حسیب احمد حسیب
محفلین
پاکستان کا مطلب کیا ... ؟
آج قائد اعظم محمد علی جناح صاحب کا یوم پیدائش ہے اور ہمیشہ کی طرح قائد کی شخصیت کو لیکر سیکولر حلقے یہ بحث دوبارہ سامنے لائے ہیں کہ پاکستان کے تناظر میں بابائے قوم کی دینی فکر کیا تھی اور کیا انکا مقصود ایک اسلامی ریاست کا قیام تھا یا کہ وطنی و قومی سیکولر ریاست کا قیام .....
اس سے پہلے کہ اس حوالے سے مزید بات کی جاوے اگر ہم تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تحریک پاکستان میں سب سے بڑا عنوان ہی اسلام کو بنایا گیا تھا اور اس بات کا اندازہ ان نعروں سے ہو جاتا ہے کہ جو اس وقت لگائے گئے ........
اس دور کا ایک لازوال نعرہ تھا "پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔ لا الہٰ الا اللہ"
یہ نعرہ در اصل تحریک پاکستان کے مجاہد پروفیصور اصغر سودائی مرحوم کی معروف نظم کا حصہ تھا
. اصغر سودائی جب مرے کالج میں زیر تعلیم تھے تو 1944 میں ایک جلسہ عام مین اپنی نظم پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ سنائی یہ نظم اس قدر مقبول ہوئی کہ مرے کالج کے در و دیوار سے نکل کر پورے ہندوستاں کے گلی کوچوں میں زباں زد عام ہو گئی
تحریک پاکستان کے زمانہ عروج میں جب نیشنل کانگریس اور ان کے حواری نیشنلسٹ مسلمانوں سے تضحیک کے انداز میں پوچھا کرتے تھے کہ پاکستان کا مطلب کیا تو اس کے جواب میں 1944 کی نظم سنا کر دیتے تھے کہ
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ
لیجئے وہ نظم ملاحظہ کیجیے
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
شب ظلمت میں گزاری ہے
اٹھ وقت بیداری ہے
جنگ شجاعت جاری ہے
آتش و آہن سے لڑ جا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
ہادی و رہبر سرور دیں
صاحب علم و عزم و یقیں
قرآن کی مانند حسیں
احمد مرسل صلی علی
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
چھوڑ تعلق داری چھوڑ
اٹھ محمود بتوں کو توڑ
جاگ اللہ سے رشتہ جوڑ
غیر اللہ کا نام مٹا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
جرات کی تصویر ہے تو
ہمت عالمگیر ہے تو
دنیا کی تقدیر ہے تو
آپ اپنی تقدیر بنا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
نغموں کا اعجاز یہی
دل کا سوز و ساز یہی
وقت کی ہے آواز یہی
وقت کی یہ آواز سنا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
ہنجابی ہو یا افغان
مل جانا شرط ایمان
ایک ہی جسم ہے ایک ہی جان
ایک رسول اور ایک خدا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
تجھ میں ہے خالد کا لہو
تجھ میں ہے طارق کی نمو
شیر کے بیٹے شیر ہے تو
شیر بن اور میدان میں آ
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
مذہب ہو تہذیب کہ فن
تیرا جداگانہ ہے چلن
اپنا وطن ہے اپنا وطن
غیر کی باتوں میں مت آ
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
اے اصغر اللہ کرے
ننھی کلی پروان چڑھے
چھول بنے خوشبو مہکے
وقت دعا ہے ہاتھ اٹھا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
از اصغر سودائی مرحوم
ایک قول جو کہ جناح صحاب مرحوم سے منسلک کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ
" یہ نعرہ ہندوستان کے طول و عرض میں اتنا مقبول ہوا کہ تحریک پاکستان اور یہ نعرہ لازم و ملزوم ہو گئے اور اسی لیے قائد اعظم نے کہا تھا کہ: ”تحریکِ پاکستان میں پچیس فیصد حصہ اصغر سودائی کا ہے۔“
گو کہ یہ بات تحقیق طلب ہے
اسی طرح جب لیگی حضرت کا کانگریسی مسلمانوں سے سامنا ہوتا تو وہ پھبتی کستے
مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ ... !
مسلمانوں میں مسلم لیگ کی مقبولیت کی وجہ ایک شاعر افضل ہاپوڑی کے شعر کا یہ مصرعہ بنا ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘۔افضل ہاپوڑی صوبہ اترپردیش کے شہر میرٹھ کے قریب ایک قصبہ ہاپوڑی کے رہنے والے تھے۔ انھوں نے تحریک ِخلافت اور تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے تمام جلسوں میں شریک ہوئے اور اپنی نظموں سے حاضرین میں جوش اور ولولہ پیدا کرتے ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘ اُن کی نظم کا ایک مصرعہ ہے، جو اُنھوں نے مسلم لیگ کے ایک جلسے میں پڑھا ،تو دیکھتے ہی دیکھتے یہ مصرعہ نعرہ بن کر برصغیر کے کونے کونے میں پھیل گیا۔ اس نعرے کی وجہ سے مسلمانوں کی بڑی تعداد نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ اس سے قبل اس جماعت میں مخصوص طبقے کے لوگ ہی شامل تھے۔ بعد ازاں یہ عوامی جماعت بن گئی، افضل ہاپوڑی کی یہ نظم کچھ یوں ہے:
باطل سے نہ ڈر تیرا ہے خدا پردے سے نکل کر سامنے آ
ایمان کی قوت دل میں بڑھا مرکز سے سرک کر دُور نہ جا
مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ ...
پاکستان کوئی سولو فلائٹ نہیں تھا بلکہ تشکیل پاکستان میں جتنا کچھ جناح صاحب کی قیادت کا کمال تھا تو اس سے بڑھ کر فکر اقبال اس کے پس منظر میں کار فرما تھی
جاوید اقبال مرحوم اقبال کی اسلامی سیاسی فکر کو کچھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں
اقبال کا تصور اسلامی ریاست .... (۱)
اقبال کا تصور اسلام کیا ہے؟ اگر وہ پاکستان میں ”اسلامی ریاست“ قائم کرنا چاہتے تھے تو وہ کس نوعیت کی ریاست ہے؟ ان سوالوں کا جواب دینے سے پیشتر اقبال کے چند ایسے مقولوں کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے جن سے ان کے تصور اسلام کی وضاحت ہوتی ہے۔ مثلاً فرماتے ہیں ”زمانہ قدیم میں مذہب ”علاقائی“ تھا۔ یہودیت نے واضح کیا کہ مذہب ”نسلی“ ہے، مسیحیت نے تعلیم دی کہ مذہب ”ذاتی“ ہے مگر اسلام کا فرمان ہے کہ مذہب نہ علاقائی ہے نہ نسلی نہ ذاتی بلکہ خالصتاً ”انسانی“ ہے“۔ پھر فرماتے ہیں :”توحید“ کا مطلب ہے انسانی اتحاد، انسانی مساوات اور انسانی آزادی“ پھر ارشاد ہوتا ہے ”بطور عقیدہ اسلام کی نہ کوئی زبان ہے نہ رسم الخط اور نہ لباس“ پھر فرماتے ہیں”اسلام کا مقصد روحانی جمہوریت کا قیام ہے“ اقبال نے ”روحانی جمہوریت“ کی تعریف بیان نہیں کی لیکن معلوم ہوتا ہے ان کا اشارہ رسول اللہ کے وضع کردہ تحریری دستور ”میثاق مدینہ“ کی طرف ہے۔ آنحضور نے مدینہ میں مکہ کے مہاجرین اور مدینہ کے انصار کو باہم ملا کر ملت یا امت قائم کی۔ اسی بنا پر مسلم قومیت کے بارے میں اقبال کا قول ہے ”اگر انسانوں کا گروہ علاقہ، نسل یا زبان کے اشتراک پر ایک قوم بن سکتا ہے تو عقیدہ کے اشتراک کی بنیاد پر بھی وہ ایک قوم بن سکتا ہے۔ ہند کے شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی سے اقبال کے اختلاف کا سبب یہی تھا کہ مولانائے دیوبند مسلمانوں کو قوم کے اعتبار سے ہندوستانی اور ملت کے اعتبار سے مسلمان سمجھتے تھے لیکن اقبال کے نزدیک قوم و ملت کے جو معنی ہمیں آنحضورﷺ نے بتائے ہیں ان دونوں میں کوئی فرق نہیں بلکہ ایک ہی معنی ہیں یعنی مسلمانوں کی ”قومیت“ اسلام ہے۔
پھر اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جاوے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بر صغیر کا مسلمان کبھی سیکولر نہیں رہا اور اگر جناح صاحب کسی سیکولر ریاست کے طالب ہوتے تو انہیں وہ پزیرائی ملنا نا ممکن تھی کہ جو ملی دوسری جانب تحریک پاکستان کا بنیاد مطالبہ ہی فاسد ہو جاتا کہ ہندوستان ایک ایسی بڑی جمہوریہ ہی بننے جا رہا تھے کہ جس کا مزاج سیکولر ہوتا ........
پھر اگر جناح صاحب کے مزاج کی ہی بات کی جاوے تو اسے کسی بھی طرح سیکولر ثابت نہیں کیا جا سکتا انکی زندگی کا ہی ایک بڑا واقعہ اس بات کو روز روشن کی طرح واضح کر دیتا ہے .....
ڈاکٹر صفدر محمود ایک جگہ لکھتے ہیں
یہ ایک حیرت انگیز حقیقت اور دلچسپ اتفاق ہے کہ قائداعظم ؒ کی واحد اولاد یعنی انکی بیٹی دینا جناح نے 14 اور15 اگست 1919ءکی درمیانی شب کو جنم لیا۔ایک مورخ کے بقول انکی دوسری ”اولاد“ اسکے صحیح اٹھائیس برس بعد 14 اور 15 اگست 1947ءکی درمیانی شب کو معرض وجود میں آئی اور اسکا نام پاکستان رکھا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم ؒ اپنی اولاد کو دل و جان سے چاہتے تھے اور خاص طور پر دینا جناح انکی زندگی کی پہلی محبت کی آخری نشانی تھی لیکن اسکے باوجود جب دینا نے کسی مسلمان نوجوان کی بجائے ایک پارسی نوجوان نیوائل وادیا سے شادی کا فیصلہ کیا تو قائداعظمؒ نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس سے تعلق توڑ لیا۔ دینا ا کے جگر کا ٹکڑا تھی، اس سے بیٹی کی حیثیت سے تعلقات رکھے جا سکتے تھے۔ ہمارے ہاں اس قسم کی لاتعداد مثالیں ہیں کہ لبرل قسم کے مسلمان مذہبی رشتہ ٹوٹنے کے باوجود اولاد سے سماجی تعلقات نبھاتے رہے لیکن تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ قائداعظم ؒ نے بیٹی سے مذہب کا رشتہ منقطع ہونے کے بعد اس سے ہر قسم کے رشتے توڑ لئے۔ دوستوں سے کبھی دینا کا ذکر تک نہ کیاجیسے ان کی کوئی اولاد ہی نہ تھی اور پھر مرتے دم تک دینا کی شکل نہ دیکھی۔ شادی کے بعد دینا نے چند ایک بار اپنے والد گرامی کو خطوط لکھے۔ قائداعظم ؒ نے ایک مہذب انسان کی مانند ان خطوط کے جوابات دیئے لیکن ہمیشہ اپنی بیٹی کو ڈیئر دینا“ یا پیاری بیٹی کہہ کر مخاطب کرنے کی بجائے مسز وادیا کے نام سے مختصر جواب دیئے۔ (بحوالہ سٹینلے والپرٹ، جناح آف پاکستان صفحہ 370)
دوسری جانب مولانا اشرف علی تھانوی رح ایسے بزرگان دین کی جناح صاحب کی جانب توجہ بھی انتہائی قابل غور ہے
۔۲۳ تا ۲۶ اپریل ۱۹۴۳ ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا دہلی میں اجلاس شروع ہونے والا تھا۔اس تاریخی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے مسلم لیگ کے ارکان نے حضرت تھانوی ؒ کو ہدایات دینے کے لیے دعوت نامہ بھیجا۔یہ حضرت تھانوی ؒ کی وفات سے تین ماہ قبل کا واقعہ ہے۔بامر مجبوری آپ نے اجلاس میں شرکت سے معذوری ظاہر کرتے ہوئےاپنی ہدایات ایک تاریخی خط میں لکھ کر روانہ فرمادیںجس میں اپنی دو کتابوں ’’حیاۃ المسلمین اور صیانۃ المسلمین ‘‘کی طرف رہنمائی فرمائی : پہلی کتاب شخصی اصلاح اور اور دوسری کتاب معاشرتی نظام کی اصلاح کے لیے تھیں۔ جب مسلم لیگ ۱۹۳۹ ء میں اپنے تنظیمی منصوبے کے تحت صوبوں اور ضلعوں میں از سرِ نو شاخیں قائم کررہی تھی تب حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ اور بعض دیگر اکابر علمائے دیوبندکے مشورہ سے مسلمانانِ ہند کو مسلم لیگ کی حمایت و مدد کرنے کافتویٰ دیا۔ صف علماء سے یہ پہلی آواز تھی جو مسلم لیگ کی حمایت میں بلند ہوئی جس سے مخالفین کی صفوں میں سراسیمگی پھیل گئی کیوں کہ وہ مسلمانانِ ہند میں مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا اثر و رسوخ اچھی طرح جانتے تھے۔ان کے ہزاروں متوسلین خلفاءجگہ جگہ پھیلے ہوئے تھے۔عین اسی موقع پر جماعت اسلامی نے گانگریس کی حمایت کرکے تحریکِ پاکستان کی تائید کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ’’جب کونسلوں، میونسپلٹیوں میں ہندؤوں سے اشتراکِ عمل جائز ہےتو دوسرے معاملات میں کیوں نہیں؟‘‘۔ دارالعلوم دیوبند کی سیاسی جماعت جمعیت علمائےہند دو حصوں میں تقسیم ہوگئی :ایک جماعت کانگریس کی حامی ہوگئی جس کی سربراہی مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ فرمارہے تھےاور دوسری مسلم لیگ کی حمایت میں کھڑی ہوگئی جس کی صدارت علامہ شبیر احمد عثمانی فرمارہے تھے۔ ان دنوں مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند کے صدر مفتی تھے، حضرت تھانوی ؒ کے خلیفہ مجاز ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ اور پاکستان کی حمایت میں تھے۔ اس مسئلے پر دونوں فریقین کے مابین آراء کا اختلاف ہوا، بحث و مباحثہ کی نوبت آئی۔ بالآخر دارالعلوم دیوبند کو اس اختلاف کے اثرات سے دور رکھنے کے لیےعلامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ، مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ اور چند دیگر علمائے کرام نے دارالعلوم سے باضابطہ استعفیٰ دے دیا اور پاکستان کی حمایت میں اپنے اوقات کو آزادانہ وقف کردیا۔بعض مخالفین اس اختلاف کو بیان کرکے اکابر دیوبندکو متہم کرتے اور لوگوں کو علمائے دیوبند اور پاکستان کی حامی جمعیت علمائے اسلام کو پاکستان دشمن قرار دے کر لوگوں کے اذہان پراگندہ کرتے ہیں، یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے جو تعصب کی علامت ہے دونوں اکابر کا اختلاف اخلاص پر مبنی تھا۔ تحریکِ پاکستان کی کامیابی کے لیے یہ بات کافی ہے کہ سب سے پہلے پاکستان کی تائید کرنے والے مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ہیں۔
اقتباس : تحریکِ پاکستان اور علمائے دیوبند ……?
مصنف : مولانا محمد مبشر بدر
پھر اگر جناح صاحب کے ساتھ موجود قیادت پر نگاہ ڈالی جاوے تو ان میں کوئی بھی معروف سیکولر دکھائی نہیں دیتا .........
حقیت تو یہ ہے کہ پاکستان کا سیکولر طبقہ ایک ایسے جھوٹ کو سچائی بنانے پر مصر ہے کہ جس کی کوئی حقیقی بنیاد نہوں ........
دوسری جانب آج بھی پوری پاکستانی قوم پر یہ امر فرض ہے کہ وہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں اصلی پاکستان بنائیں ورنہ الله کی پکڑ ہم سے دور نہیں ..
حسیب احمد حسیب
http://urduvilla.com/پاکستان-کا-مطلب-کیا-؟/
آج قائد اعظم محمد علی جناح صاحب کا یوم پیدائش ہے اور ہمیشہ کی طرح قائد کی شخصیت کو لیکر سیکولر حلقے یہ بحث دوبارہ سامنے لائے ہیں کہ پاکستان کے تناظر میں بابائے قوم کی دینی فکر کیا تھی اور کیا انکا مقصود ایک اسلامی ریاست کا قیام تھا یا کہ وطنی و قومی سیکولر ریاست کا قیام .....
اس سے پہلے کہ اس حوالے سے مزید بات کی جاوے اگر ہم تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تحریک پاکستان میں سب سے بڑا عنوان ہی اسلام کو بنایا گیا تھا اور اس بات کا اندازہ ان نعروں سے ہو جاتا ہے کہ جو اس وقت لگائے گئے ........
اس دور کا ایک لازوال نعرہ تھا "پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔ لا الہٰ الا اللہ"
یہ نعرہ در اصل تحریک پاکستان کے مجاہد پروفیصور اصغر سودائی مرحوم کی معروف نظم کا حصہ تھا
. اصغر سودائی جب مرے کالج میں زیر تعلیم تھے تو 1944 میں ایک جلسہ عام مین اپنی نظم پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ سنائی یہ نظم اس قدر مقبول ہوئی کہ مرے کالج کے در و دیوار سے نکل کر پورے ہندوستاں کے گلی کوچوں میں زباں زد عام ہو گئی
تحریک پاکستان کے زمانہ عروج میں جب نیشنل کانگریس اور ان کے حواری نیشنلسٹ مسلمانوں سے تضحیک کے انداز میں پوچھا کرتے تھے کہ پاکستان کا مطلب کیا تو اس کے جواب میں 1944 کی نظم سنا کر دیتے تھے کہ
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ
لیجئے وہ نظم ملاحظہ کیجیے
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
شب ظلمت میں گزاری ہے
اٹھ وقت بیداری ہے
جنگ شجاعت جاری ہے
آتش و آہن سے لڑ جا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
ہادی و رہبر سرور دیں
صاحب علم و عزم و یقیں
قرآن کی مانند حسیں
احمد مرسل صلی علی
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
چھوڑ تعلق داری چھوڑ
اٹھ محمود بتوں کو توڑ
جاگ اللہ سے رشتہ جوڑ
غیر اللہ کا نام مٹا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
جرات کی تصویر ہے تو
ہمت عالمگیر ہے تو
دنیا کی تقدیر ہے تو
آپ اپنی تقدیر بنا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
نغموں کا اعجاز یہی
دل کا سوز و ساز یہی
وقت کی ہے آواز یہی
وقت کی یہ آواز سنا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
ہنجابی ہو یا افغان
مل جانا شرط ایمان
ایک ہی جسم ہے ایک ہی جان
ایک رسول اور ایک خدا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
تجھ میں ہے خالد کا لہو
تجھ میں ہے طارق کی نمو
شیر کے بیٹے شیر ہے تو
شیر بن اور میدان میں آ
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
مذہب ہو تہذیب کہ فن
تیرا جداگانہ ہے چلن
اپنا وطن ہے اپنا وطن
غیر کی باتوں میں مت آ
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
اے اصغر اللہ کرے
ننھی کلی پروان چڑھے
چھول بنے خوشبو مہکے
وقت دعا ہے ہاتھ اٹھا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
از اصغر سودائی مرحوم
ایک قول جو کہ جناح صحاب مرحوم سے منسلک کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ
" یہ نعرہ ہندوستان کے طول و عرض میں اتنا مقبول ہوا کہ تحریک پاکستان اور یہ نعرہ لازم و ملزوم ہو گئے اور اسی لیے قائد اعظم نے کہا تھا کہ: ”تحریکِ پاکستان میں پچیس فیصد حصہ اصغر سودائی کا ہے۔“
گو کہ یہ بات تحقیق طلب ہے
اسی طرح جب لیگی حضرت کا کانگریسی مسلمانوں سے سامنا ہوتا تو وہ پھبتی کستے
مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ ... !
مسلمانوں میں مسلم لیگ کی مقبولیت کی وجہ ایک شاعر افضل ہاپوڑی کے شعر کا یہ مصرعہ بنا ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘۔افضل ہاپوڑی صوبہ اترپردیش کے شہر میرٹھ کے قریب ایک قصبہ ہاپوڑی کے رہنے والے تھے۔ انھوں نے تحریک ِخلافت اور تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے تمام جلسوں میں شریک ہوئے اور اپنی نظموں سے حاضرین میں جوش اور ولولہ پیدا کرتے ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘ اُن کی نظم کا ایک مصرعہ ہے، جو اُنھوں نے مسلم لیگ کے ایک جلسے میں پڑھا ،تو دیکھتے ہی دیکھتے یہ مصرعہ نعرہ بن کر برصغیر کے کونے کونے میں پھیل گیا۔ اس نعرے کی وجہ سے مسلمانوں کی بڑی تعداد نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ اس سے قبل اس جماعت میں مخصوص طبقے کے لوگ ہی شامل تھے۔ بعد ازاں یہ عوامی جماعت بن گئی، افضل ہاپوڑی کی یہ نظم کچھ یوں ہے:
باطل سے نہ ڈر تیرا ہے خدا پردے سے نکل کر سامنے آ
ایمان کی قوت دل میں بڑھا مرکز سے سرک کر دُور نہ جا
مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ ...
پاکستان کوئی سولو فلائٹ نہیں تھا بلکہ تشکیل پاکستان میں جتنا کچھ جناح صاحب کی قیادت کا کمال تھا تو اس سے بڑھ کر فکر اقبال اس کے پس منظر میں کار فرما تھی
جاوید اقبال مرحوم اقبال کی اسلامی سیاسی فکر کو کچھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں
اقبال کا تصور اسلامی ریاست .... (۱)
اقبال کا تصور اسلام کیا ہے؟ اگر وہ پاکستان میں ”اسلامی ریاست“ قائم کرنا چاہتے تھے تو وہ کس نوعیت کی ریاست ہے؟ ان سوالوں کا جواب دینے سے پیشتر اقبال کے چند ایسے مقولوں کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے جن سے ان کے تصور اسلام کی وضاحت ہوتی ہے۔ مثلاً فرماتے ہیں ”زمانہ قدیم میں مذہب ”علاقائی“ تھا۔ یہودیت نے واضح کیا کہ مذہب ”نسلی“ ہے، مسیحیت نے تعلیم دی کہ مذہب ”ذاتی“ ہے مگر اسلام کا فرمان ہے کہ مذہب نہ علاقائی ہے نہ نسلی نہ ذاتی بلکہ خالصتاً ”انسانی“ ہے“۔ پھر فرماتے ہیں :”توحید“ کا مطلب ہے انسانی اتحاد، انسانی مساوات اور انسانی آزادی“ پھر ارشاد ہوتا ہے ”بطور عقیدہ اسلام کی نہ کوئی زبان ہے نہ رسم الخط اور نہ لباس“ پھر فرماتے ہیں”اسلام کا مقصد روحانی جمہوریت کا قیام ہے“ اقبال نے ”روحانی جمہوریت“ کی تعریف بیان نہیں کی لیکن معلوم ہوتا ہے ان کا اشارہ رسول اللہ کے وضع کردہ تحریری دستور ”میثاق مدینہ“ کی طرف ہے۔ آنحضور نے مدینہ میں مکہ کے مہاجرین اور مدینہ کے انصار کو باہم ملا کر ملت یا امت قائم کی۔ اسی بنا پر مسلم قومیت کے بارے میں اقبال کا قول ہے ”اگر انسانوں کا گروہ علاقہ، نسل یا زبان کے اشتراک پر ایک قوم بن سکتا ہے تو عقیدہ کے اشتراک کی بنیاد پر بھی وہ ایک قوم بن سکتا ہے۔ ہند کے شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی سے اقبال کے اختلاف کا سبب یہی تھا کہ مولانائے دیوبند مسلمانوں کو قوم کے اعتبار سے ہندوستانی اور ملت کے اعتبار سے مسلمان سمجھتے تھے لیکن اقبال کے نزدیک قوم و ملت کے جو معنی ہمیں آنحضورﷺ نے بتائے ہیں ان دونوں میں کوئی فرق نہیں بلکہ ایک ہی معنی ہیں یعنی مسلمانوں کی ”قومیت“ اسلام ہے۔
پھر اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جاوے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بر صغیر کا مسلمان کبھی سیکولر نہیں رہا اور اگر جناح صاحب کسی سیکولر ریاست کے طالب ہوتے تو انہیں وہ پزیرائی ملنا نا ممکن تھی کہ جو ملی دوسری جانب تحریک پاکستان کا بنیاد مطالبہ ہی فاسد ہو جاتا کہ ہندوستان ایک ایسی بڑی جمہوریہ ہی بننے جا رہا تھے کہ جس کا مزاج سیکولر ہوتا ........
پھر اگر جناح صاحب کے مزاج کی ہی بات کی جاوے تو اسے کسی بھی طرح سیکولر ثابت نہیں کیا جا سکتا انکی زندگی کا ہی ایک بڑا واقعہ اس بات کو روز روشن کی طرح واضح کر دیتا ہے .....
ڈاکٹر صفدر محمود ایک جگہ لکھتے ہیں
یہ ایک حیرت انگیز حقیقت اور دلچسپ اتفاق ہے کہ قائداعظم ؒ کی واحد اولاد یعنی انکی بیٹی دینا جناح نے 14 اور15 اگست 1919ءکی درمیانی شب کو جنم لیا۔ایک مورخ کے بقول انکی دوسری ”اولاد“ اسکے صحیح اٹھائیس برس بعد 14 اور 15 اگست 1947ءکی درمیانی شب کو معرض وجود میں آئی اور اسکا نام پاکستان رکھا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم ؒ اپنی اولاد کو دل و جان سے چاہتے تھے اور خاص طور پر دینا جناح انکی زندگی کی پہلی محبت کی آخری نشانی تھی لیکن اسکے باوجود جب دینا نے کسی مسلمان نوجوان کی بجائے ایک پارسی نوجوان نیوائل وادیا سے شادی کا فیصلہ کیا تو قائداعظمؒ نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس سے تعلق توڑ لیا۔ دینا ا کے جگر کا ٹکڑا تھی، اس سے بیٹی کی حیثیت سے تعلقات رکھے جا سکتے تھے۔ ہمارے ہاں اس قسم کی لاتعداد مثالیں ہیں کہ لبرل قسم کے مسلمان مذہبی رشتہ ٹوٹنے کے باوجود اولاد سے سماجی تعلقات نبھاتے رہے لیکن تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ قائداعظم ؒ نے بیٹی سے مذہب کا رشتہ منقطع ہونے کے بعد اس سے ہر قسم کے رشتے توڑ لئے۔ دوستوں سے کبھی دینا کا ذکر تک نہ کیاجیسے ان کی کوئی اولاد ہی نہ تھی اور پھر مرتے دم تک دینا کی شکل نہ دیکھی۔ شادی کے بعد دینا نے چند ایک بار اپنے والد گرامی کو خطوط لکھے۔ قائداعظم ؒ نے ایک مہذب انسان کی مانند ان خطوط کے جوابات دیئے لیکن ہمیشہ اپنی بیٹی کو ڈیئر دینا“ یا پیاری بیٹی کہہ کر مخاطب کرنے کی بجائے مسز وادیا کے نام سے مختصر جواب دیئے۔ (بحوالہ سٹینلے والپرٹ، جناح آف پاکستان صفحہ 370)
دوسری جانب مولانا اشرف علی تھانوی رح ایسے بزرگان دین کی جناح صاحب کی جانب توجہ بھی انتہائی قابل غور ہے
۔۲۳ تا ۲۶ اپریل ۱۹۴۳ ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا دہلی میں اجلاس شروع ہونے والا تھا۔اس تاریخی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے مسلم لیگ کے ارکان نے حضرت تھانوی ؒ کو ہدایات دینے کے لیے دعوت نامہ بھیجا۔یہ حضرت تھانوی ؒ کی وفات سے تین ماہ قبل کا واقعہ ہے۔بامر مجبوری آپ نے اجلاس میں شرکت سے معذوری ظاہر کرتے ہوئےاپنی ہدایات ایک تاریخی خط میں لکھ کر روانہ فرمادیںجس میں اپنی دو کتابوں ’’حیاۃ المسلمین اور صیانۃ المسلمین ‘‘کی طرف رہنمائی فرمائی : پہلی کتاب شخصی اصلاح اور اور دوسری کتاب معاشرتی نظام کی اصلاح کے لیے تھیں۔ جب مسلم لیگ ۱۹۳۹ ء میں اپنے تنظیمی منصوبے کے تحت صوبوں اور ضلعوں میں از سرِ نو شاخیں قائم کررہی تھی تب حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ اور بعض دیگر اکابر علمائے دیوبندکے مشورہ سے مسلمانانِ ہند کو مسلم لیگ کی حمایت و مدد کرنے کافتویٰ دیا۔ صف علماء سے یہ پہلی آواز تھی جو مسلم لیگ کی حمایت میں بلند ہوئی جس سے مخالفین کی صفوں میں سراسیمگی پھیل گئی کیوں کہ وہ مسلمانانِ ہند میں مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا اثر و رسوخ اچھی طرح جانتے تھے۔ان کے ہزاروں متوسلین خلفاءجگہ جگہ پھیلے ہوئے تھے۔عین اسی موقع پر جماعت اسلامی نے گانگریس کی حمایت کرکے تحریکِ پاکستان کی تائید کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ’’جب کونسلوں، میونسپلٹیوں میں ہندؤوں سے اشتراکِ عمل جائز ہےتو دوسرے معاملات میں کیوں نہیں؟‘‘۔ دارالعلوم دیوبند کی سیاسی جماعت جمعیت علمائےہند دو حصوں میں تقسیم ہوگئی :ایک جماعت کانگریس کی حامی ہوگئی جس کی سربراہی مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ فرمارہے تھےاور دوسری مسلم لیگ کی حمایت میں کھڑی ہوگئی جس کی صدارت علامہ شبیر احمد عثمانی فرمارہے تھے۔ ان دنوں مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند کے صدر مفتی تھے، حضرت تھانوی ؒ کے خلیفہ مجاز ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ اور پاکستان کی حمایت میں تھے۔ اس مسئلے پر دونوں فریقین کے مابین آراء کا اختلاف ہوا، بحث و مباحثہ کی نوبت آئی۔ بالآخر دارالعلوم دیوبند کو اس اختلاف کے اثرات سے دور رکھنے کے لیےعلامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ، مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ اور چند دیگر علمائے کرام نے دارالعلوم سے باضابطہ استعفیٰ دے دیا اور پاکستان کی حمایت میں اپنے اوقات کو آزادانہ وقف کردیا۔بعض مخالفین اس اختلاف کو بیان کرکے اکابر دیوبندکو متہم کرتے اور لوگوں کو علمائے دیوبند اور پاکستان کی حامی جمعیت علمائے اسلام کو پاکستان دشمن قرار دے کر لوگوں کے اذہان پراگندہ کرتے ہیں، یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے جو تعصب کی علامت ہے دونوں اکابر کا اختلاف اخلاص پر مبنی تھا۔ تحریکِ پاکستان کی کامیابی کے لیے یہ بات کافی ہے کہ سب سے پہلے پاکستان کی تائید کرنے والے مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ہیں۔
اقتباس : تحریکِ پاکستان اور علمائے دیوبند ……?
مصنف : مولانا محمد مبشر بدر
پھر اگر جناح صاحب کے ساتھ موجود قیادت پر نگاہ ڈالی جاوے تو ان میں کوئی بھی معروف سیکولر دکھائی نہیں دیتا .........
حقیت تو یہ ہے کہ پاکستان کا سیکولر طبقہ ایک ایسے جھوٹ کو سچائی بنانے پر مصر ہے کہ جس کی کوئی حقیقی بنیاد نہوں ........
دوسری جانب آج بھی پوری پاکستانی قوم پر یہ امر فرض ہے کہ وہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں اصلی پاکستان بنائیں ورنہ الله کی پکڑ ہم سے دور نہیں ..
حسیب احمد حسیب
http://urduvilla.com/پاکستان-کا-مطلب-کیا-؟/