پاکستان کا قیام کیوں ضروری تھا؟۔
اس سوال کا جواب مختلف پس منظر کے حامل افراد مختلف انداز میں دیتے رہے ہیں اور دیتے بھی رہیں گے۔ اگر ہم اس نکتے پر غور کریں کہ پاکستان کیسے اور کیوں بنا تو شاید یہ سوال مکمل ہو گا اور اس کو جواب ڈھونڈتے ہوئے ہمارے آپسی خیالات میں زیادہ مماثلت و مطابقت پیدا ہو سکتی ہے۔
ہندو اور مسلمان صدیوں تک ایک ہی ملک میں رہتے رہے ہیں ۔ دونوں اقوام کے مذہبی رجحانات ، سخت گیر عناصر کی موجودگی اور رسوم و رواج کے فرق کے باوجود یہ اقوام زیادہ تر احترام باہمی کا مظاہرہ کرتی رہیں اور تاریخ میں آپ کو ان اقوام کے افراد کی آپس میں دوستی اور علم و ادب کے لئے مشترک مساعدہ کی مثالیں بھی ملیں گی۔
اب ایک دوسری بات کی طرف غور کریں جس کا تعلق استعمار سے ہے جو افریقہ اور ایشیا ء پر 18 ویں اور 19 ویں صدی میں بڑے برے طریقے سے مسلط ہو ا اور 20 ویں صدی کی تیسری دہائی میں اس کا زور ٹوٹنا شروع ہوا اور مقبوضہ ممالک سے اس کا کاتمہ ممکن ہوا۔ استعمار کے شکار ممالک زیادہ تر مسلمان تھے یا ان میں مسلمانوں کی تعداد کافی زیادہ تھی اور مسلم قوم کو جو چیز دنیا بھر کی دوسری تمام اقوام سے الگ کرتی ہے وہ ہے ان کا ملتِ اسلامیہ کا نظریہ۔ یعنی یہ قوم کو جغرافیائی حدود میں آباد انسانی آبادی کے نظرئے کی بجائے اسلامی اخوت کے تحت ہر کلمہ گو کو اپنی قوم کا فرد سمجھتی ہے بھلے وہ کسی بھی جغرافیائی وحدت میں رہتا ہو۔
استعمار کی تاریخ پر نظر رکھنے والے اس امر سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ یہ جب کسی معاشرے میں نقب لگاتا ہے تو اس کے افراد میں پھوٹ ڈلوانا اس کا اولین کام ہوتا ہے اور یہیں سےا س کی کامیابی کا آغاز ہوتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح آج کل پاکستان میں قوم کو بڑے سائنسی انداز میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اوراس کا دوسرا حربہ ہوتا ہے تعلیمی نظام کی ہئیت کو تبدیل کرنا ۔ جب استعمار ان دونوں کاموں میں کامیاب ہو جائے تو پھر متاثرہ قوم اس کے لئے تر نوالہ ثابت ہوتی ہے ۔ اس وقت کی سلطنتِ برطانیہ ، پرتگال ، فرانس ، ہالینڈ اور آج کے امریکہ کو دیکھ کیجئے سبھی میں یہ چیز مشترک نظر آ ئے گی۔
بر صغیر میں بھی یہی ہوا کہ جب مسلمانوں سے حکومت چھینی گئی تو ان کے بنائے نظام تعلیم کو ختم کر کے وہ اکائی ہی ختم کر دی گئی جس کے تحت برصغیر مین بسنے والی اقوام ایک نقطے پر مرکوز ہو سکتی تھیں اور عیاش حکمران اس سے قبل ہی برصغیر کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے کر چکے تھے۔ سو ، جب تعلیمی انحطاط کے بعد سوچ میں یک رنگی کی بجائے طوائف الملوکی آئی تو قوم مذہب ، نسل ، زبان حتٰی کہ لباس کی بنیاد پر بھی تقسیم ہونے لگی
۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے جب استعمار کا زوال ہوا تو اس نے اپنی طاقت ، دولت اور سب سے بڑھ کر تعلیمی نظام کی بدولت ایسے لوگوں کو پہلے ہی سے تیار کر لیا تھا جو اس کے جانے کے بعد بھی اس کے مفادات کا تحفظ کرتے۔ آپ الجزائر اور موریطانیہ سے کر انڈونیشیا تک استعمار کی واپسی کی تاریخ دیکھ لیں رو زروشن کی طرح یہ بیان کردہ حقیقت آپ کو نظر آ ئے گی۔
جب برصغیر سے استعمار کے کوچ کا وقت آیا تو یہاں اس کا کام مسلم اور ہندو اقوام کے قدرے سخت مذہبی اور معاشرتی نظریات نے اور بھی آسان بنا دیا۔ ایسے میں ایک بڑی اکثریت کے مقابلے میں مسلمانوں کو اپنی عددی کمتری کی وجہ سے خوف لاحق ہوا اور انہوں نے اپنے لئے ایک الگ وطن کا مطالبہ کرنے میں بہتری سمجھی۔
مزید پڑھیں