الف عین
لائبریرین
خاور چودھری کے دوہوں پر کچھ بحث ہو چکی ہے۔ اس بات کو ذرا آگے بڑھاؤں۔
ادھر مصحف اقبال صاحب کے پاس سے میں یکے بعد دیگرے "سیپ" کے دو شمارے لایا تھا جو نسیم درانی نے اقبال بھائی کو دئے تھے۔ پیشِ نظر ’سیپ‘ کا خاص نمبر2007 ء ہے۔ اس میں جمیل عظیم آبادی اور طاہر سعید ہارون کے دوہے، الیاس عشقی کے دوہوں پر عبد اللہ جاوید کا مضمون، اور ناصر شہزاد کی غزلیں شامل ہیں۔ ناصر شہزاد بھی ہندی لب و لہجے کی شاعری کے لئے مشہور ہیں۔ آئیے ان کی زبان کا جائزہ لیا جائے:
پہلے الیاس عشقی کے دوہے۔ عبد اللہ جاوید نے بیسیوں دوہے نقل کئے ہیں، بیشتر دوہوں کی زبان اسی ہندی کی زبان ہے جس میں کبیر اور رحیم دوہے کہتے رہے ہیں۔ لیکن مناظر فطرت کا ذکر کرتے ہوئے جن دوہوں کی مثالیں دی ہیں، ان سب میں ایک لفظ استعمال ہوا ہے۔
روکھ
سکھی رکھے سب گاؤں کو ایک روکھ چھتنار
چاہے بیر کرید کے ہوئیں روکھ ہزار
روکھ سجن کی پرہت کا من میں بڑھتا جائے
مکھ میں بات آئے نہیں، ہردے نہیں سمائے
موسم کے سب دکھ سہے، روکھ کھڑا چپ چاپ
پھل دے اور چھایا کرے، پُن جانے نا پاپ
یہ ’روکھ‘ کیا لفظ ہے۔ ہندی یعنی سنسکرت میں ورکش (वृक्ष) اور اس قسم کے الفاظ جب برج بھازشا یا اودھی بلکہ کسی بھی علاقائی بولی میں بگڑتے ہیں تو سنسکرت کا "کشا" یا تو "چھ" میں بدلتا ہے، جیسے لکشمی کو لچھمی، یا "کھ" میں جیسے "ورشا" کا روپ "برکھا"۔
یہاں ورکش کا بگڑا ہوا روپ "برکھ" یا "برچھ" مانا جا سکتا ہے، یا اگر ’و‘ کو ’ب‘ سے نہ بدلا جائے تب بھی ’ورکھ‘ مانا جا سکتا ہے۔ یہ ’روکھ‘ نہ آج تک کسی دیہاتی بولی میں سنا، نہ ہندوستانی اردو میں ہی، نہ ہندی میں پڑھا۔
باقی الیاس عشقی کے دوہوں کی زبان درست ہے
جمیل عظیم آبادی کے آٹھ دوہے اس شمارے میں ہیں: یہ دوہا چھند میں نہیں، سرسی چھند میں ہیں۔ (یہ بھی جمیل الدین عالی کے دوہوں کو زبردستی دوہوں میں شامل کرنے کی کوشش ہے، ورنہ دوہےدوہا چھند میں نہ ہوں تو ان کو ہندی والا تو کوئی دوہا کہے گا ہی نہیں۔ یہ دوسری بحث ہے)
ان کی زبان درست ہی ہے، ماسوا اس دوہے کے
پربت پربت دیکھ لو جا کے ملے نہ کوئ اور
کس ٹیکر سے جھرنا پھوٹا کہاں ہے اس کا چھور
یہ ’ٹیکر‘ کسی نامعلوم زبان یا بولی کا لفظ ہے
اب اہرسعید ہارون۔ جو دوہوں کے لئے بہت معروف نام ہے، کے دوہے دیکھیں۔
تین صفحات پر شائع ان دوہوں کو چار عنوانات کے تحت جمع بھی کیا گیا ہے، اور ان کے علاوہ متفرق دوہے بھی ہیں۔
پہلا ’عشق‘ کے عنوان سے، پہلا ہی دوہا دیکھیں:
عشق خدا کی آگہی، عشق ہے اُتّر گیان
عشق اجالے آتما، عشق سے ہے عرفان
پہلی سطر میں ’اتّر گیان سے کیا مراد ہے۔ اُتّر ایک تو شمال سمت کو کہتے ہیں، دوسرا ،طلب ہے ’ما بعد‘ جیسے Post Modernism کو جس کا ترجمہ اردو والے ما بعد جدیدیت کرتے ہیں، ہندی میں اسے ’اتّر آدھونک واد‘ کہا جاتا ہے۔۔ یہاں اتر گیان سے کیا م،راد ہے۔۔۔ ماورا علم؟
اور ایک دیکھیں
عشق ہنسائے رانجھنا، عشق رلائے ہیر
عشق وچھوڑے ڈالتا، عشق بندھائے دھیر
یہ ’وچھوڑے‘ شاید پنجابی ہے، ہندی نہیں۔
اور دیکھیں۔۔ یہ "گیان" کے تحت:
اس ودیا سے فائدہ، کر دے جو مغرور
رب سائیں کی ذات سے لے جائے جو دور
یہ ’رب سائیں‘ تو یقیناً پنجابی ہے کہ اپنے شاکر عزیز اکثر سعاؤں میں یہ لفظ اللہ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
"برہا" کے تحت:
سوکھی من کی لاکڑی برہا آگ لگائے
جانے کب برسات ہو سیلا ساجن آئے
یہ ’لاکڑی‘ بجائے ’لکڑی‘ کہاں کی ترکیب ہے، کسی اور بولی میں ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ’سیلا ساجن‘۔
متفرق دوہے:
ساگر بھیتر ماچھری من بھاتے مرجان
کھارا جل بے گن نہیں سوچےئ تو انسان
ماچھری؟؟ مچھلی کے لئے ماچھی یا مچھری تو مانا جاتا ہے
مرجان؟ کیا عربی کا مرجان ہے یا کوئی اور لفظ ہے؟
کیا کوٹئ کیا کھائے گا بن محنت انسان
نا تو کوئی ڈھینکلی، نا بوری میں دھان
ڈھینکلی؟
چکر چڑھی کمار کے ماٹی بدلا روپ
کیسی چکنی ڈھوبری نکلا روپ سروپ
ڈھوبری؟ کمار یا کمھار، اس کے علاوہ دوہے کی بحر میں ’چک کر‘ آتا ہے، درست ’چکر‘ ہے، کاف پر سکوت۔
اب ناصر شہزاد کی غزلیں:
کہر آ کر اٹی ہے پیڑوں پر
رتیں کہسار کی ہیں گیڑوں پر
گیڑوں؟
سامنے یہ سماج، اس کے رواج
پیار اسوار جھگڑوں جھیڑوں پر
اسوار؟ جھیروں؟؟
مٹکے مہندی کی باس، مدھ کی مٹھاس
بستیوں کے اداس ویہڑوں میں
ویہڑوں؟
ایک غزل میں رہ گیا، سہہ گیا کی زمین ہے۔ اس میں قافیوں کے معنی بھی دئے گئے ہیں۔ کھہ گیا، لیہ گیا، گہ گیا۔۔۔
یہ شعر
کمرے میں ہم، پہاڑ پہ برساتی ندیاں
بارش کی بوندیں ٹین کی چھت پر رُنیں جھُنیں۔
میں اس پر اعتراض نہیں کر رہا کہ پنجابی یا کوئی اور بولی کے الفاظ استعمال کیوں کئے جا رہے ہیں۔ یہ شاعر کا حق ہے کہ وہ جو چاہے زبان استعمال کرے، اگر ٖیر مانوس الفاظ ہوں تو ان کے معنیٰ بھی ضرور دے (اگر چہ صرف ناصر شہزاد نے فٹ نوٹ میں کچھ الفاظ کے معنی دئے ہیں، اور کسی نے نہیں)، لیکن ان کو ہندی کہنے کی ضد تو نہ کریں!! خاص کر جب ہندی سنسکرت چھندوں میں شاعری کی جائے تو۔۔ سرسی چھند چوپائی کا ہوتا ہے اور دوہا چھند دوہے کا۔
ادھر مصحف اقبال صاحب کے پاس سے میں یکے بعد دیگرے "سیپ" کے دو شمارے لایا تھا جو نسیم درانی نے اقبال بھائی کو دئے تھے۔ پیشِ نظر ’سیپ‘ کا خاص نمبر2007 ء ہے۔ اس میں جمیل عظیم آبادی اور طاہر سعید ہارون کے دوہے، الیاس عشقی کے دوہوں پر عبد اللہ جاوید کا مضمون، اور ناصر شہزاد کی غزلیں شامل ہیں۔ ناصر شہزاد بھی ہندی لب و لہجے کی شاعری کے لئے مشہور ہیں۔ آئیے ان کی زبان کا جائزہ لیا جائے:
پہلے الیاس عشقی کے دوہے۔ عبد اللہ جاوید نے بیسیوں دوہے نقل کئے ہیں، بیشتر دوہوں کی زبان اسی ہندی کی زبان ہے جس میں کبیر اور رحیم دوہے کہتے رہے ہیں۔ لیکن مناظر فطرت کا ذکر کرتے ہوئے جن دوہوں کی مثالیں دی ہیں، ان سب میں ایک لفظ استعمال ہوا ہے۔
روکھ
سکھی رکھے سب گاؤں کو ایک روکھ چھتنار
چاہے بیر کرید کے ہوئیں روکھ ہزار
روکھ سجن کی پرہت کا من میں بڑھتا جائے
مکھ میں بات آئے نہیں، ہردے نہیں سمائے
موسم کے سب دکھ سہے، روکھ کھڑا چپ چاپ
پھل دے اور چھایا کرے، پُن جانے نا پاپ
یہ ’روکھ‘ کیا لفظ ہے۔ ہندی یعنی سنسکرت میں ورکش (वृक्ष) اور اس قسم کے الفاظ جب برج بھازشا یا اودھی بلکہ کسی بھی علاقائی بولی میں بگڑتے ہیں تو سنسکرت کا "کشا" یا تو "چھ" میں بدلتا ہے، جیسے لکشمی کو لچھمی، یا "کھ" میں جیسے "ورشا" کا روپ "برکھا"۔
یہاں ورکش کا بگڑا ہوا روپ "برکھ" یا "برچھ" مانا جا سکتا ہے، یا اگر ’و‘ کو ’ب‘ سے نہ بدلا جائے تب بھی ’ورکھ‘ مانا جا سکتا ہے۔ یہ ’روکھ‘ نہ آج تک کسی دیہاتی بولی میں سنا، نہ ہندوستانی اردو میں ہی، نہ ہندی میں پڑھا۔
باقی الیاس عشقی کے دوہوں کی زبان درست ہے
جمیل عظیم آبادی کے آٹھ دوہے اس شمارے میں ہیں: یہ دوہا چھند میں نہیں، سرسی چھند میں ہیں۔ (یہ بھی جمیل الدین عالی کے دوہوں کو زبردستی دوہوں میں شامل کرنے کی کوشش ہے، ورنہ دوہےدوہا چھند میں نہ ہوں تو ان کو ہندی والا تو کوئی دوہا کہے گا ہی نہیں۔ یہ دوسری بحث ہے)
ان کی زبان درست ہی ہے، ماسوا اس دوہے کے
پربت پربت دیکھ لو جا کے ملے نہ کوئ اور
کس ٹیکر سے جھرنا پھوٹا کہاں ہے اس کا چھور
یہ ’ٹیکر‘ کسی نامعلوم زبان یا بولی کا لفظ ہے
اب اہرسعید ہارون۔ جو دوہوں کے لئے بہت معروف نام ہے، کے دوہے دیکھیں۔
تین صفحات پر شائع ان دوہوں کو چار عنوانات کے تحت جمع بھی کیا گیا ہے، اور ان کے علاوہ متفرق دوہے بھی ہیں۔
پہلا ’عشق‘ کے عنوان سے، پہلا ہی دوہا دیکھیں:
عشق خدا کی آگہی، عشق ہے اُتّر گیان
عشق اجالے آتما، عشق سے ہے عرفان
پہلی سطر میں ’اتّر گیان سے کیا مراد ہے۔ اُتّر ایک تو شمال سمت کو کہتے ہیں، دوسرا ،طلب ہے ’ما بعد‘ جیسے Post Modernism کو جس کا ترجمہ اردو والے ما بعد جدیدیت کرتے ہیں، ہندی میں اسے ’اتّر آدھونک واد‘ کہا جاتا ہے۔۔ یہاں اتر گیان سے کیا م،راد ہے۔۔۔ ماورا علم؟
اور ایک دیکھیں
عشق ہنسائے رانجھنا، عشق رلائے ہیر
عشق وچھوڑے ڈالتا، عشق بندھائے دھیر
یہ ’وچھوڑے‘ شاید پنجابی ہے، ہندی نہیں۔
اور دیکھیں۔۔ یہ "گیان" کے تحت:
اس ودیا سے فائدہ، کر دے جو مغرور
رب سائیں کی ذات سے لے جائے جو دور
یہ ’رب سائیں‘ تو یقیناً پنجابی ہے کہ اپنے شاکر عزیز اکثر سعاؤں میں یہ لفظ اللہ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
"برہا" کے تحت:
سوکھی من کی لاکڑی برہا آگ لگائے
جانے کب برسات ہو سیلا ساجن آئے
یہ ’لاکڑی‘ بجائے ’لکڑی‘ کہاں کی ترکیب ہے، کسی اور بولی میں ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ’سیلا ساجن‘۔
متفرق دوہے:
ساگر بھیتر ماچھری من بھاتے مرجان
کھارا جل بے گن نہیں سوچےئ تو انسان
ماچھری؟؟ مچھلی کے لئے ماچھی یا مچھری تو مانا جاتا ہے
مرجان؟ کیا عربی کا مرجان ہے یا کوئی اور لفظ ہے؟
کیا کوٹئ کیا کھائے گا بن محنت انسان
نا تو کوئی ڈھینکلی، نا بوری میں دھان
ڈھینکلی؟
چکر چڑھی کمار کے ماٹی بدلا روپ
کیسی چکنی ڈھوبری نکلا روپ سروپ
ڈھوبری؟ کمار یا کمھار، اس کے علاوہ دوہے کی بحر میں ’چک کر‘ آتا ہے، درست ’چکر‘ ہے، کاف پر سکوت۔
اب ناصر شہزاد کی غزلیں:
کہر آ کر اٹی ہے پیڑوں پر
رتیں کہسار کی ہیں گیڑوں پر
گیڑوں؟
سامنے یہ سماج، اس کے رواج
پیار اسوار جھگڑوں جھیڑوں پر
اسوار؟ جھیروں؟؟
مٹکے مہندی کی باس، مدھ کی مٹھاس
بستیوں کے اداس ویہڑوں میں
ویہڑوں؟
ایک غزل میں رہ گیا، سہہ گیا کی زمین ہے۔ اس میں قافیوں کے معنی بھی دئے گئے ہیں۔ کھہ گیا، لیہ گیا، گہ گیا۔۔۔
یہ شعر
کمرے میں ہم، پہاڑ پہ برساتی ندیاں
بارش کی بوندیں ٹین کی چھت پر رُنیں جھُنیں۔
میں اس پر اعتراض نہیں کر رہا کہ پنجابی یا کوئی اور بولی کے الفاظ استعمال کیوں کئے جا رہے ہیں۔ یہ شاعر کا حق ہے کہ وہ جو چاہے زبان استعمال کرے، اگر ٖیر مانوس الفاظ ہوں تو ان کے معنیٰ بھی ضرور دے (اگر چہ صرف ناصر شہزاد نے فٹ نوٹ میں کچھ الفاظ کے معنی دئے ہیں، اور کسی نے نہیں)، لیکن ان کو ہندی کہنے کی ضد تو نہ کریں!! خاص کر جب ہندی سنسکرت چھندوں میں شاعری کی جائے تو۔۔ سرسی چھند چوپائی کا ہوتا ہے اور دوہا چھند دوہے کا۔