فاتح فخر نوید نے محض ایک معلومات بہم پہنچائی ہے، یہ تو نہیں کہا کہ ترانہ ہی میں نے لکھا تھا!!! سب لوگ فخر نوید کے پیچھے ہی پڑ گئے ہیں۔ جہاں سپیم لگے وہاں بے شک فخر میاں کو بھلا برا کہیں، لیکن یہاں تو انصاف کریں۔ انہوں نے مفید معلومات دی ہے، جو میرے علم میں بھی نہیں تھا۔
ترانہ بدلنے کی اصل وجہ شاید یہ ہو کہ شاید 1949 میں ہی آزاد ہندوستان ہجرت کر گئے تھے۔ اور ایک ہندوستانی کا لکھا ہوا ترانہ کس طرح قبول کیا جا سکتا تھا؟
اعجاز صاحب! یوں تو عارف کریم صاحب نے جواب دے ہی دیا ہے کہ اعتراض "معلومات بہم پہنچانے" پر نہیں کیا جا رہا بلکہ "حوالہ دیے بغیر اپنے نام سے ارسال کرنے" پر ہے۔ کسی اور کی لکھی ہوئی تحریر کو لکھاری کا حوالہ دیے بغیر کہیں اور چھاپ دینا میرے نزدیک تو بہرحال اخلاقیات سے گری ہوئی حرکت ہے۔ مثلاً آپ کی ٹائپ کی ہوئی کتب کو ہی کوئی شخص اگر اپنے نام سے کہیں شایع کر دیتا ہے تو باوجود اس کے کہ ان کتب کے مصنف آپ نہیں لیکن آپ کی محنت تو بہرحال اس نے ہتھیا لی اور یہ حرکت یقیناً آپ اور مجھ سمیت ہر انسان کو بری لگے گی۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جس شخص یا ادارے نے وہ مواد یا تحریر شایع کی ہے اس کے اس مواد یا تحریر کے متعلق کیا تحفظات ہیں۔ وائس آف امریکا کی "کاپی رائٹ اسٹیٹمنٹ" سے ایک اقتباس:
Credit for any use of VOA material should be given to voanews.com, Voice of America, or VOA, and we ask that you not abridge or edit any VOA material which you may use.
آپ کے ساتھ ساتھ یقیناَ میرے لیے بھی یہ معلومات نئی تھی اور مجھے دکھ ہوا تھا کہ محض کسی کے ہندو ہونے کی وجہ سے اس کا لکھا ہوا ترانہ بدلا گیا ہے لیکن آپ کی اس وضاحت کے بعد کہ آزادؔ 1949 میں ہندوستان ہجرت کر گئے تھے، وہ دکھ ختم ہو گیا کہ فی الواقعہ اگر اصل وجہ کسی کا ہندو، سکھ عیسائی یا مسلمان ہونا نہیں تھی بلکہ کسی غیر ملکی باشندے کا لکھا ہوا ترانہ قابل قبول نہیں تھا تو میں بھی اسی حق میں ہوں کہ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ بہت شکریہ
امید ہے اس جسارت کا برا نہیں مانیں گے۔