راشد اشرف
محفلین
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے
پنجاب کا ایک دور افتادہ علاقہ راجن پور ۔۔۔۔۔۔۔ راجن پور کے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج راجن پور کے پرنسپل ڈاکٹر شکیل پتافی اور پتافی صاحب کا وہ کارنامہ جس کی ستائش نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔
یہ تذکرہ ہے 840 صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب "پاکستان میں غالب شناسی" جسے ڈاکٹر پتافی نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے پڑھنے والوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر پتافی اس قسم کے ڈاکٹر نہیں ہیں جو آج کل پیسے دے کر لوگ بہ آسانی بن جایا کرتے ہیں۔ خاص کر برطانیہ میں تو یہ ‘دھندا‘ ان دنوں عروج پر ہے۔
غالب پر لکھنا ایسا آسان بھی نہیں۔
شکیل پتافی نے اس دشت بے اماں کی سیاحی میں کہاں کہاں کی خاک نہ چھانی، مختلف لوگوں سے ملے، لاہور، کراچی اور محمد آباد کے دورے کیے۔ پر جگہ مشاہیر ادب اور تحقیق کے میدان کے شاہ سواروں نے ان کی حوصلہ افزائی کی، اپنے نجی کتب خانوں کے دروازے وا کیے۔
یہ ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ تھا جو تقسیم سے لے کر 2005 تک غالب پر پاکستان میں ہوئے کاموں کا احاطہ کرتا تھا مگر کتابی شکل میں اشاعت سے قبل ڈاکٹر پتافی نے اس کا دائرہ کار 2013 تک وسیع کردیا اور یوں اس کتاب میں تقسیم یعنی 1947 سے 2013 تک کی تفصیل محفوظ ہوگئی ہے۔
ڈاکٹر پتافی نے اس کتاب کو ان ابواب میں منقسم کیا ہے:
اول: اردو میں غالب شناسی کی روایت - 1947 تک
دوم: ترتیب و تدوین
سوم: تحقیق و تنقید
چہارم: ترجمہ و تشریح
پنجم: متفرقات
ششم: پاکستان مین غالب شناسی کا مستقبل
راقم کی نظر سے غالبیات پر کئی کتابیں گزری ہیں، ہر لکھنے والے نے اپنے طور پر، اپنے انداز میں لکھا ہے۔ ڈاکٹر پتافی کے انداز تحریر میں ایک دلکشی ہے۔ روانی و سلاست ہے۔ ان کی محنت نظر آتی ہے۔ باب ششم میں انہوں نے پاکستان میں غالب شناسی کا مستقبل کے علاوہ "چند تجاویز" کے زمرے میں کئی اہم تجاویز پیش کی ہیں۔
کتاب کا انتساب بھی دلچسپ ہے۔ لکھتے ہیں:
دونوں بیویں کی چاہتوں
اور
تینوں بچوں کی راحتوں کے نام
پرسوں فون پر ڈاکٹر پتافی سے رابطہ ہوا۔ عرض کیا حضرت! راجن پور کے گرد و نواح میں یہ خآکسار ڈھائی برس بسلسلہ ملازمت رہا ہے، سخت مردم بیزار علاقہ ہے۔ موسم سخت بلکہ حواس باختہ کردینے والا، بگولے چہارسو چکراتے پھرتے ہیں۔ آپ اردو میں بات کرنے کو ترس جاتے ہیں۔ ایسی جگہ رہتے ہوئے آپ نے تو کمال کردیا۔
ڈاکٹر پتافی نے ایک قہقہہ لگایا، کہنے لگے۔ درست کہا آپ نے میرے ایک دوست تو یہ تک کہتے ہیں کہ یہ خطہ تو ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں صور بھی پھونکا جائے تو وہ بھی پچاس برس میں یہاں پہنچے۔
ڈاکٹر پتافی آٹھ کتابیں لکھ چکے ہیں، ان میں شاعری کے چار مجموعے بھی ہیں۔
غالب کے بارے میں سوچنا اور غالب پر لکھنا ڈاکٹر پتافی کا خواب تھا۔ اس خواب کی تعبیر انہیں پنجاب یونیورسٹی لاہور لے گئی۔ 2001 میں پی ایچ ڈی پروگرام کا آغاز ہوا۔ انہوں نے کمر کس لی۔ داخلہ ٹیسٹ میں وہ اول آئے تھے۔ پورے پاکستان میں "غالبیاتی مواد" بکھرا پڑا تھا۔ کام آسان نہیں تھا۔ ادھر تن آسانی ڈاکٹر پتافی کی سرشت میں شامل نہیں تھی۔ سو انہوں نے تحقیق کا حق ادا کیا۔
پہلے باب میں زمانی ترتیب کی مناسبت سے تذکروں، اخباروں کتابوں، رسالوں اور اہم مضامین میں جو کچھ غالب کے بارے میں لکھا گیا تھا، اسے ڈاکٹر پتافی محفوظ کرتے چلے گئے۔ جو مواد حق میں لکھا گیا تھا اس نے "غالب شناسی" کے تحت جگہ پائی، جو مخالفت میں لکھا گیا وہ "غالب شکنی" میں سمو دیا گیا۔
باب دوم یعنی "ترتیب و تدوین" میں اردو و فاسری تصانیف غالب کی پاکستانی اشاعتوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
باب سوم میں تحقیق اور تنقیدی کتابوں کا جائزہ شامل ہے۔
چوتھا باب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ اس میں تصانیف غالب کے جزوی اور کلی منظوم و منشور تراجم کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس باب میں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ دونوں تراجم زیر بحث لائے گئے ہیں۔
پانچواں باب "متفرقات" کے عنوان سے ہے جو 15 حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کی دلچسپی کے کیا ہی کہنے۔ پہلے آٹھ حصوں میں ڈرامے، لطائف، پیروڈی، ترجمہ، نصابی رہنمائی ۔۔۔۔۔۔ ان تمام عنوانات کے تحت غالب پر ہوئے کاموں کا تفصیل جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
نواں حصہ غالب شناسوں پر کی گئی تحقیق پیش کی گئی ہے
دسویں حصے میں غالب کے نام سے قائم شدہ اداروں کو زیر بحث لایا گیا ہے۔
گیارہوں حصے کا عنوان "غالب شناس" ہے۔ جس میں کل 10 غالب شناسوں کے کاموں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
پاکستان میں غالبیات پر پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر معین الرحمان اور ڈاکٹر محمد ایوب شاہد کا تعاون، ڈاکٹر پتافی کو میسر آیا۔
کراچی میں ڈاکٹر معین الدین عقیل اور پروفیسر سحر انصاری مدد کو آئے۔ شکیل پتافی نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے تعاون کا تذکرہ بھی ادب و احترام کے ساتھ کیا ہے۔
یہ ایک ایسی کتاب ہے جو پاکستان کے پر کتب خانے میں موجود ہونی چاہیے، ہر باذوق کے پاس ہونی چاہیے چاہے وہ میرزا نوشہ کے کمال فن کا اسیر ہو یا نہ ہو۔
-------------------------
پاکستان میں غالب شناسی، ڈاکٹر شکیل پتافی
بیکن ہاؤس ملتان، 2014
صفحات: 840
قیمت: 1250
رابطہ ناشر:
ملتان:
061 6520790 & 6520791
لاہور
042 37320030
راشد اشرف
کراچی سے
پنجاب کا ایک دور افتادہ علاقہ راجن پور ۔۔۔۔۔۔۔ راجن پور کے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج راجن پور کے پرنسپل ڈاکٹر شکیل پتافی اور پتافی صاحب کا وہ کارنامہ جس کی ستائش نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔
یہ تذکرہ ہے 840 صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب "پاکستان میں غالب شناسی" جسے ڈاکٹر پتافی نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے پڑھنے والوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر پتافی اس قسم کے ڈاکٹر نہیں ہیں جو آج کل پیسے دے کر لوگ بہ آسانی بن جایا کرتے ہیں۔ خاص کر برطانیہ میں تو یہ ‘دھندا‘ ان دنوں عروج پر ہے۔
غالب پر لکھنا ایسا آسان بھی نہیں۔
شکیل پتافی نے اس دشت بے اماں کی سیاحی میں کہاں کہاں کی خاک نہ چھانی، مختلف لوگوں سے ملے، لاہور، کراچی اور محمد آباد کے دورے کیے۔ پر جگہ مشاہیر ادب اور تحقیق کے میدان کے شاہ سواروں نے ان کی حوصلہ افزائی کی، اپنے نجی کتب خانوں کے دروازے وا کیے۔
یہ ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ تھا جو تقسیم سے لے کر 2005 تک غالب پر پاکستان میں ہوئے کاموں کا احاطہ کرتا تھا مگر کتابی شکل میں اشاعت سے قبل ڈاکٹر پتافی نے اس کا دائرہ کار 2013 تک وسیع کردیا اور یوں اس کتاب میں تقسیم یعنی 1947 سے 2013 تک کی تفصیل محفوظ ہوگئی ہے۔
ڈاکٹر پتافی نے اس کتاب کو ان ابواب میں منقسم کیا ہے:
اول: اردو میں غالب شناسی کی روایت - 1947 تک
دوم: ترتیب و تدوین
سوم: تحقیق و تنقید
چہارم: ترجمہ و تشریح
پنجم: متفرقات
ششم: پاکستان مین غالب شناسی کا مستقبل
راقم کی نظر سے غالبیات پر کئی کتابیں گزری ہیں، ہر لکھنے والے نے اپنے طور پر، اپنے انداز میں لکھا ہے۔ ڈاکٹر پتافی کے انداز تحریر میں ایک دلکشی ہے۔ روانی و سلاست ہے۔ ان کی محنت نظر آتی ہے۔ باب ششم میں انہوں نے پاکستان میں غالب شناسی کا مستقبل کے علاوہ "چند تجاویز" کے زمرے میں کئی اہم تجاویز پیش کی ہیں۔
کتاب کا انتساب بھی دلچسپ ہے۔ لکھتے ہیں:
دونوں بیویں کی چاہتوں
اور
تینوں بچوں کی راحتوں کے نام
پرسوں فون پر ڈاکٹر پتافی سے رابطہ ہوا۔ عرض کیا حضرت! راجن پور کے گرد و نواح میں یہ خآکسار ڈھائی برس بسلسلہ ملازمت رہا ہے، سخت مردم بیزار علاقہ ہے۔ موسم سخت بلکہ حواس باختہ کردینے والا، بگولے چہارسو چکراتے پھرتے ہیں۔ آپ اردو میں بات کرنے کو ترس جاتے ہیں۔ ایسی جگہ رہتے ہوئے آپ نے تو کمال کردیا۔
ڈاکٹر پتافی نے ایک قہقہہ لگایا، کہنے لگے۔ درست کہا آپ نے میرے ایک دوست تو یہ تک کہتے ہیں کہ یہ خطہ تو ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں صور بھی پھونکا جائے تو وہ بھی پچاس برس میں یہاں پہنچے۔
ڈاکٹر پتافی آٹھ کتابیں لکھ چکے ہیں، ان میں شاعری کے چار مجموعے بھی ہیں۔
غالب کے بارے میں سوچنا اور غالب پر لکھنا ڈاکٹر پتافی کا خواب تھا۔ اس خواب کی تعبیر انہیں پنجاب یونیورسٹی لاہور لے گئی۔ 2001 میں پی ایچ ڈی پروگرام کا آغاز ہوا۔ انہوں نے کمر کس لی۔ داخلہ ٹیسٹ میں وہ اول آئے تھے۔ پورے پاکستان میں "غالبیاتی مواد" بکھرا پڑا تھا۔ کام آسان نہیں تھا۔ ادھر تن آسانی ڈاکٹر پتافی کی سرشت میں شامل نہیں تھی۔ سو انہوں نے تحقیق کا حق ادا کیا۔
پہلے باب میں زمانی ترتیب کی مناسبت سے تذکروں، اخباروں کتابوں، رسالوں اور اہم مضامین میں جو کچھ غالب کے بارے میں لکھا گیا تھا، اسے ڈاکٹر پتافی محفوظ کرتے چلے گئے۔ جو مواد حق میں لکھا گیا تھا اس نے "غالب شناسی" کے تحت جگہ پائی، جو مخالفت میں لکھا گیا وہ "غالب شکنی" میں سمو دیا گیا۔
باب دوم یعنی "ترتیب و تدوین" میں اردو و فاسری تصانیف غالب کی پاکستانی اشاعتوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
باب سوم میں تحقیق اور تنقیدی کتابوں کا جائزہ شامل ہے۔
چوتھا باب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ اس میں تصانیف غالب کے جزوی اور کلی منظوم و منشور تراجم کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس باب میں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ دونوں تراجم زیر بحث لائے گئے ہیں۔
پانچواں باب "متفرقات" کے عنوان سے ہے جو 15 حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کی دلچسپی کے کیا ہی کہنے۔ پہلے آٹھ حصوں میں ڈرامے، لطائف، پیروڈی، ترجمہ، نصابی رہنمائی ۔۔۔۔۔۔ ان تمام عنوانات کے تحت غالب پر ہوئے کاموں کا تفصیل جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
نواں حصہ غالب شناسوں پر کی گئی تحقیق پیش کی گئی ہے
دسویں حصے میں غالب کے نام سے قائم شدہ اداروں کو زیر بحث لایا گیا ہے۔
گیارہوں حصے کا عنوان "غالب شناس" ہے۔ جس میں کل 10 غالب شناسوں کے کاموں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
پاکستان میں غالبیات پر پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر معین الرحمان اور ڈاکٹر محمد ایوب شاہد کا تعاون، ڈاکٹر پتافی کو میسر آیا۔
کراچی میں ڈاکٹر معین الدین عقیل اور پروفیسر سحر انصاری مدد کو آئے۔ شکیل پتافی نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے تعاون کا تذکرہ بھی ادب و احترام کے ساتھ کیا ہے۔
یہ ایک ایسی کتاب ہے جو پاکستان کے پر کتب خانے میں موجود ہونی چاہیے، ہر باذوق کے پاس ہونی چاہیے چاہے وہ میرزا نوشہ کے کمال فن کا اسیر ہو یا نہ ہو۔
-------------------------
پاکستان میں غالب شناسی، ڈاکٹر شکیل پتافی
بیکن ہاؤس ملتان، 2014
صفحات: 840
قیمت: 1250
رابطہ ناشر:
ملتان:
061 6520790 & 6520791
لاہور
042 37320030