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu