جاسم محمد
محفلین
پاکستان میں فلم ’زندگی تماشہ‘ کی ریلیز پر پابندی لگا دی گئی
پاکستانی حکام نے فلم ’زندگی تماشہ‘ کی ریلیز پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار سرمد کھوسٹ کا کہنا ہے کہ انہیں اس فلم کی وجہ سے درجنوں دھمکی آمیز فون کالیں بھی موصول ہوئی ہیں۔
پاکستانی فلم سنسر بورڈ نے اس فلم کی ریلیز کے لے 24 جنوری کی تاریخ کی منظوری دے دی تھی لیکن اس پر انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں اور دائیں بازو کے خیالات کی حامل مذہبی تنظیم تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے شدید تنقید بھی کی گئی تھی۔ ان عناصر کا کہنا تھا کہ وہ اس فلم کی ریلیز کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کریں گے۔ اب پاکستانی صوبے پنجاب کی حکومت کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ فلم کی ریلیز کے اس فیصلے پر تین فروری کو نظرثانی کی جائے گی۔ ساتھ ہی پنجاب حکومت کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ اس فلم کی ریلیز پر فی الحال پابندی لگا دینے کا فیصلہ کئی شکایات موصول ہونے کے بعد کیا گیا۔
اس بارے میں تحریک لبیک پاکستان کے ترجمان زبیر قصوری نے کہا، ''یہ فلم گستاخانہ ہے اور اسے ریلیز نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘ دوسری طرف فلم ساز سرمد کھوسٹ نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا کہ انہیں دھمکی آمیز فون کالیں بھی مل رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر کئی سرگرم پاکستانی کارکنوں اور فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد نے 'زندگی تماشہ‘ کی ریلیز پر لگائی گئی اس پابندی کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔
گزشتہ سال یوٹیوب پر اس فلم کے ایک اشتہار میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ملک میں توہین مذہب کے قوانین کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ شدت پسند مذہبی گروہوں کی جانب سے شدید تنقید کے بعد یوٹیوب پر اس فلم کے اشتہار کو بلاک کر دیا گیا تھا۔ پاکستان میں توہین مذہب ایک بہت ہی حساس معاملہ ہے اور جس کسی پر ایک بار ایسا کوئی الزام لگ جاتا ہے، اس کی زندگی اور سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
ابھی گزشتہ ہفتے ہی انسداد دہشت گردی کی ایک ملکی عدالت نے تحریک لبیک پاکستان کے 86 کارکنوں کو پچپن پچپن سال قید کی سزائیں سنا دی تھیں۔ ان افراد نے 2018ء میں پاکستانی سپریم کورٹ کی جانب سے آسیہ بی بی نامی مسیحی خاتون کی رہائی کے فیصلے کے بعد ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔ آسیہ بی بی پر بھی توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا، جنہیں عدالت نے بالآخر بری کر دیا تھا۔
پاکستانی حکام نے فلم ’زندگی تماشہ‘ کی ریلیز پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار سرمد کھوسٹ کا کہنا ہے کہ انہیں اس فلم کی وجہ سے درجنوں دھمکی آمیز فون کالیں بھی موصول ہوئی ہیں۔
پاکستانی فلم سنسر بورڈ نے اس فلم کی ریلیز کے لے 24 جنوری کی تاریخ کی منظوری دے دی تھی لیکن اس پر انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں اور دائیں بازو کے خیالات کی حامل مذہبی تنظیم تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے شدید تنقید بھی کی گئی تھی۔ ان عناصر کا کہنا تھا کہ وہ اس فلم کی ریلیز کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کریں گے۔ اب پاکستانی صوبے پنجاب کی حکومت کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ فلم کی ریلیز کے اس فیصلے پر تین فروری کو نظرثانی کی جائے گی۔ ساتھ ہی پنجاب حکومت کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ اس فلم کی ریلیز پر فی الحال پابندی لگا دینے کا فیصلہ کئی شکایات موصول ہونے کے بعد کیا گیا۔
اس بارے میں تحریک لبیک پاکستان کے ترجمان زبیر قصوری نے کہا، ''یہ فلم گستاخانہ ہے اور اسے ریلیز نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘ دوسری طرف فلم ساز سرمد کھوسٹ نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا کہ انہیں دھمکی آمیز فون کالیں بھی مل رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر کئی سرگرم پاکستانی کارکنوں اور فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد نے 'زندگی تماشہ‘ کی ریلیز پر لگائی گئی اس پابندی کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔
گزشتہ سال یوٹیوب پر اس فلم کے ایک اشتہار میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ملک میں توہین مذہب کے قوانین کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ شدت پسند مذہبی گروہوں کی جانب سے شدید تنقید کے بعد یوٹیوب پر اس فلم کے اشتہار کو بلاک کر دیا گیا تھا۔ پاکستان میں توہین مذہب ایک بہت ہی حساس معاملہ ہے اور جس کسی پر ایک بار ایسا کوئی الزام لگ جاتا ہے، اس کی زندگی اور سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
ابھی گزشتہ ہفتے ہی انسداد دہشت گردی کی ایک ملکی عدالت نے تحریک لبیک پاکستان کے 86 کارکنوں کو پچپن پچپن سال قید کی سزائیں سنا دی تھیں۔ ان افراد نے 2018ء میں پاکستانی سپریم کورٹ کی جانب سے آسیہ بی بی نامی مسیحی خاتون کی رہائی کے فیصلے کے بعد ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔ آسیہ بی بی پر بھی توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا، جنہیں عدالت نے بالآخر بری کر دیا تھا۔