پاکستان نہیں چاہتا امریکا افغانستان سے جائے، نجم سیٹھی

پاکستان نہیں چاہتا امریکا افغانستان سے جائے، نجم سیٹھی

کراچی (جنگ نیوز)معروف تجزیہ نگار نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان آپریشن شروع ہونے کے بعد اب آئی ڈی پیز کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔عمران خان کے مطابق تین لاکھ افراد شمالی وزیرستان سے خیبر پختونخواہ میں داخل ہورہے ہیں ۔آپریشن کے دوران اگر فوج کو شبہ ہو کہ کسی گھر یا علاقے میں دہشت گرد رہ رہے ہیں تو وہاں بمباری کی جاتی ہے ۔ایف 16 طیاروں سے ٹارگٹڈ بمباری ہوتی ہے مگر یہ ڈرون کی طرح واضح ٹارگٹڈ نہیں ہوتی ۔اس لئے ایف 16 طیاروں سے تباہی بھی ہوتی ہے ۔غیر ملکی جنگجو بھی شمالی وزیرستان میں مقیم ہیں جہاں ان کے خاندان بھی ہیں ۔ان پر ٹارگٹ کرنا آسان نہیں ۔چھوٹی چھوٹی کاروائیاں کر کے ان کو باہر نکالتے ہیں پھر فوج آتی ہے ۔مگر اس وقت تک نوے فیصد دہشت گرد بھاگ چکے ہوتے ہیں ۔مگر ان کے گھروں کو تباہ کردیا جاتا ہے تاکہ یہ واپس نہ آ سکیں ۔کچھ دہشت گرد آئی ڈی پیز بن کر باہر نکلیں گے ۔عام آدمیوں کے درمیان ان کو شناخت نہیں کیا جاسکتا ۔یہ بہت بڑا مسئلہ ہے ۔کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کو ہر صورت مارنا ہی مارنا ہے ۔کچھ افغان طالبان بھی ہیں جن کو پاکستان نے پناہ دی ہوئی ہے ۔اگر سب پر ہی حملہ کردیں گے تو یہ اثاثے بھی مریں گے ۔ان اثاثوں کو بتا دیا گیا تھا کہ آپ نے پاکستان مخالف لوگوں کو پناہ کیوں دی ہم نے ایسا کرنے سے روکا تھا ۔جیو کےپروگرام آپس کی بات میں گفتگو کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے کہا کہ اپنے اثاثوں کو بتا دیا گیا تھا کہ یہاں سے نکل جائو ورنہ ہم آ رہے ہیں ۔افغان طالبان کے لئے خوست سے ذرا دور ایک آئی ڈی پی کیمپ بنایاگیا ہے ۔جہاں ان کو رکھا گیا ہے ۔ان کے کیمپ کو آئی ڈی پی اس لئے قرار دیا گیا ہے تاکہ ان پرڈرون حملہ نہ ہو ۔یوں اثاثوں کو محفوظ کیا گیا ہے جبکہ باقیوں پر حملے کئے جارہے ہیں ۔غیر ملکی جنگجو، ٹی ٹی پی اور حقانیوں کے مابین رابطے کا کام دیتے ہیں ۔چیچن اور ازبک دہشت گرد متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں یہ بم بناتے ہیں اور ٹریننگ بھی دیتے ہیں ۔نجم سیٹھی کے مطابق آئی ڈی پی کیمپس میں کوئی بھی نہیں رہنا چاہتا اس لئے یہ لوگ اپنے رشتہ داروں کے پاس خیبر پختنوخواہ آ رہے ہیں ۔اگر آپریشن کا فیصلہ پہلے کیا گیا تھا اور سب کو معلوم تھا کہ آپریشن ہونا ہی ہونا ہے تو پھر پہلے سے ہی کے پی اور فاٹا میں آئی ڈی پیز کے لئے بندوبست کرنا چایئے تھا ایسا کیوں نہیں کیا گیا ؟اب یہ ایک بڑا ایشو بن گیا ہے ۔عمران خان درست کہتے ہیں کہ لوگ مشکل میں ہیں ۔وفاقی حکومت اس مسئلے پر خاص توجہ نہیں دے رہی ۔عمران خان اس مسئلہ کے حل کے لئے چھ ارب روپے مانگ رہے ہیں ۔کے پی کا صوبہ بھی چھ ارب کا بندوبست کر سکتا ہے تاہم یہ ایک وفاقی ایشو ہے ۔سول سوسائٹی کو بھی چاہیئے کہ وہ آئی ڈی پیزکی مدد کرے ۔نجم سیٹھی کے مطابق اثاثے رکھنے کی پالیسی درست نہیں تھی ۔مگر ان پر بھی حملے کر دئیے جائیں تو پھر پاکستانی طالبان کے ساتھ افغان طالبان بھی مخالف ہوجاتے ۔پاکستان نہیں چاہتا تھا کہ امریکہ افغانستان سے جائے اور افغانوں کی توجہ ہٹے۔امریکہ پہلے افغانستان کو دس بلین ڈالر دے رہاتھا اب وہ صرف دوبلین ڈالر دے گا۔افغانستان کی اپنی کوئی معیشت نہیں اگر وہاں کی افواج تحلیل ہوجاتی ہیں اور ملا عمر اور حقانی نیٹ ورک اس آ رمی کو نقصان پہنچا دیتے ہیں تو پھر بھی یہ لوگ لڑائی جاری رکھ سکتے ہیں ۔اس لئے اب یہ کوشش کی جارہی ہے کہ افغانستان میں ازبک ،تاجک اور پختونوں سب کو ساتھ لے کر چلا جائے ۔اگر افغان نیشنل آرمی ختم ہوتی ہے تو پاکستان کے لئے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔نجم سیٹھی کے مطابق اب پاکستان و امریکہ کی سیاسی عسکری قیادت قریب ہوکر کام کررہے ہیں تاکہ افغانستان میں مستحکم حکومتیں بنائی جائیں اور طالبان کے مشترکہ خطرے کا سامنا کیا جائے ۔ طاہر القادری کے استقبالیے میں ایک پٹاخہ بھی پھٹا تو ذمہ داری حکومت پر آئے گی،طاہر القادری بھی ٹی ٹی پی کا ٹارگٹ ہیں انہوں نے خود کش حملوں کے خلاف فتویٰ دے رکھا ہے ۔خود کش حملوں سے نہ تو حکومت محفوظ ہے نہ ہی کوئی اور ۔مگر اس نوعیت کا کوئی واقعہ ہوگیا تو یہ کوئی نہیں کہے گا کہ طاہر القادری نے یہ ہنگامہ کیوں برپا کیا ؟بلکہ لوگ یہی کہیں گے کہ امن و امان کو قائم رکھنا حکومت کی ذمہ داری تھی ۔اسی لئے حکومت نے ایک جانب ان کو ناکام بنانے کے لئے اور دوسری جانب دہشتگردی کے خطرے کے پیش نظر دفعہ 144 نافذ کرنے جیسے اقدامات اٹھائے ۔ حکومت نے راولپنڈی میں دفعہ 144 اس لئے نافذ کی تاکہ پولیس اور طاہر القادری کے حامیوں کے درمیان جھڑپ نہ ہو ۔جو لوگ مسائل کھڑے کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے ایک پتھر پھینکنا ہی کافی ہوتا ہے ۔جبکہ اس وقت دہشت گردی کا خطرہ بھی ہے ۔آرمی کے سپیشل یونٹس پہلے ہی آپریشن کے ممکنہ بیک لیش سے نمٹنے کے لئے موجود ہیں ۔نجم سیٹھی کے مطابق اکتوبر 1996 میں قاضی حسین احمد نے پی پی پی حکومت کی کرپشن کے خلاف راولپنڈی میں جماعت اسلامی کے چند ہزار لوگوں کو اکٹھا کیا اور پولیس جھڑپوں میں انکے کئی لوگ مارے بھی گئے ۔اس واقعے کے چند روز بعد یعنی نومبر میں بی بی کی حکومت برطرف کر دی گئی ۔فاروق لغاری نے بی بی حکومت برطرف کرنے سے پہلے اس وقت آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو بتا دیا تھا ۔محترمہ کو بھی اس حوالے سے خبریں مل رہی تھیں کہ کچھ ہورہا ہے ؟بی بی نے جہانگیر کرامت کو رات بارہ بجے کال کیا اور جہانگیر کرامت نے ان کو بھی بتا دیا کہ انکی حکومت ختم کی جارہی ہے ۔نجم سیٹھی کے مطابق صدر لغاری یہ کام نہیں کر سکتے تھے اگر آرمی ان کو ایسا کرنے سے روک دیتی ۔لغاری نے حکومت توڑنے کی وجوہات میں جہاں کرپشن کا ذکر کیا وہیں تشدد ،امن و امان اور مظاہروں کی بات بھی کی گئی ۔کس کو کیا خبر تھی کہ اس سب میں جماعت اسلامی کا کردار کیا تھا ؟اب بھی سانحہ ماڈل ٹائون جیساایک واقعہ ہوا ہے اور ماحول بنا ہوا ہے کہ حکومت کو باہر نکال دو ۔اس لئے حکومت خوفزدہ ہے ۔اس وقت دہشت گردی نہیں تھی مگر اب ہے ۔نجم سیٹھی کے مطابق اگر طاہر القادری لاہور جانا چاہتے ہیں تو انتظامیہ ان کو ایجنسیوں کی مدد سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے تحفظ فراہم کر کے لاہور پہنچا سکتی ہے ۔انتظامیہ ان سے ان کے جلسوں کے پروگرام کے حوالے سے بھی پوچھ کر ان کو سیکورٹی فراہم کر سکتی ہے ۔ان کا یہ مقصد نہیں ہونا چایئے کہ وہ اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں ۔

http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=210905
 
Top