پاکستان میں کرپشن کم ہوگئی، موجودہ نواز دور بہتر ثابت ہوا، ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل
اسلام آباد (انصار عباسی) جنرل پرویز مشرف اور ان کی حکومت کے خلاف کرپشن کا ایک بھی مقدمہ درج نہیں کیا گیا حالانکہ برلن میں قائم بین الاقوامی نگران ادارے ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے گزشتہ 15 برس کے اعداد و شمار کے تحت سابق فوجی حکمران کے دور کو کرپٹ ترین دور قرار دیا ہے۔ کرپشن کے حوالے سے سالانہ بنیادوں پر رپورٹ (گلوبل کرپشن بیرومیٹر اور کرپشن پرسیپشن انڈیکس) جاری کرنے والے ادارے ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں دنیا کے مختلف ملکوں کا تقابلی جائزہ پیش کیا ہے ، جسے دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ پرویز مشرف کاد ور پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت (جس میں یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف وزیراعظم تھے) کے مقابلے میں کہیں زیادہ کرپٹ دور تھا۔ لیکن، یہ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت ہے جس نے 2013ء اور 2014ء کے دوران ملک کیلئے بہتر اقدامات کیے اور 1996ء میں ٹرانس پیرنسی کی جانب سے پہلی مرتبہ عالمی کرپشن رپورٹ جاری کیے جانے سے اب تک یہ بہتر دور ثابت ہوا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1996ء میں اس وقت بینظیر بھٹو کی حکومت تھی اور اس وقت کے جائزے کے مطابق پاکستان کو 100 میں سے 10 نمبر (یعنی 1/10) اسکور ملا تھا۔ لیکن بعد میں 2004ء اور 2005ء کے دوران جب جنرل پرویز مشرف حکمران تھے اس وقت عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا اسکور 100 میں سے 21 (یعنی 2.1/10) رہا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کو عمومی طور پر ملکی تاریخ کی کرپٹ ترین حکومت سمجھا جاتا ہے لیکن ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت یعنی 2009ء میں کرپشن کے حوالے سے پاکستان کا اسکور 100 میں سے 24 رہا جس کا مطلب یہ ہوا کہ فوجی حکمران کی حکومت کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا اسکور تین نمبر بہتر تھا۔ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کی گزشتہ 19 سال کی رپورٹ دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ 1996 میں پاکستان کا اسکور 10/100، 1997 میں 25/100، 1998ء میں 27/100، 1999ء میں 22/100 تھا۔ 2000ء میں ادارے کی جانب سے رپورٹ جاری نہیں کی گئی تھی۔ اس کے بعد 2001ء میں اسکور 23/100، 2002ء میں 26/100، 2003ء میں 25/100، 2004ء میں 21/100، 2005ء میں 21/100، 2006ء میں 22/100، 2007ء میں 24/100، 2008ء میں 25/100، 2009ء میں 24/100، 2010ء میں 23/100، 2011ء میں 25/100، 2012ء میں 27/100، 2013ء میں 28/100 اور 2014ء میں 29/100 رہا۔ یہ بہت ہی دلچسپ بات ہے کہ کرپٹ افراد کے خلاف نیب، ایف آئی اے حتیٰ کہ رینجرز کے آپریشن میں سویلین حکومتوں پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے لیکن بڑی ہی آسانی کے ساتھ جنرل پرویز مشرف کے 9 برس کے دورِ حکومت میں ہونے والی کرپشن اور بڑے اسکینڈلز پر آنکھیں بند ہیں۔ نیب کی جانب سے حال ہی میں سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ میں جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں سامنے آنے والے اربوں روپے کے میگا اسکینڈلز اور کرپشن کیسز میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ تقریباً ہر بڑے سیاسی رہنما بشمول وزیراعظم نواز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزرائے اعظم وغیرہ کو دہائیوں پرانے مختلف مقدمات میں ملزم قرار دیا جا چکا ہے لیکن پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں اور وزیروں کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ سویلین عہدیداروں سے سرکاری زمینیں اپنے من پسند افراد میں بانٹنے پر سوالات پوچھے جاتے ہیں لیکن شہداء کے اہل خانہ کیلئے مختص 10 ہزار کنال فوجی زمین اپنے من پسند افراد میں بطور سیاسی رشوت بانٹنے پر پرویز مشرف سے کچھ نہیں پوچھا جاتا۔ 2005ء کے اسٹاک ایکسچینج میں ہیرا پھیری کے اسکینڈل سے لے کر پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری تک، 2006ء کے چینی بحران سے لے کر اربوں روپے کے پینے کے شفاف پانی کی فراہمی کے پروجیکٹ میں ہیرا پھیری تک، دفاعی ساز و سامان کی خریداری میں مبینہ ہیرا پھیری، پاک فضائیہ کیلئے نگرانی کے طیاروں کی ڈیل، 2005ء کے زلزلے کے فنڈز میں خورد برد، فوجی زمین جمعیت علمائے اسلام (ف) اور اپنے نجی اسٹاف میں بانٹنے، پنشن اسکینڈل، جکارتہ میں پاکستان کے اثاثوں کی فروخت، اپنے چیف آف اسٹاف کے فائدے کیلئے اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں تبدیلی اور ایسے کئی دیگر اسکینڈلز اور غیر آئینی تقرریاں ہیں جو فوجی حکمران نے کیں؛ لیکن نیب نے ان میں سے ایک پر بھی نظر نہیں ڈالی۔ پرویز مشرف اپنے دورِ حکومت میں ارب پتی بنے، ملک کے اندر اور باہر جائیدادیں بنائیں، لیکن ان سے ایک بھی سوال نہیں پوچھا گیا جبکہ نیب سیاسی رہنمائوں کے اثاثوں کے ریفرنسز بنانے میں مصروف ہے۔
اسلام آباد (انصار عباسی) جنرل پرویز مشرف اور ان کی حکومت کے خلاف کرپشن کا ایک بھی مقدمہ درج نہیں کیا گیا حالانکہ برلن میں قائم بین الاقوامی نگران ادارے ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے گزشتہ 15 برس کے اعداد و شمار کے تحت سابق فوجی حکمران کے دور کو کرپٹ ترین دور قرار دیا ہے۔ کرپشن کے حوالے سے سالانہ بنیادوں پر رپورٹ (گلوبل کرپشن بیرومیٹر اور کرپشن پرسیپشن انڈیکس) جاری کرنے والے ادارے ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں دنیا کے مختلف ملکوں کا تقابلی جائزہ پیش کیا ہے ، جسے دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ پرویز مشرف کاد ور پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت (جس میں یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف وزیراعظم تھے) کے مقابلے میں کہیں زیادہ کرپٹ دور تھا۔ لیکن، یہ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت ہے جس نے 2013ء اور 2014ء کے دوران ملک کیلئے بہتر اقدامات کیے اور 1996ء میں ٹرانس پیرنسی کی جانب سے پہلی مرتبہ عالمی کرپشن رپورٹ جاری کیے جانے سے اب تک یہ بہتر دور ثابت ہوا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1996ء میں اس وقت بینظیر بھٹو کی حکومت تھی اور اس وقت کے جائزے کے مطابق پاکستان کو 100 میں سے 10 نمبر (یعنی 1/10) اسکور ملا تھا۔ لیکن بعد میں 2004ء اور 2005ء کے دوران جب جنرل پرویز مشرف حکمران تھے اس وقت عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا اسکور 100 میں سے 21 (یعنی 2.1/10) رہا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کو عمومی طور پر ملکی تاریخ کی کرپٹ ترین حکومت سمجھا جاتا ہے لیکن ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت یعنی 2009ء میں کرپشن کے حوالے سے پاکستان کا اسکور 100 میں سے 24 رہا جس کا مطلب یہ ہوا کہ فوجی حکمران کی حکومت کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا اسکور تین نمبر بہتر تھا۔ ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کی گزشتہ 19 سال کی رپورٹ دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ 1996 میں پاکستان کا اسکور 10/100، 1997 میں 25/100، 1998ء میں 27/100، 1999ء میں 22/100 تھا۔ 2000ء میں ادارے کی جانب سے رپورٹ جاری نہیں کی گئی تھی۔ اس کے بعد 2001ء میں اسکور 23/100، 2002ء میں 26/100، 2003ء میں 25/100، 2004ء میں 21/100، 2005ء میں 21/100، 2006ء میں 22/100، 2007ء میں 24/100، 2008ء میں 25/100، 2009ء میں 24/100، 2010ء میں 23/100، 2011ء میں 25/100، 2012ء میں 27/100، 2013ء میں 28/100 اور 2014ء میں 29/100 رہا۔ یہ بہت ہی دلچسپ بات ہے کہ کرپٹ افراد کے خلاف نیب، ایف آئی اے حتیٰ کہ رینجرز کے آپریشن میں سویلین حکومتوں پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے لیکن بڑی ہی آسانی کے ساتھ جنرل پرویز مشرف کے 9 برس کے دورِ حکومت میں ہونے والی کرپشن اور بڑے اسکینڈلز پر آنکھیں بند ہیں۔ نیب کی جانب سے حال ہی میں سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ میں جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں سامنے آنے والے اربوں روپے کے میگا اسکینڈلز اور کرپشن کیسز میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ تقریباً ہر بڑے سیاسی رہنما بشمول وزیراعظم نواز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزرائے اعظم وغیرہ کو دہائیوں پرانے مختلف مقدمات میں ملزم قرار دیا جا چکا ہے لیکن پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں اور وزیروں کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ سویلین عہدیداروں سے سرکاری زمینیں اپنے من پسند افراد میں بانٹنے پر سوالات پوچھے جاتے ہیں لیکن شہداء کے اہل خانہ کیلئے مختص 10 ہزار کنال فوجی زمین اپنے من پسند افراد میں بطور سیاسی رشوت بانٹنے پر پرویز مشرف سے کچھ نہیں پوچھا جاتا۔ 2005ء کے اسٹاک ایکسچینج میں ہیرا پھیری کے اسکینڈل سے لے کر پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری تک، 2006ء کے چینی بحران سے لے کر اربوں روپے کے پینے کے شفاف پانی کی فراہمی کے پروجیکٹ میں ہیرا پھیری تک، دفاعی ساز و سامان کی خریداری میں مبینہ ہیرا پھیری، پاک فضائیہ کیلئے نگرانی کے طیاروں کی ڈیل، 2005ء کے زلزلے کے فنڈز میں خورد برد، فوجی زمین جمعیت علمائے اسلام (ف) اور اپنے نجی اسٹاف میں بانٹنے، پنشن اسکینڈل، جکارتہ میں پاکستان کے اثاثوں کی فروخت، اپنے چیف آف اسٹاف کے فائدے کیلئے اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں تبدیلی اور ایسے کئی دیگر اسکینڈلز اور غیر آئینی تقرریاں ہیں جو فوجی حکمران نے کیں؛ لیکن نیب نے ان میں سے ایک پر بھی نظر نہیں ڈالی۔ پرویز مشرف اپنے دورِ حکومت میں ارب پتی بنے، ملک کے اندر اور باہر جائیدادیں بنائیں، لیکن ان سے ایک بھی سوال نہیں پوچھا گیا جبکہ نیب سیاسی رہنمائوں کے اثاثوں کے ریفرنسز بنانے میں مصروف ہے۔