جاسمن

لائبریرین
پاکستان میں موت کی سزا پانے والے ہر پانچ میں سے دو بے گناہ
فرحت جاوید
بي بي سي اسلام اباد
20 اپريل 2019

پاکستان میں موت کی سزا پانے والے قیدیوں کے بارے میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2014 سے اب تک پانچ سو افراد کو پھانسی پر چڑہایا گیا لیکن موت کی سزا پانے پانے والے ہر پانچ میں سے دو قیدیوں کو غلط سزا دی گئی یا وہ بے گناہ تھے۔

پاکستان میں، غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہر ہر ہفتے اوسطا" دو افراد کی پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے۔

یہ اعداد و شمار اسلام آباد میں انسانی حقوق کی تنظیم 'فاؤنڈیشن فار فنڈامینٹل رائیٹس' اور بین القوامی غیر سرکاری تنظیم ریپرییو نے اپنی مشترکہ رپورٹ میں جاری کیے ہیں۔

ٹرائل کورٹس میں چھوٹے مقدمات میں بھی سزائے موت دینے کے عمل نے نہ صرف ان قیدیوں کی تعداد میں اضافہ کیا بلکہ ان سزاؤں کے خلاف اپیلیں سپریم کورٹ میں پہنچنے تک ان افراد کو کئی سال قید میں بھی گزارنے پڑتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ملک میں 2010 سے 2018 تک سزائے موت کے 78 فیصد مقدمات کے فیصلے سپریم کورٹ نے کالعدم قرار ہیں۔ ماہرین کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں سزائیں معطل ہونے یا تبدیل ہونے سے ضلعی عدالتوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھتا ہے۔

رپورٹ میں پاکستان میں موت کی سزا کے قانون کے مسلسل استعمال پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے نا مکمل یا ناقص تحقیقات، عدالتوں سے مقدمے کے فیصلے میں برس ہا برس کی تاخیر یا غلط سزاؤں کی وجہ سے بے گناہ شہریوں کو تکلیف سے گزرنا پڑا اور پھر عدالتوں نے انھیں برّی کر دیا۔

واضح رہے کہ دو برس پہلے تک پاکستان سب سے زیادہ سزائے موت دینے والے دنیا کے پہلے پانچ ملکوں میں شامل تھا جبکہ اس وقت پاکستان کی جیلوں میں سزائے موت پانے والے پونے پانچ ہزار افراد نظرثانی اپیلوں کی شنوائی کے منتظر ہیں۔

رپورٹ میں گزشتہ آٹھ برس کے دوران سپریم کورٹ میں آنے والے مقدمات میں سے 310 کا جائزہ لیا گیا۔ ان مقدمات میں سے 78 فیصد پر نچلی عدالتوں کے فیصلے کالعدم قرار دیتے ہوئے ان مقدموں میں ملزمان کو یا تو بری کر دیا گیا یا ان کی سزا تبدیل کر دی گئی یا ان پر نظرثانی کا حکم دیاگیا۔ اسی عرصے میں ٹرائل کورٹس میں تقریباً 2800 افراد کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے، یعنی ہر سال اوسطا" تین سو افراد کو یہ سزا سنائی جا رہی ہے۔

لیکن صرف 2018 میں ہی سپریم کورٹ میں سزائے موت کی اپیلوں میں سے تین فیصد کی سزا کو برقرار رکھا گیا جبکہ 97 فیصد سزائے موت کے فیصلے کالعدم قرار دیئے گئے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کے عدالتی نظام میں ایک طرف ناقص تفتیش اور کمزور شہادتیں عدل کی راہ میں حائل ہیں تو دوسری جانب طویل یا سست عدالتی عمل انصاف کی تیز رفتار فراہمی میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔ عام آدمی کے مقدمات برسوں عدالت میں چلتے رہتے ہیں اور وہ انصاف کے لیے انتظار کی سولی پر لٹکا رہتا ہے۔

اسی رپورٹ میں مظہر فاروق کے مقدمے کا حوالہ دیا گیا ہے جنہوں نے جیل میں بائیس سال گزار دیئے۔ انہیں نومبر 2017 میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے قتل کے اس مقدمے سے باعزت بری کیا تھا جس میں انھیں 18 سال پہلے سزائے موت سنائی گئی تھی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مظہر فاروق نے بتایا تھا کہ ہائی کورٹ میں ان کی اپیل کی شنوائی کے لیے انھیں 11 سال انتظار کرنا پڑا۔ جب بات نہ بنی تو سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر یہاں بھی 'انصاف کی باری آتے آتے مزید 10 سال تنگ و تاریک کال کوٹھری میں گزر گئے۔'

اسی طرح چنیوٹ سے تعلق رکھنے والی رانی بی بی نے انیس سال جیل میں گزارے اور پھر لاہور ہائی کورٹ نے انہیں ناکافی ثبوت اور ناقص شواہد کی بنیاد پر باعزت برّی کر دیا۔ عدالت نے رانی بی بی کی سزا کے خلاف اپیل نہ کرنے کو جیل انتظامیہ کی بدنیتی قرار دیا اور اس سزا پر افسوس کا اظہار بھی کیا، مگر اس سنگین غلطی کا ازالہ کرنے کے لیے ریاست کے پاس کوئی قانون موجود ہی نہیں۔

وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ 'پاکستان میں انصاف مہیا کرنے کے عمل میں جھول یعنی مِسکیرج آف جسٹس کا ایکٹ موجود ہی نہیں جس کے مطابق ریاست یا نظام میں نقص یا غلطی کی وجہ سے کسی شخص کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کیا جائے، یہی وجہ ہے کہ مظہر فاروق کیس جیسے واقعات پیش آتے ہیں۔'

شہزاد اکبر کہتے ہیں 'حکومت کی جانب سے ایسے افراد کو معاوضہ دیا جانا چاہییے تاکہ ان کی زندگی کے اہم ترین سال سلاخوں کے پیچھے بےگناہی میں گزارنے کی کچھ تلافی ہو سکے۔ جبکہ اس سلسلے میں ایک بِل ایوان میں موجود ہے اور امید ہے کہ اس پرمزید کام بھی کیا جائے گا'۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں آنے والے ان مقدمات میں 28 فیصد ایسے تھے جن میں دو ملزمان نامزد تھے جن میں سے ایک کو تو بری کیا گیا جبکہ دوسرے کو انہی ثبوت و شواہد کی بنیاد پر موت کی سزا سنائی گئی۔

بیرسٹر شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ 2014 سے اب تک تیرہ ایسے افراد کو پھانسی دی گئی ہے جو گزشتہ بیس سال سے سزائے موت کے خلاف اپیلوں کے شنوائی کے لیے قید میں تھے اور یوں انہوں نے عمر قید کی سزا جتنا عرصہ جیلوں میں گزارا جس کے بعد ان کی سزائے موت پر عملدرآمد ہوا'۔

نیشنل کمیشن آن ہیومن رائٹس کے چیئرمین علی نواز چوہان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ جب تک نظام میں درستگی نہیں آتی سزائے موت پر پابندی رہے، یا مقدمات سننے میں تاخیر نہ کی جائے۔

'آپ اندازہ لگائیں جس شخص نے پندرہ سال قید میں سزائے موت کے خلاف اپیل کے انتظار کرتے ہوئے قید میں گزار دیے اور پھر اسے کہا جاتا ہے کہ اس کی سزا غلط تھی، کالعدم ہے اور اسے برّی کر دیا جاتا ہے، تو یہ اس شخص کے ساتھ زیادتی ہے، وہ تو ناکردہ جرم میں عمر قید میں گزار چکا ہے'۔ وہ کہتے ہیں کہ 'سزائے موت پر پابندی ہو، چاہے کچھ حدود مقرر کر دی جائیں جیسا کہ دہشتگرردی کے مقدمات ، اب تو یہاں ستاییس جرائم میں سزائے موت دی جارہی ہے جو کہ پہلے دس سے بھی کم تھی'۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ستر فیصد مقدمات میں سپریم کورٹ نے سزائیں کالعدم قرار دینے کی بنیاد گواہی کو قرار دیا جس کی بنیاد پر ٹرائل کورٹس نے موت کی سزائیں سنائی تھیں۔ 47 فیصد مقدمات میں موقع واردات پر گواہی کو تسلیم کیا گیا یہ جانے بغیر کے گواہ اس وقت وہاں کیا کر رہے تھے جبکہ 44 فیصد گواہان کی گواہی موقع واردارت سے اکٹھی کیے گئے شواہد سے متصادم تھی۔

برّی کیے گئے 74 فیصد مقدمات میں سپریم کورٹ نے دیکھا کہ ان میں عدالت نے ناکافی ثبوت ہونے کے باوجودسزائے موت سنائی۔

جبکہ 65 فیصد برّی کیے گئے مقدمات میں عدالت نے پولیس کی تحقیقات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ 53 فیصد مقدمات میں ثبوت و شواپد مشکوک تھے جبکہ 32 فیصد رہائی پانے والوں میں ایف آئی آر کے اندارج میں غیر واضح وجوہات کی بنا پر تاخیر کی گئی۔

ماہرین کے مطابق 'پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے جس میں حکومت، عدالتوں یا ضابطہ فوجداری کے تحت تلافی کی جا سکے، غلط سزا کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے کسی پر ذمہ داری عائد ہی نہیں کی جا سکتی اور یہی اس نظام کی سب سے بڑی کمزوری ہے'۔
پاکستان میں پھانسیاں، ہر پانچ میں سے دو بیگناہ: رپورٹ
 

فرخ منظور

لائبریرین
اسی لیے موت کی سزا کی بجائے زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید ہونی چاہیے کیونکہ انسانی غلطی کی وجہ سے کوئی بھی بے قصور سولی پر چڑھ سکتا ہے۔
 

ام اویس

محفلین
پاکستان کا موجودہ عدالتی نظام کیسا ہے،قائد اعظم یونیورسٹی کی تحقیق میں تشویشناک انکشافات
ہفتہ‬‮ 25 ‬‮نومبر‬‮ 2017 | 16:14
اسلام آباد(آن لائن )قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ اکنامکس کی ریسرچ ٹیم نے ضلع اسلام آباد کی عدالتوں میں آنے والے سائلین کے مقدمات کے اعداد و شمار سے نتائج اخذ کئے ہیں کہ موجودہ عدالتی نظام عام شہری کو سستے انصاف کی فراہمی میں مددگار نہیں ہے ریسرچ کے نتائج کے مطابق مقدمات کی اوسط لاگت /اخراجات سائلین کی اوسط آمدنی سے بہت زیادہ ہے جو کہ موجودہ عدالتی نظام اور اس کے ڈھانچے پر سوالیہ نشان ہے ۔ریسرچ ٹم کےسربراہ ڈاکٹر انور شاہ کے مطابق حالیہ نظام عدلیہ کی بنیاد سرمایہ داری نظام سے مربوط ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام فرد کی آزادی کی اہمیت سمجھے بغیر لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے ٗ نتیجتاًمعاشرہ عدم مساوات کا شکار ہے کہ کچھ لوگ زندگی کی تمام سہولیات تک رسائی حاصل کرتے ہیں جبکہ دیگر لوگ ان سہولیات سے محروم رہتے ہیں اس عدم مساوات کے اثرات ریاست کے دیگر بنیادی اداروں کی سطح مثلاً عدلیہٗ انتظامیہ اورمقننہ تک موجود ہے۔ ڈاکٹر انور شاہ کے اس تحقیقی کام کا مقصد پاکستان کے نظام عدل میں انصاف تک رسائی حاصل کرنے میں عدم مساوات کے پہلو پر روشنی ڈالناہے۔ جہاں یہ نظام عدل کئی لوگوں کی مدد کا سبب ہے وہیں دوسری جانب متعد د انصاف سے محروم ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ متذکرہ نظام ماضی کی کئی حکومتوں سے متاثر ہے جیسا کہ برطانوی نو آبادیاتی دور کے اثرات انتظامی و عدالتی نظام ہائے پر واضح ہیں ۔ یہ تحقیق اس بات پر منتج ہے کہ اس طرح کا عدالتی نظام ثمر آور نہیں ہوسکتا جب تک موجودہ معاشی نظام کو زمینی حقائق سے مربوط نہیں کیا جاتا اور ایسے معاشرے کی تشکیل کی کوشش نہیں کی جاتی جس میں انصا ف کے حصول کے لئے اخراجات کا بوجھ فرد اور سائلین کی بجائے معاشرہ خود برداشت کرے۔
پاکستان کا موجودہ عدالتی نظام کیسا ہے،قائد اعظم یونیورسٹی کی تحقیق میں تشویشناک انکشافات
 
Top