دراصل ہمارے ہاں تربیت کا فقدان ہے اور تربیت میں گھر، تعلیمی ادارے اور دینی مکاتبِ فکر سب بری طرح ناکام ہیں۔
اب جب کہ اس خراب تربیت کے پروردہ لوگوں کے ہاتھ میں ہی سب کچھ ہے تو پھر بہتری کی توقع کس سے اور کیوں کر رکھی جائے۔
رہی سہی کسر الیکٹرانک میڈیا پوری کر رہا ہے۔ اس پر دن رات حادثات اور واقعات کو دوبارہ سے فلم بند کرکے دکھایا جا رہا ہے۔ جس میں کسی کا قتل، کسی کی آبروریزی، کسی پر تیزاب پھینکنا، خود کشی اور خود سوزی دکھائی جا رہی ہے۔ گذشتہ دنوں ایک خبر دیکھی کہ ایک اسکول کے طالبِ علم نے استاد سے ڈانٹ پڑنے پر خود کو آگ لگا لی۔ یہ سب فسادی خیالات میڈیا ہمارے اور ہمارے بچوں کے ذہن میں ٹھونس رہا ہے اور ہم نادانستگی میں نہ جانے کہاں سے کہاں جا رہے ہیں۔
نصیحت کوئی سننے کو تیار نہیں کہ ہم سب اپنی دانست میں حکیم لقمان سے کم نہیں ہیں، اخلاقی قدروں کی ترویج کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ کوئی بھی سچ بول کر، ایفائے عہد کرکے، بے ایمانی سے بچ کر خود کو بے وقوف کہلوانے پر تیار نہیں ہے۔ رہے ہم ، تو بقول اقبال:
اقبال بڑا اُپدیشک ہے، من باتوں سے موہ لیتا ہے
گفتار کا وہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا