پاکستان کا قرضہ کم ہوکر جی ڈی پی کا 84.7 فیصد ہوگیا، آئی ایم ایف

جاسم محمد

محفلین
پاکستان کا قرضہ کم ہوکر جی ڈی پی کا 84.7 فیصد ہوگیا، آئی ایم ایف
ڈان اخباراپ ڈیٹ 28 دسمبر 2019

اسلام آباد: پاکستان کا حکومتی قرضہ (بشمول ضمانتی و انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے قرض) جی ڈی پی کے 88 فیصد سے کم ہوکر 84.7 فیصد ہوگیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے جاری کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق قرضوں میں یہ کمی بنیادی طور پر رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ کے دوران اخراجات کو کم کرنے، بنیادی بجٹ سرپلس رجسٹر کرنے اور ٹیکس اور غیر ٹیکس محصولات میں اضافے ہوا۔

آئی ایم ایف نے مذکورہ پیش رفت کو حکومت کی عمدہ کارکردگی سے منصوب کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی سال 20-2019 کی پہلی سہ ماہی موجودہ حکومت کی جانب سے بجٹ پر عمل در آمد میں بہتری آئی جس کی وجہ سے جی ڈی پی کا 0.6 فیصد کا بنیادی سرپلس اور 0.6 فیصد کا مجموعی خسارہ سامنے آیا۔

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا تھا کہ ’کارکردگی میں بہتری غیر محصولاتی ریوینو اور ریفنڈز کے ٹیکس ریوینو نیٹ میں اضافے کی وجہ سے ہوئی‘۔

آئی ایم ایف کے مطابق اس دوران درآمدات میں کمی، کسٹمز رسیدوں اور دیگر بیرونی شعبوں سے متعلق ٹیکسز (سالانہ 6 فیصد تک) مشکلات کا سامنا رہا جبکہ صوبوں کی جانب سے اخراجات قدرے احتیاط سے کیے گئے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی سال 2019 میں بجٹ میں جی ڈی پی کا 3.5 فیصد اور مجموعی طور پر 8.9 فیصد خسارہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ ہدف بالترتیب 0.8 فیصد اور 7 فیصد طے کیا گیا تھا۔

آئی ایم ایف کے مطابق وفاقی سطح پر محصولات جمع کرنے کی شرح جی ڈی پی کے 2 فیصد تک رہی جو امید سے کہیں کم رہی جبکہ کل اخراجات اور صوبائی مالی توازن بھی بڑھ رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق محصولات میں تین چوتھائی شارٹ فال انہی بنیادوں پر ہوئی جو مالی سال 2020 میں نہیں ہونے چاہیے تھے۔

آئی ایم ایف کے مطابق ٹیلی کام کے لائسنسز کی تجدید اور سرکاری اثاثوں کی فروخت میں تاخیر سمیت کمزور ایمنسٹی اسکیم کے باعث جی ڈی پی میں صرف 1 فیصد اضافے کا باعث بنا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اسٹیٹ بینک کے منافع کو بجٹ میں منتقل کرنے میں شارٹ فال، مالی سال 2019 کے آخر میں زر مبادلہ کی شرح میں کمی سے متعلق نقصانات نے جی ڈی پی میں 0.5 فیصد اضافہ ہوا۔

حکومت کی جانب سے ممکنہ طور پر نامناسب مارکیٹ کی صورتحال کے خلاف مالی اعانت فراہم کرنے کے لیے کیش ڈپازٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کے فیصلے کے باوجود مالی تخفیف اور زر مبادلہ کی شرح میں کمی کے نتیجے میں حکومتی قرض (بشمول ضمانتوں اور آئی ایم ایف کے قرضے) جی ڈی پی کی 88 فیصد ہوگئے۔

محصولات کی وصولی میں حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی سال 2019 کے پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں 34 فیصد شرح نمو کے ساتھ مجموعی محصول جی ڈی پی کے 0.2 فیصد کے ذریعہ طے شدہ تخمینے سے زیادہ کارکردگی رہی۔

رپورٹ کے مطابق مالی سال 2020 کے آغاز پر نافذ ٹیکس پالیسی کے اقدامات کے نتیجے میں ایف بی آر کے ذریعہ جمع شدہ ٹیکس کے گھریلو حصے سے 25 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

علاوہ ازیں ٹیکس چھوٹ کے خاتمے، صفر اور کم شرح کرنا جیسے اقدامات کا نشانہ بننے والے فروخت اور براہ راست ٹیکس میں نمو مضبوط تھی۔

عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق اس کے پیش نظر پاکستان میں ٹیکس کا مجموعی ریوینو کی 40 فیصد سے زیادہ رقم درآمدی مرحلے پر جمع کی جاتی ہے، اس کمی نے مجموعی طور پر ٹیکس محصولات کی کارکردگی پر ایک قابل ذکر اثر ڈالا جو طے کیے گئے ہدف سے جی ڈی پی کا 0.2 فیصد کم رہا۔
 

زیرک

محفلین
پاکستان کا قرضہ کم ہوکر جی ڈی پی کا 84.7 فیصد ہوگیا، آئی ایم ایف
ڈان اخباراپ ڈیٹ 28 دسمبر 2019
عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا تھا کہ ’کارکردگی میں بہتری غیر محصولاتی ریوینو اور ریفنڈز کے ٹیکس ریوینو نیٹ میں اضافے کی وجہ سے ہوئی‘۔
آئی ایم ایف کے مطابق اس دوران درآمدات میں کمی، کسٹمز رسیدوں اور دیگر بیرونی شعبوں سے متعلق ٹیکسز (سالانہ 6 فیصد تک) مشکلات کا سامنا رہا جبکہ صوبوں کی جانب سے اخراجات قدرے احتیاط سے کیے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی سال 2019 میں بجٹ میں جی ڈی پی کا 3.5 فیصد اور مجموعی طور پر 8.9 فیصد خسارہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ ہدف بالترتیب 0.8 فیصد اور 7 فیصد طے کیا گیا تھا۔
آئی ایم ایف کے مطابق وفاقی سطح پر محصولات جمع کرنے کی شرح جی ڈی پی کے 2 فیصد تک رہی جو امید سے کہیں کم رہی جبکہ کل اخراجات اور صوبائی مالی توازن بھی بڑھ رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق محصولات میں تین چوتھائی شارٹ فال انہی بنیادوں پر ہوئی جو مالی سال 2020 میں نہیں ہونے چاہیے تھے۔
حکومت کی جانب سے ممکنہ طور پر نامناسب مارکیٹ کی صورتحال کے خلاف مالی اعانت فراہم کرنے کے لیے کیش ڈپازٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کے فیصلے کے باوجود مالی تخفیف اور زر مبادلہ کی شرح میں کمی کے نتیجے میں حکومتی قرض (بشمول ضمانتوں اور آئی ایم ایف کے قرضے) جی ڈی پی کی 88 فیصد ہوگئے۔
رپورٹ کے مطابق مالی سال 2020 کے آغاز پر نافذ ٹیکس پالیسی کے اقدامات کے نتیجے میں ایف بی آر کے ذریعہ جمع شدہ ٹیکس کے گھریلو حصے سے 25 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق اس کے پیش نظر پاکستان میں ٹیکس کا مجموعی ریوینو کی 40 فیصد سے زیادہ رقم درآمدی مرحلے پر جمع کی جاتی ہے، اس کمی نے مجموعی طور پر ٹیکس محصولات کی کارکردگی پر ایک قابل ذکر اثر ڈالا جو طے کیے گئے ہدف سے جی ڈی پی کا 0.2 فیصد کم رہا۔
یہ خبر نظر نہیں آئی؟ یا اپنی پسند کی خبر ہی لگاتے ہو؟ اس لگائی خبر میں بھی سوائے معمولی کمی کے زیادہ تر باتیں مثبت نہیں ہیں۔ اب تقریر جھاڑ خان سے کہو ان 40 ہزار کی نوکریوں کا بندوبست کرے، اگر دوستوں اور ڈونرز کو نوکریاں بانٹنے کے بعد کوئی بچ گئی تو کسی خوش نصیب کو شاید ہی کچھ ملے۔
پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد کو سعودی عرب سے ملک بدر کر دیا گیا - روزنامہ اوصاف
 

جاسم محمد

محفلین
یہ خبر نظر نہیں آئی؟ یا اپنی پسند کی خبر ہی لگاتے ہو؟ اس لگائی خبر میں بھی سوائے معمولی کمی کے زیادہ تر باتیں مثبت نہیں ہیں۔
پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اس مثبت خبر میں بھی لبرل، اپوزیشن، لفافے کوئی نہ کوئی منفی بات ڈھونڈ لیں گے۔ :)
عمران خان نے 15 ماہ میں پاکستان کی 72 سالہ بہترین معیشت تباہ کر دی۔ اپوزیشن، لبرل، لفافوں کا متوقع رد عمل۔
 
Top