پاکستان پر ڈرون اور خود کش حملے

Fawad -

محفلین
پھر آپ نے لکھا ہے کہ امریکہ اور چالیس ممالک کے کے جنگجو یہاں صرف امن قائم کرنے ہیں ۔۔۔ کیوں اپنا مذاق اُڑواتے ہیں ، بہت ہوگیا ہمیشہ امریکہ ویت نام ، یمن ، سوڈان جیسے غریب اور بے بس ملکوں سے ہی خطرہ محسوس کرتا ہے ۔۔ کیوں ؟ صاف کہیں کہ ہم وہاں کے وسائل ، اور خطے میں تجارت کرنے کے لیے یہاں آئیں ہیں ۔




فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


امريکہ کی خارجہ پاليسی کے حوالے سے عمومی تاثر اور نظريات کی بنياد پر يک طرفہ سوچ کا اظہار يقينی طور پر سہل ہے۔ اگر امريکہ کی عراق اور افغانستان ميں فوجی مداخلت وسائل اور اہم کاروباری روٹس پر قبضے کی پاليسی کا نتيجہ ہے تو سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ ان "نئے خزانوں" کے "مثبت" اثرات کيوں منظرعام پر نہيں آئے؟
کيا آپ ديانت داری کے ساتھ يہ دعوی کر سکتے ہيں کہ آج امريکہ افغانستان اور عراق سے لوٹے ہوئے وسائل کی بدولت معاشی ترقی کے عروج پر ہے؟


حقيقت يہ ہے کہ آج کے دور ميں کسی بھی ملک کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ دور دراز کے علاقوں کے وسائل پر زبردستی قبضہ کر کے ترقی کے زينے طے کرے۔ يہ سوچ اور پاليسی تاريخی ادوار ميں يقينی طور پر اہم رہی ہے ليکن موجودہ دور ميں ہر ملک کو معاشرتی، سياسی اور معاشی فرنٹ پر جنگ کی قيمت چکانا پڑتی ہے۔ اس تناظر ميں امريکہ سميت کسی بھی ملک کے ليے جنگ کا آپشن پسنديدہ نہيں ہوتا۔


صدر اوبامہ نے امريکی فوجيوں سے اپنے خطاب ميں جنگ کے حوالے سے درپيش چيلنجز اور منفی اثرات کے حوالے سے ہی اظہار خيال کيا تھا۔


" میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں فوجی طاقت کے استعمال میں احتیاط سے کام لینا چاہیئے اور ہمیشہ یہ سوچنا چاہیئے کہ ہمارے افعال کے طویل المدت نتائج کیا ہوں گے۔ ہمیں جنگ لڑتے ہوئے اب آٹھ برس ہو چکے ہیں، اور ہمیں انسانی زندگی اور وسائل کی شکل میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے ۔ ہمیں عظیم کساد بازاری کے بعد پہلی بار جس بد ترین اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امریکی عوام کی توجہ ہماری اپنی معیشت کی تعمیرِ نو پر، اور ملک میں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے پر ہے ۔
ہم ان جنگوں پر اٹھنے والے اخراجات کو آسانی سے نظر انداز نہیں کر سکتے۔


جب میں نے اپنا منصب سنبھالا تو عراق اور افغانستان کی جنگوں میں اٹھنے والے اخراجات ایک کھرب ڈالر تک پہنچ چکے تھے ۔ افغانستان میں ہمارے نئے لائحہ عمل سے امکان ہے اس سال فوج پر ہمارے لگ بھگ 30 ارب ڈالر خرچ ہوں گے


اگر میں یہ نہ سمجھتا کہ افغانستان میں امریکہ کی سلامتی اور امریکہ کے لوگوں کی حفاظت داؤ پر لگی ہوئی ہے، تو میں بخوشی اپنے ہر فوجی کی کل ہی واپسی کا حکم دے دیتا"



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://s24.postimg.org/k2f8yogth/olson_Pesh.jpg
 

Fawad -

محفلین
جب امریکی حکومت نے پاکستان کو ایران سے گیس حاصل کرنے پر نتائج بھگتنے کی دھمکی دے دی تھی ۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ



دانش کا تقاضا يہ ہے کہ ہر بات کا تجزيہ اس کے درست تناظر ميں کيا جانا چاہیے۔

پاک ايران گيس پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے امريکی موقف کو "سنگين نتائج کی دھمکی" جيسی اصطلاح کے ذريعے بيان کرنا صريح غلط ہے۔ اس ايشو کے حوالے سے امريکی موقف مستقل اور ايرانی حکومت کے خلاف اقوام متحدہ کی پہلے سے موجود پابنديوں کی روشنی ميں ہے۔

ہم اس بات سے بخوبی واقف ہيں کہ پاکستان کی توانائ کے حوالے سے بے شمار ضرورتيں ہيں اور ہم نے کئ دہائيوں سے پاکستان کی مدد کرنے کے ليے کوششيں کی ہيں۔


اس ميں کوئ شک نہيں کہ ايران، پاکستان اور افغانستان کے درميان تيل کی پائپ لائن کے حوالے سے ہماری پاليسی اور نقطہ نظر ہے۔ ہماری اس پاليسی کی بنياد ہماری عالمی ذمہ داريوں اور اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی جانب سے نافذ کردہ قواعد وضوابط کی پابندی کے حوالے سے ہمارا مصم ارادہ اور سوچ ہے۔ اپنی اس پاليسی کی وضاحت اور ہماری سينير سفارتی عہديداروں کی جانب سے اپنے نقطہ نظر کو پيش کرنے کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ خطے ميں اپنے اتحادی اور اسٹريجک شراکت دار جو ہماری سوچ سے متفق نہيں ہيں، ان کو ہم دھمکی دے رہے ہيں۔


جہاں تک امريکی حکومت کا تعلق ہے تو ہم اس بات پر پختہ يقين رکھتے ہيں کہ ايران يہ پيش کش اس ليے کر رہا کيونکہ دنيا بھر ميں بے شمار ممالک نے ايران سے تيل کی خريداری ميں کمی کا فيصلہ کر ليا ہے۔ ايرانی حکومت کی جانب سے کاروباری معاملات ميں عدم شفافيت کی ايک طويل تاریخ ہے۔ ہم تمام ممالک کو ايسے ايرانی اداروں کے ساتھ روابط استوار کرنے کے ضمن ميں خبردار کرتے ہيں جن کے نتيجے ميں عالمی پابندياں کا امکان پيدا ہوتا ہے يا ايرانی حکومت انھيں منفی انداز ميں استعمال کر سکتی ہے۔

ہم عالمی برادری کے ساتھ مل کر ايران پر دباؤ بڑھا رہے ہيں تا کہ وہ اپنی عالمی ذمہ دارياں اور اپنے خفيہ ايٹمی پروگرام کے حوالے سے عالمی خدشات دور کرے۔ اس ضمن ميں موجود پابندياں اور ان سے متعلق قوانين کے عين مطابق ہم چاہتے ہيں کہ زيادہ سے زيادہ ممالک ايران ميں توانائ کے حوالے سے سرمايہ کاری نہ کريں جس ميں ايران کے سينٹرل بنک سے وابسطہ ترسيل کے بعض معاملات بھی شامل ہيں۔


اگر پاکستان اور ايران کے مابين تيل کی پائپ لائن کا قيام عمل ميں آتا ہے تو سال 2011 کے نيشنل ڈيفنس آتھراذائنيشن ايکٹ اور ايران پر پابندی کے حوالے سے موجود ايکٹ کے ضمن ميں شديد خدشات جنم ليں گے۔ ايران پہلے ہی اقوام متحدہ کی ايسی کئ قراردادوں کی زد ميں ہے جس کے نتيجے میں اسے پابنديوں کا سامنا ہے۔


ايران کے خلاف عالمی پابنديوں کی موجودگی ميں ہم نے پاکستان کی حکومت کے ساتھ يہ معاملہ اٹھايا ہے اور ہم ان کو ترغيب دے رہے ہيں کہ وہ اس ضمن ميں متبادل آپشن پر غور کريں۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://s24.postimg.org/k2f8yogth/olson_Pesh.jpg
 

Fawad -

محفلین
یار فواد آپ لوگ کون سی معصوم اور ظالم میں تفریق کرتے ہو۔۔۔ ان لوگوں کی تکالیف کا اندازہ آپ لوگ کیوں نہیں کرتے جو آپ کے مظالم کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہمارے لئے آپ لوگ اور وہ دہشت گر دونوں برابر ہو زیادہ تر تکلیف آپ کی وجہ سے ہوتی ہے اسی لئے زیادہ بات بھی آپ کے بارے میں ہی ہو گی،



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


جہاں تک دہشت گرد تنظيموں اور امريکی حکومت کے اقدامات ميں مماثلت کے حوالے سے آپ کی رائے ہے تو ان گروہوں کے برخلاف امريکی حکومت کے اقدامات پاکستان اور افغانستان کے عوام کے خلاف نہيں ہيں۔ ہمارا ٹارگٹ اور مقصد صدر اوبامہ کے الفاظ کے مطابق القائدہ کی شکست وریخ اور مکمل خاتمہ ہے۔ ليکن اس کے ساتھ ساتھ يہ فوجی کاروائ ايک جامع منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت افغان معاشرے کو مضبوط بنيادوں پر استوار کرنا ہے جو برسا برس کی خانہ جنگی اور طالبان کے نظام کے زير اثر دہشت گردی کا اڈہ بن چکا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغان عوام کو ساتھ ملا کر عدل و انصاف پر مبنی ايک ايسا معاشرہ تشکيل ديا جائے جس ميں سب کو ان کے بنيادی حقوق مل سکيں۔


يہ تاثر غلط ہے کہ امريکہ افغانستان ميں صرف طاقت کے استعمال پر يقين رکھتا ہے۔ امريکہ ايسے بے شمار منصوبوں ميں افغان حکومت کی براہراست مدد کر رہا ہے جن کا مقصد افغان معاشرے کو مضبوط بنيادوں پر استوار کرنا ہے تاکہ برسا برس کی سول جنگوں کے بعد افغان عوام دوبارہ اپنے پيروں پر کھڑے ہو سکيں۔ اسی طرح پاکستان کے عام عوام کے ليے ہمارے امدادی پيکجز، لاتعداد تعميری منصوبے اور ديگر سپورٹ پروگرامز کے ساتھ ساتھ پاک فوج کے ليے ہمارا تعاون اور مدد سب پر واضح ہے۔ چاہے سيلاب اور زلزلے جيسی قدرتی آفات کے بعد امدادی کاروائيوں کے ضمن ميں مدد کا معاملہ ہو يا ملکی سطح پر توانائ کے بحران اور سکولوں کی تعمير وترقی جيسے اہم معاملات ہوں، ہم ہيمشہ پاکستان کے عوام کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہيں۔


اب ان اقدامات کا دہشت گرد گروہوں کی کاروائيوں سے موازنہ کریں جو تشدد اور بلا امتياز خون خرابے کے ذريعے اپنی رٹ قائم کرنے کے درپے ہيں۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں پاکستان اور افغانستان کے عوام کے ليے امريکی کاوشوں کا القائدہ اور اس سے منسلک دہشت گرد تنظيموں کی بے رحمانہ کاروائيوں سے کسی بھی قسم کا موازنہ کيا جا سکتا ہے؟


القائدہ اور طالبان صرف تخريب کاری پر يقين رکھتے ہيں – تعمير و ترقی پر نہيں۔




فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://s24.postimg.org/k2f8yogth/olson_Pesh.jpg
 

قیصرانی

لائبریرین

Fawad -

محفلین
اور اس نام نہاد امداد کے بدلے ہمارے ملک کو امریکہ کی اس خطہ میں مداخلت کی وجہ سے جن معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ، اور آپ نے صرف نیٹو کے ٹرالرز میں ٹول ٹیکس کی مدد میں ٹیکس نہ دے کر ہمارے قومی خزانے کو جتنا نقصان پہنچایا ، ہماری سڑکوں کو تباہ کر ڈالا ، یہ امداد تو اُس کا دس فیصد بھی نہیں ہے




فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اگر آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی امداد کو وصول کرنا درست نہيں ہے تو پھر آپ اس بارے ميں کيا کہيں گے کہ تربلہ ڈيم جس سے لاکھوں پاکستانيوں کی توانائ کی ضروريات پوری ہوتی ہيں، وہ بھی يو ايس ايڈ کے تعاون سے ہی وجود ميں آيا تھا۔ کيااسے بھی آپ غلط قرار ديں گے؟


اور پھر اسی حوالے سے يہ حقائق بھی توجہ طلب ہيں کہ پاکستان ميں حاليہ اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق سال 2011 -12 کے دوران امريکہ ميں مقيم پاکستانيوں کی جانب سے ملک ميں جو زرد مبادلہ بيجھا گيا ہے وہ کل آمدنی کا 7۔17 فيصد يعنی کہ 4۔1922 ملين ڈالرز ہے۔

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ يہ بات پاکستان کے مفاد ميں ہے کہ دونوں ممالک کے مابين تعلقات کو منقطع کر ديا جائے اور اس امريکی امداد کو بھی مسترد کر ديا جائے جس سے لاکھوں عام پاکستانی شہريوں کے مفادات بالواسطہ يا بلاواسطہ وابستہ ہيں؟



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://s24.postimg.org/k2f8yogth/olson_Pesh.jpg
 

سید زبیر

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


امريکہ کی خارجہ پاليسی کے حوالے سے عمومی تاثر اور نظريات کی بنياد پر يک طرفہ سوچ کا اظہار يقينی طور پر سہل ہے۔ اگر امريکہ کی عراق اور افغانستان ميں فوجی مداخلت وسائل اور اہم کاروباری روٹس پر قبضے کی پاليسی کا نتيجہ ہے تو سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ ان "نئے خزانوں" کے "مثبت" اثرات کيوں منظرعام پر نہيں آئے؟
کيا آپ ديانت داری کے ساتھ يہ دعوی کر سکتے ہيں کہ آج امريکہ افغانستان اور عراق سے لوٹے ہوئے وسائل کی بدولت معاشی ترقی کے عروج پر ہے؟
عراق کا تیل اور افغانستان کی معدنیات ، اور وسطی ایشیا کے ممالک تک رسائی ہی آپ کا ہدف ہیں ۔
۔۔

حقيقت يہ ہے کہ آج کے دور ميں کسی بھی ملک کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ دور دراز کے علاقوں کے وسائل پر زبردستی قبضہ کر کے ترقی کے زينے طے کرے۔ يہ سوچ اور پاليسی تاريخی ادوار ميں يقينی طور پر اہم رہی ہے ليکن موجودہ دور ميں ہر ملک کو معاشرتی، سياسی اور معاشی فرنٹ پر جنگ کی قيمت چکانا پڑتی ہے۔ اس تناظر ميں امريکہ سميت کسی بھی ملک کے ليے جنگ کا آپشن پسنديدہ نہيں ہوتا۔
اسی تناظر میں امریکہ کا سلحہ عالمی منڈی میں فروخت ہورہا ، وار انڈسٹری جو کہ یہودیوں کے قبضے میں ہے دن دگنی رات چوگنی ترقی کرہی ہے ۔ اسی وار انڈسٹریز سے امریکی دانشوروں اور مفکرین نے امریکی حکومت کو دور رہنے کی تاکید کی تھی ۔

صدر اوبامہ نے امريکی فوجيوں سے اپنے خطاب ميں جنگ کے حوالے سے درپيش چيلنجز اور منفی اثرات کے حوالے سے ہی اظہار خيال کيا تھا۔


" میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں فوجی طاقت کے استعمال میں احتیاط سے کام لینا چاہیئے اور ہمیشہ یہ سوچنا چاہیئے کہ ہمارے افعال کے طویل المدت نتائج کیا ہوں گے۔ ہمیں جنگ لڑتے ہوئے اب آٹھ برس ہو چکے ہیں، اور ہمیں انسانی زندگی اور وسائل کی شکل میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے ۔ ہمیں عظیم کساد بازاری کے بعد پہلی بار جس بد ترین اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امریکی عوام کی توجہ ہماری اپنی معیشت کی تعمیرِ نو پر، اور ملک میں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے پر ہے ۔
ہم ان جنگوں پر اٹھنے والے اخراجات کو آسانی سے نظر انداز نہیں کر سکتے۔


جب میں نے اپنا منصب سنبھالا تو عراق اور افغانستان کی جنگوں میں اٹھنے والے اخراجات ایک کھرب ڈالر تک پہنچ چکے تھے ۔ افغانستان میں ہمارے نئے لائحہ عمل سے امکان ہے اس سال فوج پر ہمارے لگ بھگ 30 ارب ڈالر خرچ ہوں گے


اگر میں یہ نہ سمجھتا کہ افغانستان میں امریکہ کی سلامتی اور امریکہ کے لوگوں کی حفاظت داؤ پر لگی ہوئی ہے، تو میں بخوشی اپنے ہر فوجی کی کل ہی واپسی کا حکم دے دیتا"
یہی وہ مضحکہ خیز بات ہے جو امریکہ ویت نام ، عراق ، سوڈان ، کیوبا ، صومالیہ جیسے غریب ممالک پر حملہ آور ہوتے ہوءے کہتا ہے ، کہ یہ غیر ترقی یافتہ ، پسماندہ ملک ایک ترقی یافتہ ملک کے لیے خطرہ ہیں ۔ ہا ہا ہا


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://s24.postimg.org/k2f8yogth/olson_Pesh.jpg
 

سید زبیر

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اگر آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی امداد کو وصول کرنا درست نہيں ہے تو پھر آپ اس بارے ميں کيا کہيں گے کہ تربلہ ڈيم جس سے لاکھوں پاکستانيوں کی توانائ کی ضروريات پوری ہوتی ہيں، وہ بھی يو ايس ايڈ کے تعاون سے ہی وجود ميں آيا تھا۔ کيااسے بھی آپ غلط قرار ديں گے؟
جناب ! پاکستان کے ا ُس وقت کے سربراہ صدر ایوب خان نے Friends Not Master لکھ کر آپ کو اس کا انتہائی واضح جواب دے دیا تھا ۔ اگر وہ چند سال مزید رہتا تو وہ یقینآ یو ایس ایڈ کی لعنت کو ملک سے باہر نکال پھینکتا ۔

اور پھر اسی حوالے سے يہ حقائق بھی توجہ طلب ہيں کہ پاکستان ميں حاليہ اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق سال 2011 -12 کے دوران امريکہ ميں مقيم پاکستانيوں کی جانب سے ملک ميں جو زرد مبادلہ بيجھا گيا ہے وہ کل آمدنی کا 7۔17 فيصد يعنی کہ 4۔1922 ملين ڈالرز ہے۔
محترم ! یہ جفا کش اور محنتی پاکستانی امریکہ کو ٹیکس بھی دیتے ہیں ۔ وہاں کی معیشیت میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں ۔ مفت میں امریکہ میں نہیں رہتے جس طرح امریکہ پاکستان میں ٹیکس فری رہ رہا ہے ، اور بے بہا مراعات حاصل ہیں

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ يہ بات پاکستان کے مفاد ميں ہے کہ دونوں ممالک کے مابين تعلقات کو منقطع کر ديا جائے اور اس امريکی امداد کو بھی مسترد کر ديا جائے جس سے لاکھوں عام پاکستانی شہريوں کے مفادات بالواسطہ يا بلاواسطہ وابستہ ہيں؟
امریکہ تو کیا پاکستان ی عوام تو بھارت سے بھی دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں ، آپ کا یہ سوال بُش کے سوال کی مانند ہے کہ یا دوستی (غلامی) کرو یا دشمنی کرو ، دنیا میں پاکستان کے تمام ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں اور ہر مصیبت میں چین ، جرمنی ، فرانس ، جیسے کئی ممالک نے ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے مگر امریک جس طرح کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے وہ غلط ہے


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://s24.postimg.org/k2f8yogth/olson_Pesh.jpg
 

سید زبیر

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ



دانش کا تقاضا يہ ہے کہ ہر بات کا تجزيہ اس کے درست تناظر ميں کيا جانا چاہیے۔

پاک ايران گيس پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے امريکی موقف کو "سنگين نتائج کی دھمکی" جيسی اصطلاح کے ذريعے بيان کرنا صريح غلط ہے۔ اس ايشو کے حوالے سے امريکی موقف مستقل اور ايرانی حکومت کے خلاف اقوام متحدہ کی پہلے سے موجود پابنديوں کی روشنی ميں ہے۔

ہم اس بات سے بخوبی واقف ہيں کہ پاکستان کی توانائ کے حوالے سے بے شمار ضرورتيں ہيں اور ہم نے کئ دہائيوں سے پاکستان کی مدد کرنے کے ليے کوششيں کی ہيں۔
نتیجہ ؛ پاکستان تیل کا بہت بڑا گاہکبن گیا ، امریکی تیل بک رہا ہے

اس ميں کوئ شک نہيں کہ ايران، پاکستان اور افغانستان کے درميان تيل کی پائپ لائن کے حوالے سے ہماری پاليسی اور نقطہ نظر ہے۔ ہماری اس پاليسی کی بنياد ہماری عالمی ذمہ داريوں اور اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی جانب سے نافذ کردہ قواعد وضوابط کی پابندی کے حوالے سے ہمارا مصم ارادہ اور سوچ ہے۔ اپنی اس پاليسی کی وضاحت اور ہماری سينير سفارتی عہديداروں کی جانب سے اپنے نقطہ نظر کو پيش کرنے کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ خطے ميں اپنے اتحادی اور اسٹريجک شراکت دار جو ہماری سوچ سے متفق نہيں ہيں، ان کو ہم دھمکی دے رہے ہيں۔


جہاں تک امريکی حکومت کا تعلق ہے تو ہم اس بات پر پختہ يقين رکھتے ہيں کہ ايران يہ پيش کش اس ليے کر رہا کيونکہ دنيا بھر ميں بے شمار ممالک نے ايران سے تيل کی خريداری ميں کمی کا فيصلہ کر ليا ہے۔ ايرانی حکومت کی جانب سے کاروباری معاملات ميں عدم شفافيت کی ايک طويل تاریخ ہے۔ ہم تمام ممالک کو ايسے ايرانی اداروں کے ساتھ روابط استوار کرنے کے ضمن ميں خبردار کرتے ہيں جن کے نتيجے ميں عالمی پابندياں کا امکان پيدا ہوتا ہے يا ايرانی حکومت انھيں منفی انداز ميں استعمال کر سکتی ہے۔
اس لیے کہ مسلم ملک سے آپ کے تیل کی منڈی پر اثر پڑتا ہے ۔ ورنہ دنیا کے بے شمار ممالک نے ڈرون پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے ۔اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے
ہم عالمی برادری کے ساتھ مل کر ايران پر دباؤ بڑھا رہے ہيں تا کہ وہ اپنی عالمی ذمہ دارياں اور اپنے خفيہ ايٹمی پروگرام کے حوالے سے عالمی خدشات دور کرے۔ اس ضمن ميں موجود پابندياں اور ان سے متعلق قوانين کے عين مطابق ہم چاہتے ہيں کہ زيادہ سے زيادہ ممالک ايران ميں توانائ کے حوالے سے سرمايہ کاری نہ کريں جس ميں ايران کے سينٹرل بنک سے وابسطہ ترسيل کے بعض معاملات بھی شامل ہيں۔
تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کو امریکی ایٹمی پروگرام ہی سے صرف نقصان پہنچا ہے ۔ آج ستر سال گزرنے کے باوجود بھی جاپان کے ہمراہ دیگر ممالک بھی امریکہ کو برا بھلا کہتے ہیں


اگر پاکستان اور ايران کے مابين تيل کی پائپ لائن کا قيام عمل ميں آتا ہے تو سال 2011 کے نيشنل ڈيفنس آتھراذائنيشن ايکٹ اور ايران پر پابندی کے حوالے سے موجود ايکٹ کے ضمن ميں شديد خدشات جنم ليں گے۔ ايران پہلے ہی اقوام متحدہ کی ايسی کئ قراردادوں کی زد ميں ہے جس کے نتيجے میں اسے پابنديوں کا سامنا ہے۔
امریکہ کو ڈرون پر پابندیوں کا کب سامنا کرنا پڑے گا


ايران کے خلاف عالمی پابنديوں کی موجودگی ميں ہم نے پاکستان کی حکومت کے ساتھ يہ معاملہ اٹھايا ہے اور ہم ان کو ترغيب دے رہے ہيں کہ وہ اس ضمن ميں متبادل آپشن پر غور کريں۔
متبادل آپشن آپ سے مہنگا تیل خریدیں



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://s24.postimg.org/k2f8yogth/olson_Pesh.jpg
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


کسی بھی دو ممالک کے مابين تعلقات کا دارومدار باہمی مفادات، دو طرفہ امور پر ہونے والے مذاکرات، معاہدوں، اور دونوں ممالک کے عوام کی بہتری اور فلاح کے ليے مواقعوں کی جستجو پر مبنی ہوتا ہے۔ اس تناظر ميں امريکہ اور بھارت کے مابين سول نيوکلير معاہدے يا کسی بھی قسم کے معاہدے کا امريکہ اور پاکستان کے مابين تعلقات کی نوعيت پر کوئ اثر نہيں پڑے گا۔


دو ممالک کے مابين تعلقات ہميشہ ادلے اور بدلے کی بنياد پر نہيں ہوتے۔ مثال کے طور پر فرانس اور پاکستان کے مابين سول نيوکلير معاہدے کے حوالے سے بات چيت کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ فرانس بھارت کے ساتھ بھی اسی قسم کا معاہدہ کرے۔


http://www.geo.tv/6-4-2009/43480.htm

اسی طرح جب امريکہ نے پاکستان کے ليے 5۔1 بلين ڈالرز کی امداد کا پيکج منظور کيا تو اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ بھارت کو بھی اسی طرح کا پيکج فراہم کيا جائے۔ يہ حالات و واقعات، ضروريات اور حکومت پاکستان کی درخواست پر فوری ملکی مسائل کے عين مطابق ہے۔


امريکہ اور بھارت کے مابين سول نيوکلير معاہدہ دونوں ممالک کے مندوبين کی جانب سے کئ ماہ کے مذاکرات، ملاقاتوں اور دو طرفہ امور پر بات چيت اور طے پانے والے امور کا نتيجہ ہے۔


بھارت اور پاکستان دو مختلف ممالک ہيں جن کی ضروريات اور تاريخ بالکل مختلف ہے۔ پاکستان کے ساتھ امريکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں تعاون کے علاوہ مضبوط اور پائيدار تعلقات کا خواہ ہے۔ جہاں تک سول نيوکلير ڈيل کا سوال ہے تو اس کے ليے ضروری ہے کہ کوشش اور عزم کا اظہار دونوں جانب سے کيا جائے۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://s24.postimg.org/k2f8yogth/olson_Pesh.jpg

آپ نے پاکستان کے ساتھ مخلصانہ دوستی ثابت نہیں کی جب تک حکیم اللہ محسود پاکستانی فورسز پر حملے کرتا رہا اور بے گناہ شہریوں کو شہید کرتا رہا آپ کے ڈرونز نے اس کو کچھ نہیں کہا، لیکن جب وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہوا تو آپ نے اس کو مار دیا، تاکہ مذاکرات کے ذریعے امن نا ہو بلکہ باقی کے طالبان انتقام کے لئے اندھے ہو کر دوبارہ پاکستانیوں پر حملے شروع کر دیں۔ آپ نے نیک محمد اور بیت اللہ محسود کو بھی اسی وقت مارا تھا جب وہ پاکستان کے ساتھ امن کے لئے تیار ہوگئے تھے۔ یہ کیسی دوستی ہے آپ کی؟
 
Top