اس سلسلے میں پاکستان کے ممتاز محقق جناب ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کی تازہ تحقیق جس کی روزنامہ جنگ میں دو اقساط شائع ہو چکی ہیں
جنگ 6 جون 2010
قائداعظم، جگن ناتھ آزاد اور قومی ترانہ؟...صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود
اس کالم کامقصد صرف اور صرف سچ کی تلاش ہے نہ کہ کسی بحث میں الجھنا۔ میں اپنی حد تک کھلے ذہن کے ساتھ سچ کی تلاش کے تقاضے پورے کرنے کے بعد یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ پچھلے دنوں میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک) پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ قائداعظم نے قیام پاکستان قبل 9اگست 1947 کو جگن ناتھ آزاد کو بلاکر پاکستان کاترانہ لکھنے کو کہا۔ انہوں نے پانچ دنوں میں ترانہ لکھ دیا جو قائداعظم کی منظوری کے بعد آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے نشر ہوااور پھر یہ ترانہ 18ماہ تک پاکستان میں بجتا رہا۔ جب 23فروری 1949کو حکومت ِ پاکستان نے قومی ترانے کے لئے کمیٹی بنائی تو یہ ترانہ بند کردیا گیا۔اس انکشاف کے بعد مجھے بہت سے طلبہ اوربزرگ شہریوں کے فون آئے جو حقیقت حال جاننا چاہتے تھے لیکن میرا جواب یہی تھا کہ بظاہر یہ بات قرین قیاس نہیں ہے لیکن میں تحقیق کے بغیر اس پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ چنانچہ سب سے پہلے میں نے ان سکالروں سے رابطے کئے جنہوں نے قائداعظم پر تحقیق کرتے اورلکھتے عمر گزار دی ہے۔ ان سب کاکہنا تھا کہ یہ شوشہ ہے، بالکل بے بنیاد اور ناقابل یقین دعویٰ ہے لیکن میں ان کی بات بلاتحقیق ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ قائداعظم اور جگن ناتھ کے حوالے سے یہ دعوے کرنے والے حضرات نے انٹرنیٹ پر کئی ”بلاگز“ (Blogs) میں اپنا نقطہ نظر اور من پسند معلومات فیڈ کرکے محفوظ کر دی تھیں تاکہ انٹرنیٹ کااستعمال کرنے والوں کوکنفیوز کیاجاسکے اور ان ساری معلومات کی بنیاد کوئی ٹھوس تحقیق نہیں تھی بلکہ سنی سنائی یاپھر جگن ناتھ آزاد کے صاحبزادے چندر کے آزاد کے انکشافات تھے جن کی حمایت میں چندر کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔
سچ کی تلاش میں، میں جن حقائق تک پہنچا ان کاذکر بعد میں کروں گا۔ پہلے تمہید کے طور پریہ ذکرکرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جگن ناتھ آزاد معروف شاعر تلوک چند کا بیٹا تھا ۔ وہ 1918 میں عیسیٰ خیل میانوالی میں پیدا ہوا۔ اس نے 1937 میں گارڈن کالج راولپنڈی سے بی اے اور 1944 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فارسی کیا۔ تھوڑاساعرصہ”ادبی دنیا“ سے منسلک رہنے کے بعد اس نے لاہور میں ”جئے ہند“نامی اخبار میں نوکری کرلی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ستمبر میں ہندوستان ہجرت کر گیا۔ اکتوبر میں ایک بار لاہور آیا اور فرقہ وارانہ فسادات کے خوف سے مستقل طور پر ہندوستان چلاگیا۔ وِکی پیڈیا (Wikipedia) اور All things Pakistan کے بلاگز میں یہ دعویٰ موجود ہے کہ قائداعظم نے اپنے دوست جگن ناتھ آزاد کو 9اگست کو بلا کر پاکستان کاترانہ لکھنے کے لئے پانچ دن دیئے۔ قائداعظم نے اسے فوراً منظور کیا اور یہ ترانہ اعلان آزاد ی کے بعد ریڈیو پاکستان پر چلایاگیا۔ چندر نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حکومت ِ پاکستان نے جگن کو 1979 میں صدارتی اقبال میڈل عطا کیا۔
میراپہلا ردعمل کہ یہ بات قرین قیاس نہیں ہے ، کیوں تھا؟ ہر بڑے شخص کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں ایک تصویر ہوتی ہے اور جو بات اس تصویرکے چوکھٹے میں فٹ نہ آئے انسان اسے بغیر ثبوت ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ قائداعظم سرتاپا قانونی اور آئینی شخصیت تھے۔ اس ضمن میں سینکڑوں واقعات کاحوالہ دے سکتاہوں۔ اس لئے یہ بات میری سمجھ سے بالا تر تھی کہ قائداعظم کسی کو ترانہ لکھنے کے لئے کہیں اور پھر کابینہ، حکومت یاماہرین کی رائے لئے بغیر اسے خود ہی آمرانہ انداز میں منظور کر دیں جبکہ ان کا اردو، فارسی زبان اور اردو شاعری سے واجبی سا تعلق تھا۔ میرے لئے دوسری ناقابل یقین صورت یہ تھی کہ قائداعظم نے عمر کامعتدبہ حصہ بمبئی اور دہلی میں گزارا۔ ان کے سوشل سرکل میں زیادہ تر سیاسی شخصیات، مسلم لیگی سیاستدان، وکلا وغیرہ تھے۔ پاکستان بننے کے وقت ان کی عمر 71 سال کے لگ بھگ تھی۔ جگن ناتھ آزاد اس وقت 29 سال کے غیرمعروف نوجوان تھے اور لاہور میں قیام پذیر تھے پھر وہ پاکستان مخالف اخبار ”جئے ہند“ کے ملازم تھے۔ ان کی قائداعظم سے دوستی تو کجا تعارف بھی ممکن نظر نہیں آتا۔
پھر مجھے خیال آیا کہ یہ تو محض تخیلاتی باتیں ہیں جبکہ مجھے تحقیق کے تقاضے پورے کرنے اور سچ کا کھوج لگانے کے لئے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہے۔ ذہنی جستجو نے رہنمائی کی اورکہاکہ قائداعظم کوئی عام شہری نہیں تھے جن سے جو چاہے دستک دے کرمل لے۔ وہ مسلمانان ہند و پاکستان کے قائداعظم اور جولائی 1947 سے پاکستان کے نامزد گورنر جنرل تھے۔ ان کے ملاقاتیوں کاکہیں نہ کہیں ریکارڈ موجود ہوگا۔ سچ کی تلاش کے اس سفر میں مجھے 1989میں چھپی ہوئی پروفیسر احمد سعید کی ایک کتاب مل گئی جس کا نام ہے Visitors of the Quaid-e-Azam ۔ احمد سعید نے بڑی محنت سے تاریخ وار قائداعظم کے ملاقاتیوں کی تفصیل جمع کی ہے جو 25اپریل 1948تک کے عرصے کااحاطہ کرتی ہے۔ اس کتاب میں قائداعظم کے ملاقاتیوں میں جگن ناتھ آزاد کاکہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ ”پاکستان زندہ باد“ کے مصنف سید انصار ناصری نے بھی قائداعظم کی کراچی آمد 7اگست شام سے لے کر 15 اگست تک کی مصروفیات کاجائزہ لیا ہے۔ اس میں بھی آزاد کا ذکر کہیں نہیں۔ سید انصار ناصری کو یہ تاریخی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے قائداعظم کی 3جون 1947 والی تقریرکااردو ترجمہ آل انڈیاریڈیو سے نشر کیاتھا اور قائداعظم کی مانند آخر میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بھی بلند کیا تھا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ پھر بھی میر ی تسلی نہیں ہوئی۔ دل نے کہا کہ جب 7اگست 1947 کو قائداعظم بطور نامزد گورنر جنرل دلی سے کراچی آئے تو ان کے ساتھ ان کے اے ڈی سی بھی تھے۔ اے ڈی سی ہی ملاقاتوں کا سارااہتمام کرتا اور اہم ترین عینی شاہد ہوتا ہے اورصرف وہی اس سچائی کی تلاش پر مہرثبت کرسکتا ہے۔ جب قائداعظم کراچی اترے تو جناب عطا ربانی بطور اے ڈی سی ان کے ساتھ تھے اور پھرساتھ ہی رہے۔ خدا کاشکر ہے کہ وہ زندہ ہیں لیکن ان تک رسائی ایک کٹھن کام تھا۔ خاصی جدوجہد کے بعد میں بذریعہ نظامی صاحب ان تک پہنچا۔ جناب عطا ربانی صاحب کا جچا تلا جواب تھا کہ جگن ناتھ آزاد نامی شخص نہ کبھی قائداعظم سے ملا اور نہ ہی میں نے کبھی ان کانام قائداعظم سے سنا۔ اب اس کے بعد اس بحث کا دروازہ بند ہوجاناچاہئے تھا کہ جگن ناتھ آزا د کو قائداعظم نے بلایا۔ اگست 1947 میں شدید فرقہ وارانہ فسادات کے سبب جگن ناتھ آزاد لاہور میں مسلمان دوستوں کے ہاں پناہ لیتے پھررہے تھے اور ان کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ان حالات میں ان کی کراچی میں قائداعظم سے ملاقات کاتصو ر بھی محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود جگن ناتھ آزاد نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا حالانکہ وہ پاکستان میں کئی دفعہ آئے حتیٰ کہ وہ علامہ اقبال کی صد سالہ کانفرنس کی تقریبات میں بھی مدعو تھے جہاں انہوں نے مقالات بھی پیش کئے جو اس حوالے سے چھپنے والی کتاب میں بھی شامل ہیں ۔ عادل انجم نے جگن ناتھ آزاد کے ترانے کاشوشہ چھوڑا تھا۔ انہوں نے چندر آزاد کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جگن ناتھ آزاد کو 1979 میں صدارتی اقبال ایوارڈ دیا گیا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ میں نے صدارتی اقبال ایوارڈ کی ساری فہرست دیکھی ہے اس میں آزاد کا نام نہیں۔ پھر میں کابینہ ڈویژن پہنچا اور قومی ایوارڈ یافتگان کا ریکارڈ کھنگالا۔ اس میں بھی آزاد کا نام نہیں ہے۔ وہ جھوٹ بول کر سچ کوبھی پیار آ جائے۔ اب آیئے اس بحث کے دوسرے حصے کی طرف… ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز گواہ ہیں کہ جگن ناتھ آزاد کاکوئی ترانہ یا ملی نغمہ یا کلام 1949 تک ریڈیو پاکستان سے نشر نہیں ہوا اور 15اگست کی درمیانی شب جب آزادی کے اعلان کے ساتھ پہلی بار ریڈیو پاکستان کی صداگونجی تو اس کے بعد احمد ندیم قاسمی کا یہ ملی نغمہ نشر ہوا۔
پاکستان بنانے والے، پاکستان مبارک ہو
ان دنوں قاسمی صاحب ریڈیو میں سکرپٹ رائٹر تھے۔ 15اگست کو پہلا ملی نغمہ مولانا ظفر علی خان کا نشر ہوا جس کا مصرعہ تھا ”توحید کے ترانے کی تانیں اڑانے والے“
میں نے یہیں تک اکتفا نہیں کیا۔ اس زمانے میں ریڈیو کے پروگرام اخبارات میں چھپتے تھے۔ میں نے 14 اگست سے لے کر اواخر اگست تک اخبارات دیکھے۔ جگن ناتھ آزاد کا نام کسی پروگرام میں بھی نہیں ہے۔ سچ کی تلاش میں، میں ریڈیو پاکستان آرکائیو ز سے ہوتے ہوئے ریڈیو کے سینئر ریٹائرڈ لوگوں تک پہنچا۔ ان میں خالد شیرازی بھی تھے جنہوں نے 14اگست سے21 اگست 1947 تک کے ریڈیو پروگراموں کا چارٹ بنایا تھا۔ انہوں نے سختی سے اس دعویٰ کی نفی کی۔ پھر میں نے ریڈیو پاکستان کا رسالہ ”آہنگ“ ملاحظہ کروایا جس میں سارے پروگراموں کی تفصیلات شائع ہوتی ہیں۔ یہ رسالہ باقاعدگی سے 1948 سے چھپنا شروع ہوا۔ 18ماہ تک آزاد کے ترانے کے بجنے کی خبردینے والے براہ کرم ریڈیو پاکستان اکادمی کی لائبریری میں موجود آہنگ کی جلدیں دیکھ لیں اور اپنے موقف سے تائب ہوجائیں۔ میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا کہ اگر آزادی کا ترانہ ہمارا قومی ترانہ تھا اور وہ 1949 تک نشر ہوتارہا تو پھر اس کا کسی پاکستانی کتاب، کسی سرکاری ریکارڈ میں بھی ذکر کیوں نہیں ہے اور اس کے سننے والے کہاں چلے گئے؟ اگر جگن ناتھ آزاد نے قائداعظم کے کہنے پر ترانہ لکھا تھا تو انہوں نے اس منفرد اعزاز کا کبھی ذکرکیو ں نہ کیا؟ جگن ناتھ آزاد نے اپنی کتاب ”آنکھیں ترستیاں ہیں“ (1982) میں ضمناً یہ ذکر کیا ہے کہ اس نے ریڈیو لاہور سے اپنا ملی نغمہ سنا۔ کب سنا اس کاذکر موجود نہیں۔ اگر یہ قائداعظم کے فرمان پر لکھا گیا ہوتا تو وہ یقینا اس کتاب میں اس کاذکر کرتا۔ آزاد کے والد تلوک چند نے نعتیں لکھیں۔ جگن ناتھ آزاد نے پاکستان کے لئے ملی نغمہ لکھا جو ہوسکتا ہے کہ پہلے کسی وقت ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ جگن ناتھ آزاد نہ کبھی قائداعظم سے ملے، نہ انہوں نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھا اور نہ ہی ان کا قومی ترانہ اٹھارہ ماہ تک نشر ہوتارہا یا قومی تقریبات میں بجتا رہا۔
قائداعظم بانی پاکستان اور ہمارے عظیم محسن ہیں۔ ان کے احترام کا تقاضا ہے کہ بلاتحقیق اوربغیر ٹھوس شواہد ان سے کوئی بات منسوب نہ کی جائے۔
دوسری قسط