حسیب نذیر گِل
محفلین
دنیا کا سب سے بڑا مذہب غربت ہے ۔یقین نہیں آتا تو اس عورت کا تعاقب کر کے دیکھیں جو سامنے ایک بھارتی شہر کے ریلوے سٹیشن پر گھوم رہی ہے ۔وہ ایک مسلمان عورت ہے جس کا نام بیگم ہے ۔تھوڑی دیر بعد وہ ریلوے سٹیشن کے ٹوائلٹ میں داخل ہوگی اور جب باہر آئے گی تو اس کا نام بیگم کی بجائے لکشمی ہو گا ،ماتھے پر سندور ہوگا ،ہاتھ میں چوڑیاں ،گلے میں منگل سوتر اور بدن پر ساڑھی…اللہ کے نام والا تعویز اس کے بازو پر نہیں ہوگا۔اب وہ ایک روایتی شادی شدہ ہندو عورت ہے لیکن صرف صبح نو سے شام پانچ بجے تک ۔گھر واپس جا کر وہ دوبارہ اپنے مذہب میں ”داخل“ ہو جائے گی ۔بیگم سے لکشمی تک کا سفر میرے اور آپ کے لئے تو شائد حیرت اور تکلیف کا باعث ہومگر اس مسلمان عورت کے لئے نہیں جو ”سیکولر“ بھارت میں رہتی ہے اور جسے اپنا پیٹ پالنے کے لئے ایک نوکری کی تلاش ہے ۔کئی برس ٹھوکریں کھانے کے باوجود جب بطور مسلمان اسے نوکری نہیں ملی تو اس کی غریب ذہن نے سمجھایا کہ اب ذرا ہندو بن کر بھی کوشش کرو ،اس نے یہی کیا اور کام بن گیا ۔آج کل وہ ایک ہسپتال میں ”آیا “ ہے ۔حال ہی میں ہسپتال کی انتظامیہ نے اسے کہا ہے کہ انہیں چند مزید لڑکیوں کی بھی ضرورت ہے مگر وہ مسلمان نہ ہوں ۔”اگر انہیں پتہ چل گیاکہ میں مسلمان ہوں تو وہ فوراً مجھے نوکری سے نکال دیں گے۔“ بیگم/لکشمی…اس کے باوجود ہمارے سیکولر طبقے کا خیال ہے کہ پاکستان نہیں بننا چاہئے تھا!
جس ملک میں عورتیں خود کو زندہ رکھنے کے لئے اتنی مجبور ہوں کہ اپنا ہونے والا بچہ ”ایڈوانس“ پکڑ کر بیچ دیں اور یہ آپشن وہ تب استعمال کرتی ہوں جب ان کا اپنا خریدار کوئی نہ رہے،اس ملک میں کسی مسلمان عورت کا معمولی سی نوکری کی خاطر بھیس بدلنا تعجب کا باعث نہیں ہونا چاہئے ۔بھارت میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 13فیصد ہے جبکہ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس میں مسلمان صرف 3%ہیں ،انڈین فارن سروس میں 1.8%اور انڈین پولیس سروس میں 4%۔بھارتی ریلویز میں 14لاکھ افراد کام کرتے ہیں جن میں صرف 64,000مسلمان ہیں جو 4.8%بنتا ہے اور اس میں سے بھی 98.7%وہ ہیں جو نچلے درجے کے ملازمین میں شمار ہوتے ہیں ۔پھر بھی ،پاکستان نہیں بننا چاہئے تھا!
حال ہی میں بھارت نے ایک مسلمان سید آصف ابراہیم کو انٹیلیجنس بیورو کا چیف مقرر کیا ۔اس اقدام نے ہمارے ضرورت سے زیادہ پڑھے لکھے دانشوروں کو بھنگڑے ڈالنے کا ایک اور موقع فراہم دیا اوران کی زنبیل میں ایک اوردلیل کا اضافہ ہو گیا ۔”بھارت کا(سابقہ) صدر مسلمان ،آئی بی کا چیف مسلمان ،فلم انڈسٹری کا بادشاہ مسلمان …اب بھی کہتے ہو کہ پاکستان بننا چاہئے تھا …you loosers!“بھارتی صدر تو خیر ایک رسمی سا عہدہ ہے جس کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ بھارت اس عہدے کو اپنا سیکولر امیج بہتر بنانے کے لئے استعمال کرتا ہے ۔بھارت کے جاسوسی ادارے میں مسلمان سربراہ کی تعیناتی 125سال میں پہلی مرتبہ عمل میں آئی ہے اور اس کا مسلمانیت سے کتنا تعلق ہے ،اس بات کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کی مختلف سیکورٹی ایجنسیوں میں 19لاکھ افراد کام کرتے ہیں جن میں دفاع کی تینوں ایجنسیاں بھی شامل ہیں ۔ان میں سے جب 5.2لاکھ افراد کا ڈیٹا کھنگالا گیا تو معلوم ہوا کہ ان ایجنسیوں میں مسلمان عہدے داروں کا تناسب فقط 3.6%ہے جبکہ نچلے درجے کے ملازمین میں سے 4.6%مسلمان ہیں ۔اوررہی بات فلم انڈسٹری کی تو جو لوگ شاہ رخ خان ،عامر خان اور سلمان خان کو سچ مچ کا مسلمان سمجھتے ہیں ان کے حق میں علامہ طاہر القادری سے دعا ہی کروائی جا سکتی ہے ۔
اگراب بھی کسی سیکولر بھائی کا یہ خیال ہے کہ پاکستان نہیں بننا چاہئے تھا تو انہیں چاہئے کہ فوراً ممبئی میں اپنا ایک فلیٹ بک کروا لیں لیکن خیال رکھیں کہ اس فلیٹ میں ٹوائلٹ کی سہولت موجود ہو کیونکہ ودیا بالن کے بھارت کی کل آبادی لگ بھگ 1.2ارب ہے جن میں سے نصف کو ٹوائلٹ کی سہولت ہی میسر نہیں ا ور مسز بالن اس ضمن میں بہت پریشان ہیں۔ انہوں نے بھارتیوں کو شرم دلانے کے لئے ایک مہم بھی چلائی مگر بے سود ۔ بھارت ماتا میں 60کروڑ لوگ بغیر ٹوائلٹ کے زندگی گزارتے ہیں ۔جھارکنڈ،اڑیسہ اور بہار میں یہ شرح 75%سے بھی زیادہ ہے اور ان تینوں ریاستوں کی کل آبادی پورے پاکستان کے برابر ہے ۔بنگلور جسے بھارت کی Silicon Valleyکہا جاتا ہے ،بھارت کے ماتھے کا سندور ہے ۔رات گئے جب 60لاکھ آبادی کا یہ شہر سو جاتا ہے تو نچلی ذات کے ہندو جنہیں اچھوت یا دلت کہا جاتا ہے ،15,000کی تعداد میں نکلتے ہیں اور 60لاکھ شہریوں کا گند صاف کرتے ہیں ۔ پورے بھارت مہان میں یہ کام کرنے والوں کی تعداد سرکار کے مطابق تین لاکھ جبکہ اصل میں دس لاکھ کے قریب ہے اور یہ لوگ اوسطً 4ڈالر یومیہ سے بھی کم کماتے ہیں ۔بھارتی شہروں میں مسلمانوں کی غربت ان اچھوتوں سے بھی بڑھ کر ہے ۔بھارت کے وہ چھوٹے دیہات جہاں مسلمانوں کی آبادی نسبتاً زیادہ ہے (اکثریت نہیں ہے) ،ان میں سے ایک تہائی ایسے ہیں جہاں سرے سے کوئی سکول ہی نہیں ہے ۔اور ایسے بڑے دیہات جہاں مسلمان بستے ہیں ،ان میں سے 40%میں کسی بھی قسم کی کوئی صحت کی سہولت میسر نہیں ۔یہ بیان مجھ جیسے کسی تنگ نظر مسلمان کا نہیں بلکہ بھارت کی مشہور زمانہ سچر کمیشن رپورٹ کا نتیجہ ہے ۔مگر کیا کریں ،پاکستان نہیں بننا چاہئے تھا!
پاکستان اور بھارت کا مقابلہ کرنا مقصد ہے اور نہ مجھے اس بات پر ڈھول بجانے کا شوق ہے کہ اگر ہمارے ہاں 22.6%افراد 73 penceیومیہ سے بھی کم آمدن رکھتے ہیں تو کیا ہوا ،بھارت میں یہی شرح 41.6%ہے ۔یہاں اگر بچے غذائی کمی کا شکار ہو کر مرتے ہیں تو بھارت میں یہ شرح دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے لہذا ہمیں گھوڑے بیچ کر سو جانا چاہئے ۔اگر پاکستان میں بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کسی بیماری کی وجہ سے مر جاتے ہیں تو بھارت میں سالانہ 21لاکھ بچے ایسے ہیں جو under weightپیدا ہوکر مرجاتے ہیں لہذا ہم پھر جیت گئے ۔جی نہیں ،ایسی جیت پر لعنت اور ایسا سوچنا پرلے درجے کی حماقت ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس بنیاد پر پاکستان بنا کیا وہ نظریہ درست تھی ؟ نظریہ بڑا سادہ تھا کہ اگر مسلمان متحدہ ہندوستان میں رہے تو بطور اقلیت انہیں ان کے حقوق نہیں ملیں گے۔اس بات کا تعین کرنے کا سادہ ترین طریقہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ کیا بھارت کا ایک عام مسلمان پاکستانی مسلمان سے بہتر حالت میں زندگی بسر کر رہا ہے؟پاکستان کی تمام جملہ خرابیوں کے باوجود ،جن میں زیادہ تر حصہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا ہے اورجو فوجی آمریتوں کی دین ہے ،ایک عام پاکستانی کے حالات بھارتی مسلمان سے کہیں بہتر ہیں ۔ہمیں صرف بھارتی فلم اور میڈیا کی چکا چوند دکھائی دیتی ہے،یہ پتہ نہیں چلتا کہ سیکولر بھارت میں فقط ہندو ہی ”دبنگ“ ہیں ۔لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ قوم دھنیا پی کر سو جائے ۔جتنا جذبہ ہم بھارت کو کرکٹ کے میدان میں ہرانے کے لئے بروئے کار لاتے ہیں اگر اس کا دس فیصد بھی ہم دیگر شعبوں میں استعمال کریں تو ہمارا بین الاقوامی امیج بھارت سے بہتر ہو جائے گا۔بھارت کا امیج اس کی ”The Dirty Picture“ کی وجہ سے بہتر ہے جبکہ ہم اپنے ملک کی dirtiest pictureپینٹ کرتے ہیں اور ساتھ ہی پاکستان کے وجود پر معذرت خواہانہ رویہ اپنا لیتے ہیں ،لاحول ولا۔
بشکریہ:جنگ
جس ملک میں عورتیں خود کو زندہ رکھنے کے لئے اتنی مجبور ہوں کہ اپنا ہونے والا بچہ ”ایڈوانس“ پکڑ کر بیچ دیں اور یہ آپشن وہ تب استعمال کرتی ہوں جب ان کا اپنا خریدار کوئی نہ رہے،اس ملک میں کسی مسلمان عورت کا معمولی سی نوکری کی خاطر بھیس بدلنا تعجب کا باعث نہیں ہونا چاہئے ۔بھارت میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 13فیصد ہے جبکہ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس میں مسلمان صرف 3%ہیں ،انڈین فارن سروس میں 1.8%اور انڈین پولیس سروس میں 4%۔بھارتی ریلویز میں 14لاکھ افراد کام کرتے ہیں جن میں صرف 64,000مسلمان ہیں جو 4.8%بنتا ہے اور اس میں سے بھی 98.7%وہ ہیں جو نچلے درجے کے ملازمین میں شمار ہوتے ہیں ۔پھر بھی ،پاکستان نہیں بننا چاہئے تھا!
حال ہی میں بھارت نے ایک مسلمان سید آصف ابراہیم کو انٹیلیجنس بیورو کا چیف مقرر کیا ۔اس اقدام نے ہمارے ضرورت سے زیادہ پڑھے لکھے دانشوروں کو بھنگڑے ڈالنے کا ایک اور موقع فراہم دیا اوران کی زنبیل میں ایک اوردلیل کا اضافہ ہو گیا ۔”بھارت کا(سابقہ) صدر مسلمان ،آئی بی کا چیف مسلمان ،فلم انڈسٹری کا بادشاہ مسلمان …اب بھی کہتے ہو کہ پاکستان بننا چاہئے تھا …you loosers!“بھارتی صدر تو خیر ایک رسمی سا عہدہ ہے جس کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ بھارت اس عہدے کو اپنا سیکولر امیج بہتر بنانے کے لئے استعمال کرتا ہے ۔بھارت کے جاسوسی ادارے میں مسلمان سربراہ کی تعیناتی 125سال میں پہلی مرتبہ عمل میں آئی ہے اور اس کا مسلمانیت سے کتنا تعلق ہے ،اس بات کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کی مختلف سیکورٹی ایجنسیوں میں 19لاکھ افراد کام کرتے ہیں جن میں دفاع کی تینوں ایجنسیاں بھی شامل ہیں ۔ان میں سے جب 5.2لاکھ افراد کا ڈیٹا کھنگالا گیا تو معلوم ہوا کہ ان ایجنسیوں میں مسلمان عہدے داروں کا تناسب فقط 3.6%ہے جبکہ نچلے درجے کے ملازمین میں سے 4.6%مسلمان ہیں ۔اوررہی بات فلم انڈسٹری کی تو جو لوگ شاہ رخ خان ،عامر خان اور سلمان خان کو سچ مچ کا مسلمان سمجھتے ہیں ان کے حق میں علامہ طاہر القادری سے دعا ہی کروائی جا سکتی ہے ۔
اگراب بھی کسی سیکولر بھائی کا یہ خیال ہے کہ پاکستان نہیں بننا چاہئے تھا تو انہیں چاہئے کہ فوراً ممبئی میں اپنا ایک فلیٹ بک کروا لیں لیکن خیال رکھیں کہ اس فلیٹ میں ٹوائلٹ کی سہولت موجود ہو کیونکہ ودیا بالن کے بھارت کی کل آبادی لگ بھگ 1.2ارب ہے جن میں سے نصف کو ٹوائلٹ کی سہولت ہی میسر نہیں ا ور مسز بالن اس ضمن میں بہت پریشان ہیں۔ انہوں نے بھارتیوں کو شرم دلانے کے لئے ایک مہم بھی چلائی مگر بے سود ۔ بھارت ماتا میں 60کروڑ لوگ بغیر ٹوائلٹ کے زندگی گزارتے ہیں ۔جھارکنڈ،اڑیسہ اور بہار میں یہ شرح 75%سے بھی زیادہ ہے اور ان تینوں ریاستوں کی کل آبادی پورے پاکستان کے برابر ہے ۔بنگلور جسے بھارت کی Silicon Valleyکہا جاتا ہے ،بھارت کے ماتھے کا سندور ہے ۔رات گئے جب 60لاکھ آبادی کا یہ شہر سو جاتا ہے تو نچلی ذات کے ہندو جنہیں اچھوت یا دلت کہا جاتا ہے ،15,000کی تعداد میں نکلتے ہیں اور 60لاکھ شہریوں کا گند صاف کرتے ہیں ۔ پورے بھارت مہان میں یہ کام کرنے والوں کی تعداد سرکار کے مطابق تین لاکھ جبکہ اصل میں دس لاکھ کے قریب ہے اور یہ لوگ اوسطً 4ڈالر یومیہ سے بھی کم کماتے ہیں ۔بھارتی شہروں میں مسلمانوں کی غربت ان اچھوتوں سے بھی بڑھ کر ہے ۔بھارت کے وہ چھوٹے دیہات جہاں مسلمانوں کی آبادی نسبتاً زیادہ ہے (اکثریت نہیں ہے) ،ان میں سے ایک تہائی ایسے ہیں جہاں سرے سے کوئی سکول ہی نہیں ہے ۔اور ایسے بڑے دیہات جہاں مسلمان بستے ہیں ،ان میں سے 40%میں کسی بھی قسم کی کوئی صحت کی سہولت میسر نہیں ۔یہ بیان مجھ جیسے کسی تنگ نظر مسلمان کا نہیں بلکہ بھارت کی مشہور زمانہ سچر کمیشن رپورٹ کا نتیجہ ہے ۔مگر کیا کریں ،پاکستان نہیں بننا چاہئے تھا!
پاکستان اور بھارت کا مقابلہ کرنا مقصد ہے اور نہ مجھے اس بات پر ڈھول بجانے کا شوق ہے کہ اگر ہمارے ہاں 22.6%افراد 73 penceیومیہ سے بھی کم آمدن رکھتے ہیں تو کیا ہوا ،بھارت میں یہی شرح 41.6%ہے ۔یہاں اگر بچے غذائی کمی کا شکار ہو کر مرتے ہیں تو بھارت میں یہ شرح دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے لہذا ہمیں گھوڑے بیچ کر سو جانا چاہئے ۔اگر پاکستان میں بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کسی بیماری کی وجہ سے مر جاتے ہیں تو بھارت میں سالانہ 21لاکھ بچے ایسے ہیں جو under weightپیدا ہوکر مرجاتے ہیں لہذا ہم پھر جیت گئے ۔جی نہیں ،ایسی جیت پر لعنت اور ایسا سوچنا پرلے درجے کی حماقت ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس بنیاد پر پاکستان بنا کیا وہ نظریہ درست تھی ؟ نظریہ بڑا سادہ تھا کہ اگر مسلمان متحدہ ہندوستان میں رہے تو بطور اقلیت انہیں ان کے حقوق نہیں ملیں گے۔اس بات کا تعین کرنے کا سادہ ترین طریقہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ کیا بھارت کا ایک عام مسلمان پاکستانی مسلمان سے بہتر حالت میں زندگی بسر کر رہا ہے؟پاکستان کی تمام جملہ خرابیوں کے باوجود ،جن میں زیادہ تر حصہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا ہے اورجو فوجی آمریتوں کی دین ہے ،ایک عام پاکستانی کے حالات بھارتی مسلمان سے کہیں بہتر ہیں ۔ہمیں صرف بھارتی فلم اور میڈیا کی چکا چوند دکھائی دیتی ہے،یہ پتہ نہیں چلتا کہ سیکولر بھارت میں فقط ہندو ہی ”دبنگ“ ہیں ۔لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ قوم دھنیا پی کر سو جائے ۔جتنا جذبہ ہم بھارت کو کرکٹ کے میدان میں ہرانے کے لئے بروئے کار لاتے ہیں اگر اس کا دس فیصد بھی ہم دیگر شعبوں میں استعمال کریں تو ہمارا بین الاقوامی امیج بھارت سے بہتر ہو جائے گا۔بھارت کا امیج اس کی ”The Dirty Picture“ کی وجہ سے بہتر ہے جبکہ ہم اپنے ملک کی dirtiest pictureپینٹ کرتے ہیں اور ساتھ ہی پاکستان کے وجود پر معذرت خواہانہ رویہ اپنا لیتے ہیں ،لاحول ولا۔
بشکریہ:جنگ