جس ملک میںلوگ عمران خان جیسے لوگوں کو آخری امید سمجھتے ہوں اس کا تو اللہ ہی حافظ ہے، اگر عمران خان کو تھوڑی سے بھی عوامی مقبولیت حاصل ہوتی تو وہ کم از کم ایک سے زیادی سیٹ کے مالک ہوتے، ان کو تو موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی بھی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہوگا، سیٹ جو ایک ہے وہ بھی خود کی اور اس کا بھی بائیکاٹ، مجھے امید کی کرن اگر کوئی دکھائی دیتی ہے تو وہ صرف پاکستان کی نوجوان نسل اور مڈل کلاس کے لوگوں سے جو کہ اس ملک کی تقدیر بدلے گی۔
میں حیران و پریشان ہوں فاروقی صاحب کہ آپ نے اتنی بڑی بات کردی کہ عمران خان کو آخری امید کہنے پر پاکستان کا ہی اللہ حافظ اور اسکی وجہ یہ بتائی کہ کیونکہ تحریک انصاف نے انتخابات میں کم سیٹیں لی ہیں اس لیے عمران خان غیرمقبول ہیں،۔ مجھے یہ بات بالکل سمجھ نہیں آئی؟ کیونکہ عمران خان ہزار درجے زیادہ مقبول ہے موجودہ سیاست دانوں سے لیکن آپ نے اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ تحریک انصاف کی انتخابات میں کارکردگی کیوں خراب ہے؟ پہلی بات تو یہ ہےکہ تحریک انصاف ابھی بھی ایک نئی جماعت ہے، دوسری بات مشرف کے مارشل لاء کے آٹھ سالوں نے اسے بے حد نقصان پہنچایا ہے، تیسری بات یہ ایک حقیت ہے کہ بدقسمتی سے تحریک انصاف کو مقامی طور پر اچھی قیادت نہ مل سکی اور یہ صرف تحریک انصاف کے ساتھ انہونی نہیں ہوئی تمام پارٹیوں کا یہی حال ہے۔
آخری انتخابات میں پیپلز پارٹی اور موجودہ مسلم لیگ کی اچھی کارکردگی کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو دونوں کو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے بنایا ہے اور پھردونوں کو اسٹیبلشمنٹ کا بھرپور تعاون حاصل ہے(یہ دوسری بات ہے جب یہ پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ کو میاؤں کرتی ہیں تو پھر ان کا آپس میں ٹکراؤبھی ہوتا ہے، جو آج کل ہورہا ہے) اورپھر ان کی جڑیں پاکستان کی دیہی علاقوں میں انتہائی مضبوط ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں عام آدمی ووٹ کیسے دیتا ہےیہ بھی سب کو معلوم ہے، وہ یہ نہیں دیکھتا کہ پارٹی کا منشور کیا ہے اورجو امیدوار ہے وہ کیا کہہ رہا ہے اور اس کا کردار کیسا ہے اور اس نے ماضی میںکیا کرتوت کیئے ہیں بالکہ اس کا قبیلہ، خاندان یا گاؤں/علاقے کے طاقتور لوگ جس امیدوارکو ووٹ ڈالتے ہیں وہ بھی آنکھیں بند کر کے اسے ہی ووٹ دیتا ہے۔ اور گاؤں /علاقے کے طاقتور لوگ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی میں سے ہی ایک پارٹی اس لیے چنتے ہیں کہ انہی میں سے ایک کا اقتدار میں آنا پہلے سے طہ شدہ ہوتا ہے جس کے بعد ان پارٹیوںکے مقامی لیڈران خود بھی ترقیاتی وغیرہ فنڈ میں سے کروڑوں روپے بنانے ہیں اور اپنے کارکنوں (گاؤں /علاقے کے طاقتور لوگ) کو بھی حصہ دیتے ہیں۔ جس کے بعد یہ مافیا مضبوط سے مضبوط تر ہوجاتی ہے اور عوام کمزور سے کمزور تر۔
پاکستان کالے انگریزوں کا غلام ہے اور بے شک ان سے آزادی حاصل کرناگوروں سے آزادی کی جنگ سے کہیں زیادہ مشکل ہے کیونکہ کہ گورےحکمران تو پھر کسی نہ کسی اصول وضوابط کےقائل تھے لیکن یہ تو کوئی اصول اور ضابطے کے قائل نہیں ۔ لیکن انشاءآللہ تحریک انصاف اور عمران خان ہماری آزادی کا ہراوّل دستہ ثابت ہوں گے۔