سید شہزاد ناصر
محفلین
حنیف محمد، کپتان کاردار کا اہم ہتھیار — فائل فوٹو
یہ اس فیچر کا پہلا حصّہ ہے…
کاردار کا زور :
عبدلحفیظ کاردار، ایک اوسط بیٹس مین تھے اور بسا اوقات بولنگ بھی کرتے تھے-
لیکن یہ حقیقت کہ انہوں نے 1947 میں پاکستان بننے سے پہلے انڈیا کے لئے ٹیسٹ کرکٹ کھیلا تھا اور یہ کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اس کھیل کے شوقین تھے، نومولود ملک کے کرکٹ بورڈ کو انھیں پاکستان کے پہلے ٹیسٹ کرکٹ کپتان بنانے کی وجہ بنی-
فطرتاً برجستہ گو اور تحکم پسند، کاردار، آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک گریجویٹ، ایک ایسے کھلاڑیوں کے گروپ کے لئے مناسب انتخاب تھے جو قابل تو تھے لیکن ایک دوسرے سے مختلف تھے- ان میں سے بہت سے تو مناسب کرکٹ کٹ خریدنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے تھے-
کاردار نے اپنی حیثیت ایک سخت اور تحکم پسند لیکن قابل احترام سکپر کے طور پر مضبوط کی جس نے اپنی قیادت میں پاکستان کو1952-1958 کے دوران، 23 میں سے 8 میچوں میں فتح دلائی-
یہ ایک قابل ذکر ریکارڈ ہے، ایک ایسے وقت میں جب کھلاڑیوں کو انتہائی کم معاوضہ ملتا تھا اور انہیں عموماً اپنے دوستوں اور چاہنے والوں سے کرکٹ کا سامان ادھار لینا پڑتا تھا، یہاں تک کہ جوتے بھی-
کاردار کا اصل ہتھیار ضدی اوپنر، حنیف محمد اور مثالی سوئنگ بولر، فضل محمود تھے- جب انہوں نے پاکستان کی قیادت، وطن سے ہزاروں میل دور، کریبین آئلینڈ (ویسٹ انڈیز ) میں کی- یہ اس وقت تک، پاکستان کا سب سے مشکل دورہ تھا-
یہ دورہ، کاردار کے لئے کافی محنت طلب ثابت ہوا، کیوں کہ پاکستان نے ایک بلکل انجان ماحول میں، مخالف ہجوم کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کیا-
پاکستان وہ سیریز 3-1 سے ہار گیا- لیکن اس کا یہ بھی مطلب تھا کہ کاردار کی قیادت میں، پاکستان نے تمام ٹیسٹ کھیلنے والے فریقین سے ایک ٹیسٹ میچ جیتا ہے، سوائے ساؤتھ افریقہ کے، جو ان دنوں گوروں کے علاوہ کسی کےساتھ نہیں کھیلتے تھے-
تینتیس سال کی عمر میں تھکے ہارے کاردار نے کھیل سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا-
ساٹھ کی دہائی کے آخر میں، کاردار کی دوستی، شعلہ صفت سیاستدان ذولفقار علی بھٹو سے ہو گئی، اور وہ بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کے ممبر بن گئے- 1970 کے انتخابات کے بعد جب پی پی پی اقتدار میں آئی تو انہیں پاکستان کرکٹ بورڈ کا صدر بنا دیا گیا-
کاردار، مشہور صحافی مرحوم خالد حسین کے ساتھ، لاہور میں — فائل فوٹو
ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کرکٹ ڈھیر ہوگئی تھی- چھ کپتانوں کی قیادت میں، ٹیم نے 33 ٹیسٹ کھیلے، لیکن صرف 2 ہی جیت پائی-بھٹو نے خود، کاردار سے کرکٹ بورڈ کا سربراہ بننے اور ٹیم کی ڈگمگاتی قسمت کو سنبھالنے کے لئے کہا-
اپنے سخت ترین طریقہ کار کے لئے مشہور، کاردار نے کرکٹ بورڈ کی سربراہی بلکل اسی طرح کی جیسے انہوں نے اپنی ٹیم کی، کی تھی، یعنی بلکل ایک آمر کی طرح-
وہ ٹیم میں جوان خون لانے کی وجہ بنے- انہی کی زیر نگرانی عمران خان، سرفراز نواز، وسیم راجہ اور میانداد جیسے مستقبل کے روشن ستارے ٹیم کا حصّہ بنے-
حالانکہ انہوں نے 1975 تک تجربہ کار انتخاب عالم کو کپتان بنائے رکھا، 1976 میں انہوں نے سوچا کہ جتنا ٹیم میں ٹیلنٹ ہے اتنے اچھے نتائج ٹیم نہیں دے رہی-چناچہ انہوں نے انتخاب عالم کو ہٹا کر انکی جگہ جارحیت پسند، مشتاق محمد کو کپتان بنا دیا-
مشتاق کے بھائی، لٹل ماسٹر حنیف محمد، کاردار کی قیادت میں کھیل چکے تھے، اور انسے متاثر تھے- کاردار اس بات کا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے اور سمجھ رہے تھے کے مشتاق بھی اپنے بھائی کی طرح انکے فرمانبردار رہیں گے-
لیکن کاردار کو جھٹکا اس وقت لگا، جب مشتاق نےکپتان کی حیثیت سے اپنی پہلی ہی سیریز(نیوزی لینڈ ، 1976) میں کاردار پر براہراست چڑھائی کر دی-
کاردار نے حنیف کو بھی اس معاملے میں گھسیٹا اور انکو کہا کہ اپنے بھائی کو تھوڑی عقل سکھائے، لیکن مشتاق نے ایک نہ سنی-
مشتاق نے اپنے کھلاڑیوں کے معاوضے میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا لیکن کاردار نے مسترد کردیا- انہوں نے مشتاق کو ہٹا کر انتخاب کو واپس کپتان بنا دینے کی دھمکی دی اور انہوں نے پاکستان کے آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے دورے سے پہلے ایسا کر بھی دیا-
انہوں نے مشتاق اور اس کے حمایتیوں عمران خان، آصف اقبال، ماجد خان اور سرفراز نواز کو سلیکٹرز کے ذریعہ ہٹا کر اس لمبے دورے کے لئے بلکل نئی ٹیم منتخب کر لی-
اس سے پہلے کاردار نے حیدرآباد میں نیوزی لینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ میں 11 فرسٹ کلاس کھلاڑیوں کو بلایا اور انکو ڈریسنگ روم میں بیٹھا دیا کہ اگر مشتاق اور اسکی ٹیم معاوضے کے معاملے میں کاردار سے مخالفت کرے تو دوسری ٹیم کو استعمال کیا جا سکے-ٹاس کے وقت، پاکستانی ڈریسنگ روم 25 کھلاڑیوں سے بھرا ہوا تھا-
بھٹو دور کے وزیر قانون، حفیظ پیرزادہ، نے مداخلت کی اور مشتاق کے مطالبوں کو تسلیم کر لیا-کاردار کا حوصلہ ختم ہو گیا اور انہوں نے استعفیٰ دے دیا لیکن بھٹو نے انہیں اپنا کام جاری رکھنے پر اصرار کیا- جب جون 1977 میں ضیاء الحق نے ایک فوجی بغاوت میں بھٹو کا تختہ الٹ دیا تو کاردار کو غیر رسمی طور پر بورڈ کے اعلیٰ عہدے سے ہٹا دیا گیا-انہوں نے 1980 میں پی پی پی کو چھوڑ دیا- وہ ایک ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے جب 1987 میں پی ٹی وی نے انہیں پاکستانی ٹیم کے، پانچ ٹیسٹ میچوں کے انڈیا دورے کے کمینٹری پینل جوائن کرنے کو کہا-جب عمران خان نے، بنگلور میں آخری ٹیسٹ میچ، انڈیا کے خلاف جیتا تو کاردار اپنے جذبات میں قابو نہ رکھ سکے اور لائیو نشریات پر بول پڑے :” ہم نے ہندوؤں کو انکی زمین پر شکست دی ہے- ہم نے ہندوؤں پر فتح حاصل کرلی-”کچھ نے اس بیان کے لئے، کاردار کی انگوری سکاچ کی حد سے زیادہ پسندیدگی کو مورد الزام ٹھرایا، دوسروں نے اسے بڑھتی ہوئی عمر کا تقاضہ کہا (جبکہ اس وقت وہ صرف 62 سال کے تھے)-
اپنے آبائی شہر، لاہور میں 1996 میں، 71 سال کی عمر میں، وہ وفات پا گئے-
کہا جاتا ہے کہ جنہوں نے 1950 میں کاردار کی قیادت میں کھیلا وہ کبھی انکی مخالفت نہ کر پائے ، اور اس کے بعد بھی کئی دہائیوں تک ان سے نظر نہ ملا پائے-