پاکستان کا قیام کیوں ضروری تھا؟

لالہ رخ

محفلین
قیامِ پاکستان پر لاتعداد کتب لکھی جاچکی ہیں جن میں پاکستان کے قیام کی وجوہات کو موضوع بنایا اور حالات و واقعات پر بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ لیکن آپ کا کیا نقطہ نظر ہے کیا پاکستان کا قیام واقعی ناگزیر تھا؟
 

عسکری

معطل
اب ہمین آگے بھی چلنا ہے ہے یا سیاستدانوں کی طرح مفت کے بکھیڑوں میں پڑنا ہے ؟:roll: جو ہوا جیسے ہوا ہو چکا اب کیا کرنا ہے اس پر بات کی جائے
 

لالہ رخ

محفلین
آگے تو چلنا ہے لیکن کیا کیا جائے ان تعلیمی اداروں کا جو ابھی تک انہی باتوں کو رو رہے ہیں اور ہمیں 65 سال پرانی تاریخ پڑھا رہے ہیں یہ نہیں بتاتے کہ اگلے 65 سالوں میں آپ کو کہاں ہونا چاہے یہ کہتے ہیں کہ بتاو پرانا کیا تھا، کیوں تھا۔۔ ماضی شاندار ہو تب بھی بات کی جائے تو شاید لطف آئے لیکن افسوس۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
پاکستان کا قیام ضروری تھا سو اللہ کہ کرم سے پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے استحکام کے لئے کیا کیا جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی طرح ہم سب بحیثیت پاکستانی متحد ہوجائیں۔
 

عسکری

معطل
آگے تو چلنا ہے لیکن کیا کیا جائے ان تعلیمی اداروں کا جو ابھی تک انہی باتوں کو رو رہے ہیں اور ہمیں 65 سال پرانی تاریخ پڑھا رہے ہیں یہ نہیں بتاتے کہ اگلے 65 سالوں میں آپ کو کہاں ہونا چاہے یہ کہتے ہیں کہ بتاو پرانا کیا تھا، کیوں تھا۔۔ ماضی شاندار ہو تب بھی بات کی جائے تو شاید لطف آئے لیکن افسوس۔۔۔
یہ ایک اور مسئلہ ہے جس کا حل نکالا جائے نا کہ ماضی کو رویا جائے
 

ساجد

محفلین
پاکستان کا قیام کیوں ضروری تھا؟۔
اس سوال کا جواب مختلف پس منظر کے حامل افراد مختلف انداز میں دیتے رہے ہیں اور دیتے بھی رہیں گے۔ اگر ہم اس نکتے پر غور کریں کہ پاکستان کیسے اور کیوں بنا تو شاید یہ سوال مکمل ہو گا اور اس کو جواب ڈھونڈتے ہوئے ہمارے آپسی خیالات میں زیادہ مماثلت و مطابقت پیدا ہو سکتی ہے۔
ہندو اور مسلمان صدیوں تک ایک ہی ملک میں رہتے رہے ہیں ۔ دونوں اقوام کے مذہبی رجحانات ، سخت گیر عناصر کی موجودگی اور رسوم و رواج کے فرق کے باوجود یہ اقوام زیادہ تر احترام باہمی کا مظاہرہ کرتی رہیں اور تاریخ میں آپ کو ان اقوام کے افراد کی آپس میں دوستی اور علم و ادب کے لئے مشترک مساعدہ کی مثالیں بھی ملیں گی۔
اب ایک دوسری بات کی طرف غور کریں جس کا تعلق استعمار سے ہے جو افریقہ اور ایشیا ء پر 18 ویں اور 19 ویں صدی میں بڑے برے طریقے سے مسلط ہو ا اور 20 ویں صدی کی تیسری دہائی میں اس کا زور ٹوٹنا شروع ہوا اور مقبوضہ ممالک سے اس کا کاتمہ ممکن ہوا۔ استعمار کے شکار ممالک زیادہ تر مسلمان تھے یا ان میں مسلمانوں کی تعداد کافی زیادہ تھی اور مسلم قوم کو جو چیز دنیا بھر کی دوسری تمام اقوام سے الگ کرتی ہے وہ ہے ان کا ملتِ اسلامیہ کا نظریہ۔ یعنی یہ قوم کو جغرافیائی حدود میں آباد انسانی آبادی کے نظرئے کی بجائے اسلامی اخوت کے تحت ہر کلمہ گو کو اپنی قوم کا فرد سمجھتی ہے بھلے وہ کسی بھی جغرافیائی وحدت میں رہتا ہو۔
استعمار کی تاریخ پر نظر رکھنے والے اس امر سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ یہ جب کسی معاشرے میں نقب لگاتا ہے تو اس کے افراد میں پھوٹ ڈلوانا اس کا اولین کام ہوتا ہے اور یہیں سےا س کی کامیابی کا آغاز ہوتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح آج کل پاکستان میں قوم کو بڑے سائنسی انداز میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اوراس کا دوسرا حربہ ہوتا ہے تعلیمی نظام کی ہئیت کو تبدیل کرنا ۔ جب استعمار ان دونوں کاموں میں کامیاب ہو جائے تو پھر متاثرہ قوم اس کے لئے تر نوالہ ثابت ہوتی ہے ۔ اس وقت کی سلطنتِ برطانیہ ، پرتگال ، فرانس ، ہالینڈ اور آج کے امریکہ کو دیکھ کیجئے سبھی میں یہ چیز مشترک نظر آ ئے گی۔
بر صغیر میں بھی یہی ہوا کہ جب مسلمانوں سے حکومت چھینی گئی تو ان کے بنائے نظام تعلیم کو ختم کر کے وہ اکائی ہی ختم کر دی گئی جس کے تحت برصغیر مین بسنے والی اقوام ایک نقطے پر مرکوز ہو سکتی تھیں اور عیاش حکمران اس سے قبل ہی برصغیر کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے کر چکے تھے۔ سو ، جب تعلیمی انحطاط کے بعد سوچ میں یک رنگی کی بجائے طوائف الملوکی آئی تو قوم مذہب ، نسل ، زبان حتٰی کہ لباس کی بنیاد پر بھی تقسیم ہونے لگی
۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے جب استعمار کا زوال ہوا تو اس نے اپنی طاقت ، دولت اور سب سے بڑھ کر تعلیمی نظام کی بدولت ایسے لوگوں کو پہلے ہی سے تیار کر لیا تھا جو اس کے جانے کے بعد بھی اس کے مفادات کا تحفظ کرتے۔ آپ الجزائر اور موریطانیہ سے کر انڈونیشیا تک استعمار کی واپسی کی تاریخ دیکھ لیں رو زروشن کی طرح یہ بیان کردہ حقیقت آپ کو نظر آ ئے گی۔
جب برصغیر سے استعمار کے کوچ کا وقت آیا تو یہاں اس کا کام مسلم اور ہندو اقوام کے قدرے سخت مذہبی اور معاشرتی نظریات نے اور بھی آسان بنا دیا۔ ایسے میں ایک بڑی اکثریت کے مقابلے میں مسلمانوں کو اپنی عددی کمتری کی وجہ سے خوف لاحق ہوا اور انہوں نے اپنے لئے ایک الگ وطن کا مطالبہ کرنے میں بہتری سمجھی۔
مزید پڑھیں
 

ساجد

محفلین
ساجد بھائی آجکل بہت بھاشن دیے جا رہے ہیں پبلک کو لفٹ نہیں کرائی جا رہی نا کوچہ میں حاضری :D
آج کل تاریخ کا دورہ پڑا ہوا ہے ہمیں۔:p
سردیوں کی لمبی راتوں میں خاموش کمرے میں تاریخ کی کتاب پڑھتے مجھے یوں لگا کرتا ہے کہ میں پھر سے بچہ بن گیا ہوں اور میری مرحوم والدہ اور نانی کتاب کی صورت میں مجھے کسی شہزادوں اور بادشاہوں کی کہانیاں سنا رہی ہیں۔
 

ساجد

محفلین
گزشتہ سے پیوستہ
اگرچہ قیام پاکستان کے وقت تک بھی مسلم اور ہندو ایکتا کی بہت ساری مثالیں ہمیں مل سکتی ہیں لیکن خوف اور بد اعتمادی کی جو لہر کانگریس کی پالیسیوں اور اس کے رہنماؤں نے پیدا کر دی تھی وہ اس سے کہیں زیادہ طاقتور تھی تبھی 36 سال تک مسلم اور ہندو اتحاد کی بات کرنے والے قائداعظم محمد علی جناح نے بھی بالآ خر اس بات کو محسوس کر لیا کہ استعمار کے جانے کے بعد بھی ہم ریشہ دوانیوں اور خوف کا شکار رہیں گے اس لئے ہمیں علیحدہ وطن حاصل کرنے کی جدو جہد کرنی چاہئیے۔
قابض طاقتیں تو پہلے ہی سے متمنی ہوتی ہیں کہ جس ملک سے ہم کوچ کر رہے ہیں وہ ملک بعد میں بھی ہمارا محتاج رہے اور اسی لئے انہوں نے جاتے جاتے بہت سے ممالک کی بندر بانٹ کی ۔ حتی کہ فلسطین میں اگر اسرائیل کو قابض کروایا تو اردن کے قیام سے مسلمانوں میں سے اپنے خوشہ چینوں کی حکومت بنوائی۔ لیکن برصغیر میں حالات پہلے ہی سے اس مقام تک پہنچ چکے تھے کہ دونوں اقوام مل کر رہ نہ سکتی تھیں۔ اور پاکستان کے قیام کے مطالبے سے جہاں مسلمانوں نے اکثریت کے استحصال سے بچنے کا اہتمام کیا وہیں یہ بات سلطنت برطانیہ کے انتہائی مفاد میں بھی تھی کہ یہاں ایک اور ملک بنوا کر ان کو آپس میں الجھا کر رکھا جائے۔ اسی لئے پاکستان کے بعض ناقد قیامِ پاکستان کو انگریز کی چال کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں جبکہ وہ اس کے اہم اور حقیقی پہلو کو فراموش کر دیتے ہیں کہ مسلمانوں نے اس کا مطالبہ کن عوامل کی بنیاد پر کیا تھا۔
بہر حال یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ گورداس پور ، جونا گڑھ ، کشمیر اور چند دوسرے علاقوں کی غیر منصفانہ تقسیم سے اس وقت کے برطانیہ نے دونوں ممالک کے درمیان جھگڑے کے دیگر راستے بھی وا کر دئیے حالانکہ برٹش گورنمنٹ انصاف سے کام لیتی تو ان میں سے ایک بھی جھگڑا پیدا نہ ہوتا۔
اب جو بات دونوں ممالک کے ہر طبقے کو سوچنا ہے وہ ہے آپسی اختلاف کو بتدریج ختم کرنا اور جھگڑے نپٹانا۔ دونوں ممالک کے اندھا دھند فوجی مصارف اور دونوں اطراف میں انتہا پسند لوگوں کا حکومتوں پر اثر انداز ہونا مسائل کو مزید گھنبیر کرتا جا رہا ہے۔ یہ خطہ نہ صرف دنیا بھر کی خوراک کی ضرورت پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اس کے افراد دنیا کے ذہین ترین لوگوں میں سے ہیں۔ امریکہ اور مغرب کی یونیورسٹیوں میں ان کی تحقیق پر نظر دوڑائیے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ان جھگڑوں نے ہمین کس عظیم انسانی سرمائے اور سکون سے محروم کر دیا ہے۔ افسوس کہ دونوں ممالک آج بھی استعمار کے مقاصد پورے کرنے میں اپنی دولت اور انسانی سرمایہ ضائع کئے جا رہے ہیں۔
 

عسکری

معطل
آج کل تاریخ کا دورہ پڑا ہوا ہے ہمیں۔:p
سردیوں کی لمبی راتوں میں خاموش کمرے میں تاریخ کی کتاب پڑھتے مجھے یوں لگا کرتا ہے کہ میں پھر سے بچہ بن گیا ہوں اور میری مرحوم والدہ اور نانی کتاب کی صورت میں مجھے کسی شہزادوں اور بادشاہوں کی کہانیاں سنا رہی ہیں۔
کوچہ ملنگاں میں آ جائیں آجکل دو بوتلیں فری میں ملی ہیں کسی سے وہی چل رہی ہیں :p:D
 

arifkarim

معطل
پاکستان دو قومی نظریہ پر بنا ہے جو کہ بنگلہ دیش کے الگ ہونے بعد ہی ٹوٹ کر چکنا چور ہو گیا۔ آج برصغیر کا مسلمان ایک یونٹ ہونے کی بجائے چار حصوں یعنی پاکستان، بھارت،کشمیر اور بنگلہ دیش میں بٹ چکا ہے۔ جہاں برصغیر کے مسلمانوں کو ایک یونٹ ہونے کی وجہ سے فائدہ ہونا تھا، وہاں ان چار یونٹس ہونے کی وجہ سے 1947 کے بعد مسلسل نقصان ہو رہا ہے۔ آج 65 سال گزر جانے کے بعد کشمیر مقبوضہ ہے، بنگلہ دیش غریب ہے، بھارتی مسلمان اقلیت ہے اور اپنا پاکستان نام نہاد لیڈران کی مقروض کٹ پتلی ہے:
The theory has been facing skepticism because Muslims did not entirely separate from Hindus and about one-third of all Muslims continued to live in post-partition India as Indian citizens alongside a much larger Hindu majority.[29][30] Thesubsequent partition of Pakistan itself into the present-day nations of Pakistan and Bangladesh was cited as proof both that Muslims did not constitute one nation and that religion was not a defining factor for nationhood.[29][30][31][32][33] Some historians have claimed that the theory was a creation of a few Muslim intellectuals.[34] Prominent Pakistani politician Altaf Hussain of Muttahida Qaumi Movement believes history has proved the two-nation theory wrong. [35] He contended, "The idea of Pakistan was dead at its inception, when the majority of Muslims (in Muslim-minority areas of India) chose to stay back after partition, a truism reiterated in the creation of Bangladesh in 1971. [36]
Several ethnic and provincial leaders in Pakistan also began to use the term "nation" to describe their provinces and argued that their very existence was threatened by the concept of amalgamation into a Pakistani nation on the basis that Muslims were one nation.[37][38] It has also been alleged that the idea that Islam is the basis of nationhood embroils Pakistan too deeply in the affairs of other predominantly Muslim states and regions, prevents the emergence of a unique sense of Pakistani nationhood that is independent of reference to India, and encourages the growth of a fundamentalist culture in the country.[39][40][41] Also, because partition divided Indian Muslims into three groups (of roughly 150 million people each in India, Pakistan and Bangladesh) instead of forming a single community inside a united India that would have numbered about 450 million people in 2010 and potentially exercised great influence over the entire subcontinent, the two-nation theory is sometimes alleged to have ultimately weakened the position of Muslims on the subcontinent and resulted in large-scale territorial shrinkage or skewing for cultural aspects that became associated with Muslims (e.g., the decline of Urdu languagein India).[42][43]
 

ذوالقرنین

لائبریرین
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کا قیام تحریک خلافت کو دبانے کے لیے کیا گیا۔ کیونکہ اگر تحریک خلافت کامیاب ہو جاتی تو آج پورے ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت ہوتی جو کہ کم از کم ہندو طبقے نہیں چاہتے تھے۔
واللہ اعلم بالصواب
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کا قیام تحریک خلافت کو دبانے کے لیے کیا گیا۔ کیونکہ اگر تحریک خلافت کامیاب ہو جاتی تو آج پورے ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت ہوتی جو کہ کم از کم ہندو طبقے نہیں چاہتے تھے۔
واللہ اعلم بالصواب
اسکا مطلب کیا ہے
آپ کا یہ مطلب قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃاللہ نے غلطی کی؟

میں اناڑی ہوں اس محفل میں مجھے سمجھائے اللہ آپ کو خوش رکھے۔
 
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کا قیام تحریک خلافت کو دبانے کے لیے کیا گیا۔ کیونکہ اگر تحریک خلافت کامیاب ہو جاتی تو آج پورے ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت ہوتی جو کہ کم از کم ہندو طبقے نہیں چاہتے تھے۔
واللہ اعلم بالصواب
ماشاء اللہ۔۔۔کیا محتاط اندازہ ہے۔ :D
 

ذوالقرنین

لائبریرین
محمد قادر علی بھائی! تاریخ سے میں اتنا ہی واقف ہوں جتنا ایک دسویں جماعت کا طالبعلم۔
میرا مقصد قائداعظم یا کسی اور رہنما پر الزام لگانے کا نہیں ہے اور نہ جسارت کر سکتا ہوں۔
لیکن واقعی اگر ایسا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ ہم کہیں بھی جا سکتے تھے۔ کوئی سرحد نہ ہوتی۔ کوئی رنجش نہ ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
 
Top