0PF9s.gif
 

عثمان

محفلین
پولیو کا علاج محض قطرے پلانے سے نہیں بلکہ علاج کے خلاف پروپیگینڈا کرنے والوں کے نفسیاتی علاج سے ممکن ہے۔
 

یہ ہمدردی نہیں ہے بلکہ دشمنی ہے اور دشمنی بھی مکارانہ اور اس ویکسین کے نام پر بیماریاں پھیلائی جارہی ہیں یہ کفار مسلمانوں کے جانی دشمن ہیں یہ کبھی بھی مسلم کے وفادار یا کہہ لیں ہمدرد نہیں ہوسکتے، ان کفار کو ہمارے بچوں کی اتنی فکر کیوں ہونے لگی جو کفار ہمارے جوانوں کو قتل کر رہے ہیں وہ ہمارے بچوں کے ہمدرد کیسے ہوسکتے ہیں ؟؟؟یہ ہمدردی کےنام پر دشمنی کر رہے ہیں۔
 
پولیو قطرے

پولیو قطرے‘ تشنج اور خسرہ ویکسین دوا یا زہر؟

اسلام ومسلم دشمن عناصر کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کی جڑیں کاٹ کر صفحہٴ ہستی سے ہمیشہ کے لئے انہیں مٹا دیا جائے‘ مسلمانوں کو مجبور ومقہور بناکر ان پر حکومت کرنے کے لئے ان کو مختلف محاذوں پر کمزور کردیاجائے‘ مثلا ایمان واسلام‘ معیشت واقتصادیات‘ فوجی قوت‘ افرادی قوت اور اخلاقی قوت وغیرہ ۔ ایمان واسلام کا جنازہ تو پہلے ہی سے مسلمانوں کے دلوں سے نکال دیا گیاہے‘ رنگ ڈھنگ‘ چال ڈھال‘ شکل وشباہت غرضیکہ قول وفعل کے اعتبار سے اغیار کی تقلید کرتے نہیں تھکتے ‘ بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی اقتصادیات کو تباہ وبرباد کردیا گیا‘ سارے مسلمان غیر مسلموں کے مقروض اور مجبور ہیں‘ دنیا بھر میں مسلمانوں کی فوجی قوت کو کمزور کرنے کی مہم شروع کی گئی ہے‘ کسی مسلمان ملک کو اجازت نہیں کہ وہ اپنے دفاع کے لئے جدید اسلحہ‘ ایٹم وغیرہ کی صورت میں حاصل کریں‘ جبکہ ارشاد خداوندی ہے:
”واعدوا لہم ما استطعتم من قوة ومن رباط الخیل ترہبون بہ عدو اللہ وعدوکم وآخرین من دونہم لاتعلمونہم اللہ یعلمہم“۔ (۱)
ترجمہ:․․”اور مسلمانو! سپاہیانہ قوت سے اور گھوڑوں کے باندھے رکھنے سے جہاں تک تم سے ہو سکے کافروں کے مقابلے کے لئے ساز وسامان مہیا کئے رہو کہ ایسا کرنے سے اللہ کے دشمنوں پر اپنی دھاک بٹھائے رکھوگے اور نیز ان کے سوا دوسروں پر بھی جن کو تم نہیں جانتے اور ان کے حال سے اللہ تعالیٰ خوب واقف ہے“۔ مسلمانوں کی اخلاقی قوت کو تباہ وبرباد کردیا گیا ہے‘ مرد وزن کا اختلاط عام سی بات ہے‘ قرآن کریم کا حکم
”وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاہلیة الاولیٰ“ (۲)
کو حقوق نسواں پر نعوذ باللہ! ڈاکہ اور عورت کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کے مترادف سمجھ رہے ہیں اور حضورا کا ارشاد کہ :
” بعثت لاتمم مکارم الاخلاق“
(موطا امام مالک) یعنی میں بہترین اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں کو بھول گئے ہیں اور سیاحت وروشن خیالی کے نام پر عورتوں کا غیر مردوں کی جھولی میں گرنا اور ان سے بغل گیر ہونے کو روشن خیالی سمجھتے اور اس پر فخر کرتے ہیں‘ بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی نظر میں ایسے افراد حضور ا کے اس قول :
”من تشبہ بقوم فہو منہم“
یعنی جس نے کسی قوم سے مشابہت اپنائی وہ انہیں میں سے ہیں کا مصداق ہیں۔ اب اغیار کا اگلا ہدف مسلمانوں کی افرادی قوت کا خاتمہ ہے‘ جس کے لئے مختلف قسم کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔جن میں سے ایک مرحلہ وار اور آہستگی کے ساتھ ویکسین کے ذریعے مسلمانوں کی آئندہ نسل کا خاتمہ ہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ مسلمان وہ واحد قوم ہے جو تعداد میں سب سے زیادہ ہے ‘ اب ان لوگوں کی یہ کوشش ہے کہ مسلمانوں کی افرادی قوت کو کم کیا جائے‘ اسی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے پہلے ایک مرض کا خوب ڈھنڈورا پیٹا جا تاہے اور پھر اس کی ویکسین تیار کرکے ان ممالک میں سپلائی کی جاتی ہے۔ ایک بات قابل غور ہے اور اس کی گواہی قرآن وسنت سے بھی ثابت ہے کہ غیر مسلم ہمارے خیر خواہ کبھی ہو ہی نہیں سکتے‘ لیکن ہم پھر بھی ان کی تقلید میں ہی اپنی فلاح وبہبود ڈھونڈتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے:
”یا ایہا الذین آمنوا لاتتخذوا الیہود والنصاریٰ اولیاء بعضہم اولیاء بعض ومن یتولہم منکم فانہ منہم“۔ (۳)
ترجمہ:․․․”اے ایمان والو! یہود ونصاریٰ کو اپنے دوست مت بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کی طرف پھرا وہ انہی میں سے ہے“۔ پولیو ویکسین کیا چیز ہے؟ اس کے کیا نقصانات ہیں؟ اور سائنس اس حوالے سے کیا کہتی ہے؟ چونکہ پولیو ویکسین ہر بچے کو شروع سے پلائی جاتی ہے‘ اس ویکسین میں ایسے زہر ملانے کے شواہد ملے ہیں جو اپنا اثر بچپن ہی سے دکھاتی ہے اور یہ بچے جب بڑے ہوجائیں تو پھر بچے پیدا نہ کرپائیں‘ یہ سب کیسے ہوتا ہے؟ ذرا سائنسی نقطہٴ نگاہ سے اس کا تجزیہ کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ بچے کو ماں باپ کے باہم جنسی ملاپ سے پیدا فرماتاہے‘ دوسرے جانداروں کی طرح انسان میں بھی بچے پیدا کرنے کے لئے نر اور مادہ کا جنسی ملاپ ضروری ہے‘ نر میں اعضائے تولیدی کو ”ٹیسٹیز“ اور مادہ کے اعضائے تولیدی کو ”اووری“ کہتے ہیں۔ یہ اعضاء نہ صرف تولیدی ہیں‘ بلکہ یہ ”غدود“ کا کام بھی سر انجام دیتے ہیں‘ غدود انسانی جسم کا ایسا جز ہے جس کے ذمہ جسم کے مختلف افعال کو باقاعدہ بناکر انہیں کنٹرول کرنا ہے‘ جیساکہ ”پٹیوٹری“ غدود انسان کے قدکا ذمہ دار ہے‘ اگر یہ ٹھیک وقت پر برابر مقدار میں ہا رمونز خارج کرے تو انسان کا قد نارمل ہوگا‘ ورنہ یا تو بہت زیادہ بڑھے گا یا پھر پست رہ جائے گا ۔ اسی طرح مادہ انسان میں ”اووری“ بھی ایک خاص قسم کا ہارمونز ”اسٹروجن“ خارج کرتی ہے‘ اس ہارمونز کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام لگا رکھا ہے کہ جو بچہ پیدا ہوگا اگر تو وہ مادی (بچی) ہے تو اس میں عورت ذات والی تمام خصلتیں اور خصوصیات بھردے گی‘ اس کے ساتھ اسے نسوانی حسن بخش دے گی۔ اسی طرح نر انسان میں” ٹیسٹیز“ جو ہارمونز خارج کرتا ہے اسے ”انڈروجن“ کہتے ہیں اور یہ انسانی بچے میں مردانہ پن پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے‘ اگر یہ دونوں غدود صحت مند ہوں گے اور اپنا کام صحیح طور پر سرانجام دیں تو نر بچہ میں مردانہ خصوصیات اور مادہ بچی میں نسوانی خصوصیات ہوں گی‘ لیکن اگر یہ غدود اپنا کام صحیح طور پر سرانجام نہ دیں اور” اسٹروجن“ اور” انڈروجن“ صحیح مقدار میں پیدا نہ کرسکیں تو پھر پیدا ہونے والے بچے یا تو بن ہی نہیں پاتے اور اگر بن جاتے ہیں تو ہیجڑا پن کے حامل ہوں گے‘ جیساکہ ہم آج کل دیکھ رہے ہیں۔ ہوگی لڑکی لیکن اس کا نسوانی حسن غائب اور خصلتیں مردوں جیسی ہوں گی۔ اور ہوگا لڑکا لیکن مردانہ پن غائب اور خصلتیں وکردار لڑکیوں جیسا ہوگا تو اسی طرح پولیو ویکسین میں ایسا زہر ملانے کے شواہد ملے ہیں کہ جس سے نر اور مادہ انسان میں ”اووری“ اور” ٹیسٹیز“ اپنا صحیح کام نہیں کر پاتے ”اسٹروجن“ اور ”انڈروجن“ صحیح مقدار میں خارج نہیں ہوپاتی جس سے پیدا ہونے والے بچے میں بے قاعدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔یہ ویکسین جب شروع سے پلائی جاتی ہے تو آہستہ آہستہ بچے جب جوان ہوتے ہیں تواس وقت تک یہ اپنا کام کرچکی ہوتی ہے اب بچہ جوان ہوکریاتو بچے پیدا ہی نہیں کر سکتے یعنی مستقل بانجھ پن کا شکار ہوجاتے ہیں یا پھر اگر پیدا کرتے بھی ہیں تو ان میں ہیجڑا پن ہوتا ہے ۔ ویکسین میں کون سی چیز ملائی جاتی ہے یہ تو ابھی تک زیر تحقیق ہے‘ لیکن شاید مصنوعی اسٹروجن ملاتے ہیں‘ لیکن اس کے استعمال سے بچیوں میں اسٹروجن کی زیادہ مقدار بنے گی اور مستقبل میں جو بھی اولاد پیدا ہوگی ان میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہوگی اور اگر کوئی لڑکا پیدا ہو تو ماں سے اسٹروجن کی زیادہ مقدار منتقل ہونے کی وجہ سے ہیجڑا پن کا حامل ہوگا یعنی ساری عادتیں اور خصلتیں لڑکیوں جیسی ہوں گی (۴) ڈاکٹر ہاروناکائیٹا جوکہ احمد دبلو یونیورسٹی زاریا میں فارماسوٹیکل سائنسز ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ ہے‘ وہ نائیجریا سے ویکسین کے کچھ نمونے تحقیق کے لئے انڈیا لے گئے‘ تاکہ ان میں موجود اجزاء کی جانچ پڑتال ہوسکے‘ جب ڈاکٹر کائٹانے ان ویکسین کو مختلف ٹیسٹ اور جانچ پڑتال کے مراحل سے گزارا تو اس میں کچھ ایسے مواد کی ملاوٹ کے شواہد ملے جوکہ صحت کے لئے خطرناک تھے‘ ڈاکٹر کائٹا نے ہفت روزہ ”کیڈونا ٹرسٹ“ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ:
”ہم نے پولیو کے اس ویکسین میں کچھ ایسی اشیاء دریافت کی ہیں جو صحت کے لئے نقصان دہ اور زہریلی ہیں اور خاص طور پر کچھ ایسی ہیں جو براہ راست انسان کے جنسی نظام تولید پر اثر انداز ہوتی ہیں‘ بدقسمتی سے خود ہمارے بیچ ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کی خباثت اور بدتمیزی کی پشت پناہی کررہے ہیں اور برابر ان کی مدد کررہے ہیں اور مجھے یہ کہہ کر افسوس ہو رہا ہے کہ ان میں کچھ ہمارے اپنے ماہرین بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر کائٹا نے یہ مطالبہ کیا کہ جو لوگ پولیو ویکسین کے نام پر یہ جعلی دوائی در آمد کررہے ہیں ‘ ان کے خلاف دوسرے مجرموں کی طرح مقدمہ چلانا چاہئے اور سزا دینی چاہئے“۔ (۵)
Lifesite لائف سائٹ کی رپورٹ کے مطابق ۱۹۹۵ء میں فلپائن کی آزاد خواتین کی ایک لیگ نے تشنج کے ٹیکوں کے خلاف کورٹ میں مقدمہ جیت لیا تھا اور یونیسف کی اس مہم کو روک لیا تھا‘ کیونکہ اس ویکسین میں ایسی دوائی (B-hCG) استعمال کی گئی تھی جس کے استعمال کرنے سے عورت کا حمل مکمل طور پر نہیں ٹہرسکتا تھا ‘ فلپائن کی سپریم کورٹ نے یہ معلوم کیا کہ تین ملین خواتین کو جن کی عمر ۱۲ سے ۴۵ سال تک تھی‘ پہلے ہی سے یہ ویکسین دی جاچکی تھی۔ (۶) عالمی ادارہ صحت کی طرف سے (۲۰ جون ۲۰۰۵ء)جاری کئے گئے اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں پولیو کے قطرے پلانے کے باوجود ۵۰۰ سے زائد پولیو کے کیس سامنے آئے ہیں‘ یہاں تک کہ یمن اور انڈونیشیا جنہیں ۱۹۹۶ء میں پولیو ویکسین کی مہم چلانے کے بعد اس بیماری سے آزاد خطہ قرار دے دیا گیا‘ وہاں پھر سے یہ وبا پھوٹ پڑی ہے‘ یمن میں ۲۴۳ اور انڈونیشیا میں ۵۳ نئے کیس سامنے آئے ہیں (۷) بہت سے محققین نے ویکنیشین کو دراصل دنیا کی آبادی کنٹرول کرنے کا خفیہ مگر انتہائی مؤثر ہتھیار ثابت کیا ہے اور اس حوالے سے دستاویزی ثبوت بھی فراہم کئے ہیں۔ ایک خفیہ امریکی دستاویز "NSSMZOO" جو ۱۹۷۴ء میں شائع ہوئی اور ۱۹۸۹ء میں ڈی کلاسیفائی ہوئی‘ اس دستاویز پر اس وقت کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے دستخط ہیں‘ اس دستاویز میں شناخت کئے گئے ممالک میں سے ہندوستان‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ نائیجریا‘ انڈونیشیا‘ برازیل‘ فلپائن‘ میکسیکو‘ تھائی لینڈ‘ ترکی‘ ایتھوپیا اور کولمبیا ہیں۔ پاپولیشن کنٹرول اس دستاویز کا مرکزی اور یک نکاتی ایجنڈا ہے‘ ۲۹ جون ۱۹۸۷ء کو امریکی اخبار نے نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر رابرٹ سے بات کی‘ جن کا کہنا تھا کہ خسرہ کی ویکسین نقصان دہ وائرس سے آلودہ ہیں‘ ۳۰ برس تک نامی گرامی ڈاکٹر چلاتے رہے کہ ہم ”ویکسین“ نامی ٹائم بم سے کھیل رہے ہیں‘ خسرہ کے ویکسین سے یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ کینسر کا باعث ہے (۸) لندن کے موقر ترین روز نامے دی ٹائمز نے فرنٹ پیچ پر اس حوالے سے یہ سرخی لگائی تھی کہ ”خسرہ کے لئے لگائے گئے ٹیکے ایڈز وائرس پھیلا رہے ہیں“ (۹)
عالمی ادارہ صحت (W.H.O)کے ایک کنسلٹنٹ نے who کو رپورٹ دی کہ زیمبیا‘ زائرے اور برازیل میں خسرہ ویکسینشین اور ایڈز وائرس کے پھیلاؤ کے درمیان تعلق کا شبہ تھا‘ تحقیق پر یہ شک وشبہات صحیح نکلے۔who نے رپورٹ ملنے کے باوجود اسے شائع نہیں کیا‘ برازیل واحد جنوبی امریکی ملک تھا جس نے خسرہ سے بچاؤ کی ویکسین مہم میں حصہ لیا اور پھر یہی ملک ایڈز کا سب سے بڑا شکار بنا۔ پولیو‘ خسرہ ہیپاٹائٹس کی ویکسین میں وائرس کی موجودگی کے ثبوت سامنے آچکے ہیں ۔ان میں منگی وائرس جیسا خطرناک وائرس بھی شامل ہے ۔ who پر خسرہ ویکسین کے ذریعے ایڈز پھیلانے کے الزامات بھی لگ چکے ہیں‘ ان ٹیکوں کی وجہ سے بانجھ پن ہونا بھی ثابت ہوچکا ہے۔ ویکسینشین دو ماہ کے بچوں کے لئے قطعا محفوظ نہیں‘ مگر یہ ویکسین کا شیڈول نومولود کے ابتدائی دنوں سے ہی شروع ہوجاتا ہے‘ نومولود کے وزن‘ قد اور جسامت جیسے معاملات بالکل نظر انداز کردیئے جاتے ہیں‘ یہ سائنسی حقیقت ہے کہ ایک ہی دوائی یا ٹیکہ کسی ایک انسان کے لئے تو قطعی محفوظ ہو سکتے ہیں‘ مگر دوسرے کے لئے موت کا باعث بھی۔ ویکسینشین کو بچوں میں ذہنی عوارض کا سبب بھی قرار دیا جاتا ہے‘ پولیو کے قطرے جب پلوانے شروع ہوئے جن بچوں نے یہ استعمال کئے ہیں‘ یقینا آج وہ جوان ہوں گے مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہوں گے اور آج کل نوجوانوں کی اکثر یت جن امراض میں مبتلا نظر آتی ہے وہ مردانہ امراض ہی ہیں۔ (۱۰) اس ضمن میں مزید جو حقائق دیئے گئے ہیں وہ بہت خوفناک ہیں‘ بھارت کے ایک جریدے ”المرشد“ میں پولیو کے قطروں سے متعلق ایک مدلل مضمون شائع ہوا ہے‘ اس مضمون کو اشرف لیبارٹریز فیصل آباد کے ترجمان ماہنامہ رہنمائے صحت کی اشاعت میں شامل کیا گیا تھا‘ جس میں سات سے زائد ایسے کیس ذکر کئے گئے ہیں جن میں بچوں کو پولیو کے قطروں کا کورس مکمل کروایا گیا تھا‘ انہیں اس روک تھام کے باوجود پولیو ہوگیا۔ (۱۱) ملک کے معروف قلم کا ر جناب حامد میر صاحب اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
” قارئین کو یاد ہوگا کہ ۷/جون ۲۰۰۴ء کو میں نے ”پولیو اور پارلیمنٹ“ کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ پولیو کے خلاف حالیہ مہم میں چھوٹے بچوں کو پولیو ویکسین کے جعلی قطرے پلائے جارہے ہیں‘ وفاقی وزارت صحت نے میرے دعوے پر خاموشی اختیار کئے رکھی ہے‘ ایک ماہ کے بعد ۷/ جولائی کو عالمی ادارہ صحت نے وفاقی وزارت صحت حکومت پاکستان کو ایک خط لکھا کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد میں تیار کی گئی پولیو ویکسین انتہائی غیر معیاری ہے‘ لہذا اس ویکسین کو فوری تلف کیا جائے ۔ ۲۶/ جولائی ۲۰۰۴ء کو عالمی ادارہ صحت کے نمائندہ برائے پاکستان ڈاکٹر خالف بلے محمد نے وفاقی وزیر صحت کو ایک اور خط لکھا اور انہیں یاد دلایا کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد میں تیار کی گئی پولیو ویکسین کی ۱۵ کروڑ ڈوز غیر معیاری ہیں اور انہیں تلف کردیا جانا چاہئے‘ اس خط کی وجہ یہ تھی کہ وفاقی وزارت صحت کی نگرانی میں تیار کئے گئے پولیو کے غیر معیاری قطروں کا استعمال ملک بھر میں بدستور جاری ہے‘ لاکھوں والدین نے اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی امید میں یہ قطرے پلائے‘ لیکن افسوس یہ قطرے زہریلے پانی کے سوا کچھ نہیں ۔ جناب حامد میر مزید لکھتے ہیں کہ: مجھے معلوم ہے کہ ہتک عزت کے لئے قانون کے تحت بغیر ثبوت کے کسی پر الزام لگانا بہت مشکل ہے‘ لہذا اگر (ملک کے وزیر اعظم کو) ضرورت ہو تو عالمی ادارہ صحت کی طرف سے خط کی نقل اور عالمی ادارہ صحت کی طرف سے پاکستان میں استعمال ہونے والے پولیو ویکسین کے لیبارٹری ٹیسٹوں کی رپورٹ یہ بندہ ناچیز انہیں فراہم کرسکتا ہے‘ اطلاعاً عرض ہے کہ یہ دونوں دستاویزات وفاقی سیکرٹری برائے صحت‘ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ اور ایگزیکٹیو ڈائریکٹرنیشنل ٹیوٹ آف ہیلتھ کے پاس بھی موجود ہیں- (۱۲)
ہمارے بچوں کے بہتر اور خوشحال مستقبل کی فکر میں پیش پیش وہ مغربی ممالک ہیں جن کی سرمایہ کاری کی ایک خطیر رقم عراق‘ فلسطین اور افغانستان میں مسلمان بچوں کے قتل وتباہی پر خرچ ہو رہی ہے‘ ان ممالک کے بارے میں سروے رپورٹ یہ ہے کہ جنگ میں سب سے زیادہ اموات بچوں کی ہورہی ہے‘ اس بارے میں آج تک ایسی مہم نہیں چلائی گئی ہے کہ جس میں ان تندرست اور بے گناہ بچوں کو تحفظ دیا جاسکے اور ان کے تحفظ کے اقدامات کئے جاسکیں۔ پولیو قطرے پلانے کے حوالے سے بعض حضرات کا استدلال یہ ہے کہ اگر پولیو کے ویکسین مضر صحت ہوتے تو پھر تعلیم یافتہ طبقہ اسے استعمال نہ کرتا۔ ایسے حضرات کی خدمت میں گزارش ہے کہ شراب کی حرمت پر تمام مذاہب متفق ہیں‘ اسی طرح صحت کے لئے شراب کا مضر اور خطرناک ہونا بھی تحقیقاتی اداروں سے ثابت ہو چکا ہے‘ لیکن بدقسمتی سے شراب کو استعمال کرنے والے اکثر لوگ تعلیم یافتہ ہیں‘ جاہل نہیں‘ اس قسم کے استدلال پیش کرنے والے دراصل حقائق سے ناواقف ہیں‘ مذکورہ بالا مشاہدات کے باوجود اگر ہم اپنے بچوں کو مذکورہ ویکسین وغیرہ پلاتے ہیں تو پھر ہم اس جرم میں برابر کے شریک ہیں اور ہمارا انجام یہی ہوگا کہ ہم پر عروج کی جگہ تسفل‘ ترقی کی جگہ تنزل‘ عظمت کی جگہ ذلت‘ حکومت کی جگہ غلامی اور بالآخر زندگی کی جگہ موت چھا جائے گی۔ نوٹ: ویکسین کے منفی اور مثبت دونوں پہلوؤں پر مزید تحقیق جاری ہے:

مراجع ومصادر ۱- الانفال:۶۰ ۲- الاحزاب:۳۳) ۳- المائدہ:۵۱ ۴- ڈاکٹر حمید اللہ وزیر‘ اصلی بیماریاں علاج‘ ہفت روزہ ضرب مؤمن‘ کراچی ۱۶تا ۲۲ ستمبر ۲۰۰۵ء ۵- عبد الرحمن‘ بانجھ قطرے‘ ہفت روزہ ضرب مؤمن کراچی‘ ۱۰ مارچ ۲۰۰۶ء ۶- net/idn/2002/oct/021.html ۷- (who) عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ‘ جاری کردہ ۲۰ جون ۲۰۰۵ء ۸-ڈاکٹر ناصر الدین‘ کیا ویکسین کورس بہت ضروری ہے؟ ہفت روزہ ضرب مؤمن کراچی‘ ۱۶ مارچ ۲۰۰۷ء ۹- thi times, london ,11 may 1987 ۱۰- ڈاکٹر ناصر الدین‘ حوالہ بالا ۱۱- ماہنامہ رہنمائے صحت‘ اشرف لیبارٹریز فیصل آباد‘ جون ۲۰۰۶ء ۱۲- ڈاکٹر حمید اللہ وزیر‘ حوالہ بالا۔

تحریر کا ربط
 
احمس۔اس موضوع پر میں نے کافی تحقیق کی ہے جس کو میں نے اپنی اس ویب سائٹ pakpolio.wordpress.com پہ ڈال دیا ہے اور مزید بھی ڈال رھا ہوں۔ یہ پولیو قطرے امریکہ میں این جی اوز کے احتجاج کے نتیجے میں سن 2000 میں ممنوع قرار دے دیے گئے۔
دنیا میں ویکسین کی حمایت وہی ڈاکٹرز کر رہے ہیں جو ویکسین بنانے والی کمپنیوں سے کسی نہ کسی طرح مالی فائدہ لے رہے ہیں۔ پولیو ویکسین سے مندرجہ ذیل نقصانات سامنے آرھے ہیں۔
1 Autism کی بیماری میں اضافہ ہوا۔ 1970 سے پہلے 10،000 بچوں میں 1 بچہ اس بیماری کا شکار تھا اور آج پاکستان میں ہر 150 واں بچہ اس کا شکار ہے۔ اپ کو ہر گلی میں 1 بچہ Autism ذہنی پسماندگی کا شکار نظر ائے گا۔ Autism کی بیماری سب سے زیادہ دنیا میں امریکہ میں ہے اسی وجہ سے وہاں عوام کے احتجاج کے باعث 2000 میں ان پہ پابندی لگا دی گئی اور اب وہاں opv قطروں کی بجائے IPV انجیکشن لگایا جاتا ہے، سوچنے کی بات ہے کہ 2000 کے بعد پاکستان میں ہر تین ماہ بعد یہ کیوں پلائے جاتے ہیں۔
2 اس سے کینسر میں اضافہ ہوا
3 ایڈز کا وائرس اس کے زریعے سے دنیا میں ایا
مزید تفصیلات کے لیے میری ویب سائیٹ ملاحظہ کریں


بشکریہ احمس
 
انسداد پولیو ٹیموں پر حملے، کیا پولیو کے قطرے پلانے سے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہےَ؟ کیا بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے چائیں؟
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایک روز قبل پولیو کے خاتمہ کیلئے مہم شروع کی گئی تھی تاہم عالمی ادارہ صحت کے 5کارکنوں کی ہلاکت کے باعث یہ مہم موخر کر دی گئی ہے آج بھی پشاور میں عالمی ادارہ صحت کے دو کارکنوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عالمی صحت کے انسداد پولیو مہم کے کارکنوں کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ؟
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں پولیو مہم زورشور سے جاری ہے۔ پولیو کے قطرے پہلے پانچ سال میں ایک دفعہ بچوں کو پلائےجاتے تھے پھر اس کے بعد ہر سال بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جانے لگے۔ اب ہر تین ماہ بعد بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔علاقائی مرکز صحت کےکارکن گھر گھر جا کرپوچھتے ہیں کہ آپ کے گھر میں بچے ہیں تو ان کو پولیو کے قطرے پلائیں۔ اگر گھر میں بچوں کو قطرے پلائے جاتے ہیں تو پھر گھر کے باہرمرکز صحت کے کارکن نشان لگا دیتے ہیں اور جو والدین بچوں کو پولیو کےقطرے نہیں پلاتے انہیں یہ کارکن مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو ہر حال میں یہ قطرے پلائیں۔بصورت دیگر انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ مرکز صحت جا کر وضاحت کریں کہ وہ بچوں کو قطرے کیوں نہیں پلاتے۔یہ امر باعث حیرت ہےکہ پاکستان میں پولیو سے بچوں میں ہلاکتوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ دیگر بیماریوں ہیپاٹائٹس ، تھلیسمیہ انفولنزا وغیرہ کے سبب بچوں کی ہلاکتیں زیادہ ہیں۔لیکن سرکاری سطح پر ان بیماریوں سے بچنے کیلئے ان بڑے پیمانے پر مہم نہیں چلائی جاتی جتنی پولیو کی مہم چلائی جاتی ہے۔اب سےکچھ عرصے پہلے وزارت بہبود آبادی کی جانب سے پولیوں کے قطرے پلانے کی مہم کے اشتہارات میڈیا پر نشر کئے جاتے تھے۔ جب لوگوں کے علم میں یہ بات آئی کہ پولیو کےقطرے پلانے کی مہم سے وزارت بہبود آبادی کا کیا تعلق یہ تو وزارت صحت کا کام ہے تو شہریوں میں تشویش پیدا ہوئی اور پھر یہ افوا پھیلتی چلی گئی کہ پولیوں کےقطرے پلانے کا مقصد بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانا ہے۔اور پولیو کے قطروں کے ذریعے بچے پیدا کرنے والے جراثیم کم کرنا ہے۔ خیبر پختون خوا میں عوام بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلاتے اور مرکز صحت کے کارکنوں کومار بھگاتے ہیں۔ تاہم عالمی مرکز صحت کی صرف پولیو میں بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے باعث عوام میں تشویش پائی جاتی ہے۔اور یہ رائے پختہ ہوتی جا رہی ہےکہ پولیو کی مہم پرجو خاص زور دیا جا رہا ہے اس کی وجہ صرف بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانا ہے اور اس کے لیے مردوں اور عورتوں میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کو کم کرنا ہے۔ شہری ایس ایم ایس کے ذریعہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو آگاہ کر رہے ہیں کہ وہ سافٹ ڈرنکس ماونٹین ڈیو، انرجی ڈریکس اسٹینگر پیپسی اور کوکا کولا نہ پیں ان کے پینے سے صرف لڑکیا ں ہی پیدا ہونگی۔
 

سید ذیشان

محفلین
احمس۔اس موضوع پر میں نے کافی تحقیق کی ہے جس کو میں نے اپنی اس ویب سائٹ pakpolio.wordpress.com پہ ڈال دیا ہے اور مزید بھی ڈال رھا ہوں۔ یہ پولیو قطرے امریکہ میں این جی اوز کے احتجاج کے نتیجے میں سن 2000 میں ممنوع قرار دے دیے گئے۔
دنیا میں ویکسین کی حمایت وہی ڈاکٹرز کر رہے ہیں جو ویکسین بنانے والی کمپنیوں سے کسی نہ کسی طرح مالی فائدہ لے رہے ہیں۔ پولیو ویکسین سے مندرجہ ذیل نقصانات سامنے آرھے ہیں۔
1 Autism کی بیماری میں اضافہ ہوا۔ 1970 سے پہلے 10،000 بچوں میں 1 بچہ اس بیماری کا شکار تھا اور آج پاکستان میں ہر 150 واں بچہ اس کا شکار ہے۔ اپ کو ہر گلی میں 1 بچہ Autism ذہنی پسماندگی کا شکار نظر ائے گا۔ Autism کی بیماری سب سے زیادہ دنیا میں امریکہ میں ہے اسی وجہ سے وہاں عوام کے احتجاج کے باعث 2000 میں ان پہ پابندی لگا دی گئی اور اب وہاں opv قطروں کی بجائے IPV انجیکشن لگایا جاتا ہے، سوچنے کی بات ہے کہ 2000 کے بعد پاکستان میں ہر تین ماہ بعد یہ کیوں پلائے جاتے ہیں۔
2 اس سے کینسر میں اضافہ ہوا
3 ایڈز کا وائرس اس کے زریعے سے دنیا میں ایا
مزید تفصیلات کے لیے میری ویب سائیٹ ملاحظہ کریں


بشکریہ احمس


ٹائلٹس کی دیواروں پر لکھی تحریریں باقی رہ گئی ہیں باقی سب کچھ تو آپ ”دلائل“ کے طور پر پیش کر چکے ہیں۔ کبھی ”سئنس“ نامی جانور سے واسطہ پڑا ہے آپ کا؟
 
Top