حسینی
محفلین
پاکستان کا دجال میڈیا
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں میڈیا کی اہمیت سے کوئی ذی شعور انسان انکار نہیں کرسکتا۔میڈیا ایک بہت بڑی طاقت بن کر سامنے آچکا ہے، ایک ایسی طاقت اور ایک ایسا طوفان کہ جو عوامی شعور کو جو رخ دینا چاہے دے لے۔
البتہ میڈیا کی یہ تاریخ بہت پرانی ہے۔ لیکن آج کے اس ترقی یافتہ دور میں میڈیا جتناطاقتور ہے تاریخ میں ایسا کبھی نہ تھا۔ میڈیا کی طاقت اتنی ہے کہ وہ دن کو رات، رات کو دن، سفید کو سیاہ، سیاہ کو سفید اور مجرم کو بے گناہ اور پل بھر میں بے گناہ کو مجر م بنا سکتا ہے۔ اور اس پروپیگنڈا مہم سے عام طور پر سادہ لوح عوام بہت جلد متاثر ہوتے ہیںاور ان باتوں پر جلد یقین کرنے لگ جاتے ہیں۔
میڈیا کے اس طوفان بد تمیز میں اگر ہم پاکستان کے میڈیا کی بات کریں تو اس میں سب سے نمایاں صفت دجالیت کی نظر آتی ہے۔ دجالیت سے مراد ہر حقیقت اور ہر واقعے کو صرف ایک آنکھ سے دیکھنا ہے۔ دجالیت کی تازہ مثال آپ نے یوم عشق رسول (ص) میں ملاحظہ کیا۔ پورا میڈیا بڑے زور وشور سے چند شرپسندوں کے ہنگامے ، توڑ پھوڑ، فائرنگ اور دہشت گردی کوتو دکھارہا تھا، لیکن تمام میڈیا نے ملک کے طول وعرض میں نکلنے والے ہزاروں پرامن ریلیوں اور احتجاجی جلسوں کو تاق نسیان میں رکھ دیا اور ان کو کوئی اہمیت نہ دی۔ حالانکہ میڈیا پوری دنیا کے سامنے پاکستانی عوام کا یہ مثبت پہلو بھی پیش کرسکتا تھا۔اس کے علاوہ پورے عالم اسلام اور مغربی ممالک میں نکلنے والے احتجاجی جلوس اور عشق نبی (ص) کے عملی مظاہروں کو ہمارے میڈیا نے کما حقہ اہمیت نہیں دی۔
ایک اور تازہ مثال ملالہ کا واقعہ ہے۔ اس واقعہ میں یقینا میڈیا کو ملالہ کا ساتھ دینا چاہیے تھا، یقینا عالمی سطح پر اس مسئلے کو اٹھانا چاہیے تھا۔ یقینا ہم ہر مظلوم کے ساتھ ہیں اور ہر ظالم کے خلاف ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ کیا ملک کے طول وعرض میں روزانہ دسیوں ملالوں کے ساتھ اس سے بڑے اور برے واقعات نہیں ہوتے۔ اس وقت میڈیا کہاں ہوتا ہے۔ روزانہ دہشت گردی کے واقعات میں دسیوں مومنین شہید ہو جاتے ہیں ، ان شہداء کا سارا خاندان اجڑ جاتا ہے، اس وقت میڈیا کیوں شور نہیں مچاتا؟؟ کیا ان شہیدوں کی بیٹیاں ملالہ سے کم ہیں؟؟ کیا ان شہیدوں کا خون ملالہ کے خون سے ارزاں ہے؟؟ یاشاید وجہ یہ ہو کہ ملالہ کے واقعہ کی اصل کڑیاں امریکی سفارت خانے سے ملتی ہیں، جہاں ملالہ اور اس کے والدین امریکیوں سے ہدایات لے رہے ہیں۔ یا شاید یہ وجہ ہو کہ ملالہ کا آیڈیل بارک اوبامہ ہے، جبکہ یہ شہید اور ان کی بیٹیاں امریکہ اور اوبامہ سے نفرت کرتے ہیں۔
پاکستان کے میڈیا کا ایک اور اہم مسئلہ اس کی محدودیت ہے۔ پاکستان کے تمام نیوز چینلز کی ٩٥ فی صد خبریں صرف قومی خبریں ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں کیا ہو رہا ہے اس سے پاکستانی عوام غالبا بے خبر ہی ہوتی ہے۔ میڈیا میں بین الاقوامی خبریں زیادہ سے زیادہ دو چار منٹ کے لےے ہوتی ہیں۔اور وہ خبریں بھی اکثر انتہائی مضحکہ خیز ہوتی ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے جاری عرب دنیا کے تحولات کے دوران پاکستانی میڈیا کی تہی دامنی اور بے چارگی شدت سے محسوس کی گئی۔ اکثر چینیلز ایسے ہیں جن کے نمائندے شاید ہی دنیا کے صرف چند ممالک میں ہوں۔ لہذا پاکستانی عوام دنیابھر میں ہونے والے تحولات اور ان کے نتائج سے بے خبر ہی رہتے ہیں۔ اور اس بات کی توقع تو انتہائی بعید ہے کہ بین الاقوامی سیاسی معاملات پر ٹاک شوز اور بحث ومباحثے ہوں۔
اور ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی خبروں کے حوالے سے اکثر ہمارے میڈیا کے ذرائع مغربی میڈیا ہی ہیں۔لہذا اکثر خبریں وہی ہوتی ہیں جو مغربی میڈیا دکھانا چاہے۔ مثلا شام میں موجودہ حالات کے حوالے سے ہمارے تمام الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا تمام ترتکیہ مغربی نیوز ایجنسیز پر ہیں۔زمینی حقائق اور اصل واقعات کا کسی کو علم نہیں۔ لہذا اکثر خبریں یا تو جھوٹی ہوتی ہیں یا ان میں انتہائی حد تک مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اس طرح سے عوامی ذہن چاہتے یا ناچاہتے ہوئے وہی بن جاتا ہے جو اہل مغرب اور ان حواری چاہتے ہیں۔ بلکہ اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ معروف شہروں اورشخصیات کے نام تک غلط لکھا اور پڑھا گیا۔ ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ میڈیا میں کسی حد تک کمزوری ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اردو بولنے والے حضرات کے لیے عالمی معیار کو کوئی نیوز چینل ہو جس کے نمائندے پوری دنیا میں پھیلے ہوں۔جیسے ایران نے عربی میں العالم اور انگریزی میں پریس ٹی وی کے نام سے چینلز شروع کر رکھے ہیں۔ اور یہ چینل پوری دنیا سے انتہائی دیانتداری کے ساتھ تمام تر تحولات کی خبریں دے اور ان واقعات وحادثات پر ماہرین تجزیہ وتحلیل کریں تاکہ ہماری عوام دنیا بھر کے حالات سے با خبر رہے۔ایسا نہ ہو کہ ہم صرف پاکستان تک محدود ہو کر رہ جائیں۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں میڈیا کی اہمیت سے کوئی ذی شعور انسان انکار نہیں کرسکتا۔میڈیا ایک بہت بڑی طاقت بن کر سامنے آچکا ہے، ایک ایسی طاقت اور ایک ایسا طوفان کہ جو عوامی شعور کو جو رخ دینا چاہے دے لے۔
البتہ میڈیا کی یہ تاریخ بہت پرانی ہے۔ لیکن آج کے اس ترقی یافتہ دور میں میڈیا جتناطاقتور ہے تاریخ میں ایسا کبھی نہ تھا۔ میڈیا کی طاقت اتنی ہے کہ وہ دن کو رات، رات کو دن، سفید کو سیاہ، سیاہ کو سفید اور مجرم کو بے گناہ اور پل بھر میں بے گناہ کو مجر م بنا سکتا ہے۔ اور اس پروپیگنڈا مہم سے عام طور پر سادہ لوح عوام بہت جلد متاثر ہوتے ہیںاور ان باتوں پر جلد یقین کرنے لگ جاتے ہیں۔
میڈیا کے اس طوفان بد تمیز میں اگر ہم پاکستان کے میڈیا کی بات کریں تو اس میں سب سے نمایاں صفت دجالیت کی نظر آتی ہے۔ دجالیت سے مراد ہر حقیقت اور ہر واقعے کو صرف ایک آنکھ سے دیکھنا ہے۔ دجالیت کی تازہ مثال آپ نے یوم عشق رسول (ص) میں ملاحظہ کیا۔ پورا میڈیا بڑے زور وشور سے چند شرپسندوں کے ہنگامے ، توڑ پھوڑ، فائرنگ اور دہشت گردی کوتو دکھارہا تھا، لیکن تمام میڈیا نے ملک کے طول وعرض میں نکلنے والے ہزاروں پرامن ریلیوں اور احتجاجی جلسوں کو تاق نسیان میں رکھ دیا اور ان کو کوئی اہمیت نہ دی۔ حالانکہ میڈیا پوری دنیا کے سامنے پاکستانی عوام کا یہ مثبت پہلو بھی پیش کرسکتا تھا۔اس کے علاوہ پورے عالم اسلام اور مغربی ممالک میں نکلنے والے احتجاجی جلوس اور عشق نبی (ص) کے عملی مظاہروں کو ہمارے میڈیا نے کما حقہ اہمیت نہیں دی۔
ایک اور تازہ مثال ملالہ کا واقعہ ہے۔ اس واقعہ میں یقینا میڈیا کو ملالہ کا ساتھ دینا چاہیے تھا، یقینا عالمی سطح پر اس مسئلے کو اٹھانا چاہیے تھا۔ یقینا ہم ہر مظلوم کے ساتھ ہیں اور ہر ظالم کے خلاف ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ کیا ملک کے طول وعرض میں روزانہ دسیوں ملالوں کے ساتھ اس سے بڑے اور برے واقعات نہیں ہوتے۔ اس وقت میڈیا کہاں ہوتا ہے۔ روزانہ دہشت گردی کے واقعات میں دسیوں مومنین شہید ہو جاتے ہیں ، ان شہداء کا سارا خاندان اجڑ جاتا ہے، اس وقت میڈیا کیوں شور نہیں مچاتا؟؟ کیا ان شہیدوں کی بیٹیاں ملالہ سے کم ہیں؟؟ کیا ان شہیدوں کا خون ملالہ کے خون سے ارزاں ہے؟؟ یاشاید وجہ یہ ہو کہ ملالہ کے واقعہ کی اصل کڑیاں امریکی سفارت خانے سے ملتی ہیں، جہاں ملالہ اور اس کے والدین امریکیوں سے ہدایات لے رہے ہیں۔ یا شاید یہ وجہ ہو کہ ملالہ کا آیڈیل بارک اوبامہ ہے، جبکہ یہ شہید اور ان کی بیٹیاں امریکہ اور اوبامہ سے نفرت کرتے ہیں۔
پاکستان کے میڈیا کا ایک اور اہم مسئلہ اس کی محدودیت ہے۔ پاکستان کے تمام نیوز چینلز کی ٩٥ فی صد خبریں صرف قومی خبریں ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں کیا ہو رہا ہے اس سے پاکستانی عوام غالبا بے خبر ہی ہوتی ہے۔ میڈیا میں بین الاقوامی خبریں زیادہ سے زیادہ دو چار منٹ کے لےے ہوتی ہیں۔اور وہ خبریں بھی اکثر انتہائی مضحکہ خیز ہوتی ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے جاری عرب دنیا کے تحولات کے دوران پاکستانی میڈیا کی تہی دامنی اور بے چارگی شدت سے محسوس کی گئی۔ اکثر چینیلز ایسے ہیں جن کے نمائندے شاید ہی دنیا کے صرف چند ممالک میں ہوں۔ لہذا پاکستانی عوام دنیابھر میں ہونے والے تحولات اور ان کے نتائج سے بے خبر ہی رہتے ہیں۔ اور اس بات کی توقع تو انتہائی بعید ہے کہ بین الاقوامی سیاسی معاملات پر ٹاک شوز اور بحث ومباحثے ہوں۔
اور ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی خبروں کے حوالے سے اکثر ہمارے میڈیا کے ذرائع مغربی میڈیا ہی ہیں۔لہذا اکثر خبریں وہی ہوتی ہیں جو مغربی میڈیا دکھانا چاہے۔ مثلا شام میں موجودہ حالات کے حوالے سے ہمارے تمام الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا تمام ترتکیہ مغربی نیوز ایجنسیز پر ہیں۔زمینی حقائق اور اصل واقعات کا کسی کو علم نہیں۔ لہذا اکثر خبریں یا تو جھوٹی ہوتی ہیں یا ان میں انتہائی حد تک مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اس طرح سے عوامی ذہن چاہتے یا ناچاہتے ہوئے وہی بن جاتا ہے جو اہل مغرب اور ان حواری چاہتے ہیں۔ بلکہ اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ معروف شہروں اورشخصیات کے نام تک غلط لکھا اور پڑھا گیا۔ ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ میڈیا میں کسی حد تک کمزوری ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اردو بولنے والے حضرات کے لیے عالمی معیار کو کوئی نیوز چینل ہو جس کے نمائندے پوری دنیا میں پھیلے ہوں۔جیسے ایران نے عربی میں العالم اور انگریزی میں پریس ٹی وی کے نام سے چینلز شروع کر رکھے ہیں۔ اور یہ چینل پوری دنیا سے انتہائی دیانتداری کے ساتھ تمام تر تحولات کی خبریں دے اور ان واقعات وحادثات پر ماہرین تجزیہ وتحلیل کریں تاکہ ہماری عوام دنیا بھر کے حالات سے با خبر رہے۔ایسا نہ ہو کہ ہم صرف پاکستان تک محدود ہو کر رہ جائیں۔