سید ذیشان
محفلین
ڈی آئی خان جیل پر حملہ، طالبان 243 قیدی چھڑا لے گئے
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں سکیورٹی فورسز نے سینٹرل جیل پر حملہ کرنے والے شدت پسندوں کے خلاف کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی کارروائی کے بعد جیل کا کنٹرول دوبارہ سنبھال لیا ہے تاہم حکام کے مطابق حملہ آور نے حملے میں 243 قیدیوں کو رہا کروا کر لے گئے جن میں سے 14 کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق اس حملے میں چھ اہلکاروں سمیت بارہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور 13 زخمی ہوئے ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کے کمشنر مشتاق جدون نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ’شدت پسندوں کے حملوں کے باعث کُل 243 قیدی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تاہم سکیورٹی فورسز نے سرچ آپریشن کے دوران چودہ قیدیوں کو دوبارہ حراست میں لے لیا ہے۔‘
کمشنر مشتاق جدون نے بتایا کہ حملے کے باعث جیل سے فرار ہونے والوں قیدیوں میں سے تیس قیدی انتہائی خطرناک قیدی تھے۔ انہوں نے کہا ان تیس قیدیوں میں سے کوئی بھی قیدی دوبارہ گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے۔
دریں اثناء کالعدم شدت پسند تنظم تحریک طالبان پاکستان نے سینٹرل جیل پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ حملے میں دو سو کے قریب ساتھیوں کو رہا کرا لیا ہے
۔
اس سے قبل سرکاری میڈیا پی ٹی وی کے مطابق ڈی آئی خان کے سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے بتایا کہ جیل میں کُل 483 قیدی تھے جن میں سے 243 قیدی فرار ہو گئے ہیں۔
اس حملے کے بعد اور جاری سرچ آپریشن کے باعث حکام نے ڈی آئی خان اور ٹانک میں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ سرچ آپریشن کے دوران درابن روڈ سے جیل سے فرار ہونے والے چھ قیدیوں کو دوبارہ حراست میں لے لیا گیا ہے۔
کمشنر مشتاق جدون کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے لاؤڈ سپیکرز پر اپنے ساتھیوں کے نام پکارے۔ مقامی افراد کے مطابق طالبان لاؤڈ سپیکرز پر ’اللہ اکبر‘ اور ’طالبان زندہ باد‘ کے نعرے لگاتے آئے تھے۔
صوبے کے آئی جی جیل خانہ جات خالد عباس نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا جیل میں چالیس انتہائی خطرناک مجرم بھی قید تھے۔
وزیرستان ایجنسی سے متصل ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی سینٹرل جیل میں شدت پسند بھی قید ہیں۔
شدت پسندوں نے پیر کی رات سینٹرل جیل پر راکٹوں اور خودکار ہتھیاروں سے حملہ کیا اور سکیورٹی فورسز کی شدت پسندوں کے خلاف کارروائی تقریباً تین سے چار گھنٹے تک جاری رہی جس میں پاکستان فوج کے اہلکاروں بھی حصہ لیا۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے ڈی آئی خان سینٹرل جیل پر حملے کو انٹیلیجنس اور دیگر متعلقہ محکموں کی ناکامی قرار دیا۔ انہوں نے اس حملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کے حملے کے نتیجے میں جیل میں بجلی کے نظام کو نقصان پہنچا ہے اور بجلی نہ ہونے کی وجہ سے آپریشن میں مشکلات کا سامنا ہے۔
صوبے کے آئی جی جیل خانہ جات خالد عباس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہمارے علم میں نہیں کہ جیل میں کوئی ایسا ہائی پروفائل شدت پسند قیدی موجود ہے جس کے لیے اتنا بڑا حملہ کیا گیا‘۔
خالد عباس کے مطابق پیر کی رات کو شدت پسندوں کے حملے کے دس منٹ تک ان کا جیل حکام سے رابط رہا لیکن اس کے بعد سے تمام رابطے منقطع ہو گئے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ صوبے کی تیسری بڑی جیل ہے اور یہ جیل عام قیدیوں کے لیے بنائی گئی تھی نہ کہ خطرناک قیدیوں کے لیے۔
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ حملہ آوروں نے جیل پر تین سمت سے حملہ کیا اور جیل سے کوئی دو سو گز کے فاصلے پر سرکلر روڈ پر پہلے شدید فائرنگ کی۔ سرکلر روڈ سے جیل کی جانب جانے والے سڑک پر شدت پسندوں کا مکمل قبضہ رہا جبکہ جیل کے قریب واقع ایک مکان پر بھی شدت پسند فائرنگ کرتے رہے ہیں۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ حملہ آور کارروائی کے بعد شہر کے مغرب میں درابن روڈ سے فرار ہو گئے ہیں۔ فرار ہوتے وقت بھی حملہ آور مختلف مقامات پر فائرنگ کرتے ہوئے گئے ہیں۔
جیل خانہ جات کے ایک اعلیٰ افسر نے بی بی سی کو نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ’پیر کو اسلام آباد میں سیکریٹری داخلہ کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں جیل حکام نے ہائی سکیورٹی جیلیں بنانے کا مطالبہ کیا کیونکہ ان کے بقول پہلے سے موجود جیلیں عام قیدیوں کے لیے ہیں اور جیلوں کے عملے کی تربیت بھی اس انداز میں نہیں ہوئی کہ وہ شدت پسندوں کا مقابلہ کر سکیں۔‘
گزشتہ سال اپریل میں خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کی سینٹرل جیل پر طالبان نے حملہ کر کے تین سو چوراسی قیدیوں کو رہا کروا لیاتھا، فرار ہونے والے قیدیوں میں زیادہ تر طالبان شدت پسند تھے۔
پاکستان میں 89 جیلیں ہیں جن میں سے 65 جیلوں کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ حساس قرار دی جانے والی جیلیں صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں واقع ہیں۔
گزشتہ سال شدت پسندوں کی جانب سے ممکنہ حملوں سے متعلق کلِکبی بی سی کو موصول ہونے والی اس رپورٹکے مطابق کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد نے خودکش حملوں، بم دھماکوں اور شدت پسندی کے مختلف مقدمات میں گرفتار ہونے اپنے ساتھیوں کی رہائی کے لیے جیلوں پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی۔
ان اطلاعات کے بعد پاکستان فوج نے جیلوں پر شدت پسندوں کے ممکنہ حملوں کو روکنے کے لیے جیل کے عملے کو کمانڈو تربیت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
’شدت پسندوں کو ڈی آئی خان میں بھی مدد حاصل ہوگی‘
ربط
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں سکیورٹی فورسز نے سینٹرل جیل پر حملہ کرنے والے شدت پسندوں کے خلاف کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی کارروائی کے بعد جیل کا کنٹرول دوبارہ سنبھال لیا ہے تاہم حکام کے مطابق حملہ آور نے حملے میں 243 قیدیوں کو رہا کروا کر لے گئے جن میں سے 14 کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق اس حملے میں چھ اہلکاروں سمیت بارہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور 13 زخمی ہوئے ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کے کمشنر مشتاق جدون نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ’شدت پسندوں کے حملوں کے باعث کُل 243 قیدی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تاہم سکیورٹی فورسز نے سرچ آپریشن کے دوران چودہ قیدیوں کو دوبارہ حراست میں لے لیا ہے۔‘
کمشنر مشتاق جدون نے بتایا کہ حملے کے باعث جیل سے فرار ہونے والوں قیدیوں میں سے تیس قیدی انتہائی خطرناک قیدی تھے۔ انہوں نے کہا ان تیس قیدیوں میں سے کوئی بھی قیدی دوبارہ گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے۔
دریں اثناء کالعدم شدت پسند تنظم تحریک طالبان پاکستان نے سینٹرل جیل پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ حملے میں دو سو کے قریب ساتھیوں کو رہا کرا لیا ہے
۔
اس سے قبل سرکاری میڈیا پی ٹی وی کے مطابق ڈی آئی خان کے سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے بتایا کہ جیل میں کُل 483 قیدی تھے جن میں سے 243 قیدی فرار ہو گئے ہیں۔
اس حملے کے بعد اور جاری سرچ آپریشن کے باعث حکام نے ڈی آئی خان اور ٹانک میں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ سرچ آپریشن کے دوران درابن روڈ سے جیل سے فرار ہونے والے چھ قیدیوں کو دوبارہ حراست میں لے لیا گیا ہے۔
کمشنر مشتاق جدون کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے لاؤڈ سپیکرز پر اپنے ساتھیوں کے نام پکارے۔ مقامی افراد کے مطابق طالبان لاؤڈ سپیکرز پر ’اللہ اکبر‘ اور ’طالبان زندہ باد‘ کے نعرے لگاتے آئے تھے۔
صوبے کے آئی جی جیل خانہ جات خالد عباس نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا جیل میں چالیس انتہائی خطرناک مجرم بھی قید تھے۔
وزیرستان ایجنسی سے متصل ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی سینٹرل جیل میں شدت پسند بھی قید ہیں۔
شدت پسندوں نے پیر کی رات سینٹرل جیل پر راکٹوں اور خودکار ہتھیاروں سے حملہ کیا اور سکیورٹی فورسز کی شدت پسندوں کے خلاف کارروائی تقریباً تین سے چار گھنٹے تک جاری رہی جس میں پاکستان فوج کے اہلکاروں بھی حصہ لیا۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے ڈی آئی خان سینٹرل جیل پر حملے کو انٹیلیجنس اور دیگر متعلقہ محکموں کی ناکامی قرار دیا۔ انہوں نے اس حملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کے حملے کے نتیجے میں جیل میں بجلی کے نظام کو نقصان پہنچا ہے اور بجلی نہ ہونے کی وجہ سے آپریشن میں مشکلات کا سامنا ہے۔
صوبے کے آئی جی جیل خانہ جات خالد عباس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہمارے علم میں نہیں کہ جیل میں کوئی ایسا ہائی پروفائل شدت پسند قیدی موجود ہے جس کے لیے اتنا بڑا حملہ کیا گیا‘۔
خالد عباس کے مطابق پیر کی رات کو شدت پسندوں کے حملے کے دس منٹ تک ان کا جیل حکام سے رابط رہا لیکن اس کے بعد سے تمام رابطے منقطع ہو گئے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ صوبے کی تیسری بڑی جیل ہے اور یہ جیل عام قیدیوں کے لیے بنائی گئی تھی نہ کہ خطرناک قیدیوں کے لیے۔
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ حملہ آوروں نے جیل پر تین سمت سے حملہ کیا اور جیل سے کوئی دو سو گز کے فاصلے پر سرکلر روڈ پر پہلے شدید فائرنگ کی۔ سرکلر روڈ سے جیل کی جانب جانے والے سڑک پر شدت پسندوں کا مکمل قبضہ رہا جبکہ جیل کے قریب واقع ایک مکان پر بھی شدت پسند فائرنگ کرتے رہے ہیں۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ حملہ آور کارروائی کے بعد شہر کے مغرب میں درابن روڈ سے فرار ہو گئے ہیں۔ فرار ہوتے وقت بھی حملہ آور مختلف مقامات پر فائرنگ کرتے ہوئے گئے ہیں۔
جیل خانہ جات کے ایک اعلیٰ افسر نے بی بی سی کو نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ’پیر کو اسلام آباد میں سیکریٹری داخلہ کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں جیل حکام نے ہائی سکیورٹی جیلیں بنانے کا مطالبہ کیا کیونکہ ان کے بقول پہلے سے موجود جیلیں عام قیدیوں کے لیے ہیں اور جیلوں کے عملے کی تربیت بھی اس انداز میں نہیں ہوئی کہ وہ شدت پسندوں کا مقابلہ کر سکیں۔‘
گزشتہ سال اپریل میں خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کی سینٹرل جیل پر طالبان نے حملہ کر کے تین سو چوراسی قیدیوں کو رہا کروا لیاتھا، فرار ہونے والے قیدیوں میں زیادہ تر طالبان شدت پسند تھے۔
پاکستان میں 89 جیلیں ہیں جن میں سے 65 جیلوں کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ حساس قرار دی جانے والی جیلیں صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں واقع ہیں۔
گزشتہ سال شدت پسندوں کی جانب سے ممکنہ حملوں سے متعلق کلِکبی بی سی کو موصول ہونے والی اس رپورٹکے مطابق کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد نے خودکش حملوں، بم دھماکوں اور شدت پسندی کے مختلف مقدمات میں گرفتار ہونے اپنے ساتھیوں کی رہائی کے لیے جیلوں پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی۔
ان اطلاعات کے بعد پاکستان فوج نے جیلوں پر شدت پسندوں کے ممکنہ حملوں کو روکنے کے لیے جیل کے عملے کو کمانڈو تربیت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
’شدت پسندوں کو ڈی آئی خان میں بھی مدد حاصل ہوگی‘
ربط