پاکستان میں ماحولیات کی تباہی۔

ایم اے راجا

محفلین
16 اگست کو ایک شادی کے سلسلے میں میرا ٹیکسلا جانا ہوا تو یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوا کہ مارگلہ کے پہاڑوں کو روڑی اور پتھر حاصل کرنے کے لیئے بڑی بے دردی سے کاٹا جا رہا ہے، مگر اس خطرناک عمل کو روکنے والا کوئی نہیں ٹیکسلا جاتے ہوئے با ئیں ہاتھ پر میں یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہو گیا کہ پہاڑ کاٹ کر تقریبن میدان کیا جا چکا ہے، ہو سکتا ہے کہ وفاقی دارالحکومت کے بغل میں ہونے والا یہ قبیح عمل حکومتی اداروں کی ایما پر ہی ہو رہا ہو، لیکن کیا یہ قدرت کی عطا کر دی خوبصورتی اور حسن کا قتل نہیں؟
پہاڑ جو کہ زندگی کا نشان اور فطرت کا حسین تحفہ ہیں ان کو اس بے دردی سے ختم کیا جا رہا ہے، ماحولیات کے لیئے کام کرنے والی تنظیمیں اور ادارے نجانے کیوں خاموش ہیں، آج تک اس پر کیوں آواز بلند نہیں کی گئی یا اتنا کم احتجاج ہوا ہے کہ وہ اہلِ پاکستان کے کانوں اور نظروں تک نہیں پہنچا۔
مارگلہ نہ صرف اسلام آباد اور اسکے مضافات کی خوبصورتی کا امین ہے بلکہ یہ پہاڑ ایک تاریخی اہمیت کے بھی حامل ہیں جس کے بارے میں کافی لوگ مجھ سے بہتر علم رکھتے ہیں سو میں اسکی تفصیل میں جانا نہیں چاہتا، یہ پہاڑ اسلام آباد اور مضافات کے موسم پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں اور ماحولیاتی آلودگی کو بہت حد تک کم کرنے کا کام بھی کرتے ہیں، کیونکہ پودے اور درخت ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اور مارگلہ کی پہاڑیوں پر پودوں اور درختوں کی کوئی کمی نہیں۔
مجھے یہ دیکھ کر بھی بہت دکھ ہوا کہ لوگ مارگلہ میں بڑی تعداد میں درختوں کا ضیاع بھی کر رہے ہیں لیکن ہماری تنظیمیں جن کو کروڑوں روپے فنڈ ملتا ہے اور اس کام کے لیئے قائم کیئے گئے ادارے جو کہ عوام کے خون اور پسینے کی کمائی سے چل رہے ہیں انکو کچھ نظر نہیں آتا وہ صرف ہر سال موسمِ بہار میں مصنوعی نمائش لگا کر لوگوں کو یہ تاثر دینے کی تگ و دو میں رہتے ہیں کہ پاکستان ہرا بھرا اور سر سبز و شاداب ہے، پہاڑوں کو کاٹنے اور درختوں کو نقصان پہنچانے والے قاتلوں سے بڑے قاتل وہ ذمہ دار ہیں جو اس کام کے لیئے مقرر ہیں مگر بھاری نذرانوں اور کمیشنوں کے بوجھ تلے دب کر اپنی آنکھیں موندے سو رہے ہیں۔
اگر حیدرآباد سے کراچی جاؤ تو یہی حال ہیکہ ان قاتلوں نے ان پہاڑیوں کو جو کہ اس کام کے لیئے نہیں تھیں، بھی کاٹ کر بیچ ڈالا ہے اور یہی حال دوسرے علاقوں کا بھی ہے، جب دارالحکومت کے پہاڑ اور درخت ہی محفوظ نہیں تو دوسرے علاقوں کے پہاڑوں اور درختوں پر ہونے والے ظلم کو بھلا کون دیکھے۔
انگریز دور میں نہروں اور کینالوں کے دونوں اطراف پٹڑیاں ( کچے راستے) بنائے جاتے تھے جو کہ موجودہ سڑکوں سے بھی بہتر ہوتے تھے، اور انکے ساتھ قیمتی درخت لگائے جاتے تھے ان درختوں کو کاٹنے یا نقصان پہنچانے کی بات تو دور ان پٹڑیوں پر کسی نواب کو بھی گاڑی چلانے کی اجازت نہ ہوتی تھی اور نہ ہی ہمت ہوتی تھی کہ گاڑی چلائے، یہ سختی آج سے پندرہ بیس سال پہلے تک بھی تھی لیکن اب ان پٹڑیوں پر مقرر عملہ ( بیلدار) ہی دکھائی نہیں دیتا صرف تنخواہ والے دن حاضر ہوتا ہے، باقی درخت اریگیشن والوں کی ملی بھگت سے کٹ چکے ہیں اورایسے ٹنڈ منڈ درخت باقی ہیں جو کہ ناقابلِ استعمال ہیں، آخر ان لو گوں کو روکنے والے کیا کر رہے ہیں، منسٹریوں کے منسٹر اپنی کرسیاں بچاتے پھرتے ہیں، ہر دور میں اپوزیشن ہی ان تمام نقصانات کی ذمہ دار رہی جو کہ کسی بھی حکومت کو کام نہیں کرنے دیتی اور اسکی راہوں میں طرح طرح کے روڑے اٹکا کر انہیں کام کے بجائے کرسی بچانے میں مصروف رکھتی ہے، شاید بات بہت دور نکل گئی ہے سو ہم آتے ہیں پہاڑوں اور درختوں کے کٹنے پر،
ماحولیات کی منسٹری کوسب سے پہلے چاہیئے کہ، وہ مقامی حکومتوں کو اسکا ذمہ دار ٹھرائے کیونکہ وہ بہتر انداز میں اس کام کو کر سکتی ہیں، تمام پہاڑی علاقوں، سمندری ساحلوں اور مارگلہ کے پہاڑوں کو نیشنل پارک کا درجہ دیا جائے، اور دوسرے نمبر پر چاروں صوبوں اور دارالحکومت کے لیئے ماحولیات کو بچانے والی ٹاسک فورس قائم کرے اور اس میں من پسند لوگوں کے بجائے ایسے لوگوں کو رکھے جو ماحولیات سے متعلق ہوں، وہ ٹاسک فورس ماحولیات سے متعلق کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کو مانیٹر کرے اور انکی غیر تسلی بخش کاکردگی پر انکے خلاف کارروائی کرے، اور جو این جی اوز اس سلسلے میں فنڈز لیتی ہیں لیکن خرچ کہیں اور کرتی ہیں انکو بلیک لسٹ کیا جائے، حکومتِ سندھ کو سمندر کے ساحلوں سے آلودگی ختم کرنے کے لیئے بھی ایک الگ ٹاسک فورس قائم کرنی چاہئیے جو کہ چوبیس گھنٹے اس کو مانیٹر کرے اور کراچی کی شہری حکومت کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے متعلقہ اداروں کی سخت مانیٹرنگ کرے، جیسا کہ کراچی کے ساحل کچرا کنڈی کا نظارہ پیش کرتے نظر آتے ہیں، اور سمندر ماحولیاتی آلودگی کا گواہ ہے۔
اس ٹاسک فورس کے لیئے کافی اخراجات صرف ہوں گے لیکن پہاڑوں کو کاٹنے، درختوں کو نقصان پہنچانے والوں اور سمندر پر آلودگی اور کچرا پھیلانے والوں کو موقع پر بھاری جرمانے کر کے ان اخراجات کے لیئے ایک بڑی رقم حاصل کی جاسکتی ہے، جسکی مثال پاکستان میں موٹر وے پولیس کی ہے جو کہ اپنے کافی اخراجات جرمانوں کے ذریعے پورے کرتی ہے۔
درخت اور پہاڑ ہماری بقا ہیں پہاڑوں کو تو قرآن کریم میں زمین کی میخیں قرار دیا گیا ہے، خدارا ان میخوں کو بچانے کے لیئے حکومت کے ساتھ ساتھ سماجی تنظیمیں اور عوام اپنا کردار ادا کریں ورنہ یہ آلودگی کا جن ہماری زندگیوں اور صحتوں کو اپنی خوراک بنا لے گا اور ہم کچھ بھی نہ کر سکیں گے۔
اہلِ قلم پر بھی یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہیکہ وہ اس مسئلے کو اپنے کالموں اور بحثوں میں اٹھائیں اور اس مسئلے کو پاکستان میں تعلیمی نصاب میں شامل کیا جانا چاہیئے تا کہ عام لوگ اس گھمبیر مسئلے کی اہمیت سے آگاہ ہو سکیں۔
جیسا کہ موجودہ عوامی حکومت ایک مضبوط حکومت ہے اور اسکی اپوزیشن بھی تعمیری اپوزیشن کہی جاسکتی ہے سو اس حکومت سے امیدِ واثق ہیکہ یہ اس مسئلے کو بہت آسانی سے حل کر سکتی ہے، سو میں اس محفل کے ذریعے موجودہ عوامی حکومت کو اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس عوامی بلکہ عوام کی صحت اور زندگی کے اہم مسئلے پر خصوصی توجہ دے۔

ایم اے راجا
 

ساجداقبال

محفلین
بھائی جی یہاں ہاؤسنگ کالونیوں کے مافیا سرگرم ہیں۔ جس دارالحکومت کی مرکزی پارک میں مکڈونلڈ کی برانچیں کھلی ہوں اسکے مضافات کا کیا پوچھنا۔
 

ایم اے راجا

محفلین
ہم سب کا فرض بنتا ہیکہ لوگوں کو اسکی آگاہی دیں اور حکومت کے سامنے ہر فورم پر یہ مسئلہ اٹھائیں، ہم میں سے بہت سے لوگ لکھتے ہیں ( مختلف فورمز پر اور کئی اخبارات میں) سو ہمیں چاہیئے کہ اس موضوع کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کریں، آئیں ماحولیات بچا کر ملک کو اور اس زمین کو بچائیں، کہ یہ ہمارا فرض بنتا ہے، اللہ نے یہ زمین ہمیں امانت دی ہے اور امانت میں خیانت کرنا بڑا گناہ ہے۔
 

امکانات

محفلین
ہم بہت جلد پاکستان بچاو تحریک شروع کرنے کا اردہ رکھتے ہیں آپ اس میں شامل ہو کر قبضہ مافیا کے چنگل سے پاکستان کو آزاد کر واسکتے ہیں معذرت یہ میرا بیان نہیں‌ ایک سیاست دان کا بیان ہے جس ملک کی سیاست محض اخباری بیانوں پر چلے وہاں لوٹ کھسوٹ نہیں ہو گی تو کیا ہو گا
 

خرم

محفلین
اپنے نسواری اوہ معاف کیجئے گا زرداری نے ایک دفعہ ماحولیات کی وزارت لی تھی۔ ماحول کی آڑ میں جو لوٹ مار کا بازار گرم ہوا تھا وہ شائد آج بھی یاد ہو لوگوں کو۔ غالباَ ستارہ ٹیکسٹائل والوں کے ابا وفات پا گئے تھے جرمانہ کی لسٹ وصول پانے پر۔
 

ایم اے راجا

محفلین
ان سیاست دانوں کو ان قلمدانوں تک پہنچانے والے بھی تو ہم ہیں، بھینسوں کی طرح جس کے ہاتھ میں لاٹھی دیکھتے ہیں اسی کے آگے لگ پڑتے ہیں!!!!!!
 

ایم اے راجا

محفلین
اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت،
میرا مطلب ہیکہ ہم بار بار الیکشن کے متحمل نہیں ہو سکتے، سو ہمیں دودھ کو پھینکنے کے بجائے مکھی نکال پھینکنے کی کوشش کرنی چاہیئے، میرا مطلب حکومت میں جو لوگ غلط کام کریں انکے خلاف سراپہ احتجاج بنیں نہ کے پوری حکومت یا کسی پارٹی کے خلاف۔
 

ایم اے راجا

محفلین
میں تو اتنے درخت لگا چکا ہونکہ گھر اور باہر دفتر سبزہ ہی سبزہ ہے، اور یہ مہم بھی دکھاوہ ہے، پیسے خرچ کرنے کا راستہ۔
 
Top