نبیل
تکنیکی معاون
حوالہ: بی بی سی اردو ڈاٹ کام
ادب کو علم کا زیور کہا جاتا ہے اور علم انسانی ذہنوں کی آبیاری کرتا ہے۔ تہذیبوں کو جنم دیتا ہے معاشروں کو پروان چڑھاتا ہے۔اور ایسا کرنے میں کتاب بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔جب تک کوئ معاشرہ کتاب سے منسلک رہتا ہے وہاں ترقی کا سفر جاری رہتا ہے۔
لیکن بد قسمتی سے پاکستانی معاشرہ گذشتہ دو دہائیوں سے کتاب بینی سے دور ہوتا جا رہا ہے۔
تجزیہ کار اس کی بہت سی وجوہات بیان کرتے ہیں جن میں سب سے پہلے ڈیجیٹل انفارمیشن کی ترویج انسانی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ، کمرشلائزیشن، تیز رفتار طرز زندگی اور معیاری ادب کا تخلیق نہ ہونا بھی شامل ہیں۔
یہ درست ہے کہ انٹر نیٹ نے تیز ترین معلومات فراہم کرنے کی ایک نئی دنیا سے متعارف کرایا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ علمی ذخائر جو پہلے کبھی لائبریوں میں ہوا کرتے تھے اب سرچ انجنز کے ذریعے ان تک رسائی بہت آسانی سے ہو جاتی ہے۔
لیکن معروف سفر نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ اس سے متفق نظر نہیں آتے ان کے مطابق یورپ میں کمپیوٹر ہم سے پچاس سال پہلے متعارف ہو گیا تھا لیکن وہاں آج بھی کتاب پڑھنے کا رحجان اسی طرح موجود ہے۔
مزید پڑھیں۔۔
ادب کو علم کا زیور کہا جاتا ہے اور علم انسانی ذہنوں کی آبیاری کرتا ہے۔ تہذیبوں کو جنم دیتا ہے معاشروں کو پروان چڑھاتا ہے۔اور ایسا کرنے میں کتاب بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔جب تک کوئ معاشرہ کتاب سے منسلک رہتا ہے وہاں ترقی کا سفر جاری رہتا ہے۔
لیکن بد قسمتی سے پاکستانی معاشرہ گذشتہ دو دہائیوں سے کتاب بینی سے دور ہوتا جا رہا ہے۔
تجزیہ کار اس کی بہت سی وجوہات بیان کرتے ہیں جن میں سب سے پہلے ڈیجیٹل انفارمیشن کی ترویج انسانی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ، کمرشلائزیشن، تیز رفتار طرز زندگی اور معیاری ادب کا تخلیق نہ ہونا بھی شامل ہیں۔
یہ درست ہے کہ انٹر نیٹ نے تیز ترین معلومات فراہم کرنے کی ایک نئی دنیا سے متعارف کرایا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ علمی ذخائر جو پہلے کبھی لائبریوں میں ہوا کرتے تھے اب سرچ انجنز کے ذریعے ان تک رسائی بہت آسانی سے ہو جاتی ہے۔
لیکن معروف سفر نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ اس سے متفق نظر نہیں آتے ان کے مطابق یورپ میں کمپیوٹر ہم سے پچاس سال پہلے متعارف ہو گیا تھا لیکن وہاں آج بھی کتاب پڑھنے کا رحجان اسی طرح موجود ہے۔
مزید پڑھیں۔۔