پاکستان میں مناسب امپورٹ ایکسپورٹ پالیسی کا فقدان۔ ملک میں پیاز کی قیمت اور قلت کیوں بڑھ رہی ہے؟

محمداحمد

لائبریرین
بازاروں میں پیاز کے بڑھتے ہوئے نرخ کے ساتھ ساتھ عام آدمی کی پریشانی بھی بڑھ گئی ہے، پیاز کی قلت کی وجہ سے قیمتیں بڑھنا شروع ہوگئی ہیں، جس کی موجودہ قیمت 240 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے۔

پیاز کی قیمت میں ہونے والے حالیہ اضافے نے شہریوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا کیونکہ گھروں میں بنائے جانے والے تمام کھانوں میں پیاز لازم و ملزوم ہے۔

اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں صدر ہول سیلر ویجیٹیبل ایسوسی ایشن شیخ محمد شاہ جہاں نے پیاز کی قلت اور اس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی حقیقت سے متعلق ناظرین کو آگاہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت یا اس سے پہلے بھی ملک میں پیاز کی کوئی قلت نہیں تھی رواں سال فصلیں بھرپور ہوئی ہیں، بازاروں میں پیاز کی قلت اور قیمت کی بڑی وجہ پیاز کا ایکسپورٹ ہونا ہے۔

بشکریہ
 

محمداحمد

لائبریرین
خبر میں یہ کہا گیا ہے کہ عوام کو قربانی دینا چاہیے۔

یہ عوام کب تک قربانی دے گی۔

دنیا بھر کا اصول یہ ہوتا ہے کہ پہلے مقامی ضرورت پوری کی جائے اور پھر کسی چیز کو ایکسپورٹ کیا جائے۔

ہمارے ہاں نہ جانے کس کی حکومت ہے کہ امپورٹ ایکسپورٹ والے پہلے مقامی پیداوار کو ایکسپورٹ کرکے پیسہ بناتے ہیں۔ اور پھر مقامی ضرورت پوری کرنے کے لیے امپورٹ کرتے ہیں اور پیسہ بناتے ہیں۔ ہر دو صورتوں میں عوام کو نقصان ہوتا ہے۔

موصوف کہتے ہیں کہ بھارت نے مقامی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے پیاز کی امپورٹ پر پابندی لگا دی تو اس کا فائدہ ہمیں ہوا۔

بھائی آپ بھارت سے ہی کچھ سیکھ لیں کہ کوئی چیز کب ایکسپورٹ کریں اور کب روک دیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
ابھی ابھی ہم نے پیاز کی پنیری مکمل کی ہے۔ تھوڑی سی جگہ پہ اپنی پیاز بیجی ہے۔
ہمیں کچھ نہ کچھ خود بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے تقریباً ڈیڑھ فٹ چوڑی اور تقریباً چار پانچ فٹ لمبی جگہ پہ پالک لگائی تھی اور اب تک نجانے کتنی بار اس جگہ سے پالک لے کے کبھی سالن اور اکثر پکوڑے بنا چکے ہیں۔
گو ہم نے زیادہ سبزی نہیں لگائی لیکن دھنیے کی ضرورت بھی ہماری کیاری میں لگے دھنیے سے پوری ہوئی ہے۔ ان شاءاللہ آگے بھی ارادہ ہے۔
تو حکومتیں سب ایک جیسی ہی آ رہی ہیں۔ سیاہ ست دان بھی سب ایک جیسے ہیں۔ ادارے زوال پزیر ہیں۔ لوگ پہلے خود کو ترجیح دے رہے ہیں اور پھر ملک و قوم کو۔ بلکہ بس خود ہی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ایسے میں ان کی پالیسیاں بھی وہی ہیں کہ جہاں سے انھیں کوئی فائدہ ہو۔
پھر ہم کیا کریں؟
کچھ نہ کچھ خود پہ انحصار کرنا ہو گا۔ اگر گھر میں جگہ ہے تو بہت اچھا ورنہ گملوں/گرو بیگز/ٹوٹے برتنوں/ٹب وغیرہ میں سبزیاں اگائیں۔
یہ بظاہر تھوڑا ظالمانہ سا لگتا ہے۔ تھوڑا مشکل بھی۔ لیکن کیا اس کے علاوہ بھی کوئی حل ہے؟
 

محمداحمد

لائبریرین
کچھ نہ کچھ کوشش اپنے طور پر ضرور کرنی چاہیے۔ لیکن آپ ہر چیز نہیں پیدا کر سکتے۔ ہزارہا چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے لیے بازار سے خریداری کے سوا کوئی چارہ نہیں
ہے۔

اور جب آپ بازار سے کچھ بھی خریدیں گے تو سرکار کی پالیسیوں کی زد میں ضرور آئیں گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
آپ کہہ رہے ہیں کہ پیاز برآمد کر دی گئی ہے جس سے ملک کے اندر پیاز کی قلت پیدا ہو گئی ہے اور قیمت بڑھ گئی ہے، جبکہ کل میں سُن رہا تھا کہ پیاز جلد ہی کم نرخ پر آ جائے گی کہ ایران اور افغانستان سے 150 کے قریب پیاز کی گاڑیاں پاکستان پہنچ چکی ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
آپ کہہ رہے ہیں کہ پیاز برآمد کر دی گئی ہے جس سے ملک کے اندر پیاز کی قلت پیدا ہو گئی ہے اور قیمت بڑھ گئی ہے، جبکہ کل میں سُن رہا تھا کہ پیاز جلد ہی کم نرخ پر آ جائے گی کہ ایران اور افغانستان سے 150 کے قریب پیاز کی گاڑیاں پاکستان پہنچ چکی ہیں۔

پہلی پوسٹ میں خبر کا حوالہ ہے ۔وہ دیکھیے۔ اس میں موجود ویڈیو بھی دیکھیے۔
 

جاسمن

لائبریرین
پہلے چیز برآمد کر دیں۔ پھر قلت ہو جائے اور قیمتیں زیادہ ہو جائیں تو درآمد کر لیں۔ بہت خوب! یعنی فائدہ اٹھانے والے دونوں صورتوں میں فائدہ اٹھائیں گے۔
 
Top