پاکستان کا نیا گریڈنگ نظام

زیک

مسافر

جاسمن

لائبریرین
نیا نظام اس لحاظ سے بہتر محسوس ہوتا ہے کہ اس میں فیل کا خانہ مکمل ختم کر دیا جائے گا۔ اور گریڈنگ سسٹم میں فیل کی جگہ گریڈ "یو" لکھا ہو گا۔ جس کا مطلب ہو گا۔ غیر اطمینان بخش / غیر تسلی بخش کارکردگی۔ طلبہ کے لیے "فیل" کا لفظ جو قیامت ڈھاتا تھا، تو شاید قیامت کی شدت میں کچھ کمی ہو جائے۔ نفسیاتی اثر تو ہوتا ہی ہے۔ نیز معاشرے میں لوگوں کی اکثریت گریڈ "یو" کی حقیقت سے ناواقف ہو گی تو پردہ پوشی بھی ہو جائے گی۔ بعد میں سپلیاں دیں گے تو کسی کو کیا پتہ چلے گا۔

پاسنگ مارکس بھی تینتیس سے بڑھا کے چالیس کر دیے گئے ہیں۔ جو معیار حاصل کرنے کی اچھی کوشش ہے۔

یہ بھی اچھی بات ہے کہ شروع کے امتحانات میں نمبرز اور گریڈز دونوں درج ہوں گے اور بتدریج نمبرز ختم کر دیے جائیں گے اور گریڈز ہی رہ جائیں گے۔ اس طرح نئے نظام کو سمجھنے اور لاگو کرنے میں آسانی ہو گی۔

پاکستان میں نمبروں کی دوڑ میں اضافے نے طلبہ پہ کافی برے اثرات مرتب کیے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم بس ڈویژن کو دیکھا کرتے تھے۔ اور فرسٹ ڈویژن کو بہت ہی زیادہ اہمیت حاصل تھی لیکن سیکنڈ ڈویژن لینے والے بھی "معزز" شمار ہوتے تھے۔ لیکن پھر نمبروں کی دوڑ ایسی شروع ہوئی کہ بچے نفسیاتی مریض بننے لگے۔ والدین بھی لاٹھی لیے بچوں کو پڑھنے اور نمبرز لانے پہ مجبور کرنے لگے۔ بچوں کا بچپن چھین لیا۔ علم حاصل کرنے کے خوب صورت سفر کو بدصورتی میں بدل دیا۔ اکثر اداروں میں رٹا سسٹم ہی لاگو کیا گیا۔ امتحانی سسٹم بھی "گٹھ" ناپنے والا ہی ہے بس۔ نہ پڑھنے پڑھانے کا نظام بدلا نہ امتحانی نظام میں کوئی خاص مثبت پیش رفت ہوئی۔ سینٹر مارکنگ سے کچھ اچھی امیدیں وابستہ تھیں جو دیوانے کا خواب ثابت ہوئیں۔ بہرحال یہ موضوع ایسا ہے کہ جتنا لکھوں، کم ہے۔

ہم شاید چاہ رہے ہیں کہ کوئی بہتر بین الاقوامی نظام یہاں متعارف کرائیں اور ہم بھی باقی دنیا کے ساتھ چلیں۔ جیسا کہ کالجز اور جامعات میں سمسٹر سسٹم اور امتحانی نظام میں سی جی پی اے کو متعارف کرانا۔

اب سکولوں کی باری ہے اور یہاں پہلے پہل امتحانی نظام بدلا جا رہا ہے۔


لیکن کیا یہ نظام محض طلبہ کو فیل "قرار"/ "مشہور" ہونے سے ہی روک پائے گا یا معیار بھی بہتر ہو گا؟

پہلے تو گریڈز ہی بہت (دس) کر دیے گئے ہیں کہ جن کے حساب سے چلنا مشکل ہو سکتا ہے۔

جہاں تک آئی بی بی سی نے یہ کہا ہے کہ تین مراحل میں تبدیلیاں لائیں گے تاکہ اساتذہ، طلبہ اور تعلیمی ادارے اس حوالے سے تیاری کر سکیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہمیشہ کی طرح اس معاملے میں بھی ہوم ورک نہیں کیا گیا۔ کوئی بھی نظام لاگو کرنے سے پہلے تربیت دی جانی چاہیے۔ دوسرے نمبر پہ پہلے ہوم اگزامز میں اس کی پریکٹس کی جائے۔ اور تیسرے نمبر پہ اسے ایکسٹرنل اگزامز میں لاگو کیا جائے۔ لیکن ایسا نہیں کیا جا رہا۔ اب کیا ہو گا؟ لگ یہ رہا ہے۔۔۔ (اللہ کرے کہ میرا اندازہ غلط ہو) کہ ہمیشہ کی طرح شروع کے سالوں کے طلبہ پہ تجربے کیے جائیں گے خدانخواستہ۔



اس کے علاوہ یہ جو بات کی گئی ہے کہ کارکردگی کے حوالے سے فیڈ بیک کا خانہ بھی ہو گا تو یہ فیڈ بیک کون دے گا؟ ظاہر ہے کہ ایکسٹرنل ایگزامینر دے گا۔ تو ایکسٹرنل کے سامنے تو ایک "ہارڈ کاپی/پرچہ" ہو گا۔ اور پرچہ کیسا ہو؟ اس کا دارومدار بہت سی چیزوں پہ ہوتا ہے۔ ابھی میری بیٹی کی سہیلی جو بہت ذہین اور محنتی ہے، اس وجہ سے اپنے گریڈز کم کر گئی کہ امتحانی مرکز میں بہت شور تھا۔ بدنظمی تھی اور پرچے پہ توجہ مرکوز کرنا اور ذہن کو مجتمع کرنا مشکل ترین ہو جاتا تھا۔ جہاں بیٹھی تھی، پنکھا خراب تھا۔ شام کو روشنی کا بے حد مسئلہ تھا۔ بیمار بلب تھے۔ نتیجتاً اس کے چند پرچے خراب ہو گئے۔ تو فیڈ بیک کون دے گا؟ ایکسٹرنلز کا جو حال ہے، اس پہ پورا ایک مضمون لکھا جا سکتا ہے۔

نیز گریڈز پہلے بھی لکھے جاتے تھے لیکن سی جی پی اے اب نیا نظام ہو گا۔

سال میں دو امتحانات بھی ایک تجربہ ہے۔ طالب علم اگلی جماعت پڑھے گا یا پچھلی جماعت کا دوسرا امتحان دے گا! لگتا یہ ہے کہ اگر وہ سال میں دو امتحانات کا قصد کرتا ہے تو اس کی اگلی جماعت کی پڑھائی صحیح طور پہ نہیں ہو پائے گی۔ یہ امتحانات کی کشمکش اس کا کم از کم ایک سال ضائع کرائیے گی خدانخواستہ۔ دوسری طرف بائے پارٹس امتحان ایک آسانی بھی لگ رہی ہے۔ خاص طور پہ درمیانے درجے کے طلبہ کے لیے۔

اور یہ کہنا کہ پہلے طلبہ نمبروں کی دوڑ میں شامل ہو جاتے تھے اور قابلیت بڑھانے پہ زور نہیں تھا تو اب اس نظام نے ایسا کیا بدلاؤ لانا ہے کہ جس سے "قابلیت" بڑھے گی؟ پرچے وہی ہیں اور ان میں پہلے جب مارکنگ ہوتی تھی تو جو مارکس دیے جاتے تھے، سب پرچوں کے مارکس جمع کر دیے جاتے تھے اور بچہ کسی ڈویژن میں پاس ہو جاتا تھا یا پھر فیل ہو جاتا تھا۔ اب مارکنگ کرنے کے بعد ان نمبروں کی بنیاد پہ جی پی اے اور گریڈز دینا کیا قابلیت بڑھائے گا؟

یہ سمجھ نہیں آتی۔


یہ کہا گیا کہ پہلے امتحانی نظام بدلا جائے گا اور باقی طریقہ کار خودبخود اس کے مطابق ڈھل جائے گا۔

یہ مجھے درست نہیں لگتا۔ استاد اسی طریقے سے پڑھا رہا ہے۔ طالب علم اسی طریقے سے پڑھ رہا ہے۔ تدریسی نظام ہنوز وہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں کچھ بدلاؤ نہیں۔ اور طالب علم پرچے میں بھی وہی کچھ لکھ رہا ہے جو پہلے لکھ رہا تھا۔ کارکردگی وہی ہے۔ چیک کرنے والے وہی ہیں اور ان کے طریقے بھی وہی ہیں۔ صرف اور صرف مارکس دینے کے بعد کا طریقہ بدلا جا رہا ہے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ یہ نظام غلط ہے۔ یا اس کا نقصان ہو گا۔ لیکن محض یہی کرنے سے کیا تبدیلی آئے گی؟ قابلیت ایسے کیسے بڑھے گی؟ پڑھائی کا طریقہ کار کیسے بدل سکے گا؟


پھر یہ کہنا کہ کانسیپچوئیل نوعیت کے سوال شامل کیے جائیں گے۔ استغفرُللہ! پہلے استاد کو خود تو کانسیپٹس سمجھ آ جائیں، اور یہ سمجھ آ جائے کہ سمجھانا کیسے ہے، تب ہی وہ بچوں کے کانسیپٹس درست کرا سکے گا۔



"ڈاکٹر غلام علی ملاح کہتے ہیں کہ بتدریج امتحانات میں پرچوں میں کانسیپچوئیل نوعیت کے سوال شامل کیے جائیں گے اور ’رٹے‘ کے نظام کو ختم کیا جائے۔ اسی طریقے سے یہ نظام نیچے تک سکولوں اور کالجوں کے پڑھانے کے طریقوں میں تبدیلی کا باعث بنے گا۔"

انتہائی مشکل ترین۔۔۔ دیوانے کے خواب۔

لکھنے کو اتنا کچھ ہے کہ قلم رکتا نہیں۔

ابھی چند دن پہلے کسی سے بات ہو رہی تھی کہ ہمارا نظامِ تعلیم بہت تیزی کے ساتھ زوال پزیر ہے۔ اور اس کیفیت میں اگلے پچاس برسوں میں خدانخواستہ کچھ اچھی امید نظر نہیں آتی۔ ہر روز نیا تجربہ ہوتا ہے۔ ہر شعبہ تجربات کی نظر ہو جاتا ہے۔
 
نیا نظام اس لحاظ سے بہتر محسوس ہوتا ہے کہ اس میں فیل کا خانہ مکمل ختم کر دیا جائے گا۔ اور گریڈنگ سسٹم میں فیل کی جگہ گریڈ "یو" لکھا ہو گا۔ جس کا مطلب ہو گا۔ غیر اطمینان بخش / غیر تسلی بخش کارکردگی۔ طلبہ کے لیے "فیل" کا لفظ جو قیامت ڈھاتا تھا، تو شاید قیامت کی شدت میں کچھ کمی ہو جائے۔ نفسیاتی اثر تو ہوتا ہی ہے۔ نیز معاشرے میں لوگوں کی اکثریت گریڈ "یو" کی حقیقت سے ناواقف ہو گی تو پردہ پوشی بھی ہو جائے گی۔ بعد میں سپلیاں دیں گے تو کسی کو کیا پتہ چلے گا۔

پاسنگ مارکس بھی تینتیس سے بڑھا کے چالیس کر دیے گئے ہیں۔ جو معیار حاصل کرنے کی اچھی کوشش ہے۔

یہ بھی اچھی بات ہے کہ شروع کے امتحانات میں نمبرز اور گریڈز دونوں درج ہوں گے اور بتدریج نمبرز ختم کر دیے جائیں گے اور گریڈز ہی رہ جائیں گے۔ اس طرح نئے نظام کو سمجھنے اور لاگو کرنے میں آسانی ہو گی۔

پاکستان میں نمبروں کی دوڑ میں اضافے نے طلبہ پہ کافی برے اثرات مرتب کیے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم بس ڈویژن کو دیکھا کرتے تھے۔ اور فرسٹ ڈویژن کو بہت ہی زیادہ اہمیت حاصل تھی لیکن سیکنڈ ڈویژن لینے والے بھی "معزز" شمار ہوتے تھے۔ لیکن پھر نمبروں کی دوڑ ایسی شروع ہوئی کہ بچے نفسیاتی مریض بننے لگے۔ والدین بھی لاٹھی لیے بچوں کو پڑھنے اور نمبرز لانے پہ مجبور کرنے لگے۔ بچوں کا بچپن چھین لیا۔ علم حاصل کرنے کے خوب صورت سفر کو بدصورتی میں بدل دیا۔ اکثر اداروں میں رٹا سسٹم ہی لاگو کیا گیا۔ امتحانی سسٹم بھی "گٹھ" ناپنے والا ہی ہے بس۔ نہ پڑھنے پڑھانے کا نظام بدلا نہ امتحانی نظام میں کوئی خاص مثبت پیش رفت ہوئی۔ سینٹر مارکنگ سے کچھ اچھی امیدیں وابستہ تھیں جو دیوانے کا خواب ثابت ہوئیں۔ بہرحال یہ موضوع ایسا ہے کہ جتنا لکھوں، کم ہے۔

ہم شاید چاہ رہے ہیں کہ کوئی بہتر بین الاقوامی نظام یہاں متعارف کرائیں اور ہم بھی باقی دنیا کے ساتھ چلیں۔ جیسا کہ کالجز اور جامعات میں سمسٹر سسٹم اور امتحانی نظام میں سی جی پی اے کو متعارف کرانا۔

اب سکولوں کی باری ہے اور یہاں پہلے پہل امتحانی نظام بدلا جا رہا ہے۔


لیکن کیا یہ نظام محض طلبہ کو فیل "قرار"/ "مشہور" ہونے سے ہی روک پائے گا یا معیار بھی بہتر ہو گا؟

پہلے تو گریڈز ہی بہت (دس) کر دیے گئے ہیں کہ جن کے حساب سے چلنا مشکل ہو سکتا ہے۔

جہاں تک آئی بی بی سی نے یہ کہا ہے کہ تین مراحل میں تبدیلیاں لائیں گے تاکہ اساتذہ، طلبہ اور تعلیمی ادارے اس حوالے سے تیاری کر سکیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہمیشہ کی طرح اس معاملے میں بھی ہوم ورک نہیں کیا گیا۔ کوئی بھی نظام لاگو کرنے سے پہلے تربیت دی جانی چاہیے۔ دوسرے نمبر پہ پہلے ہوم اگزامز میں اس کی پریکٹس کی جائے۔ اور تیسرے نمبر پہ اسے ایکسٹرنل اگزامز میں لاگو کیا جائے۔ لیکن ایسا نہیں کیا جا رہا۔ اب کیا ہو گا؟ لگ یہ رہا ہے۔۔۔ (اللہ کرے کہ میرا اندازہ غلط ہو) کہ ہمیشہ کی طرح شروع کے سالوں کے طلبہ پہ تجربے کیے جائیں گے خدانخواستہ۔



اس کے علاوہ یہ جو بات کی گئی ہے کہ کارکردگی کے حوالے سے فیڈ بیک کا خانہ بھی ہو گا تو یہ فیڈ بیک کون دے گا؟ ظاہر ہے کہ ایکسٹرنل ایگزامینر دے گا۔ تو ایکسٹرنل کے سامنے تو ایک "ہارڈ کاپی/پرچہ" ہو گا۔ اور پرچہ کیسا ہو؟ اس کا دارومدار بہت سی چیزوں پہ ہوتا ہے۔ ابھی میری بیٹی کی سہیلی جو بہت ذہین اور محنتی ہے، اس وجہ سے اپنے گریڈز کم کر گئی کہ امتحانی مرکز میں بہت شور تھا۔ بدنظمی تھی اور پرچے پہ توجہ مرکوز کرنا اور ذہن کو مجتمع کرنا مشکل ترین ہو جاتا تھا۔ جہاں بیٹھی تھی، پنکھا خراب تھا۔ شام کو روشنی کا بے حد مسئلہ تھا۔ بیمار بلب تھے۔ نتیجتاً اس کے چند پرچے خراب ہو گئے۔ تو فیڈ بیک کون دے گا؟ ایکسٹرنلز کا جو حال ہے، اس پہ پورا ایک مضمون لکھا جا سکتا ہے۔

نیز گریڈز پہلے بھی لکھے جاتے تھے لیکن سی جی پی اے اب نیا نظام ہو گا۔

سال میں دو امتحانات بھی ایک تجربہ ہے۔ طالب علم اگلی جماعت پڑھے گا یا پچھلی جماعت کا دوسرا امتحان دے گا! لگتا یہ ہے کہ اگر وہ سال میں دو امتحانات کا قصد کرتا ہے تو اس کی اگلی جماعت کی پڑھائی صحیح طور پہ نہیں ہو پائے گی۔ یہ امتحانات کی کشمکش اس کا کم از کم ایک سال ضائع کرائیے گی خدانخواستہ۔ دوسری طرف بائے پارٹس امتحان ایک آسانی بھی لگ رہی ہے۔ خاص طور پہ درمیانے درجے کے طلبہ کے لیے۔

اور یہ کہنا کہ پہلے طلبہ نمبروں کی دوڑ میں شامل ہو جاتے تھے اور قابلیت بڑھانے پہ زور نہیں تھا تو اب اس نظام نے ایسا کیا بدلاؤ لانا ہے کہ جس سے "قابلیت" بڑھے گی؟ پرچے وہی ہیں اور ان میں پہلے جب مارکنگ ہوتی تھی تو جو مارکس دیے جاتے تھے، سب پرچوں کے مارکس جمع کر دیے جاتے تھے اور بچہ کسی ڈویژن میں پاس ہو جاتا تھا یا پھر فیل ہو جاتا تھا۔ اب مارکنگ کرنے کے بعد ان نمبروں کی بنیاد پہ جی پی اے اور گریڈز دینا کیا قابلیت بڑھائے گا؟

یہ سمجھ نہیں آتی۔


یہ کہا گیا کہ پہلے امتحانی نظام بدلا جائے گا اور باقی طریقہ کار خودبخود اس کے مطابق ڈھل جائے گا۔

یہ مجھے درست نہیں لگتا۔ استاد اسی طریقے سے پڑھا رہا ہے۔ طالب علم اسی طریقے سے پڑھ رہا ہے۔ تدریسی نظام ہنوز وہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں کچھ بدلاؤ نہیں۔ اور طالب علم پرچے میں بھی وہی کچھ لکھ رہا ہے جو پہلے لکھ رہا تھا۔ کارکردگی وہی ہے۔ چیک کرنے والے وہی ہیں اور ان کے طریقے بھی وہی ہیں۔ صرف اور صرف مارکس دینے کے بعد کا طریقہ بدلا جا رہا ہے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ یہ نظام غلط ہے۔ یا اس کا نقصان ہو گا۔ لیکن محض یہی کرنے سے کیا تبدیلی آئے گی؟ قابلیت ایسے کیسے بڑھے گی؟ پڑھائی کا طریقہ کار کیسے بدل سکے گا؟


پھر یہ کہنا کہ کانسیپچوئیل نوعیت کے سوال شامل کیے جائیں گے۔ استغفرُللہ! پہلے استاد کو خود تو کانسیپٹس سمجھ آ جائیں، اور یہ سمجھ آ جائے کہ سمجھانا کیسے ہے، تب ہی وہ بچوں کے کانسیپٹس درست کرا سکے گا۔



"ڈاکٹر غلام علی ملاح کہتے ہیں کہ بتدریج امتحانات میں پرچوں میں کانسیپچوئیل نوعیت کے سوال شامل کیے جائیں گے اور ’رٹے‘ کے نظام کو ختم کیا جائے۔ اسی طریقے سے یہ نظام نیچے تک سکولوں اور کالجوں کے پڑھانے کے طریقوں میں تبدیلی کا باعث بنے گا۔"

انتہائی مشکل ترین۔۔۔ دیوانے کے خواب۔

لکھنے کو اتنا کچھ ہے کہ قلم رکتا نہیں۔

ابھی چند دن پہلے کسی سے بات ہو رہی تھی کہ ہمارا نظامِ تعلیم بہت تیزی کے ساتھ زوال پزیر ہے۔ اور اس کیفیت میں اگلے پچاس برسوں میں خدانخواستہ کچھ اچھی امید نظر نہیں آتی۔ ہر روز نیا تجربہ ہوتا ہے۔ ہر شعبہ تجربات کی نظر ہو جاتا ہے۔
بہت ہی خوب تجزیہ کیا جزاک اللہ
 

عثمان

محفلین
نیا نظام اس لحاظ سے بہتر محسوس ہوتا ہے کہ اس میں فیل کا خانہ مکمل ختم کر دیا جائے گا۔ اور گریڈنگ سسٹم میں فیل کی جگہ گریڈ "یو" لکھا ہو گا۔ جس کا مطلب ہو گا۔ غیر اطمینان بخش / غیر تسلی بخش کارکردگی۔ طلبہ کے لیے "فیل" کا لفظ جو قیامت ڈھاتا تھا، تو شاید قیامت کی شدت میں کچھ کمی ہو جائے۔ نفسیاتی اثر تو ہوتا ہی ہے۔ نیز معاشرے میں لوگوں کی اکثریت گریڈ "یو" کی حقیقت سے ناواقف ہو گی تو پردہ پوشی بھی ہو جائے گی۔ بعد میں سپلیاں دیں گے تو کسی کو کیا پتہ چلے گا۔

پاسنگ مارکس بھی تینتیس سے بڑھا کے چالیس کر دیے گئے ہیں۔ جو معیار حاصل کرنے کی اچھی کوشش ہے۔

یہ بھی اچھی بات ہے کہ شروع کے امتحانات میں نمبرز اور گریڈز دونوں درج ہوں گے اور بتدریج نمبرز ختم کر دیے جائیں گے اور گریڈز ہی رہ جائیں گے۔ اس طرح نئے نظام کو سمجھنے اور لاگو کرنے میں آسانی ہو گی۔

پاکستان میں نمبروں کی دوڑ میں اضافے نے طلبہ پہ کافی برے اثرات مرتب کیے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم بس ڈویژن کو دیکھا کرتے تھے۔ اور فرسٹ ڈویژن کو بہت ہی زیادہ اہمیت حاصل تھی لیکن سیکنڈ ڈویژن لینے والے بھی "معزز" شمار ہوتے تھے۔ لیکن پھر نمبروں کی دوڑ ایسی شروع ہوئی کہ بچے نفسیاتی مریض بننے لگے۔ والدین بھی لاٹھی لیے بچوں کو پڑھنے اور نمبرز لانے پہ مجبور کرنے لگے۔ بچوں کا بچپن چھین لیا۔ علم حاصل کرنے کے خوب صورت سفر کو بدصورتی میں بدل دیا۔ اکثر اداروں میں رٹا سسٹم ہی لاگو کیا گیا۔ امتحانی سسٹم بھی "گٹھ" ناپنے والا ہی ہے بس۔ نہ پڑھنے پڑھانے کا نظام بدلا نہ امتحانی نظام میں کوئی خاص مثبت پیش رفت ہوئی۔ سینٹر مارکنگ سے کچھ اچھی امیدیں وابستہ تھیں جو دیوانے کا خواب ثابت ہوئیں۔ بہرحال یہ موضوع ایسا ہے کہ جتنا لکھوں، کم ہے۔

ہم شاید چاہ رہے ہیں کہ کوئی بہتر بین الاقوامی نظام یہاں متعارف کرائیں اور ہم بھی باقی دنیا کے ساتھ چلیں۔ جیسا کہ کالجز اور جامعات میں سمسٹر سسٹم اور امتحانی نظام میں سی جی پی اے کو متعارف کرانا۔

اب سکولوں کی باری ہے اور یہاں پہلے پہل امتحانی نظام بدلا جا رہا ہے۔


لیکن کیا یہ نظام محض طلبہ کو فیل "قرار"/ "مشہور" ہونے سے ہی روک پائے گا یا معیار بھی بہتر ہو گا؟

پہلے تو گریڈز ہی بہت (دس) کر دیے گئے ہیں کہ جن کے حساب سے چلنا مشکل ہو سکتا ہے۔

جہاں تک آئی بی بی سی نے یہ کہا ہے کہ تین مراحل میں تبدیلیاں لائیں گے تاکہ اساتذہ، طلبہ اور تعلیمی ادارے اس حوالے سے تیاری کر سکیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہمیشہ کی طرح اس معاملے میں بھی ہوم ورک نہیں کیا گیا۔ کوئی بھی نظام لاگو کرنے سے پہلے تربیت دی جانی چاہیے۔ دوسرے نمبر پہ پہلے ہوم اگزامز میں اس کی پریکٹس کی جائے۔ اور تیسرے نمبر پہ اسے ایکسٹرنل اگزامز میں لاگو کیا جائے۔ لیکن ایسا نہیں کیا جا رہا۔ اب کیا ہو گا؟ لگ یہ رہا ہے۔۔۔ (اللہ کرے کہ میرا اندازہ غلط ہو) کہ ہمیشہ کی طرح شروع کے سالوں کے طلبہ پہ تجربے کیے جائیں گے خدانخواستہ۔



اس کے علاوہ یہ جو بات کی گئی ہے کہ کارکردگی کے حوالے سے فیڈ بیک کا خانہ بھی ہو گا تو یہ فیڈ بیک کون دے گا؟ ظاہر ہے کہ ایکسٹرنل ایگزامینر دے گا۔ تو ایکسٹرنل کے سامنے تو ایک "ہارڈ کاپی/پرچہ" ہو گا۔ اور پرچہ کیسا ہو؟ اس کا دارومدار بہت سی چیزوں پہ ہوتا ہے۔ ابھی میری بیٹی کی سہیلی جو بہت ذہین اور محنتی ہے، اس وجہ سے اپنے گریڈز کم کر گئی کہ امتحانی مرکز میں بہت شور تھا۔ بدنظمی تھی اور پرچے پہ توجہ مرکوز کرنا اور ذہن کو مجتمع کرنا مشکل ترین ہو جاتا تھا۔ جہاں بیٹھی تھی، پنکھا خراب تھا۔ شام کو روشنی کا بے حد مسئلہ تھا۔ بیمار بلب تھے۔ نتیجتاً اس کے چند پرچے خراب ہو گئے۔ تو فیڈ بیک کون دے گا؟ ایکسٹرنلز کا جو حال ہے، اس پہ پورا ایک مضمون لکھا جا سکتا ہے۔

نیز گریڈز پہلے بھی لکھے جاتے تھے لیکن سی جی پی اے اب نیا نظام ہو گا۔

سال میں دو امتحانات بھی ایک تجربہ ہے۔ طالب علم اگلی جماعت پڑھے گا یا پچھلی جماعت کا دوسرا امتحان دے گا! لگتا یہ ہے کہ اگر وہ سال میں دو امتحانات کا قصد کرتا ہے تو اس کی اگلی جماعت کی پڑھائی صحیح طور پہ نہیں ہو پائے گی۔ یہ امتحانات کی کشمکش اس کا کم از کم ایک سال ضائع کرائیے گی خدانخواستہ۔ دوسری طرف بائے پارٹس امتحان ایک آسانی بھی لگ رہی ہے۔ خاص طور پہ درمیانے درجے کے طلبہ کے لیے۔

اور یہ کہنا کہ پہلے طلبہ نمبروں کی دوڑ میں شامل ہو جاتے تھے اور قابلیت بڑھانے پہ زور نہیں تھا تو اب اس نظام نے ایسا کیا بدلاؤ لانا ہے کہ جس سے "قابلیت" بڑھے گی؟ پرچے وہی ہیں اور ان میں پہلے جب مارکنگ ہوتی تھی تو جو مارکس دیے جاتے تھے، سب پرچوں کے مارکس جمع کر دیے جاتے تھے اور بچہ کسی ڈویژن میں پاس ہو جاتا تھا یا پھر فیل ہو جاتا تھا۔ اب مارکنگ کرنے کے بعد ان نمبروں کی بنیاد پہ جی پی اے اور گریڈز دینا کیا قابلیت بڑھائے گا؟

یہ سمجھ نہیں آتی۔


یہ کہا گیا کہ پہلے امتحانی نظام بدلا جائے گا اور باقی طریقہ کار خودبخود اس کے مطابق ڈھل جائے گا۔

یہ مجھے درست نہیں لگتا۔ استاد اسی طریقے سے پڑھا رہا ہے۔ طالب علم اسی طریقے سے پڑھ رہا ہے۔ تدریسی نظام ہنوز وہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں کچھ بدلاؤ نہیں۔ اور طالب علم پرچے میں بھی وہی کچھ لکھ رہا ہے جو پہلے لکھ رہا تھا۔ کارکردگی وہی ہے۔ چیک کرنے والے وہی ہیں اور ان کے طریقے بھی وہی ہیں۔ صرف اور صرف مارکس دینے کے بعد کا طریقہ بدلا جا رہا ہے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ یہ نظام غلط ہے۔ یا اس کا نقصان ہو گا۔ لیکن محض یہی کرنے سے کیا تبدیلی آئے گی؟ قابلیت ایسے کیسے بڑھے گی؟ پڑھائی کا طریقہ کار کیسے بدل سکے گا؟


پھر یہ کہنا کہ کانسیپچوئیل نوعیت کے سوال شامل کیے جائیں گے۔ استغفرُللہ! پہلے استاد کو خود تو کانسیپٹس سمجھ آ جائیں، اور یہ سمجھ آ جائے کہ سمجھانا کیسے ہے، تب ہی وہ بچوں کے کانسیپٹس درست کرا سکے گا۔



"ڈاکٹر غلام علی ملاح کہتے ہیں کہ بتدریج امتحانات میں پرچوں میں کانسیپچوئیل نوعیت کے سوال شامل کیے جائیں گے اور ’رٹے‘ کے نظام کو ختم کیا جائے۔ اسی طریقے سے یہ نظام نیچے تک سکولوں اور کالجوں کے پڑھانے کے طریقوں میں تبدیلی کا باعث بنے گا۔"

انتہائی مشکل ترین۔۔۔ دیوانے کے خواب۔

لکھنے کو اتنا کچھ ہے کہ قلم رکتا نہیں۔

ابھی چند دن پہلے کسی سے بات ہو رہی تھی کہ ہمارا نظامِ تعلیم بہت تیزی کے ساتھ زوال پزیر ہے۔ اور اس کیفیت میں اگلے پچاس برسوں میں خدانخواستہ کچھ اچھی امید نظر نہیں آتی۔ ہر روز نیا تجربہ ہوتا ہے۔ ہر شعبہ تجربات کی نظر ہو جاتا ہے۔
عمدہ
اکثر طلبا امتحان اور امتحانی ڈھانچے کو سامنے رکھ کر ہی کورس کی تیاری کرتے ہیں۔ لہٰذا امتحانی طریقہ کار میں فرق آنے سے ان کے طرز تعلیم میں بھی فرق تو آنا چاہیے۔
 

جاسمن

لائبریرین
عمدہ
اکثر طلبا امتحان اور امتحانی ڈھانچے کو سامنے رکھ کر ہی کورس کی تیاری کرتے ہیں۔ لہٰذا امتحانی طریقہ کار میں فرق آنے سے ان کے طرز تعلیم میں بھی فرق تو آنا چاہیے۔
آنا تو چاہیے لیکن آ نہیں رہا۔ اب یہی دیکھیے کہ ایم سی کیوز کے لیے بچے بجائے پورا چیپٹر توجہ سے سمجھ کے پڑھیں، گائیڈ میں سے رٹے لگاتے ہیں۔
جب تک پڑھنے پڑھانے کے طریقے اور پڑھانے والے اپنے انداز نہیں بدلیں گے، امتحانات کا پورا نظام نہیں بدلے گا، نمبروں کے ، رزلٹ کارڈ کے بدلاؤ سے کچھ نہیں ہونے والا۔
 

جاسمن

لائبریرین
جامعہ اسلامیہ میں یہی سی جی پی اے کا نظام ہے
سمسٹر سسٹم ہے۔ اساتذہ پی ایچ ڈی، ایم فل ہیں۔ ہر طرح کی سہولیات ہیں۔
لیکن حالات بے حد خراب ہیں۔ کوالٹی نہیں کوانٹٹی پہ دھیان ہے۔ طلبہ کی تعداد بڑھائے جاؤ بس۔ کوئی میرٹ نہیں۔ سیلیکٹو سٹڈی کراؤ۔ اس میں سے بھی کچھ ٹاپکس چھوڑ دو۔ چند ٹاپکس پہ مشتمل پرچہ بناؤ۔ ریوڑیوں کے حساب سے مارکس دو اور چار سی جی پی اے بناؤ۔ واہ بھئی واہ!!
 

علی وقار

محفلین
ایم سی کیوز کے لیے بچے بجائے پورا چیپٹر توجہ سے سمجھ کے پڑھیں، گائیڈ میں سے رٹے لگاتے ہیں۔
ایم سی کیوز نہیں تھے تو نمبرز دینے کا نظام تب بھی مشکوک تھا۔ ایم سی کیوز کے متعلق یہ سب پڑھ کر دل مزید اُداس ہو گیا۔
پڑھانے والے اپنے انداز نہیں بدلیں گے، امتحانات کا پورا نظام نہیں بدلے گا
انداز کیسے بدل سکتے ہیں؟ اس نظام کا ممکنہ متبادل کیا ہے؟
 

جاسمن

لائبریرین
ایم سی کیوز نہیں تھے تو نمبرز دینے کا نظام تب بھی مشکوک تھا۔ ایم سی کیوز کے متعلق یہ سب پڑھ کر دل مزید اُداس ہو گیا۔

انداز کیسے بدل سکتے ہیں؟ اس نظام کا ممکنہ متبادل کیا ہے؟
علمی وقار! نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے تک مکمل بدلاؤ لانے کی شدید ترین ضرورت ہے۔ یہ ایسے الجھے دھاگے ہیں کہ آپ سرا پکڑنے کے چکر میں عمر گنوا دیں تو سرا نہ ملے۔ ہماری ترجیحات میں تعلیم سرے سے ہے ہی نہیں۔ ہم ، وہی لفظ استعمال کرنے کے علاوہ مجھے کوئی لفظ فی الحال مل نہیں رہا۔ ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں بناتے ہیں۔ دو تین سال بعد پھر کوئی نئی چیز لے آتے ہیں۔ کوئی سیکرٹری باہر کے ملک جاتا ہے اور متاثر ترین ہو کر آتا ہے اور آتے ہی جولائی کے مہینے میں اے سی والی گاڑی سے اتر کر اے سی والے دفتر میں بیٹھ کے گھنٹہ بجا کے خوب گرم چائے لانے کا حکم صادر کرتا ہے۔ فوری ایک میٹنگ، میٹنگ روم میں ارینج کی جاتی ہے کہ جہاں خوب جدید ترین ساؤنڈ سسٹم، جدید ترین ٹھنڈا کرنے کا نظام اور جدید ترین کھانے پینے کا نظام ہے۔ "اپنے اداروں میں جاپان کی طرز کا میاواکی جنگل اگائیں۔ ایسے کریں، ایسے کریں۔" فلاں فلاں نے سوال اٹھائے۔ سیکرٹری نے فوراً جواب دے کر انھیں خاموش کرا دیا۔
آپ تجسس کریں گے کہ جواب کیا ہو سکتا ہے۔
بھوک میں روٹی نہیں ملتی تو ڈبل روٹی کھا لیں۔
بس اس طرح کے جواب ہوتے ہیں۔
اور ہاں جولائی میں بچوں کو اداروں میں بلا کے یہ کام ان سے کروائیں۔ دیکھیں ایسے ہی تو تبدیلی آئے گی۔ ہمارے بچے جنگل اگائیں گے۔ کل کو یہ سب جنگل مل کے فضائیں بدلیں گے۔ ایسے ہو جائے گا۔ ویسے ہو جائے گا۔
واہ بھئی واہ! چاروں اور تالیاں بج رہی ہیں۔ میز کھٹکھٹائے جا رہے ہیں۔ نیچے سے نیچے تک ہدایت نامے جاری ہوئے۔ ای میلز بھیجی گئیں۔ جب اداروں کے سربراہوں نے زمینی حقائق کی بات کی تو آئیں بائیں شائیں۔
لیں جی آگ گئے جنگل۔
یہ بس ایک مثال ہے۔ باقی باتوں کا اندازہ خود لگا لیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
لاہور سے شکایت نہیں۔ لاہور ہمارے دل میں بستا ہے۔ لیکن۔ جھوٹے علاقوں ، جھوٹے علاقوں کے جھوٹے اداروں اور وہاں موجود لوگوں نے آخر کیا قصور کیا ہے؟
پہلے جب ڈاک کا نظام تھا تو تب بھی ایسا ہوتا تھا اور اب برقی ڈاک کا نظام ہے تو تب بھی ایسا ہی ہے۔ کوئی ڈاک کہ جس میں کسی اچھے سے کورس، تربیت، مزید آگے پڑھنے کے مواقع، کوئی وظیفہ، باہر کے ملک میں کسی تربیت/کورس/ڈگری کے لیے سہولت۔۔۔۔ کچھ بھی ہو تو میں قسم کھا کے کہتی ہوں کہ ایسی سب ڈاک یا تو آخری تاریخ سے دو تین دن پہلے آتی ہے یا گزرنے کے بعد آتی ہے۔ ابھی پچھلے کچھ عرصے میں لمز میں دو ٹریننگز تھیں جن کے بارے میں برقی ڈاک کئی دن بعد موصول ہوئی۔
کہاں تک سنیں گے، کہاں تک سنائیں؟
ہزاروں ہیں شکوے، کیا کیا بتائیں؟
 
آخری تدوین:
Top