ناصر علی مرزا
معطل
پاکستان نے ہمیں کیا دیا؟...ذراہٹ کے۔۔۔۔۔یاسر پیر زادہ
کوئی ایسا شخص جس کا پیارا خود کش دھماکے میں مارا جائے ‘ کوئی ایسی ما ں جس کے بیٹے کو ڈاکو دن دیہاڑے قتل کردیں ‘ کوئی ایسی بیوہ جس کا سہاگ کوئی ٹارگٹ کلر اجاڑ دے ‘ کوئی ایسا غیر مسلم (یا مسلم) جسے عقیدے کی بنیاد پر قتل کر دیا جائے ‘ کوئی ایسا بھائی جس کی بہن کی عزت غنڈے تاتار کر دیں یا کوئی ایسا باپ جس کا معصوم بچہ کسی بم کو کھلونا سمجھ کر اٹھانے کی کوشش میں اپنے ننھے جسم کے ٹکڑے کروا بیٹھے …ان مظلوموں میں سے اگر کوئی یہ سوال کرے کہ پاکستان نے انہیں کیا دیا تو شائد ہم انہیں تسلی بخش جواب نہ دے سکیں !مگر کوئی ایسا شخص جو دس پندرہ برس پہلے تک ٹوٹی ہوئی موٹر سائیکل پر گھومتا ہو اور آج صف او ل کا اینکر ہو ‘ کوئی ایسا ڈاکٹر جس نے ہزار بارہ سو فیس کے عوض کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا ہو اور آج اس کا امریکہ میں اپنا محل نما گھر ہو‘ کوئی ایسا شخص جس کے گھر والوں نے کبھی پیٹ بھر کے کھانا نہ کھایا ہواور آج وہ اربوں کی جائیداد کا مالک ہو ‘ کوئی ایسا شخص جس کے پاس نوجوانی میں کالج کی فیس ادا کرنے کے پیسے نہ ہوں اور وہ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے وظیفوں کی مدد سے تعلیم مکمل کر کے آج اعلی ٰ عہدے پر فائز ہو یا کوئی ایسا شخص جس کے پاس کوئی ڈگری نہ ہو مگر اپنی محنت سکی بنا پر وہ اس ملک میں بزنس ٹائکون بن جائے …اگر ان میں سے کوئی شخص ایک دن اٹھ کر یہ کہے کہ میں آج جو بھی ہوں محض اپنی قابلیت اور ذہانت کی بنا پر ہوں ورنہ پاکستان نے مجھے کیا دیا تو جس قسم کا جواب میرے ذہن میں آیا ہے وہ ناقابل اشاعت ہے!
اس ملک میں ایک عجیب ہی رواج چل پڑا ہے ‘ ہم کسی محفل میں بیٹھے ہوں ‘ہم میں اتنی اخلاقی جرات نہیں ہوگی کہ کسی کے منہ پریہ کہہ سکیں کہ جناب والا ایک دھیلا آپ ٹیکس کا نہیں دیتے مگر آ پ کے پیٹ میں ملک کا مروڑ یوں اٹھ رہا ہے گویا آپ سے زیادہ محب وطن کوئی نہیں!ہاں اگر کوئی پاکستان کو گالیاں دے ‘ برا بھلا کہے ‘ اس میں کیڑے نکالے اور یہ کہے کہ اس ملک نے ہمیں دیا ہی کیا ہے تو شائد ہی ہم میں سے کسی کے کان پر جوں بھی نہ رینگے ‘ہم یہ مصالحے دار باتیں نہ صرف مزے لے لے کر سنیں گے بلکہ حسب توفیق ہاں میں ہاں ملائیں گے اور تالیاں بھی پیٹیں گے ۔پاکستان کے میڈیکل کالجوں اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں ریاست کے خرچے پر ڈاکٹر انجینئر بننے کے بعد گردن اکڑا کر ہم امریکہ ‘ برطانیہ اور کنیڈا میں شہریت کی درخواست دائر کرتے ہیں اور یہ ممالک ان لوگوں کو اپنی شہریت دیتے ہیں جو ان کے ملک کے کارآمد شہری بن سکیں ‘ اس کے بعد ’’سکائی از دی لمٹ‘‘ ہم پلٹ کر اپنے ملک کو گھاس نہیں ڈالتے ‘ملک یاد آتا بھی ہے تو صرف گالیاں دینے کے لئے اور یہ سوال پوچھنے کے لئے کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا ؟ البتہ وہ گلیاں اور بازارہمیں ضرور ہانٹ کرتے ہیں جہاں پل بڑھ کر ہم جوان ہوئے تھے ‘ان کوچہ و بازار کو یاد کرکے روتے ہیں جہاں ہم نے اپنا بچپن اور جوانی گذاری تھی‘محلے کا وہ چھوٹا سا پارک جہاں ہم نے ہاکی کھیلی تھی ‘جوان ہوتے ہوئے وہ لڑائیاں جو ہم نے اپنے یاروں کے ساتھ مل کر ’’مخالف گروپوں‘‘ کے خلاف لڑیں تھی‘ میڈیکل کالج کے ہوسٹل کے وہ کمرے یاد آتے ہیں جہاں ہم نے اپنے پہلے رومان کی یادیں اپنے روم میٹ کے ساتھ شئیر کی تھیں‘ کالج کی کلاس چھوڑ کر فلم سٹار نیلی کی نئی فلم کا اتوار گیارہ بجے والا شو دیکھا تھا ‘ پہلی مرتبہ لکشمی چوک سے سگریٹ کی ڈبی خریدی تھی‘ فوٹو سٹیٹ مشین کا وہ کھوکھا یاد آتا ہے جہاں پہلی مرتبہ کلاس کی سب سے خوبصورت لڑکی سے نوٹس کے تبادلے کے بہانے جان پہچان پیدا ہوئی تھی‘ نہر کی وہ سڑک یاد آتی ہے جہاں موٹر سائیکل پر اپنی کلاس فیلو کو بٹھا کر گھمانے لے جایا کرتے تھے ‘ اس ریستوران کی آرائش نہیں بھولتی جہاں پہلی مرتبہ دونوں نے آئس کریم کھائی تھی‘وہ دن نہیں بھولتا جس روز ایم بی بی ایس کا نتیجہ آیا تھا اور ہم دوستوں نے ایک دوسرے کو یوں جپھیاں ڈال کر مبارکبادیں دی تھیں گویا یارانہ زندگی بھر نہ ٹوٹے گا…!لیکن پھر ایک روز سب کچھ ٹوٹ جاتا ہے ‘ اپنی اپنی ضرورتو ں ‘ خواہشوں او ر کسی حد تک جائز خدشات کے پیش نظر ہم میں سے بہت سے لوگ باہر سیٹل ہو جاتے ہیں۔
مگر یہ نوحہ تارکین وطن کا نہیں ہے ‘ یہ رونا ان تمام پاکستانیوں کا ہے جو ملک میں ہیں یا ملک سے باہر ‘ جنہوں نے ہر دوصورتوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں ۔ ان میں سے تمام تو نہیں مگر زیادہ تر لوگ تھینک لیس ہیں ‘ بجائے اس کے کہ یہ پاکستان کے شکر گذار ہوں جس کی بدولت انہیں زندگی میں کامرانیاں ملیں یہ ہر وقت اپنے ہی گُن گانے میں مگن رہتے ہیں ‘ ان کا خیال ہے کہ یہ بہت ذہین‘ فطین اور قابل تھے جس کی وجہ سے پوری دنیا نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا ‘ حالانکہ یہ جاننے کے لئے پوری دنیا گھومنے کی ضرورت نہیں ‘ برابر میں بھارت واقع ہے ‘ زیادہ نہیں تو چھ ماہ کے لئے وہاں کرائے کے کسی گھر میں بطور مسلمان رہائش پذیر ہو کر دیکھیں ‘ طبیعت بشاش ہو جائے گی‘ ٹیلنٹ کس بھائو بکتا ہے سب معلوم پڑ جائے گا!
یہ شکوہ صرف خوشحال طبقے سے ہے ‘ یہ صرف ان لوگو ں سے ہے جنہوں نے اس ملک کے کسی سفید پوش گھرانے میں آنکھ کھولی مگر آج ان کا شمار ملک کے متمول ترین گھرانوں میں ہوتا ہے ‘ ان کی تعلیم اور کامیابی میں پاکستان کی ریاست نے باقاعدہ حصہ ڈالا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ چھاتی پھلا کر کہیں کہ پاکستان نے انہیں کیا دیا توفقط ان کے حق میں دعا ہی کی جا سکتی ہے!بات یہیں ختم نہیں ہوتی ‘اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر پھر ہم لوگ پاکستان پر اپنے احسانات گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔کوئی کرکٹ کا کھلاڑی ہے جس نے اپنے شوق کی خاطر کرکٹ کھیلی ‘ ملک اور عوام نے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا ‘ وہ ٹی وی پر آکر کہتا ہے کہ میں نے تو یہ ملک کے لئے کیا مگر ملک نے مجھے فلاں تمغہ نہیں دیا ! سوال گھسا پٹا ہی سہی مگر نہایت معقول ہے کہ کیا ہم نے بھی پاکستان کو کچھ دیا ہے؟ جواب میں جو بھی دعویٰ کر لیں مگر حقیقت بہت تلخ ہے‘ جس ملک کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح دنیا بلکہ خطے میں کم ترین ہو اس ملک کے شہری کس منہ سے یہ سوال لرتے ہیںکہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا ؟جس ملک میں ٹریفک کے بنیادی قوانین پر عمل کرنے کا رجحان نہ ہو وہاں کے باسی اس ملک سے بدلے میں کیا لینا چاہتے ہیں؟میری ایسے تمام ’’ٹیلنٹڈ‘‘ لوگوں سے دست بدستہ درخواست ہے کہ جناب والا یقینا آپ میں کوئی نہ جوہر ضرور ہوگا جس کی وجہ سے آپ نے کامیابی کی سیڑھیاں پھلانگیں مگر یہ سیڑھیاں بہرحال اسی ملک نے مہیا کیں ‘ ہو سکے تو اپنی گاڑی کے پیچھے ’’تھینک یو پاکستان ‘‘ کا اسٹیکر ہی لگا لیں ‘ اور یہ ملک آپ سے کچھ نہیں مانگتا۔
کوئی ایسا شخص جس کا پیارا خود کش دھماکے میں مارا جائے ‘ کوئی ایسی ما ں جس کے بیٹے کو ڈاکو دن دیہاڑے قتل کردیں ‘ کوئی ایسی بیوہ جس کا سہاگ کوئی ٹارگٹ کلر اجاڑ دے ‘ کوئی ایسا غیر مسلم (یا مسلم) جسے عقیدے کی بنیاد پر قتل کر دیا جائے ‘ کوئی ایسا بھائی جس کی بہن کی عزت غنڈے تاتار کر دیں یا کوئی ایسا باپ جس کا معصوم بچہ کسی بم کو کھلونا سمجھ کر اٹھانے کی کوشش میں اپنے ننھے جسم کے ٹکڑے کروا بیٹھے …ان مظلوموں میں سے اگر کوئی یہ سوال کرے کہ پاکستان نے انہیں کیا دیا تو شائد ہم انہیں تسلی بخش جواب نہ دے سکیں !مگر کوئی ایسا شخص جو دس پندرہ برس پہلے تک ٹوٹی ہوئی موٹر سائیکل پر گھومتا ہو اور آج صف او ل کا اینکر ہو ‘ کوئی ایسا ڈاکٹر جس نے ہزار بارہ سو فیس کے عوض کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا ہو اور آج اس کا امریکہ میں اپنا محل نما گھر ہو‘ کوئی ایسا شخص جس کے گھر والوں نے کبھی پیٹ بھر کے کھانا نہ کھایا ہواور آج وہ اربوں کی جائیداد کا مالک ہو ‘ کوئی ایسا شخص جس کے پاس نوجوانی میں کالج کی فیس ادا کرنے کے پیسے نہ ہوں اور وہ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے وظیفوں کی مدد سے تعلیم مکمل کر کے آج اعلی ٰ عہدے پر فائز ہو یا کوئی ایسا شخص جس کے پاس کوئی ڈگری نہ ہو مگر اپنی محنت سکی بنا پر وہ اس ملک میں بزنس ٹائکون بن جائے …اگر ان میں سے کوئی شخص ایک دن اٹھ کر یہ کہے کہ میں آج جو بھی ہوں محض اپنی قابلیت اور ذہانت کی بنا پر ہوں ورنہ پاکستان نے مجھے کیا دیا تو جس قسم کا جواب میرے ذہن میں آیا ہے وہ ناقابل اشاعت ہے!
اس ملک میں ایک عجیب ہی رواج چل پڑا ہے ‘ ہم کسی محفل میں بیٹھے ہوں ‘ہم میں اتنی اخلاقی جرات نہیں ہوگی کہ کسی کے منہ پریہ کہہ سکیں کہ جناب والا ایک دھیلا آپ ٹیکس کا نہیں دیتے مگر آ پ کے پیٹ میں ملک کا مروڑ یوں اٹھ رہا ہے گویا آپ سے زیادہ محب وطن کوئی نہیں!ہاں اگر کوئی پاکستان کو گالیاں دے ‘ برا بھلا کہے ‘ اس میں کیڑے نکالے اور یہ کہے کہ اس ملک نے ہمیں دیا ہی کیا ہے تو شائد ہی ہم میں سے کسی کے کان پر جوں بھی نہ رینگے ‘ہم یہ مصالحے دار باتیں نہ صرف مزے لے لے کر سنیں گے بلکہ حسب توفیق ہاں میں ہاں ملائیں گے اور تالیاں بھی پیٹیں گے ۔پاکستان کے میڈیکل کالجوں اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں ریاست کے خرچے پر ڈاکٹر انجینئر بننے کے بعد گردن اکڑا کر ہم امریکہ ‘ برطانیہ اور کنیڈا میں شہریت کی درخواست دائر کرتے ہیں اور یہ ممالک ان لوگوں کو اپنی شہریت دیتے ہیں جو ان کے ملک کے کارآمد شہری بن سکیں ‘ اس کے بعد ’’سکائی از دی لمٹ‘‘ ہم پلٹ کر اپنے ملک کو گھاس نہیں ڈالتے ‘ملک یاد آتا بھی ہے تو صرف گالیاں دینے کے لئے اور یہ سوال پوچھنے کے لئے کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا ؟ البتہ وہ گلیاں اور بازارہمیں ضرور ہانٹ کرتے ہیں جہاں پل بڑھ کر ہم جوان ہوئے تھے ‘ان کوچہ و بازار کو یاد کرکے روتے ہیں جہاں ہم نے اپنا بچپن اور جوانی گذاری تھی‘محلے کا وہ چھوٹا سا پارک جہاں ہم نے ہاکی کھیلی تھی ‘جوان ہوتے ہوئے وہ لڑائیاں جو ہم نے اپنے یاروں کے ساتھ مل کر ’’مخالف گروپوں‘‘ کے خلاف لڑیں تھی‘ میڈیکل کالج کے ہوسٹل کے وہ کمرے یاد آتے ہیں جہاں ہم نے اپنے پہلے رومان کی یادیں اپنے روم میٹ کے ساتھ شئیر کی تھیں‘ کالج کی کلاس چھوڑ کر فلم سٹار نیلی کی نئی فلم کا اتوار گیارہ بجے والا شو دیکھا تھا ‘ پہلی مرتبہ لکشمی چوک سے سگریٹ کی ڈبی خریدی تھی‘ فوٹو سٹیٹ مشین کا وہ کھوکھا یاد آتا ہے جہاں پہلی مرتبہ کلاس کی سب سے خوبصورت لڑکی سے نوٹس کے تبادلے کے بہانے جان پہچان پیدا ہوئی تھی‘ نہر کی وہ سڑک یاد آتی ہے جہاں موٹر سائیکل پر اپنی کلاس فیلو کو بٹھا کر گھمانے لے جایا کرتے تھے ‘ اس ریستوران کی آرائش نہیں بھولتی جہاں پہلی مرتبہ دونوں نے آئس کریم کھائی تھی‘وہ دن نہیں بھولتا جس روز ایم بی بی ایس کا نتیجہ آیا تھا اور ہم دوستوں نے ایک دوسرے کو یوں جپھیاں ڈال کر مبارکبادیں دی تھیں گویا یارانہ زندگی بھر نہ ٹوٹے گا…!لیکن پھر ایک روز سب کچھ ٹوٹ جاتا ہے ‘ اپنی اپنی ضرورتو ں ‘ خواہشوں او ر کسی حد تک جائز خدشات کے پیش نظر ہم میں سے بہت سے لوگ باہر سیٹل ہو جاتے ہیں۔
مگر یہ نوحہ تارکین وطن کا نہیں ہے ‘ یہ رونا ان تمام پاکستانیوں کا ہے جو ملک میں ہیں یا ملک سے باہر ‘ جنہوں نے ہر دوصورتوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں ۔ ان میں سے تمام تو نہیں مگر زیادہ تر لوگ تھینک لیس ہیں ‘ بجائے اس کے کہ یہ پاکستان کے شکر گذار ہوں جس کی بدولت انہیں زندگی میں کامرانیاں ملیں یہ ہر وقت اپنے ہی گُن گانے میں مگن رہتے ہیں ‘ ان کا خیال ہے کہ یہ بہت ذہین‘ فطین اور قابل تھے جس کی وجہ سے پوری دنیا نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا ‘ حالانکہ یہ جاننے کے لئے پوری دنیا گھومنے کی ضرورت نہیں ‘ برابر میں بھارت واقع ہے ‘ زیادہ نہیں تو چھ ماہ کے لئے وہاں کرائے کے کسی گھر میں بطور مسلمان رہائش پذیر ہو کر دیکھیں ‘ طبیعت بشاش ہو جائے گی‘ ٹیلنٹ کس بھائو بکتا ہے سب معلوم پڑ جائے گا!
یہ شکوہ صرف خوشحال طبقے سے ہے ‘ یہ صرف ان لوگو ں سے ہے جنہوں نے اس ملک کے کسی سفید پوش گھرانے میں آنکھ کھولی مگر آج ان کا شمار ملک کے متمول ترین گھرانوں میں ہوتا ہے ‘ ان کی تعلیم اور کامیابی میں پاکستان کی ریاست نے باقاعدہ حصہ ڈالا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ چھاتی پھلا کر کہیں کہ پاکستان نے انہیں کیا دیا توفقط ان کے حق میں دعا ہی کی جا سکتی ہے!بات یہیں ختم نہیں ہوتی ‘اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر پھر ہم لوگ پاکستان پر اپنے احسانات گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔کوئی کرکٹ کا کھلاڑی ہے جس نے اپنے شوق کی خاطر کرکٹ کھیلی ‘ ملک اور عوام نے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا ‘ وہ ٹی وی پر آکر کہتا ہے کہ میں نے تو یہ ملک کے لئے کیا مگر ملک نے مجھے فلاں تمغہ نہیں دیا ! سوال گھسا پٹا ہی سہی مگر نہایت معقول ہے کہ کیا ہم نے بھی پاکستان کو کچھ دیا ہے؟ جواب میں جو بھی دعویٰ کر لیں مگر حقیقت بہت تلخ ہے‘ جس ملک کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح دنیا بلکہ خطے میں کم ترین ہو اس ملک کے شہری کس منہ سے یہ سوال لرتے ہیںکہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا ؟جس ملک میں ٹریفک کے بنیادی قوانین پر عمل کرنے کا رجحان نہ ہو وہاں کے باسی اس ملک سے بدلے میں کیا لینا چاہتے ہیں؟میری ایسے تمام ’’ٹیلنٹڈ‘‘ لوگوں سے دست بدستہ درخواست ہے کہ جناب والا یقینا آپ میں کوئی نہ جوہر ضرور ہوگا جس کی وجہ سے آپ نے کامیابی کی سیڑھیاں پھلانگیں مگر یہ سیڑھیاں بہرحال اسی ملک نے مہیا کیں ‘ ہو سکے تو اپنی گاڑی کے پیچھے ’’تھینک یو پاکستان ‘‘ کا اسٹیکر ہی لگا لیں ‘ اور یہ ملک آپ سے کچھ نہیں مانگتا۔